ناروے میں چودہ اگست
چند مہینے بعد اگست کا مہینہ شروع ہونے والا تھا کہ منیر کا دوست اُسے پاکستانی سفارت خانے لے گیا۔
اسکاچ مشن ہائی اسکول اور پھر مرے کالج کی تعلیم یعنی گریجو یشن تک اسکول اور کالج جاتے اور گھر واپس پیدل آتے ہوئے ڈرموں والے چوک کے سامنے سے گزرنا ہوتا تھا۔ صرف اسکول اور کالج کے عرصے کو یاد کریں تو یہ مدت چودہ سال بنتی ہے۔
اب تو اس چوک میں ایک بھی ڈرم نہیں ہے۔ اب یہ چوک جدید طرز تعمیر کا نمونہ ہے لیکن یہ کہلاتا اب بھی ڈرموں والا چوک ہے۔ اسی چوک کے سامنے میرے کلاس فیلو منیر کے والد کی بائیسکلوں کی دوکان تھی۔
منیر کو والد دوکان پر بٹھانا چاہتے تھے لیکن اسے یہ کام قطعی نا پسند تھا چنانچہ وہ آٹھویں کلاس میں تھا کہ دوستوں کے ہمراہ پاکستان سے فرار ہو گیا۔ یہ وہ دن تھے جب کسی دوسرے ملک کے ائیرپورٹ پر ہی وہاں کا ویزہ مل جایا کرتا تھا ۔ ان دنوں یورپ، جرمنی، برطانیہ اور کئی اور ممالک کو ترقی کی رفتار تیز کرنے کے لیے سستی لیبر کی ضرورت تھی ۔ آج بھی برطانیہ ، جرمنی و دیگر ممالک میں ہماری لیبر فورس کی دوسری یا تیسری نسل تعلیم یافتہ اور ہنر مند بن کر مقامی تعلیم یافتہ افراد کے مد ِ مقابل کھڑی ہو رہی ہے۔ اب میرے دوست منیر کے بچے بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ ہیں جب کہ شروع میں منیر ایک فیکٹری میں لیبر فورس کا رکن تھا۔
جب منیر کو معلوم ہوا کہ ناروے میں چالیس پچاس ہزار پاکستانی آباد ہیں اور بہت سے اب مزدوری چھوڑ کر اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کرنے لگے ہیں تو وہ بچوں کو ساتھ لے کر ناروے چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر اُسے حیرت ہوئی کہ جس وجہ سے وہ پاکستان سے بھاگ نکلا تھا وہ اکثر لوگوں کے زیر ِ استعمال تھی۔ لوگ موٹر کاروں میں تو آتے جاتے دیکھے لیکن ایک معقول تعداد میں بائیسکلوں پر لوگوں کو سائیکل Lane میں گھومتے دیکھا۔ ایک چیز اس نے خاص طور پر نوٹ کی کہ یہ سائیکل سوار غریب قسم کے لوگ نہیں تھے ۔ ان سب کا ڈریس بتاتا تھا کہ وہ خوش حال لوگ تھے۔ وہاں اس کے پاس ایک دوست کا ایڈریس تھا جو دس سال قبل گجرات کے علاقے کھاریاں سے نقل مکانی کر کے ناروے آ گیا تھا۔ منیر اس کے پاس گیا تو اسے پتہ چلا کہ اس کے کئی جاننے والے اسی شہر میں مقیم تھے جن کا تعلق سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور گجرات سے تھا۔
ان سب کا آپس میں دوستانہ تعلق ہونے کے علاوہ ہمدردانہ بھی تھا۔ اُن کے اسی رویے کے سبب منیر کو رہائیش کے لیے کمرہ بھی مل گیا اور پرانے دوست نے اسے اپنی کریانے کی دوکان میں مصروف بھی کر لیا۔ کچھ عرصہ وہاں کام کرنے کے بعد اسے کام کرنے کا تجربہ بھی ہو گیا اور بہت سے دیسی لوگوں سے دوستی اور ملاقاتوں کا رستہ کھل گیا۔ اسے اندازہ ہو گیا کہ پاکستانی ناروجین ایک دوستانہ ماحول بنا کر مقامی لوگوں سے گھل مل جانے کی وجہ سے ان ناروجین لوگوں میں عزت پاتے ہیں اور کسی قسم کے فساد یا سیاست بازی سے گریز کرتے ہیں اسی وجہ سے ناروجین لوگوں نے ان پچاس ساٹھ پاکستانیوں کو بخوشی قبول کر لیا ہوا تھا لیکن ناروے کے شہری بن جانے کے باوجود ان کے دلوں میں پاکستان کے لیے گہری محبت قائم تھی اور ان کی تنظیم اپنی بھرپور محبت کا اظہار چودہ اگست کو کرتی تھی۔
چند مہینے بعد اگست کا مہینہ شروع ہونے والا تھا کہ منیر کا دوست اُسے پاکستانی سفارت خانے لے گیا۔ وہاں پاکستانیوں کا ہجوم دیکھ کر اُس نے اس ہجوم کی وجہ پوچھی تو دوست نے بتایا کہ پاکستانیوں نے ایک تنظیم بنا رکھی ہے جن کا ایک دفتر بھی ہے علاوہ مختلف Activities کے یہ تنظیم چودہ اگست کا یوم ِ آزادی Celebrate کر تی ہے۔ شہر کے سب سے بڑے ہال میں پانچ ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جہاں ناروے کے وزراء اور میئر کو مدعو کیا جاتا ہے۔
پاکستان کا سفیر بھی اسٹیج پر موجود ہوتا ہے۔ پاکستان سے چند اہم شخصیات کو ہوائی ٹکٹ دے کر بلوایا جاتا ہے ۔ چودہ اگست کو ہال کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے۔ تقاریر ہوتی ہیں اور رات کا کھانا ہوتا ہے۔ یوں ناروے میں پاکستان کا یوم ِ آزادی منایا جاتا ہے۔ اس وقت 14 اگست کے انتظامات کی میٹنگ ہونے والی تھی۔ یہ انتظامات دیکھ کر منیر خوش ہوا اور پاکستان کو یاد کر کے اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلکنے لگے۔
کالم اختتام تک پہنچ چکا تھا کہ میرے ذہن کو کل والا دن تنگ کرنے لگا جس سے جان چھڑانے کے لیے اس کا ذکر ناگزیر ہو گیا ہے۔ میں بحیثیت ایڈووکیٹ NAB کورٹس کے سامنے پہنچا تو اپنی کار ایک فرلانگ دور کھڑی کرنا پڑی کیونکہ سامنے ٹی وی چینلز کی گاڑیوں کا ہجوم تھا۔ عدالت میں ایک میز کے پیچھے دو کرسیاں خالی مل گئیں اور ان میں سے ایک پر میں بیٹھ گیا۔ چند منٹ بعد دوسری کرسی پر ایک صاحب آ کر بیٹھے تو معمولی سا ہنگامہ ہوا۔ معلوم ہو اکہ اس کرسی پر سابق وزیر ِ اعلیٰ براجمان ہوئے ہیں۔ شہباز شریف کو ساتھ بیٹھے دیکھ کر مجھے 25سال پرانا ایک دن اور واقعہ پھر یاد آ گیا۔
میں نے سلام کر کے اپنا تعارف کرایا اور کہاآپ کو یاد ہے کہ ہماری ملاقاتیں رہی ہیں اور ایک بار آپ نے مجھے گھر بلا کر وہاں موجود اپنی پارٹی کے MPA سے تعارف کرا کے اسے لبرٹی مارکیٹ میں ایک کمرشل پلاٹ دینے کا کہا تھا لیکن میں نے ایل ڈی اے کی پالیسی فائل دکھا کر آپ کو بتا یا تھا کہ کمرشل پلاٹ صرف بذریعہ نیلامی دیا جا سکتا ہے تو آپ نے حکم دیا تھا کہ کیس کی سمری بنا کر مجھے بھیج دو، میں الاٹ کر دوں گا جس پر میں نے کہا تھا کہ سر ! یہ آپ بھی نہیں کرسکتے جس پر آپ نے میرے ہاتھ میں پکڑی فائل گرا دی تھی۔ میری بات ختم ہوئی تو موصوف بغیر کچھ کہے وہ کرسی چھوڑ کر دوسری جگہ جا بیٹھے۔ مذکورہ پلاٹ آج بھی خالی پڑا ہے۔
اب تو اس چوک میں ایک بھی ڈرم نہیں ہے۔ اب یہ چوک جدید طرز تعمیر کا نمونہ ہے لیکن یہ کہلاتا اب بھی ڈرموں والا چوک ہے۔ اسی چوک کے سامنے میرے کلاس فیلو منیر کے والد کی بائیسکلوں کی دوکان تھی۔
منیر کو والد دوکان پر بٹھانا چاہتے تھے لیکن اسے یہ کام قطعی نا پسند تھا چنانچہ وہ آٹھویں کلاس میں تھا کہ دوستوں کے ہمراہ پاکستان سے فرار ہو گیا۔ یہ وہ دن تھے جب کسی دوسرے ملک کے ائیرپورٹ پر ہی وہاں کا ویزہ مل جایا کرتا تھا ۔ ان دنوں یورپ، جرمنی، برطانیہ اور کئی اور ممالک کو ترقی کی رفتار تیز کرنے کے لیے سستی لیبر کی ضرورت تھی ۔ آج بھی برطانیہ ، جرمنی و دیگر ممالک میں ہماری لیبر فورس کی دوسری یا تیسری نسل تعلیم یافتہ اور ہنر مند بن کر مقامی تعلیم یافتہ افراد کے مد ِ مقابل کھڑی ہو رہی ہے۔ اب میرے دوست منیر کے بچے بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ ہیں جب کہ شروع میں منیر ایک فیکٹری میں لیبر فورس کا رکن تھا۔
جب منیر کو معلوم ہوا کہ ناروے میں چالیس پچاس ہزار پاکستانی آباد ہیں اور بہت سے اب مزدوری چھوڑ کر اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کرنے لگے ہیں تو وہ بچوں کو ساتھ لے کر ناروے چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر اُسے حیرت ہوئی کہ جس وجہ سے وہ پاکستان سے بھاگ نکلا تھا وہ اکثر لوگوں کے زیر ِ استعمال تھی۔ لوگ موٹر کاروں میں تو آتے جاتے دیکھے لیکن ایک معقول تعداد میں بائیسکلوں پر لوگوں کو سائیکل Lane میں گھومتے دیکھا۔ ایک چیز اس نے خاص طور پر نوٹ کی کہ یہ سائیکل سوار غریب قسم کے لوگ نہیں تھے ۔ ان سب کا ڈریس بتاتا تھا کہ وہ خوش حال لوگ تھے۔ وہاں اس کے پاس ایک دوست کا ایڈریس تھا جو دس سال قبل گجرات کے علاقے کھاریاں سے نقل مکانی کر کے ناروے آ گیا تھا۔ منیر اس کے پاس گیا تو اسے پتہ چلا کہ اس کے کئی جاننے والے اسی شہر میں مقیم تھے جن کا تعلق سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور گجرات سے تھا۔
ان سب کا آپس میں دوستانہ تعلق ہونے کے علاوہ ہمدردانہ بھی تھا۔ اُن کے اسی رویے کے سبب منیر کو رہائیش کے لیے کمرہ بھی مل گیا اور پرانے دوست نے اسے اپنی کریانے کی دوکان میں مصروف بھی کر لیا۔ کچھ عرصہ وہاں کام کرنے کے بعد اسے کام کرنے کا تجربہ بھی ہو گیا اور بہت سے دیسی لوگوں سے دوستی اور ملاقاتوں کا رستہ کھل گیا۔ اسے اندازہ ہو گیا کہ پاکستانی ناروجین ایک دوستانہ ماحول بنا کر مقامی لوگوں سے گھل مل جانے کی وجہ سے ان ناروجین لوگوں میں عزت پاتے ہیں اور کسی قسم کے فساد یا سیاست بازی سے گریز کرتے ہیں اسی وجہ سے ناروجین لوگوں نے ان پچاس ساٹھ پاکستانیوں کو بخوشی قبول کر لیا ہوا تھا لیکن ناروے کے شہری بن جانے کے باوجود ان کے دلوں میں پاکستان کے لیے گہری محبت قائم تھی اور ان کی تنظیم اپنی بھرپور محبت کا اظہار چودہ اگست کو کرتی تھی۔
چند مہینے بعد اگست کا مہینہ شروع ہونے والا تھا کہ منیر کا دوست اُسے پاکستانی سفارت خانے لے گیا۔ وہاں پاکستانیوں کا ہجوم دیکھ کر اُس نے اس ہجوم کی وجہ پوچھی تو دوست نے بتایا کہ پاکستانیوں نے ایک تنظیم بنا رکھی ہے جن کا ایک دفتر بھی ہے علاوہ مختلف Activities کے یہ تنظیم چودہ اگست کا یوم ِ آزادی Celebrate کر تی ہے۔ شہر کے سب سے بڑے ہال میں پانچ ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جہاں ناروے کے وزراء اور میئر کو مدعو کیا جاتا ہے۔
پاکستان کا سفیر بھی اسٹیج پر موجود ہوتا ہے۔ پاکستان سے چند اہم شخصیات کو ہوائی ٹکٹ دے کر بلوایا جاتا ہے ۔ چودہ اگست کو ہال کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے۔ تقاریر ہوتی ہیں اور رات کا کھانا ہوتا ہے۔ یوں ناروے میں پاکستان کا یوم ِ آزادی منایا جاتا ہے۔ اس وقت 14 اگست کے انتظامات کی میٹنگ ہونے والی تھی۔ یہ انتظامات دیکھ کر منیر خوش ہوا اور پاکستان کو یاد کر کے اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلکنے لگے۔
کالم اختتام تک پہنچ چکا تھا کہ میرے ذہن کو کل والا دن تنگ کرنے لگا جس سے جان چھڑانے کے لیے اس کا ذکر ناگزیر ہو گیا ہے۔ میں بحیثیت ایڈووکیٹ NAB کورٹس کے سامنے پہنچا تو اپنی کار ایک فرلانگ دور کھڑی کرنا پڑی کیونکہ سامنے ٹی وی چینلز کی گاڑیوں کا ہجوم تھا۔ عدالت میں ایک میز کے پیچھے دو کرسیاں خالی مل گئیں اور ان میں سے ایک پر میں بیٹھ گیا۔ چند منٹ بعد دوسری کرسی پر ایک صاحب آ کر بیٹھے تو معمولی سا ہنگامہ ہوا۔ معلوم ہو اکہ اس کرسی پر سابق وزیر ِ اعلیٰ براجمان ہوئے ہیں۔ شہباز شریف کو ساتھ بیٹھے دیکھ کر مجھے 25سال پرانا ایک دن اور واقعہ پھر یاد آ گیا۔
میں نے سلام کر کے اپنا تعارف کرایا اور کہاآپ کو یاد ہے کہ ہماری ملاقاتیں رہی ہیں اور ایک بار آپ نے مجھے گھر بلا کر وہاں موجود اپنی پارٹی کے MPA سے تعارف کرا کے اسے لبرٹی مارکیٹ میں ایک کمرشل پلاٹ دینے کا کہا تھا لیکن میں نے ایل ڈی اے کی پالیسی فائل دکھا کر آپ کو بتا یا تھا کہ کمرشل پلاٹ صرف بذریعہ نیلامی دیا جا سکتا ہے تو آپ نے حکم دیا تھا کہ کیس کی سمری بنا کر مجھے بھیج دو، میں الاٹ کر دوں گا جس پر میں نے کہا تھا کہ سر ! یہ آپ بھی نہیں کرسکتے جس پر آپ نے میرے ہاتھ میں پکڑی فائل گرا دی تھی۔ میری بات ختم ہوئی تو موصوف بغیر کچھ کہے وہ کرسی چھوڑ کر دوسری جگہ جا بیٹھے۔ مذکورہ پلاٹ آج بھی خالی پڑا ہے۔