سارے رنگ
سمجھا دیتا ہے اور کبھی حسب ضرورت سرزنش بھی کر دیتا ہے۔
لاہور:
کچھ قصہ 'پیشۂ بادشاہ گری' کا۔۔۔
خانہ پری
ر۔ ط۔ م
کہتے ہیں صدر جنرل ایوب خان کے دور میں ایک غیرملکی وفد نے جب ہمارے ہاں کے بچوں سے گفتگو کی اور پوچھا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہیں، تو ان میں سے کسی ایک نے بھی 'استاد' بننے کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی۔۔۔ اس کی کیا وجوہات تھیِں، اس پر وقتاً فوقتاً بات کی جاتی رہی ہے۔
فی الحال ہمارے ہاتھ ایک استاد کی 'کہانی' لگی ہے، جو آج کے دور میں بھی فخر سے اس پیشۂ پیام بَری سے جُڑے ہوئے ہیں۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے ہمارے ہاں بچوں کے لیے لکھنے کا شعبہ بحران کا شکار ہے، ایسے ہی بچوں کو پڑھانے کے لیے بھی بہت کم لوگ ایسے ہیں کہ جن کی پہلی ترجیح درس وتدریس ہو۔۔۔ عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ جو کچھ نہیں کر پاتا، وہ پھر تدریس کرنے لگتا ہے۔
یہ شاید اس لیے بھی ہے کہ مجموعی طور پر ہمارے ہاں استاد کی قدر ومنزلت خاطر خواہ نہیں ہے، اس کا ایک رخ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے اساتذہ میں بھی اب وہ بات نہیں رہی ہے۔۔۔ ہرچند کہ ہمارے یہ استاد صاحب بھی شہر کی نجی یونیورسٹیوں میں تدریس کرتے ہیں، لیکن کہتے ہیں کہ بچے اگر 'ٹین ایج' سے نکل بھی آئیں، تو بہت بار یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ بہرحال وہ ابھی بچے ہی ہیں۔۔۔ پروین شاکر کے اس خیال کہ 'بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے۔
سے متفق ہونے کے باوجود کئی بار ان کی نئی امنگ اور ترنگ میں اور ان کی چال ڈھال اور طور طریقوں میں کافی 'بچپنا' دکھائی دینے لگتا ہے۔۔۔ اب یہ بچپنا اگر سادگی اور بے ساختگی سا ہو تو پیار آتا ہے، لیکن اگر اس میں وہ اپنے 'مدرّس' پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگیں، تو تھوڑا سا غصہ آنے کے ساتھ ساتھ ہنسی بھی آتی ہے کہ وہ استاد جو کچھ تعلیم اور تجربہ حاصل کرنے کے بعد ہی ان کے سامنے پڑھانے کے لیے کھڑا ہوا ہے، وہ یقیناً اس عمر اور ان سارے تجربات سے بھی گزر ہی چکا ہے۔۔۔ اس لیے بالآخر استاد ہی کو کسی شفیق باپ کی مانند اپنا دل بہت بڑا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ وہ باپ جو اپنی اولاد کی 'شرارتوں' اور 'شریر پن' کو عمر کا تقاضا سمجھ کر سہتا ہے اور پھر بھی مسکراتا رہتا ہے۔ جہاں ضرورت محسوس کرتا ہے۔
۔۔۔ اور سزا بھی دے دیتا ہے، لیکن اس کا دل صاف اور بہت کھلا اور اجلا رہتا ہے۔۔۔ وہ نوجوانی کی اس عمر کی اٹھان اور جذباتی میلان سے لے کر ذہن ودل میں اٹھنے والی توانائی کو بھی خوب جانتا ہے۔۔۔ اس لیے طلبہ کی غفلتوں، ناپختگیوں اور کئی جگہ پر استاد کے مرتبے کے برخلاف کسی عمل کو بھلا کر بھی وہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے بڑھ کر ان کے لیے محنت کیے چلا جاتا ہے۔۔۔ اور ہمارے ہاں باپ کی زندگی میں کبھی ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ اُسے اپنی اولاد سے یہ بھی سننا پڑ جاتا ہے کہ ''آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟'' بالکل ایسے ہی ایک استاد کو اپنے طلبہ سے ستائش کم ہی نصیب ہوتی ہے، الٹا اُسے ناقدری سہنا پڑتی ہے، لیکن پھر بھی ایک باپ کی طرح استاد بالکل مطمئن ہوتا ہے۔۔۔ پھر انھیں زندگی کی راہوں پر بہ یک وقت اچھا اور کام یاب بنتا ہوا دیکھ کر دل سے جو خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے، وہ یقیناً ایک ایسا تجربہ ہے، جسے لفظوں میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔۔۔
تعلیمی دورانیے تک طلبہ کا اپنے اساتذہ سے تعلق ایک معنوں میں اس 'غرض' سے منسلک کہا جا سکتا ہے کہ انھیں امتحانات میں نمبر اچھے چاہیے ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن جب یہ وقت گزر جاتا ہے، تب گویا استاد کو اپنے خلوص اور محنت کے پھل کا پتا چلتا ہے، تب اصل میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو سکھانے اور سنوارنے میں کتنا کام یاب رہا۔۔۔ اور واقعی سیکھنے والے بھی اس کی محنت کے قدر دان تھے یا نہیں۔۔۔؟ کہیں سرِراہ، کسی جگہ پر یونہی آتے جاتے یا اتفاقاً مل جانے والے وہ طلبہ آنکھ بچا کر نکل جاتے ہیں یا اسے کہیں دور سے بھی دیکھ کر سلام علیک کرنے کو دوڑے چلے آتے ہیں۔۔۔ آداب بجا لاتے ہیں۔
اپنی بے کراں محبتیں نذر کرتے ہیں، نیک تمناؤں کا اس کھلی طرح اظہار کرتے ہیں کہ اُن کا لفظ لفظ بتاتا ہے کہ وہ کتنے دل سے اپنے ایک استاد سے مخاطب ہیں۔۔۔ ایک استاد سے بلا مبالغہ سیکڑوں اور ہزاروں طلبہ زانوئے تلمذ طے کرتے ہیں۔۔۔ ان میں اگر ایک سے دو فی صد بھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُسے اچھے لفظوں میں یاد رکھ لیں، اُس کا نام عزت سے لیں، کہیں ذکر ہو توموؤدب ہو جائیں، بس سمجھیے استاد کی محنت بالکل بھی رائیگاں نہیں گئی، زندگی بھر میں اس کی 'کمائی' فقط یہ اطمینان اور دوسروں کا یہ اعتراف ہی ہوتی ہے کہ وہ انھیں کچھ سکھا سکا ہے اور انھیں کچھ سنوار سکا ہے۔۔۔
اگر ایک استاد 'روسٹرم' پر کھڑے ہو کر اپنے نہیں بلکہ اپنے روبر بچوں کے دل سے سوچتا ہے، تو ایسے استاد کا دَم غنیمت سمجھنا چاہیے۔۔۔ وہ جسمانی طور پر تو استاد کے روپ میں کھڑا ہوا ہے، لیکن قلبی طور پر وہیں کہیں اپنے شاگردوں کے درمیان دھڑکتا ہے۔۔۔ ان کے مسئلوں کو اپنا مسئلہ سمجھتا ہے۔
ان کی فکر کرتا ہے، ان کا خیال رکھنے کو کوشاں رہتا ہے۔۔۔ وہ بتاتے ہیں کہ دو سال قبل کراچی میں جب ایک چھینا جھپٹی کے واقعے میں راہ زن ایک طلبہ کو قتل کر گئے تھے، تو انھیں اپنی کلاس کے 25، 30 طلبہ کی کس قدر فکر ہوئی تھی، اور انھوں نے اپنے بچوں کی سی طرح انھیں اپنا بہت خیال رکھنے کو کہا تھا۔۔۔!
الغرض یہ 'پیشۂ بادشاہ گری' یونہی تو نہیں ہے ناں، اس کا سارا مرتبہ اور وقار تبھی تو ہے کہ وہ مختلف رویوں کے سَنگ کھا کر بھی مسکراتا رہتا ہے، اور ظاہری جاہ وجلال اور بڑائی نہ ہونے کے باوجود ڈگمگائے بغیر مستقبل کی اِن کلیوں کو سینچتا چلا جاتا ہے، کسی صلے کی تمنا کے بغیر ان بچوں کی راہوں سے کانٹے چُن کر انھیں سماج کے گلستان کا ایک مہکتا ہوا گُل بنا دیتا ہے۔۔۔ ہر چند کہ ہر گُل اس طرح نہیں مہک پاتا، لیکن جو بھی مہک جاتا ہے، تو پھر پورا سماج اس ایک استاد کی محنت اور خلوص کا مقروض ہو کر رہ جاتا ہے، جس کی طرف کسی شاگرد کا دھیان کم ہی جا پاتا ہے۔
تشدد کا جواب تشدد
عیشہ مفیض، کراچی
ضروری نہیں کہ ہر انسان کی صبح خوش گوار ہو۔ کچھ مجھ جیسے بدنصیب، تشنگی میں گھرے اس امید کے ساتھ رات کے اندھیرے کو الوداع کہتے ہیں کہ کل کی صبح میری زندگی پر چھائی ہوئی کالی گھٹا کو روشنی میں بدلنے کا باعث بنے گی۔ خیر نہ جانے کب یہ خواہش حقیقت کا روپ دھارے۔ پر اس صبح کو بھی ہر گزری ہوئی صبح کی طرح معمولی کے مطابق گزارتے ہوئے اسی تاریکی کی طرف جانا ہے، جہاں علم کا اجالا میرے اندھیروں میں چھپ گیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں علم کے نام پہ لوگ فقرے کستے ہیں اور جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔
روزمرہ کی طرح آج بھی اس گھنگریالے بالوں والی لڑکی نے پورے مجمعے کے سامنے میری کمزوری کو نشانہ بنایا جو مجھے منہ پہ پڑنے والے زور دار تھپڑ کی مانند محسوس ہوا، میرا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور میں اس میں سما جائوں۔ اسی لمحے میرے خیالوں کی تاریکی میں یہ گمان اجاگر ہوا کہ اب بس اور نہیں یا خود ختم ہو جائو یا اسے کر دو اور لمحوں کے درمیان ہی میں نے اس ذلالت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور سامنے پڑا ہوا شیشے کا ٹکڑا مجھے اس تکلیف سے نجات کا ذریعہ لگا، لیکن پھر میں اس خیال سے مسکرا دی کہ تشدد کا جواب تشدد سے دے کر آخر میں کیوں اس ہجوم کا حصہ بنوں۔
ابّا کا بلاوا
سارہ بتول
یوں تو جوانی میں نیا نیا سگریٹ نوشی کا شوق چڑھا ہے۔ کبھی کبھی دوستوں کے ساتھ دو کش لگا لیے تو کبھی اکیلے کمرے میں غمگین گانے کے ساتھ دل بہلانے کے لیے سگریٹ سلگا لیا۔ بس یوں سمجھیے کہ ''احساس کمتری کا شکار بنا ہوں۔۔۔ سگریٹ کے بعد دوستوں کی محفل میں 'ہونہار' بنا ہوں۔''
ایک روز آدھی رات، دوستوں کی سنگت سے غم میں دوچار اٹھ کر گھر کو آیا۔ خوش بو تو ایسی لے کر آیا تھا کہ جیسے تمباکو کا عطر لگایا ہو۔ تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دبے پائوں کمرے میں پہنچا۔ رات کے اس پہر خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سگریٹ جلا لی، اپنے خیالوں میں محو تھا کہ ایک اونچی آواز آئی، جیسے ابا تک سگریٹ کی بو پہنچ گئی ہو۔
ویسے تو موقع دیکھتے ہی میں نے سگریٹ پھینک دیا، کمرے سے تیزی سے دوڑا۔ اس ایک لمحے میں، میں نے اپنی جان جاتے محسوس کر لی۔ جب پہنچا، تو ابا نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور کہا ''بیٹا یہ ریموٹ تو دینا ذرا۔۔۔!''
کسی نے ٹھیک ہی کہا ۔۔۔
ہانیہ فضل، محمد علی سوسائٹی، کراچی
کراچی کی ایک کچی بستی کی ایک تنگ سی گلی میں واقع مکان میں رہنے والے بشیر کی زوجہ زلیخا کی چنگھاڑ سنائی دیتی ہے ''ہائے! میری کمر!'' پتا چلا لیلیٰ اور عالم نے دھینگا مشتی میں اپنی ماں زلیخا پر لوہے کی کرسی گرا دی ہے۔ اس ضرب کو سہا کر جب زلیخا اٹھنے لگی، تو ادھر سے شنیلا نے ماں کے دوپٹے کا سہارا لیا، جس سے زلیخا کے گلے میں پھندا لگ گیا۔
''افففف۔۔۔۔!'' اس کے گلے سے ایک آہ نکلی۔ اﷲ اﷲ کر کے وہ اپنے گلے کو آزاد کرا کے اٹھتی ہے، تو بِلّو کے رونے کی آواز آتی ہے۔ ہربڑا کر اس کی طرف بھاگتی ہے، تو فرش پر پڑی ہوئی دہی پر پیر پڑتا ہے اور وہ بری طرح پھسل جاتی ہے، یہ دہی عالم نے فریج سے نکال کر نیچے گرادی تھی۔۔۔ اسی اثنا میں بشیر دفتر سے گھر پہنچتا ہے، تو یہ سارا ماجرا دیکھ کر کہتا ہے۔ 'کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے، بچے دو ہی اچھے!'
ناممکن واپسی۔۔۔
بریرہ ریحان، کراچی
کچھ برس پہلے کا ذکر ہے، کراچی کی اُن تنگ گلیوں میں روٹی حاصل کرنا مشکل، لیکن نشہ آسان تھا۔ ان ہی تنگ گلیوں میں ایک نوجوان لڑکا جو بن ماں باپ کے تنہا اور زندگی سے ہارا ہوا تھا، اس کے پاس راہ نما کم اور بھڑکانے والے ہزار تھے۔ وقت تو جیسے گزر نہیں، بھاگ رہا تھا۔
ایسے بھاگتے ہوئے وقت میں اس کے پاس صرف نشے کا سہارا تھا۔ اس گندگی میں وہ اس قدر ڈوب چکا تھا کہ اس کو اب غلط بھی صحیح لگنے لگا۔ اس پریشانی کے عالم میں اس نے کی بندوق سے دوستی۔ چھینا جھپٹی اور چوری چکاری سے نوٹ بنانے شروع کیے، لیکن اسی دلدل میں اس کے ایک نیک دوست نے اسے اچھے اور صحیح راستے پر آنے کی ہدایت کی، لیکن وہ اس دلدل میں اس قدر دھنس چکا تھا کہ واپسی ناممکن ہوگئی تھی پھر ایک دن اس کے پاس کچھ نہ بچا، نہ پیسہ نہ نشہ اور تب ہی اس نے 'بڑا ہاتھ' ڈالنے کی منصوبہ بندی کی اور صدر کے علاقے پہنچا، لیکن قسمت نے اس بار دھوکا دے دیا اگلے دن اخبار میں ایک خبر شایع ہوئی، جس نے اس کے دوستوں کو دنگ کر دیا۔ خبر یہ تھی کہ صدر کے اطراف میں فائرنگ دو نامعلوم افراد ہلاک۔
کچھ قصہ 'پیشۂ بادشاہ گری' کا۔۔۔
خانہ پری
ر۔ ط۔ م
کہتے ہیں صدر جنرل ایوب خان کے دور میں ایک غیرملکی وفد نے جب ہمارے ہاں کے بچوں سے گفتگو کی اور پوچھا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہیں، تو ان میں سے کسی ایک نے بھی 'استاد' بننے کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی۔۔۔ اس کی کیا وجوہات تھیِں، اس پر وقتاً فوقتاً بات کی جاتی رہی ہے۔
فی الحال ہمارے ہاتھ ایک استاد کی 'کہانی' لگی ہے، جو آج کے دور میں بھی فخر سے اس پیشۂ پیام بَری سے جُڑے ہوئے ہیں۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے ہمارے ہاں بچوں کے لیے لکھنے کا شعبہ بحران کا شکار ہے، ایسے ہی بچوں کو پڑھانے کے لیے بھی بہت کم لوگ ایسے ہیں کہ جن کی پہلی ترجیح درس وتدریس ہو۔۔۔ عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ جو کچھ نہیں کر پاتا، وہ پھر تدریس کرنے لگتا ہے۔
یہ شاید اس لیے بھی ہے کہ مجموعی طور پر ہمارے ہاں استاد کی قدر ومنزلت خاطر خواہ نہیں ہے، اس کا ایک رخ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے اساتذہ میں بھی اب وہ بات نہیں رہی ہے۔۔۔ ہرچند کہ ہمارے یہ استاد صاحب بھی شہر کی نجی یونیورسٹیوں میں تدریس کرتے ہیں، لیکن کہتے ہیں کہ بچے اگر 'ٹین ایج' سے نکل بھی آئیں، تو بہت بار یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ بہرحال وہ ابھی بچے ہی ہیں۔۔۔ پروین شاکر کے اس خیال کہ 'بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے۔
سے متفق ہونے کے باوجود کئی بار ان کی نئی امنگ اور ترنگ میں اور ان کی چال ڈھال اور طور طریقوں میں کافی 'بچپنا' دکھائی دینے لگتا ہے۔۔۔ اب یہ بچپنا اگر سادگی اور بے ساختگی سا ہو تو پیار آتا ہے، لیکن اگر اس میں وہ اپنے 'مدرّس' پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگیں، تو تھوڑا سا غصہ آنے کے ساتھ ساتھ ہنسی بھی آتی ہے کہ وہ استاد جو کچھ تعلیم اور تجربہ حاصل کرنے کے بعد ہی ان کے سامنے پڑھانے کے لیے کھڑا ہوا ہے، وہ یقیناً اس عمر اور ان سارے تجربات سے بھی گزر ہی چکا ہے۔۔۔ اس لیے بالآخر استاد ہی کو کسی شفیق باپ کی مانند اپنا دل بہت بڑا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ وہ باپ جو اپنی اولاد کی 'شرارتوں' اور 'شریر پن' کو عمر کا تقاضا سمجھ کر سہتا ہے اور پھر بھی مسکراتا رہتا ہے۔ جہاں ضرورت محسوس کرتا ہے۔
۔۔۔ اور سزا بھی دے دیتا ہے، لیکن اس کا دل صاف اور بہت کھلا اور اجلا رہتا ہے۔۔۔ وہ نوجوانی کی اس عمر کی اٹھان اور جذباتی میلان سے لے کر ذہن ودل میں اٹھنے والی توانائی کو بھی خوب جانتا ہے۔۔۔ اس لیے طلبہ کی غفلتوں، ناپختگیوں اور کئی جگہ پر استاد کے مرتبے کے برخلاف کسی عمل کو بھلا کر بھی وہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے بڑھ کر ان کے لیے محنت کیے چلا جاتا ہے۔۔۔ اور ہمارے ہاں باپ کی زندگی میں کبھی ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ اُسے اپنی اولاد سے یہ بھی سننا پڑ جاتا ہے کہ ''آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟'' بالکل ایسے ہی ایک استاد کو اپنے طلبہ سے ستائش کم ہی نصیب ہوتی ہے، الٹا اُسے ناقدری سہنا پڑتی ہے، لیکن پھر بھی ایک باپ کی طرح استاد بالکل مطمئن ہوتا ہے۔۔۔ پھر انھیں زندگی کی راہوں پر بہ یک وقت اچھا اور کام یاب بنتا ہوا دیکھ کر دل سے جو خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے، وہ یقیناً ایک ایسا تجربہ ہے، جسے لفظوں میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔۔۔
تعلیمی دورانیے تک طلبہ کا اپنے اساتذہ سے تعلق ایک معنوں میں اس 'غرض' سے منسلک کہا جا سکتا ہے کہ انھیں امتحانات میں نمبر اچھے چاہیے ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن جب یہ وقت گزر جاتا ہے، تب گویا استاد کو اپنے خلوص اور محنت کے پھل کا پتا چلتا ہے، تب اصل میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو سکھانے اور سنوارنے میں کتنا کام یاب رہا۔۔۔ اور واقعی سیکھنے والے بھی اس کی محنت کے قدر دان تھے یا نہیں۔۔۔؟ کہیں سرِراہ، کسی جگہ پر یونہی آتے جاتے یا اتفاقاً مل جانے والے وہ طلبہ آنکھ بچا کر نکل جاتے ہیں یا اسے کہیں دور سے بھی دیکھ کر سلام علیک کرنے کو دوڑے چلے آتے ہیں۔۔۔ آداب بجا لاتے ہیں۔
اپنی بے کراں محبتیں نذر کرتے ہیں، نیک تمناؤں کا اس کھلی طرح اظہار کرتے ہیں کہ اُن کا لفظ لفظ بتاتا ہے کہ وہ کتنے دل سے اپنے ایک استاد سے مخاطب ہیں۔۔۔ ایک استاد سے بلا مبالغہ سیکڑوں اور ہزاروں طلبہ زانوئے تلمذ طے کرتے ہیں۔۔۔ ان میں اگر ایک سے دو فی صد بھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُسے اچھے لفظوں میں یاد رکھ لیں، اُس کا نام عزت سے لیں، کہیں ذکر ہو توموؤدب ہو جائیں، بس سمجھیے استاد کی محنت بالکل بھی رائیگاں نہیں گئی، زندگی بھر میں اس کی 'کمائی' فقط یہ اطمینان اور دوسروں کا یہ اعتراف ہی ہوتی ہے کہ وہ انھیں کچھ سکھا سکا ہے اور انھیں کچھ سنوار سکا ہے۔۔۔
اگر ایک استاد 'روسٹرم' پر کھڑے ہو کر اپنے نہیں بلکہ اپنے روبر بچوں کے دل سے سوچتا ہے، تو ایسے استاد کا دَم غنیمت سمجھنا چاہیے۔۔۔ وہ جسمانی طور پر تو استاد کے روپ میں کھڑا ہوا ہے، لیکن قلبی طور پر وہیں کہیں اپنے شاگردوں کے درمیان دھڑکتا ہے۔۔۔ ان کے مسئلوں کو اپنا مسئلہ سمجھتا ہے۔
ان کی فکر کرتا ہے، ان کا خیال رکھنے کو کوشاں رہتا ہے۔۔۔ وہ بتاتے ہیں کہ دو سال قبل کراچی میں جب ایک چھینا جھپٹی کے واقعے میں راہ زن ایک طلبہ کو قتل کر گئے تھے، تو انھیں اپنی کلاس کے 25، 30 طلبہ کی کس قدر فکر ہوئی تھی، اور انھوں نے اپنے بچوں کی سی طرح انھیں اپنا بہت خیال رکھنے کو کہا تھا۔۔۔!
الغرض یہ 'پیشۂ بادشاہ گری' یونہی تو نہیں ہے ناں، اس کا سارا مرتبہ اور وقار تبھی تو ہے کہ وہ مختلف رویوں کے سَنگ کھا کر بھی مسکراتا رہتا ہے، اور ظاہری جاہ وجلال اور بڑائی نہ ہونے کے باوجود ڈگمگائے بغیر مستقبل کی اِن کلیوں کو سینچتا چلا جاتا ہے، کسی صلے کی تمنا کے بغیر ان بچوں کی راہوں سے کانٹے چُن کر انھیں سماج کے گلستان کا ایک مہکتا ہوا گُل بنا دیتا ہے۔۔۔ ہر چند کہ ہر گُل اس طرح نہیں مہک پاتا، لیکن جو بھی مہک جاتا ہے، تو پھر پورا سماج اس ایک استاد کی محنت اور خلوص کا مقروض ہو کر رہ جاتا ہے، جس کی طرف کسی شاگرد کا دھیان کم ہی جا پاتا ہے۔
تشدد کا جواب تشدد
عیشہ مفیض، کراچی
ضروری نہیں کہ ہر انسان کی صبح خوش گوار ہو۔ کچھ مجھ جیسے بدنصیب، تشنگی میں گھرے اس امید کے ساتھ رات کے اندھیرے کو الوداع کہتے ہیں کہ کل کی صبح میری زندگی پر چھائی ہوئی کالی گھٹا کو روشنی میں بدلنے کا باعث بنے گی۔ خیر نہ جانے کب یہ خواہش حقیقت کا روپ دھارے۔ پر اس صبح کو بھی ہر گزری ہوئی صبح کی طرح معمولی کے مطابق گزارتے ہوئے اسی تاریکی کی طرف جانا ہے، جہاں علم کا اجالا میرے اندھیروں میں چھپ گیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں علم کے نام پہ لوگ فقرے کستے ہیں اور جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔
روزمرہ کی طرح آج بھی اس گھنگریالے بالوں والی لڑکی نے پورے مجمعے کے سامنے میری کمزوری کو نشانہ بنایا جو مجھے منہ پہ پڑنے والے زور دار تھپڑ کی مانند محسوس ہوا، میرا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور میں اس میں سما جائوں۔ اسی لمحے میرے خیالوں کی تاریکی میں یہ گمان اجاگر ہوا کہ اب بس اور نہیں یا خود ختم ہو جائو یا اسے کر دو اور لمحوں کے درمیان ہی میں نے اس ذلالت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور سامنے پڑا ہوا شیشے کا ٹکڑا مجھے اس تکلیف سے نجات کا ذریعہ لگا، لیکن پھر میں اس خیال سے مسکرا دی کہ تشدد کا جواب تشدد سے دے کر آخر میں کیوں اس ہجوم کا حصہ بنوں۔
ابّا کا بلاوا
سارہ بتول
یوں تو جوانی میں نیا نیا سگریٹ نوشی کا شوق چڑھا ہے۔ کبھی کبھی دوستوں کے ساتھ دو کش لگا لیے تو کبھی اکیلے کمرے میں غمگین گانے کے ساتھ دل بہلانے کے لیے سگریٹ سلگا لیا۔ بس یوں سمجھیے کہ ''احساس کمتری کا شکار بنا ہوں۔۔۔ سگریٹ کے بعد دوستوں کی محفل میں 'ہونہار' بنا ہوں۔''
ایک روز آدھی رات، دوستوں کی سنگت سے غم میں دوچار اٹھ کر گھر کو آیا۔ خوش بو تو ایسی لے کر آیا تھا کہ جیسے تمباکو کا عطر لگایا ہو۔ تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دبے پائوں کمرے میں پہنچا۔ رات کے اس پہر خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سگریٹ جلا لی، اپنے خیالوں میں محو تھا کہ ایک اونچی آواز آئی، جیسے ابا تک سگریٹ کی بو پہنچ گئی ہو۔
ویسے تو موقع دیکھتے ہی میں نے سگریٹ پھینک دیا، کمرے سے تیزی سے دوڑا۔ اس ایک لمحے میں، میں نے اپنی جان جاتے محسوس کر لی۔ جب پہنچا، تو ابا نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور کہا ''بیٹا یہ ریموٹ تو دینا ذرا۔۔۔!''
کسی نے ٹھیک ہی کہا ۔۔۔
ہانیہ فضل، محمد علی سوسائٹی، کراچی
کراچی کی ایک کچی بستی کی ایک تنگ سی گلی میں واقع مکان میں رہنے والے بشیر کی زوجہ زلیخا کی چنگھاڑ سنائی دیتی ہے ''ہائے! میری کمر!'' پتا چلا لیلیٰ اور عالم نے دھینگا مشتی میں اپنی ماں زلیخا پر لوہے کی کرسی گرا دی ہے۔ اس ضرب کو سہا کر جب زلیخا اٹھنے لگی، تو ادھر سے شنیلا نے ماں کے دوپٹے کا سہارا لیا، جس سے زلیخا کے گلے میں پھندا لگ گیا۔
''افففف۔۔۔۔!'' اس کے گلے سے ایک آہ نکلی۔ اﷲ اﷲ کر کے وہ اپنے گلے کو آزاد کرا کے اٹھتی ہے، تو بِلّو کے رونے کی آواز آتی ہے۔ ہربڑا کر اس کی طرف بھاگتی ہے، تو فرش پر پڑی ہوئی دہی پر پیر پڑتا ہے اور وہ بری طرح پھسل جاتی ہے، یہ دہی عالم نے فریج سے نکال کر نیچے گرادی تھی۔۔۔ اسی اثنا میں بشیر دفتر سے گھر پہنچتا ہے، تو یہ سارا ماجرا دیکھ کر کہتا ہے۔ 'کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے، بچے دو ہی اچھے!'
ناممکن واپسی۔۔۔
بریرہ ریحان، کراچی
کچھ برس پہلے کا ذکر ہے، کراچی کی اُن تنگ گلیوں میں روٹی حاصل کرنا مشکل، لیکن نشہ آسان تھا۔ ان ہی تنگ گلیوں میں ایک نوجوان لڑکا جو بن ماں باپ کے تنہا اور زندگی سے ہارا ہوا تھا، اس کے پاس راہ نما کم اور بھڑکانے والے ہزار تھے۔ وقت تو جیسے گزر نہیں، بھاگ رہا تھا۔
ایسے بھاگتے ہوئے وقت میں اس کے پاس صرف نشے کا سہارا تھا۔ اس گندگی میں وہ اس قدر ڈوب چکا تھا کہ اس کو اب غلط بھی صحیح لگنے لگا۔ اس پریشانی کے عالم میں اس نے کی بندوق سے دوستی۔ چھینا جھپٹی اور چوری چکاری سے نوٹ بنانے شروع کیے، لیکن اسی دلدل میں اس کے ایک نیک دوست نے اسے اچھے اور صحیح راستے پر آنے کی ہدایت کی، لیکن وہ اس دلدل میں اس قدر دھنس چکا تھا کہ واپسی ناممکن ہوگئی تھی پھر ایک دن اس کے پاس کچھ نہ بچا، نہ پیسہ نہ نشہ اور تب ہی اس نے 'بڑا ہاتھ' ڈالنے کی منصوبہ بندی کی اور صدر کے علاقے پہنچا، لیکن قسمت نے اس بار دھوکا دے دیا اگلے دن اخبار میں ایک خبر شایع ہوئی، جس نے اس کے دوستوں کو دنگ کر دیا۔ خبر یہ تھی کہ صدر کے اطراف میں فائرنگ دو نامعلوم افراد ہلاک۔