سانحہ سیالکوٹ مذمتی بیان دینے والے ہی قصور وار ہیں
پریانتھاکمارا کی لاش کوتابوت میں ڈال کرسری لنکا روانہ کیا جائیگا جہاں اس کی بیوی اوربچے کوئلہ بنی یہ لاش وصول کریں گے۔
RAWALPINDI:
سانحہ موٹروے تو سب کو یاد ہوگا ، جب ایک خاتون کے ساتھ اُس کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کی گئی تھی۔ اس واقعہ نے پوری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ''پوری قوم'' لکھنا شاید یہاں مناسب نہیں کیوں کہ اس سانحے پر ہماری قوم کے ایک حصے کو ''خوشی'' بھی ہوئی تھی۔اس کی دلیل کے لیے میں ایک واقعہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔
یہ انھی دنوں کی بات ہے کہ میں ایک گراسری اسٹور پر گیا، ضرورت کی ایک دو چیزیں خریدنے کے بعد کاؤنٹر پر پہنچا تو وہاں قدرے رش تھا، اس لیے تھوڑی دیر رکنا پڑا۔ وہیں دو نوجوان سانحہ موٹروے کو ڈسکس کر رہے تھے۔ اُن کی آواز نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے سنائی دے رہی تھی۔ ساری باتیں ایک طرف مگر ایک بات کا مجھے خاصا صدمہ ہوا کہ وہ لڑکے ملزم کو داد دے رہے تھے کہ اُس نے ''صحیح ہاتھ صاف کیا ہے''اور ساتھ ہی خاتون کے بارے میں بھی ایسی باتیں کہہ رہے تھے کہ سر شرم سے جھک جائے۔ اُن کی ایسی باتوں نے یقین مانیں مجھے چونکا دیا۔
میں نے حیرانگی سے اُن کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا انھوں نے اُس خاتون کو دیکھا ہے؟ انھوں نے کہا نہیں! اورساتھ ایک اور برملا جواب بھی دے مارا کہ بھائی جان! جس مہنگی گاڑی میں وہ آئی تھی، کوئی عام خاتون نہیں ہوسکتی۔ یقین مانیں! اُن کی یہ باتیں سُن کر مجھ پر سکتہ سا ہوگیا اور میرا واپس گھر آنا مشکل ہوگیا۔
میں راستے میں بھی یہی سوچتا رہا کہ ہم بے حسی اور جہالت میں کس قدر آگے نکل چکے ہیں، بلکہ انتہا کو چھو رہے ہیں؟ اُس وقت ذہن میں سوال بھی آرہے تھے کہ ہماری بحیثیت قوم بگاڑ کا آخر ذمے دار کون ہے؟ کس نے ہمیں ذہنی طور پر کرپٹ ، بے حس، غلیظ اور لاپرواہ کر دیا ہے کہ ہماری سوچ اور کردار میں کبھی بہتری آہی نہیں سکتی۔خیر اُن دو نوجوانوں کی باتوں سے ایک بات ضرور سمجھنے اور سیکھنے کو ملی کہ ایسی سوچ اچانک نہیں آتی بلکہ دہائیوں سے ہماری قوم کو اس قدر ذہنی پسماندہ بنا دیا گیا ہے کہ اُسے علم ہی نہیں ہے کہ اُس کے لیے اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے! اور اب اس طرح کے واقعات تو روٹین لگنا شروع ہوگئے ہیں!
اب حالیہ سیالکوٹ سانحہ کو ہی دیکھ لیں، جس کے بعد پوری قوم انگشت بدنداں نظر آرہی ہے حالانکہ چند روز قبل خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں اس سے ملتا جلتا واقعہ رونما ہو چکا تھا۔ معذرت کے ساتھ مجھے اُتنا شدید دکھ شاید نہیں ہوا جتنا ہونا چاہیے تھا کیوں کہ (اللہ کرے میں غلط ہوں ) یہ نہ تو پہلا واقعہ تھا اور نہ ہی یہ آخری ہوگا۔ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔
ایک سادہ سی مثال لے لیں کہ شاید قارئین کو سمجھ آجائے کہ آخر اس ملک میں چل کیا رہا ہے۔ یعنی جب ہم دودھ کو کیتلی میں ڈال کر چولہے پر رکھتے ہیں، اورنیچے آگ جلا دیتے ہیں، تھوڑی دیر میں جب دودھ ابل کر کیتلی سے باہر آ جاتا ہے تو ہم دودھ ہی کے خلاف ایک مذمتی بیان جاری کرتے ہیں کہ دودھ نے ہمارا سر شرم سے جھکا دیا اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کیتلی کے نیچے آگ ہم نے خود جلائی تھی۔
الغرض ہم دودھ کو اپنے مقصد کے لیے اُبال لیتے ہیں لیکن جب وہ اپنی حدود سے باہر نکل آتا ہے تو پھر ہم سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہی حال ریاست کے ٹھیکیداروں کا ہے، کہ اسے ٹھیکے پر دینے والے جب اپنے استعمال کے لیے گروہ بندی تشکیل دیتے ہیں تو وہ اس کو سمیٹتے نہیں بلکہ اُسے عوام پر چھوڑ دیتے ہیں۔ تبھی تو ہمارے معاشرے میں مشال خان کی اندوہناک موت، بہاولپور میں شاگرد کے ہاتھوں استاد کا قتل، کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو بھٹی میں زندہ جلادینے کا واقعہ،خوشاب میں سیکیورٹی گارڈ کا بینک منیجر کو گولی مارنا اور پھر 2009 میں گوجرہ میں عیسائیوں کے چالیس گھر جلا دینا۔2013لاہور کی جوزف کالونی میں بھی ایک سو سے زائد مسیحیوں کے گھروں کو راکھ کا ڈھیر بنا دینا جیسے بے شمار واقعات جنم لیتے ہیں۔
خیر! یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا؟ کیا ریاستی ذمے داران کو ہوش ہے کہ ریاست میں موجود قوانین کا ڈر اُس کے باسیوں کے اندرسے آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ریاستی رٹ اتنی کمزور تو شاید میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔ یعنی یہ ہر وقت مصلحت کا شکار ہیں، انھیں علم ہی نہیں کرنا کیا ہے؟ اس وقت پوری دنیا میں پاکستان کا نام خراب ہو رہا ہے اور ہمارے ''آقا'' صرف مذمتی بیان داغ رہے ہیں۔ جیسے وزیرا عظم عمران خان نے سیالکوٹ واقعہ پر کہا،پاکستان کے لیے شرم کا دن ہے۔ عثمان بزدار نے کہا،ذمے دار عناصر انسان کہلانے کے حقدار نہیں۔ تحریک لبیک پاکستان نے کہا،ہم اس افسوس ناک واقعہ کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔طاہر اشرفی نے کہا،بطور مسلمان میں اس واقعے پر شرمندہ ہوں۔
سراج الحق نے کہا،واقعہ انتہائی قابل افسوس اور اسلام و شرفِ انسانیت کی توہین ہے۔مولانا طارق جمیل نے کہا،اسلام میں تشدد اورشدت پسندی کی کوئی جگہ نہیں۔ علامہ سید ظفراللہ شاہ نے فرمایا،ایسے پْرتشدد واقعات کسی نئی قانون سازی کے متقاضی ہیں۔سابق وفاقی وزیر پرویز رشید نے کہا ،میں اپنے ہم وطنو ںکو سمجھانے میں ناکام ہوا ہوں، سری لنکا !میں آپ کا مجرم ہوں۔فواد چوہدری نے کہا ،جب تک اگلا واقعہ نہ ہو یہ بے حسی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے کہا، غفلت پر پولیس کے خلاف کارروائی کریں گے۔وغیرہ یعنی سبھی اگلے سانحے کے ہونے کا انتظار کررہے ہیں!اور میرے خیال میں یہ سب مذمتی بیان دینے والے ہی اس سانحے کے ذمے داران ہیں، اگر یہ دل سے چاہیں، تو یہ سب آج بھی رک سکتا ہے۔
یعنی اگر سب نے بیانات پر ہی گزارا کرنا ہے تو ملک کو کس نے سنبھالنا ہے؟ اس وقت ملک بھر میں ساڑھے 9لاکھ فوج، ایک لاکھ کے قریب رینجرز، پولیس بیورو کے مطابق ملک بھر میں 4لاکھ پولیس اہلکار اور 5لاکھ کے قریب رضاکار موجود ہیں۔ اگر ان سب کے ہوتے ہوئے بھی حکومتی رٹ قائم نہیں ہوسکتی تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
میرے خیال میں حکومت کو اس چیز پر تو غور کرنا چاہیے کہ کیا ریاستیں ایسی ہوتی ہیں؟ کہ شرپسند اور دہشت گرد خود ہی ملزم ہو، خود ہی منصف بن جائے اور پھر خود ہی مدعی بھی بن جائے؟ حد ہوتی ہے ہر چیز کی؟ معذرت کے ساتھ ہم تو اس ملک کو چنگیز خان اور ہلاکو خان کے دور میں دھکیل رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکمرانوں کو بنانے والوں کے طرز عمل سے بھی لگتا ہے کہ انھیں بھی عوام سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
تبھی دنیا بھر میں ہمارے معاشرے اور پاسپورٹ کی عزت ختم ہو چکی ہے، اور پھر پریانتھا کمارا کے ساتھ ہم نے جو کچھ کیا، کیا اُس کے بعد لگتا ہے کہ ہمارے بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں پر کیا قیامت گزری ہوگی، کیا کسی کو اس بات سے غرض ہے کہ وہ کس طرح منہ چھپاتے پھر رہے ہوں گے؟ کیا وہ اس وقت یہ نہیں پوچھ رہے ہوں گے کہ خان صاحب نے تو پاسپورٹ کی عزت بڑھانے کا وعدہ کیا تھا؟ لیکن کہاں ہے عزت؟ ان واقعات کے بعد ہمارے پاسپورٹ کی عزت کیسے بڑھے گی؟
قصہ مختصر کہ پریانتھا کمارا کی لاش کو تابوت میں ڈال کر سری لنکا روانہ کر دیا جائے گا جہاں اُس کی بیوی اور بچے کوئلہ بنی یہ لاش وصول کریں گے۔ اُس کے بعد ہم بے شک اگلے سو سال تک یہ نعرے لگاتے رہیں کہ پاکستان اقلیتوں کے لیے سب سے محفوظ ملک ہے، ہم بے حد مہمان نواز قوم ہیں۔ کسی کو ہماری بات پر یقین نہیں آئے گا۔پریانتھا کمارا کی لاش ہمیں ہانٹ کرتی رہے گی!اور ہم لاکھ کہتے رہیں گے یہ قصور ہم سے نہیں ہوا۔ لیکن دنیا کہے گی کہ جس نے کیا وہ بھی تمہیں میں سے تھا۔ لہٰذامیں پھر یہی کہوں گا کہ حکومت کو بین المذہبی اور بین الثقافتی معاشرے کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے ، اور اسلام کی روسے یہ بتانے کی ضرورت کہ انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں ہوتا کہ بقول شاعر
مجھے کافر کہوگے تو تمہارا کیا بھلا ہوگا
روز محشر میرا بھی وہی خدا نکلا تو تیرا کیا ہوگا
سانحہ موٹروے تو سب کو یاد ہوگا ، جب ایک خاتون کے ساتھ اُس کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کی گئی تھی۔ اس واقعہ نے پوری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ''پوری قوم'' لکھنا شاید یہاں مناسب نہیں کیوں کہ اس سانحے پر ہماری قوم کے ایک حصے کو ''خوشی'' بھی ہوئی تھی۔اس کی دلیل کے لیے میں ایک واقعہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔
یہ انھی دنوں کی بات ہے کہ میں ایک گراسری اسٹور پر گیا، ضرورت کی ایک دو چیزیں خریدنے کے بعد کاؤنٹر پر پہنچا تو وہاں قدرے رش تھا، اس لیے تھوڑی دیر رکنا پڑا۔ وہیں دو نوجوان سانحہ موٹروے کو ڈسکس کر رہے تھے۔ اُن کی آواز نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے سنائی دے رہی تھی۔ ساری باتیں ایک طرف مگر ایک بات کا مجھے خاصا صدمہ ہوا کہ وہ لڑکے ملزم کو داد دے رہے تھے کہ اُس نے ''صحیح ہاتھ صاف کیا ہے''اور ساتھ ہی خاتون کے بارے میں بھی ایسی باتیں کہہ رہے تھے کہ سر شرم سے جھک جائے۔ اُن کی ایسی باتوں نے یقین مانیں مجھے چونکا دیا۔
میں نے حیرانگی سے اُن کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا انھوں نے اُس خاتون کو دیکھا ہے؟ انھوں نے کہا نہیں! اورساتھ ایک اور برملا جواب بھی دے مارا کہ بھائی جان! جس مہنگی گاڑی میں وہ آئی تھی، کوئی عام خاتون نہیں ہوسکتی۔ یقین مانیں! اُن کی یہ باتیں سُن کر مجھ پر سکتہ سا ہوگیا اور میرا واپس گھر آنا مشکل ہوگیا۔
میں راستے میں بھی یہی سوچتا رہا کہ ہم بے حسی اور جہالت میں کس قدر آگے نکل چکے ہیں، بلکہ انتہا کو چھو رہے ہیں؟ اُس وقت ذہن میں سوال بھی آرہے تھے کہ ہماری بحیثیت قوم بگاڑ کا آخر ذمے دار کون ہے؟ کس نے ہمیں ذہنی طور پر کرپٹ ، بے حس، غلیظ اور لاپرواہ کر دیا ہے کہ ہماری سوچ اور کردار میں کبھی بہتری آہی نہیں سکتی۔خیر اُن دو نوجوانوں کی باتوں سے ایک بات ضرور سمجھنے اور سیکھنے کو ملی کہ ایسی سوچ اچانک نہیں آتی بلکہ دہائیوں سے ہماری قوم کو اس قدر ذہنی پسماندہ بنا دیا گیا ہے کہ اُسے علم ہی نہیں ہے کہ اُس کے لیے اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے! اور اب اس طرح کے واقعات تو روٹین لگنا شروع ہوگئے ہیں!
اب حالیہ سیالکوٹ سانحہ کو ہی دیکھ لیں، جس کے بعد پوری قوم انگشت بدنداں نظر آرہی ہے حالانکہ چند روز قبل خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں اس سے ملتا جلتا واقعہ رونما ہو چکا تھا۔ معذرت کے ساتھ مجھے اُتنا شدید دکھ شاید نہیں ہوا جتنا ہونا چاہیے تھا کیوں کہ (اللہ کرے میں غلط ہوں ) یہ نہ تو پہلا واقعہ تھا اور نہ ہی یہ آخری ہوگا۔ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔
ایک سادہ سی مثال لے لیں کہ شاید قارئین کو سمجھ آجائے کہ آخر اس ملک میں چل کیا رہا ہے۔ یعنی جب ہم دودھ کو کیتلی میں ڈال کر چولہے پر رکھتے ہیں، اورنیچے آگ جلا دیتے ہیں، تھوڑی دیر میں جب دودھ ابل کر کیتلی سے باہر آ جاتا ہے تو ہم دودھ ہی کے خلاف ایک مذمتی بیان جاری کرتے ہیں کہ دودھ نے ہمارا سر شرم سے جھکا دیا اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کیتلی کے نیچے آگ ہم نے خود جلائی تھی۔
الغرض ہم دودھ کو اپنے مقصد کے لیے اُبال لیتے ہیں لیکن جب وہ اپنی حدود سے باہر نکل آتا ہے تو پھر ہم سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہی حال ریاست کے ٹھیکیداروں کا ہے، کہ اسے ٹھیکے پر دینے والے جب اپنے استعمال کے لیے گروہ بندی تشکیل دیتے ہیں تو وہ اس کو سمیٹتے نہیں بلکہ اُسے عوام پر چھوڑ دیتے ہیں۔ تبھی تو ہمارے معاشرے میں مشال خان کی اندوہناک موت، بہاولپور میں شاگرد کے ہاتھوں استاد کا قتل، کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو بھٹی میں زندہ جلادینے کا واقعہ،خوشاب میں سیکیورٹی گارڈ کا بینک منیجر کو گولی مارنا اور پھر 2009 میں گوجرہ میں عیسائیوں کے چالیس گھر جلا دینا۔2013لاہور کی جوزف کالونی میں بھی ایک سو سے زائد مسیحیوں کے گھروں کو راکھ کا ڈھیر بنا دینا جیسے بے شمار واقعات جنم لیتے ہیں۔
خیر! یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا؟ کیا ریاستی ذمے داران کو ہوش ہے کہ ریاست میں موجود قوانین کا ڈر اُس کے باسیوں کے اندرسے آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ریاستی رٹ اتنی کمزور تو شاید میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔ یعنی یہ ہر وقت مصلحت کا شکار ہیں، انھیں علم ہی نہیں کرنا کیا ہے؟ اس وقت پوری دنیا میں پاکستان کا نام خراب ہو رہا ہے اور ہمارے ''آقا'' صرف مذمتی بیان داغ رہے ہیں۔ جیسے وزیرا عظم عمران خان نے سیالکوٹ واقعہ پر کہا،پاکستان کے لیے شرم کا دن ہے۔ عثمان بزدار نے کہا،ذمے دار عناصر انسان کہلانے کے حقدار نہیں۔ تحریک لبیک پاکستان نے کہا،ہم اس افسوس ناک واقعہ کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔طاہر اشرفی نے کہا،بطور مسلمان میں اس واقعے پر شرمندہ ہوں۔
سراج الحق نے کہا،واقعہ انتہائی قابل افسوس اور اسلام و شرفِ انسانیت کی توہین ہے۔مولانا طارق جمیل نے کہا،اسلام میں تشدد اورشدت پسندی کی کوئی جگہ نہیں۔ علامہ سید ظفراللہ شاہ نے فرمایا،ایسے پْرتشدد واقعات کسی نئی قانون سازی کے متقاضی ہیں۔سابق وفاقی وزیر پرویز رشید نے کہا ،میں اپنے ہم وطنو ںکو سمجھانے میں ناکام ہوا ہوں، سری لنکا !میں آپ کا مجرم ہوں۔فواد چوہدری نے کہا ،جب تک اگلا واقعہ نہ ہو یہ بے حسی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے کہا، غفلت پر پولیس کے خلاف کارروائی کریں گے۔وغیرہ یعنی سبھی اگلے سانحے کے ہونے کا انتظار کررہے ہیں!اور میرے خیال میں یہ سب مذمتی بیان دینے والے ہی اس سانحے کے ذمے داران ہیں، اگر یہ دل سے چاہیں، تو یہ سب آج بھی رک سکتا ہے۔
یعنی اگر سب نے بیانات پر ہی گزارا کرنا ہے تو ملک کو کس نے سنبھالنا ہے؟ اس وقت ملک بھر میں ساڑھے 9لاکھ فوج، ایک لاکھ کے قریب رینجرز، پولیس بیورو کے مطابق ملک بھر میں 4لاکھ پولیس اہلکار اور 5لاکھ کے قریب رضاکار موجود ہیں۔ اگر ان سب کے ہوتے ہوئے بھی حکومتی رٹ قائم نہیں ہوسکتی تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
میرے خیال میں حکومت کو اس چیز پر تو غور کرنا چاہیے کہ کیا ریاستیں ایسی ہوتی ہیں؟ کہ شرپسند اور دہشت گرد خود ہی ملزم ہو، خود ہی منصف بن جائے اور پھر خود ہی مدعی بھی بن جائے؟ حد ہوتی ہے ہر چیز کی؟ معذرت کے ساتھ ہم تو اس ملک کو چنگیز خان اور ہلاکو خان کے دور میں دھکیل رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکمرانوں کو بنانے والوں کے طرز عمل سے بھی لگتا ہے کہ انھیں بھی عوام سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
تبھی دنیا بھر میں ہمارے معاشرے اور پاسپورٹ کی عزت ختم ہو چکی ہے، اور پھر پریانتھا کمارا کے ساتھ ہم نے جو کچھ کیا، کیا اُس کے بعد لگتا ہے کہ ہمارے بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں پر کیا قیامت گزری ہوگی، کیا کسی کو اس بات سے غرض ہے کہ وہ کس طرح منہ چھپاتے پھر رہے ہوں گے؟ کیا وہ اس وقت یہ نہیں پوچھ رہے ہوں گے کہ خان صاحب نے تو پاسپورٹ کی عزت بڑھانے کا وعدہ کیا تھا؟ لیکن کہاں ہے عزت؟ ان واقعات کے بعد ہمارے پاسپورٹ کی عزت کیسے بڑھے گی؟
قصہ مختصر کہ پریانتھا کمارا کی لاش کو تابوت میں ڈال کر سری لنکا روانہ کر دیا جائے گا جہاں اُس کی بیوی اور بچے کوئلہ بنی یہ لاش وصول کریں گے۔ اُس کے بعد ہم بے شک اگلے سو سال تک یہ نعرے لگاتے رہیں کہ پاکستان اقلیتوں کے لیے سب سے محفوظ ملک ہے، ہم بے حد مہمان نواز قوم ہیں۔ کسی کو ہماری بات پر یقین نہیں آئے گا۔پریانتھا کمارا کی لاش ہمیں ہانٹ کرتی رہے گی!اور ہم لاکھ کہتے رہیں گے یہ قصور ہم سے نہیں ہوا۔ لیکن دنیا کہے گی کہ جس نے کیا وہ بھی تمہیں میں سے تھا۔ لہٰذامیں پھر یہی کہوں گا کہ حکومت کو بین المذہبی اور بین الثقافتی معاشرے کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے ، اور اسلام کی روسے یہ بتانے کی ضرورت کہ انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں ہوتا کہ بقول شاعر
مجھے کافر کہوگے تو تمہارا کیا بھلا ہوگا
روز محشر میرا بھی وہی خدا نکلا تو تیرا کیا ہوگا