بوڑھے رقیب اور عمر رسیدہ محبوبہ
جرم میں ڈھلتے ایک عشق کی انوکھی داستان
لاہور:
عشق میں بہتوں کو جان سے جاتے دیکھا، سنا اور پڑھا، بعض واقعات تاریخ بنے، بعض فوک۔ غلط ہے کہ عمر عشق کو راکھ کردیتا ہے لیکن عشق کی راکھ دراصل وہ بھوبل ہوتی ہے جسے کریدیے تو نیچے ناآسودہ ارمانوں کے سرخ گلاب بہ دستور دہک، مہک رہے ہوتے ہیں۔
ایسی ہی ایک کہانی ملتان کی نواحی آبادی ''بستی ملوک'' میں رقم ہوئی۔ اس داستان کی نقاب کشائی تب ہوئی جب، ایک بوڑہا زمیں دار بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ بستی ملوک کے علاقے چاہ بخشے والا کا 70 سالہ زمین دار محمد رفیق 16 دسمبر 2013 کو اپنے باڑے کے کمرے میں مردہ پایا گیا۔ محمد رفیق کے بھائی مشتاق احمد کا بیان ہے کہ محمد رفیق گزشتہ شام صاف ستھرے کپڑے پہن کر ٹبہ راؤ گڑھ میں گھر سے کھانا کھا کر اپنے جانور دیکھنے کا بتاکر رقبہ چاہ بخشو والا گیا تاہم معمول کے برخلاف اگلے دن لوٹا نہیں، جس پر وہ شام کو پتا کرنے گیا، دیکھا تو مویشی باڑے سے باہر تھے اور کمرہ مقفل۔ اس نے جانور اندر باندھنے کے لیے کمرے کا تالہ توڑا تو اندر یہ ہول ناک منظر تھا کہ رفیق کی خون میں لتھڑی گلا کٹی نعش چارپائی کے قریب پڑی تھی۔ خیر مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرادیا گیا۔
اس اندھے قتل پرکام شروع ہوا تو پولیس کے پاس تفتیش کے لیے کوئی واضح سمت نہیں تھی کیوں کہ نہ تو یہ ڈکیتی تھی اور نہ کسی دشمنی کا شاخ سانہ؛ لیکن ۔۔۔۔ جب تفتیشی افسر سب انسپکٹر غلام مصطفیٰ نے علاقے میں کچھ گن سن لی توکچھ عشق جیسے آثار جھلکنے لگے۔ وہ اور آگے بڑھے تو چلمن کی تیلیوں سے رومانی کرداروں کی کچھ مدھم مدھم شبیہیں دکھائی دینے لگیں۔ مشتاق پہلے تو گریزاں گریزاں سا رہا مگر رفتہ رفتہ اسرار کی دھند چھٹی اور بالآخر ہچکچاتے ہوئے شبہے کا اظہار کرہی دیا؛ اشارہ کچھ یوں تھا کہ رفیق اور دتُو میں ''کچھ تنازع سا'' تھا۔
آگے کی کہانی پولیس (ذہن میں رہے کہ پولیس) یوں بیان کرتی ہے کہ رفیق کے علاقے کی جکھڑ برادری کی منصب مائی کے ساتھ تعلقات تھے جب کہ منصب مائی کا تعلق اپنی برادری کے اللہ دتے کے ساتھ بھی تھا۔ اللہ دتہ بارہا زمیں دار رفیق کو اس تعلق پر تنبیہ کرچکا تھا۔
اللہ دتے سے منصب کی (خاموش) محبت تین دہائیوں سے بھی زیادہ پرانی ہے لیکن دونوں کے درمیاں روایات کی دیوار کھڑی تھی، (سو بہ قول ساحر ''ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کرلو'' کے مصداق) منصب کے والدین نے اس کی شادی تیس سال پہلے اپنی برادری کے نوجوان محمد عبداللہ سے کردی، چندے دل شکستگی میں گزارنے کے بعد اللہ دتے نے بھی بالآخر شادی کر لی۔ برس پر برس، پچیس برس ڈھل گئے اور پھر ہونی یوں ہوئی کہ ایک دن منصب مائی بیوہ ہوگئی۔
(یہاں ایک بار پھر یاد رہے کہ یہ بیان پولیس کا ہے) شوہر کے مرنے کے بعد منصب کا علاقے کی رسم و راہ ستر سالہ رفیق سے بن گئی۔ دونوں اکثر راتوں کو ملتے۔ عشق و مشک چھپائے نہیں چھپتے سو پورا گاؤں مہک اٹھا۔ اُدھر برسوں کے دل زدہ اللہ دتے کواس کی بھنک پڑی تو منصب مائی کے پاس پہنچ گیا، اس کے دل میں بھی محبت کی دبی چنگاری ایک بار پھر آگ بن گئی۔ منصب نے رفیق کا باب فوراً بندکردیا لیکن یہ ترکِ تعلقات رفیق کو منظور نہیں تھا سو وہ اپنی معاشی برتری کے بل پر منصب کو مختلف حیلوں حربوںسے ملاقاتوںپر مجبور کرتا رہا۔
مقامی پولیس کے مطابق تفتیش کے دوران منصب مائی نے اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا ''رفیق مجھے اللہ دتے سے ملنے سے روکتا تھا جب کہ میں اللہ دتہ سے تجدید تعلق پر خوش تھی، جب وہ باز نہ آیا تو ہم نے اسے راہ سے ہٹانے کا فیصلہ کیا''۔ پولیس کے مطابق منصب نے 25 اور 26 کی درمیانی رات رفیق سے ملاقات کی۔ منصوبے کے مطابق رفیق کو چائے میں نشیلی دوا پلائی گئی، جب وہ بے ہوش ہوگیا تو اللہ دتے نے چھری سے اس کا گلا کاٹ دیا۔
پولیس نے دونوں کو گرفتار کرکے آلۂ قتل اور نشہ آور گولیوں کا 'پتا' برآمد کرلیا ہے، چالان عدالت پیش کر دیا گیا ہے، اب دونوں اپنے انجام کے منتظر جیل میں ہیں۔
عشق میں بہتوں کو جان سے جاتے دیکھا، سنا اور پڑھا، بعض واقعات تاریخ بنے، بعض فوک۔ غلط ہے کہ عمر عشق کو راکھ کردیتا ہے لیکن عشق کی راکھ دراصل وہ بھوبل ہوتی ہے جسے کریدیے تو نیچے ناآسودہ ارمانوں کے سرخ گلاب بہ دستور دہک، مہک رہے ہوتے ہیں۔
ایسی ہی ایک کہانی ملتان کی نواحی آبادی ''بستی ملوک'' میں رقم ہوئی۔ اس داستان کی نقاب کشائی تب ہوئی جب، ایک بوڑہا زمیں دار بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ بستی ملوک کے علاقے چاہ بخشے والا کا 70 سالہ زمین دار محمد رفیق 16 دسمبر 2013 کو اپنے باڑے کے کمرے میں مردہ پایا گیا۔ محمد رفیق کے بھائی مشتاق احمد کا بیان ہے کہ محمد رفیق گزشتہ شام صاف ستھرے کپڑے پہن کر ٹبہ راؤ گڑھ میں گھر سے کھانا کھا کر اپنے جانور دیکھنے کا بتاکر رقبہ چاہ بخشو والا گیا تاہم معمول کے برخلاف اگلے دن لوٹا نہیں، جس پر وہ شام کو پتا کرنے گیا، دیکھا تو مویشی باڑے سے باہر تھے اور کمرہ مقفل۔ اس نے جانور اندر باندھنے کے لیے کمرے کا تالہ توڑا تو اندر یہ ہول ناک منظر تھا کہ رفیق کی خون میں لتھڑی گلا کٹی نعش چارپائی کے قریب پڑی تھی۔ خیر مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرادیا گیا۔
اس اندھے قتل پرکام شروع ہوا تو پولیس کے پاس تفتیش کے لیے کوئی واضح سمت نہیں تھی کیوں کہ نہ تو یہ ڈکیتی تھی اور نہ کسی دشمنی کا شاخ سانہ؛ لیکن ۔۔۔۔ جب تفتیشی افسر سب انسپکٹر غلام مصطفیٰ نے علاقے میں کچھ گن سن لی توکچھ عشق جیسے آثار جھلکنے لگے۔ وہ اور آگے بڑھے تو چلمن کی تیلیوں سے رومانی کرداروں کی کچھ مدھم مدھم شبیہیں دکھائی دینے لگیں۔ مشتاق پہلے تو گریزاں گریزاں سا رہا مگر رفتہ رفتہ اسرار کی دھند چھٹی اور بالآخر ہچکچاتے ہوئے شبہے کا اظہار کرہی دیا؛ اشارہ کچھ یوں تھا کہ رفیق اور دتُو میں ''کچھ تنازع سا'' تھا۔
آگے کی کہانی پولیس (ذہن میں رہے کہ پولیس) یوں بیان کرتی ہے کہ رفیق کے علاقے کی جکھڑ برادری کی منصب مائی کے ساتھ تعلقات تھے جب کہ منصب مائی کا تعلق اپنی برادری کے اللہ دتے کے ساتھ بھی تھا۔ اللہ دتہ بارہا زمیں دار رفیق کو اس تعلق پر تنبیہ کرچکا تھا۔
اللہ دتے سے منصب کی (خاموش) محبت تین دہائیوں سے بھی زیادہ پرانی ہے لیکن دونوں کے درمیاں روایات کی دیوار کھڑی تھی، (سو بہ قول ساحر ''ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کرلو'' کے مصداق) منصب کے والدین نے اس کی شادی تیس سال پہلے اپنی برادری کے نوجوان محمد عبداللہ سے کردی، چندے دل شکستگی میں گزارنے کے بعد اللہ دتے نے بھی بالآخر شادی کر لی۔ برس پر برس، پچیس برس ڈھل گئے اور پھر ہونی یوں ہوئی کہ ایک دن منصب مائی بیوہ ہوگئی۔
(یہاں ایک بار پھر یاد رہے کہ یہ بیان پولیس کا ہے) شوہر کے مرنے کے بعد منصب کا علاقے کی رسم و راہ ستر سالہ رفیق سے بن گئی۔ دونوں اکثر راتوں کو ملتے۔ عشق و مشک چھپائے نہیں چھپتے سو پورا گاؤں مہک اٹھا۔ اُدھر برسوں کے دل زدہ اللہ دتے کواس کی بھنک پڑی تو منصب مائی کے پاس پہنچ گیا، اس کے دل میں بھی محبت کی دبی چنگاری ایک بار پھر آگ بن گئی۔ منصب نے رفیق کا باب فوراً بندکردیا لیکن یہ ترکِ تعلقات رفیق کو منظور نہیں تھا سو وہ اپنی معاشی برتری کے بل پر منصب کو مختلف حیلوں حربوںسے ملاقاتوںپر مجبور کرتا رہا۔
مقامی پولیس کے مطابق تفتیش کے دوران منصب مائی نے اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا ''رفیق مجھے اللہ دتے سے ملنے سے روکتا تھا جب کہ میں اللہ دتہ سے تجدید تعلق پر خوش تھی، جب وہ باز نہ آیا تو ہم نے اسے راہ سے ہٹانے کا فیصلہ کیا''۔ پولیس کے مطابق منصب نے 25 اور 26 کی درمیانی رات رفیق سے ملاقات کی۔ منصوبے کے مطابق رفیق کو چائے میں نشیلی دوا پلائی گئی، جب وہ بے ہوش ہوگیا تو اللہ دتے نے چھری سے اس کا گلا کاٹ دیا۔
پولیس نے دونوں کو گرفتار کرکے آلۂ قتل اور نشہ آور گولیوں کا 'پتا' برآمد کرلیا ہے، چالان عدالت پیش کر دیا گیا ہے، اب دونوں اپنے انجام کے منتظر جیل میں ہیں۔