صحافی اب کالی بھیڑیں مزید ساتھ نہیں رکھ سکتےطلعت حسین
صحافی اب بھی معاشی طورپرمستحکم نہیں: ایکسپریس نیوزکے پروگرام ’’لائیو ود طلعت ‘‘ میں گفتگو
معروف ٹی وی اینکر سید طلعت حسین نے کہاہے کہ پاکستان میں صحافت کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں ۔
بولنا اور لکھنا پیشہ نہیں فن ہے لیکن فن کو بہتر سے بہتر کرنے کے اس پر مزیدکام کرنا بہت ضروری ہے ۔ایکسپریس نیوز جوائن کرنے کے بعد اپنے پہلے پروگرام ''لائیو ود طلعت''میں صحافت کے بنیادی اصولوں اورموجودہ دور میں اس کی خامیوں اور اچھائیوں کے موضوع پر گفتگو میں انھوں نے کہاکہ موجودہ دور میں تحقیق سے اجتناب کیا جارہا ہے۔ہمیں 25 سال گزرنے کے باوجود ہر روز کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔
صحافت کا معیار بہتر بنانے کے لiے ہمیں نئے زمانے کے مطابق معاملات کوسمجھنا ہوگا۔ جغرافیہ اور تاریخ کو پڑھے بغیر ہم تجزیہ نہیں کرسکتے۔صحافی حضرات دودھ کے دھلے نہیں ہوتے، ہم کالی بھیڑوں کو اب اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ وہ وقت گیا جب ہم کہاکرتے تھے کہ ہیں تو کالی بھیڑیں لیکن ہمارے ساتھی ہیں۔ اگر ہم نے ان کالی بھیڑوں کا تدارک نہ کیا تو ہمارے پلیٹ فارم کمزور ہوجائیں گے ۔ قلم اور کیمرے پر کھل کر سچ بولنا چاہیے تاکہ قلم اور کیمرے کابھرم قائم رہ سکے۔ ہم صحافت کا این آراوقبول نہیں کرسکتے، اس سے سب کی بے عزتی ہوگی ۔بعض مالکان حکومت کے ساتھ تعلقات بنانے میں لگ جاتے ہیں اور صحافت کی بنیاد پر اہم فیصلے کرتے ہیں۔
انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری نہیں کرتے لیکن ملازمین کی تین تین ماہ کی تنخواہیں روک لیتے ہیں ابھی بھی معاشی طورپر صحافی مستحکم نہیں ہیں۔ ان سے کلرکوں سے بھی براکام لیا جاتا ہے ۔مالک کبھی غریب نہیں ہوتا لیکن صحافی غریب ہوتا ہے ۔کئی کئی سال ایک ہی ادارے سے وابستہ رہنے کے بعد معمولی اضافے کی بدولت ادارہ تبدیل کرلیتے ہیں۔ بعض ادارے پاورپولیٹکس کرتے ہیں ہم نے پاورپولیٹکس نہیں کرنی ۔ انھوں نے کہا کہ جب شیخ رشید پرائیویٹ سیکٹر میں سو گھنٹے کے انٹرویو ریکارڈ کرادے گا تو پھر میڈیا پر عوام کی تنقید جائز ہے ۔
بولنا اور لکھنا پیشہ نہیں فن ہے لیکن فن کو بہتر سے بہتر کرنے کے اس پر مزیدکام کرنا بہت ضروری ہے ۔ایکسپریس نیوز جوائن کرنے کے بعد اپنے پہلے پروگرام ''لائیو ود طلعت''میں صحافت کے بنیادی اصولوں اورموجودہ دور میں اس کی خامیوں اور اچھائیوں کے موضوع پر گفتگو میں انھوں نے کہاکہ موجودہ دور میں تحقیق سے اجتناب کیا جارہا ہے۔ہمیں 25 سال گزرنے کے باوجود ہر روز کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔
صحافت کا معیار بہتر بنانے کے لiے ہمیں نئے زمانے کے مطابق معاملات کوسمجھنا ہوگا۔ جغرافیہ اور تاریخ کو پڑھے بغیر ہم تجزیہ نہیں کرسکتے۔صحافی حضرات دودھ کے دھلے نہیں ہوتے، ہم کالی بھیڑوں کو اب اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ وہ وقت گیا جب ہم کہاکرتے تھے کہ ہیں تو کالی بھیڑیں لیکن ہمارے ساتھی ہیں۔ اگر ہم نے ان کالی بھیڑوں کا تدارک نہ کیا تو ہمارے پلیٹ فارم کمزور ہوجائیں گے ۔ قلم اور کیمرے پر کھل کر سچ بولنا چاہیے تاکہ قلم اور کیمرے کابھرم قائم رہ سکے۔ ہم صحافت کا این آراوقبول نہیں کرسکتے، اس سے سب کی بے عزتی ہوگی ۔بعض مالکان حکومت کے ساتھ تعلقات بنانے میں لگ جاتے ہیں اور صحافت کی بنیاد پر اہم فیصلے کرتے ہیں۔
انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری نہیں کرتے لیکن ملازمین کی تین تین ماہ کی تنخواہیں روک لیتے ہیں ابھی بھی معاشی طورپر صحافی مستحکم نہیں ہیں۔ ان سے کلرکوں سے بھی براکام لیا جاتا ہے ۔مالک کبھی غریب نہیں ہوتا لیکن صحافی غریب ہوتا ہے ۔کئی کئی سال ایک ہی ادارے سے وابستہ رہنے کے بعد معمولی اضافے کی بدولت ادارہ تبدیل کرلیتے ہیں۔ بعض ادارے پاورپولیٹکس کرتے ہیں ہم نے پاورپولیٹکس نہیں کرنی ۔ انھوں نے کہا کہ جب شیخ رشید پرائیویٹ سیکٹر میں سو گھنٹے کے انٹرویو ریکارڈ کرادے گا تو پھر میڈیا پر عوام کی تنقید جائز ہے ۔