شدت پسندی
یہ سامراجی سرپرستی ہی تھی کہ آج پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے میں ان شدت پسندوں کا قبضہ ہے۔
RAWALPINDI:
وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان صوفیوں کی سرزمین اور درگاہوں کا مسکن تھا یہاں ایک دوسرے کو مان کرچلنے والے لوگ تھے لیکن 80اور90 کی دہائی میں اسکولوں اور کالجوں میں جواساتذہ بھرتی ہوئے انھوں نے انتہا پسند ی کو فروغ دیا۔ ان کے مطابق مدارس سے انتہاپسندی نہیں پھیلی۔
انھوں نے کہا کہ تین سو سال پہلے کا پنجاب اور خیبر پختونخوا دیکھیں تو یہاں مذہبی شدت پسندی کبھی تھی ہی نہیں۔ کچھ ''سیاسی وجوہات'' کی بنا پر یہاں ایسا عنصر تشکیل پایا جس کے نتیجے میں پاکستان اس بڑے خطرے سے دوچار ہے۔
انھوں نے کہا کہ ریاست کی رٹ قائم کیے بغیر انتہا پسندی سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ قانون کی عمل داری یقینی بنانا ریاست کی ذمے داری ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ریاست کو بہت سے معاملات میں پیچھے ہٹنا پڑ رہا ہے۔ ریاست کا کنٹرول ختم ہو تو جتھے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔
جوریاست قانون کی عملداری نہ کرواسکے اس کی بقا پر بہت جلد سوالات اٹھتے ہیں۔ وزیر اطلاعات نے چونکا دینے والی بات یہ بھی کی کہ ہمیں ہندوستان سے کوئی خطرہ نہیں کہ ہماری فوج دنیا کی چھٹی بڑی فوج اور ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ (مذہبی) پریشر گروپس پاکستان کی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ شدت پسندی اس وقت ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ ہے
۔ ہم نے شدت پسندی سے دنیا کو تباہ ہوتے دیکھا ہے۔ شدت پسندی کے لیے کوئی نرم رویہ نہیں آسکتا۔ اپنا نقطہ نظر پیش کرنا ہر ایک کا حق ہے۔ تاہم اسے زبردستی مسلط کرنا درست نہیں۔ اسلام اعتدال اور امن کا درس دیتا ہے۔انھوں نے کہا کہ نرم رویوں کے لیے ماحول کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ماحول نہیں دے سکتے تو ہم عام آدمی کی زندگی کا تحفظ نہیں کرسکتے۔ کوئی دوسرا نقطہ نظر نہیں آسکتا تو سافٹ چینج کیسے ممکن ہے۔ مولانا حسن جان کو یہ فتویٰ دینے پر شہید کردیا گیا کہ خودکش حملے اسلام میں جائز نہیں۔
لگتا ہے کہ مصلحتاً فواد چوہدری نے ہتھ ہولا رکھا ہے۔ مذہب کا ہتھیار تو برصغیر کی تقسیم سے بہت پہلے ہی شروع ہوگیا تھا۔انگریزوں کی اپنے اقتدار کی مضبوطی کے لیے مذہب کے نام پر لڑاؤ اور تقسیم کرو کی پالیسی نے اکبر اعظم کی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی رواداری کی پالیسی کا خاتمہ کردیا۔ لیکن اس مذہبی رواداری کے خاتمے کا آغاز تو اورنگزیب کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ اکبر اعظم کی یہ مذہبی رواداری ہی تھی جس کے نتیجے میں اس نے برما سے کابل تک حکومت کی۔
سابق چیف جسٹس منیر احمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ یہ تاریخ کی عجب ستم ظریفی ہے کہ جو لوگ گاندھی اور جواہر لال نہرو کے ہمنوا تھے جب محمد علی جناح سے شکست کھاگئے تو پاکستان بننے کے بعد ان کا پاکستان پر قبضہ ہوگیا۔ قائداعظم کے پاکستان پر ایسے ہی جناح پاکستان مخالف قوتوں کا قبضہ نہیں ہوگیا۔ یہ تو امریکی سامراجی ضرورت تھی سوویت یونین کے خاتمے کے لیے۔ اس کے لیے دو کام کیے گئے پہلا پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی سرپرستی کی گئی۔ دوسرا کام یہ کیا گیا پاکستان میں سیاست سمیت ہر شعبے میں سامراج مخالف عوام دوست قوتوں کا صفایا کردیا گیا۔
ان جماعتوں کے سامنے کھلا میدان تھا یعنی امریکا ، یہ جماعتیں اور پاکستانی حکمرانی طبقات کا پاکستانی عوام کے خلاف گٹھ جوڑ ہوگیا اور یہ سب ان کے مفادات کے لیے ضروری تھا جب کہ سادہ لوح عوام گزشتہ 75 سال سے بے خبر ہیں کہ ان کے ساتھ کیا کھیل ہو رہا ہے۔
یہ سامراجی سرپرستی ہی تھی کہ آج پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے میں ان شدت پسندوں کا قبضہ ہے۔ اس پس منظر میں کابل میں طالبان حکومت کا قائم ہونا ان شدت پسندوں کے عزائم کی تکمیل ہے جو محمد علی کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچار ہوئے اس شکست کے بعد ان کی امیدوں کا محور و مرکزافغانستان بن گیا۔
سوویت یونین کے خلاف امریکی جنگ اس خواب کو تکمیل کے مراحل میں اس طرح لے آئی کہ پاکستان میں بھی مذہبی شدت پسندی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ پاکستان میں شدت پسند قوتیں مزید طاقتور ہوگئی ہیں اب ان کا ایک ہی مشترکہ ایجنڈا ہے کہ پاکستان کو بھی طالبان حکومت کے رنگ میں رنگ دیا جائے۔
اوپر سے سونے پر سہاگہ اسلامی کشمیر۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر عالمی برادری کے کان اس لیے نہیں بند ہیں کہ بھارت سوا ارب کی منڈی ہے۔ خطرہ ہے کہ مستقبل میں کشمیر ایک نئی بنیاد پرست سرزمین بن سکتا ہے اوپر سے مذہبی ایران اور ریاستِ مدینہ پاکستان ایک عجیب صورتحال ہے کہ عالمی نقطہ نظر سے اس پورے خطے میں خطرات ہی خطرات کا گھٹا ٹوپ ایسا اندھیرا چھایا ہوا ہے کہ جس کے نتیجے میں دنیا اندھیرے میں ڈوب سکتی ہے۔
یہی خطرہ اور امریکا کا اصرار ہے کہ ایران فوری طور پر جوہری معاہدے کی بحالی پر مذاکرات کی طرف آئے۔ شدت پسند قوتوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ پاکستان قائم رہتا ہے یا نہیں وہ پاکستان کو اپنی مرضی کی ریاست بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا عروج ممکن ہوسکا۔ پلاننگ کا اندازہ کریں کیا کمال کی منصوبہ بندی تھی۔ حرف بہ حرف عمل ہوا۔
داعش اور دیگر شدت پسندگروہوں کے پس منظر میں پاکستان بھارت ایشوز کا حل ناگریز ہے۔ اسی حوالے سے بھارت پاکستان تعلقات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ چنانچہ پہلا اہم مہینہ جنوری2022ء ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان صوفیوں کی سرزمین اور درگاہوں کا مسکن تھا یہاں ایک دوسرے کو مان کرچلنے والے لوگ تھے لیکن 80اور90 کی دہائی میں اسکولوں اور کالجوں میں جواساتذہ بھرتی ہوئے انھوں نے انتہا پسند ی کو فروغ دیا۔ ان کے مطابق مدارس سے انتہاپسندی نہیں پھیلی۔
انھوں نے کہا کہ تین سو سال پہلے کا پنجاب اور خیبر پختونخوا دیکھیں تو یہاں مذہبی شدت پسندی کبھی تھی ہی نہیں۔ کچھ ''سیاسی وجوہات'' کی بنا پر یہاں ایسا عنصر تشکیل پایا جس کے نتیجے میں پاکستان اس بڑے خطرے سے دوچار ہے۔
انھوں نے کہا کہ ریاست کی رٹ قائم کیے بغیر انتہا پسندی سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ قانون کی عمل داری یقینی بنانا ریاست کی ذمے داری ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ریاست کو بہت سے معاملات میں پیچھے ہٹنا پڑ رہا ہے۔ ریاست کا کنٹرول ختم ہو تو جتھے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔
جوریاست قانون کی عملداری نہ کرواسکے اس کی بقا پر بہت جلد سوالات اٹھتے ہیں۔ وزیر اطلاعات نے چونکا دینے والی بات یہ بھی کی کہ ہمیں ہندوستان سے کوئی خطرہ نہیں کہ ہماری فوج دنیا کی چھٹی بڑی فوج اور ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ (مذہبی) پریشر گروپس پاکستان کی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ شدت پسندی اس وقت ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ ہے
۔ ہم نے شدت پسندی سے دنیا کو تباہ ہوتے دیکھا ہے۔ شدت پسندی کے لیے کوئی نرم رویہ نہیں آسکتا۔ اپنا نقطہ نظر پیش کرنا ہر ایک کا حق ہے۔ تاہم اسے زبردستی مسلط کرنا درست نہیں۔ اسلام اعتدال اور امن کا درس دیتا ہے۔انھوں نے کہا کہ نرم رویوں کے لیے ماحول کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ماحول نہیں دے سکتے تو ہم عام آدمی کی زندگی کا تحفظ نہیں کرسکتے۔ کوئی دوسرا نقطہ نظر نہیں آسکتا تو سافٹ چینج کیسے ممکن ہے۔ مولانا حسن جان کو یہ فتویٰ دینے پر شہید کردیا گیا کہ خودکش حملے اسلام میں جائز نہیں۔
لگتا ہے کہ مصلحتاً فواد چوہدری نے ہتھ ہولا رکھا ہے۔ مذہب کا ہتھیار تو برصغیر کی تقسیم سے بہت پہلے ہی شروع ہوگیا تھا۔انگریزوں کی اپنے اقتدار کی مضبوطی کے لیے مذہب کے نام پر لڑاؤ اور تقسیم کرو کی پالیسی نے اکبر اعظم کی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی رواداری کی پالیسی کا خاتمہ کردیا۔ لیکن اس مذہبی رواداری کے خاتمے کا آغاز تو اورنگزیب کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ اکبر اعظم کی یہ مذہبی رواداری ہی تھی جس کے نتیجے میں اس نے برما سے کابل تک حکومت کی۔
سابق چیف جسٹس منیر احمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ یہ تاریخ کی عجب ستم ظریفی ہے کہ جو لوگ گاندھی اور جواہر لال نہرو کے ہمنوا تھے جب محمد علی جناح سے شکست کھاگئے تو پاکستان بننے کے بعد ان کا پاکستان پر قبضہ ہوگیا۔ قائداعظم کے پاکستان پر ایسے ہی جناح پاکستان مخالف قوتوں کا قبضہ نہیں ہوگیا۔ یہ تو امریکی سامراجی ضرورت تھی سوویت یونین کے خاتمے کے لیے۔ اس کے لیے دو کام کیے گئے پہلا پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی سرپرستی کی گئی۔ دوسرا کام یہ کیا گیا پاکستان میں سیاست سمیت ہر شعبے میں سامراج مخالف عوام دوست قوتوں کا صفایا کردیا گیا۔
ان جماعتوں کے سامنے کھلا میدان تھا یعنی امریکا ، یہ جماعتیں اور پاکستانی حکمرانی طبقات کا پاکستانی عوام کے خلاف گٹھ جوڑ ہوگیا اور یہ سب ان کے مفادات کے لیے ضروری تھا جب کہ سادہ لوح عوام گزشتہ 75 سال سے بے خبر ہیں کہ ان کے ساتھ کیا کھیل ہو رہا ہے۔
یہ سامراجی سرپرستی ہی تھی کہ آج پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے میں ان شدت پسندوں کا قبضہ ہے۔ اس پس منظر میں کابل میں طالبان حکومت کا قائم ہونا ان شدت پسندوں کے عزائم کی تکمیل ہے جو محمد علی کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچار ہوئے اس شکست کے بعد ان کی امیدوں کا محور و مرکزافغانستان بن گیا۔
سوویت یونین کے خلاف امریکی جنگ اس خواب کو تکمیل کے مراحل میں اس طرح لے آئی کہ پاکستان میں بھی مذہبی شدت پسندی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ پاکستان میں شدت پسند قوتیں مزید طاقتور ہوگئی ہیں اب ان کا ایک ہی مشترکہ ایجنڈا ہے کہ پاکستان کو بھی طالبان حکومت کے رنگ میں رنگ دیا جائے۔
اوپر سے سونے پر سہاگہ اسلامی کشمیر۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر عالمی برادری کے کان اس لیے نہیں بند ہیں کہ بھارت سوا ارب کی منڈی ہے۔ خطرہ ہے کہ مستقبل میں کشمیر ایک نئی بنیاد پرست سرزمین بن سکتا ہے اوپر سے مذہبی ایران اور ریاستِ مدینہ پاکستان ایک عجیب صورتحال ہے کہ عالمی نقطہ نظر سے اس پورے خطے میں خطرات ہی خطرات کا گھٹا ٹوپ ایسا اندھیرا چھایا ہوا ہے کہ جس کے نتیجے میں دنیا اندھیرے میں ڈوب سکتی ہے۔
یہی خطرہ اور امریکا کا اصرار ہے کہ ایران فوری طور پر جوہری معاہدے کی بحالی پر مذاکرات کی طرف آئے۔ شدت پسند قوتوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ پاکستان قائم رہتا ہے یا نہیں وہ پاکستان کو اپنی مرضی کی ریاست بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا عروج ممکن ہوسکا۔ پلاننگ کا اندازہ کریں کیا کمال کی منصوبہ بندی تھی۔ حرف بہ حرف عمل ہوا۔
داعش اور دیگر شدت پسندگروہوں کے پس منظر میں پاکستان بھارت ایشوز کا حل ناگریز ہے۔ اسی حوالے سے بھارت پاکستان تعلقات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ چنانچہ پہلا اہم مہینہ جنوری2022ء ہے۔