پیارے اسامہ دربارالٰہی میں التجا کرنا

پرانے زخم کچھ کم نہیں تھے کہ دسمبر کا مہینہ اس بار نئے زخم لگانے کے لیے آپہنچاہے

zulfiqarcheema55@gmail.com

LONDON:
پرانے زخم کچھ کم نہیں تھے کہ دسمبر کا مہینہ اس بار نئے زخم لگانے کے لیے آپہنچاہے۔ اس بار شہر اقبال میں ایسا بہیمانہ واقعہ ہوا کہ جس نے نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کے سر شرم سے جھکادیے ہیں۔ اِس ملک کو اتنا خطرہ بیرونی دشمنوں سے نہیں جتنا جہالت اور جنونیت سے ہے۔ کاش آستین کے سانپ پالنے والے اب بھی اپنی غلطیوں کا ادراک کرلیں۔

اسی مہینے میں ہم نے پشاور میں پھول جیسے بچوں کے جنازے اٹھائے تھے اور اسی مہینے کی 16تاریخ کو جسدملت کا ایک بازو کاٹ کر اسے دولخت کردیا گیا۔ جسم کا حصہ کٹنے سے جو گھاؤ لگا تھا وہ قیامت تک نہیں بھرسکے گا۔

اور پھر اسی مہینے میں ہمارے جگرکا ٹکڑا ہم سے کٹ گیا۔ ہمارا پیارا اسامہ ہم سے جدا ہوکر ایسا زخم لگا گیا جو کبھی مندمل نہیں ہوسکے گا۔ اسامہ احمد وڑائچ ڈپٹی کمشنر چترال تھا جو صرف تیس سال کی عمر میں پوری سول سروس کے لیے رول ماڈل بن گیا، خوبرو، ملنسار، خوش اطوار، ہر شخص کے کام آنیوالا،ہر کولیگ کا پسندیدہ، ہر سروس گروپ میں بے حد مقبول اور اہلیان چترال کا محسن اور ہیرو۔ 6دسمبر2016کی رات کو میں ڈیرہ اسمعیل خان میں تھا۔

پولیس ریسٹ ہاؤس میں کمشنر اور ڈی آئی جی کے ساتھ عشائیے کے بعد گپ شپ کے دوران کئی بار اسامہ کا ذکر ہوا اور تمام افسروں نے اس کی غیر معمولی صلاحیتوں اور عوامی خدمت کے جذبے کی بے حد تعریف کی۔ دوسرے روز وہاں ہنرمندی کے مقابلے منعقد ہوئے، ہم نے جیتنے والوں میں انعامات تقسیم کیے اور ظہرانے کے بعد میں اور دار علی خٹک (ڈی آئی جی) اسلام آباد کے لیے روانہ ہوگئے۔ میانوالی شہر سے نکل آئے تو میرے فون کی گھنٹی بجی، اسلام آباد سے میری باجی اور اسامہ کی امی کا فون تھا، میں نے یہ سوچ کر بڑی خوشی سے آن کیا کہ میں انھیں ڈیرہ اسمعیل خان کے دورے کی روداد سناؤں گا اور یہ بھی بتاؤنگا کہ وہاں بھی لوگوں نے اسامہ کا ذکر کتنے اچھے لفظوں میں کیا تھامگر ان کی کال تو بجلی کا جھٹکا تھا جس نے جسم سے جان کھینچ لی۔

انھوں نے بتایا کہ اسامہ ( اپنی اہلیہ آمنہ اور ایک سال کی بیٹی ماہ رخ کے ساتھ) چترال سے پی آئی اے کے جہاز کے ذریعے اسلام آباد آرہا تھا ، مگر جہاز اسلام آباد نہیں پہنچ سکا۔ میں نے اسلام آباد میں اپنے اسٹاف افسر فرید سلطان کوفون کیا کہ لاپتہ طیارے کے بارے میں فوری طور پر ایئرپورٹ حکام سے پوچھ کر بتاؤ۔ اس کے بعد اپنے پی اے ذوالفقار کو بھی فون کرکے یہی کہا اور ساتھ ہی مالک کائنات سے اسامہ کی خیریت کے لیے دعائیں مانگنا شروع کردیں، تھوڑی دیر بعد میرے فون پر پھر گھنٹی بجی ، میں دعائیں مانگنے لگا کہ اللہ کرے یہ فرید کی کال ہو اور وہ یہ کہہ دے کہ جہاز بخیریت اسلام آباد اتر گیا ہے۔ شاید ذوالفقار ہی یہ خوشخبری سنادے کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے جہاز واپس چترال چلا گیا تھا اور تمام مسافر خیریت سے ہیں۔ دعائیں کرتے ہوئے میں نے فون آن کیا ۔

پھرباجی کی کال تھی، میں نے انھیں حوصلہ دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ''دعا کریں انشااللہ تھوڑی دیر میں خیریت کی خبر مل جائے گی، آپ فکر مند نہ ہوں'' مگر اسامہ کی اَمی نے جب یہ کہاکہ نہیں دعاؤں کا وقت گزر گیا ہے تو میں خود لرز گیا، مگر باجی کو حوصلہ دینے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ قدرت اپنے خاص کمیونیکیشن سسٹم کے ذریعے ماؤں کو اپنے بچوں کے بارے میں باخبر کردیتی ہے، جب اسامہ کی امّی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ کہیں سے کچھ پتہ چلا ہے؟ کوئی اطلاع ملی ہے؟ تو میری امیدیںبھی دم توڑنے لگیں، یوں محسوس ہونے لگا کہ دست اجل ہمارے اسامہ کو ہم سے چھین رہا ہے اور وہ ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔

اب میں قادرمطلق سے معجزے کی دعائیں مانگنے لگا کہ ''اے زمین و آسمان کے مالک! کوئی معجزہ دکھادے اور کسی طریقے سے ہمارے اسامہ کو بچالے''۔ تھوڑی دیر بعد میرے اسٹاف نے جہاز کریش ہونے کی جان لیوا خبر سنادی تو یوں لگا کہ میرا دل بھی طیارے کے ساتھ ہی گر کر پھٹ گیا ہے۔ میرے منہ سے غم اور حسرت میں ڈوبے ہوئے الفاظ نکلے،''کیا اب میں اپنے اسامہ کو کبھی نہیں مل سکوں گا۔ اب میں اسامہ کو کبھی نہیں دیکھ پاؤنگا''۔ پھر سوچا میری بہن پر بجلی گر پڑی ہے، ان پر صدمے کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے اور میں اس سے میلوں دور ہوں، یااللہ میری بہن کا کیا حال ہوگا۔ کاش ہمارے والدین زندہ ہوتے تو میری باجی ان کے گلے لگ سکتیں اور وہ اپنی بیٹی کو سہارا دیتے۔ کاش یہ فاصلہ ایک پل میں ختم ہوجائے اور میں فوراً اپنی بہن کے پاس پہنچ کر انھیں گلے لگا سکوں۔


انسان اپنے آپ کو بڑا بااختیار سمجھتا ہے مگر ایک پل میں وہ کس قدر بے بس ہوجاتا ہے ۔ میں نے بے بسی کی حالت میں ہر تنکے سے مدد لینے کی کوشش کی، ڈی آئی جی ایبٹ آباد کو اس امید پر فون کیا کہ شاید وہ کہہ دے کہ کچھ مسافر بچالیے گئے ہیں۔ جب اس نے ایسی کوئی امید نہ دلائی تو میں نے پھر بھی اصرار کیا کہ ''حویلیاں کے ڈی ایس پی کو بھیجیں کہ وہ جاکر پھر سارے علاقے کی سرچ کرے، کچھ مسافر بچ بھی تو سکتے ہیں۔ میں نے خود ایسے واقعات پڑھے ہیں، شاہد ہمارا اسامہ بچ گیا ہو۔

دیکھیں اللہ تعالیٰ معجزے دکھانے کی بھی پوری قدرت رکھتا ہے، شاید اسامہ کے ساتھ آمنہ اور ان کی ننھی پری کسی ایسے ہی معجزے کے نتیجے میں زندہ ہوں''۔ میں نے سارا سفر تنکوں کے سہارے کاٹا۔ ہر طرف سے مایوس کن خبریں سنکر بھی میں کسی معجزے کے انتظار میں رہا، اسامہ نے اس روز شام کو اپنے گھر ایف ٹین پہنچنا تھا، جہاں اس کی امی نے اس کی پسندیدہ کھیر بنارکھی تھی۔ میں رات کواس گھر کے قریب پہنچا تو گاڑیوں کا ہجوم دیکھ کر میری ساری امیدیں ٹوٹ گئیں۔ تیزی سے اندر گیا تو خواتین میں گھری اپنی غمزدہ اور بے بس بہن کو دیکھ کر آنکھوں اور دل کے سارے بند ٹوٹ گئے۔

صدمے سے بے حال بہن بھائی سے ملی تودر و دیوارہل گئے اور خاموش فضاء میں کہرام مچ گیا۔ مجھے یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ رب ذوالجلال نے اتنے بڑے جان لیوا صدمے میں ہماری باجی کا ذہنی توازن قائم رکھا ہے، یہ بھی اللہ تعا لیٰ کا خاص کرم تھا اور یہ ان کے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی بے پایاں رحمتوں پر پختہ یقین اور ایمان سے ہی ممکن ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوںنامور اسکالر ڈاکٹر عامرہ احسان صاحبہ اور سلمیٰ یاسین صاحبہ پر جو فوراً پہنچ گئیں اور باجی کے زخم پر اللہ اور رسول اللہؐ کی روح پرور باتوں کے مرہم رکھتی رہیں۔

اسامہ کے والد ڈاکٹر فیض احمد صاحب اس قیامت خیز صدمے سے نڈھال ہونے کے باوجود لوگوں سے حوصلے کے ساتھ ملتے رہے، اسامہ کا بڑا بھائی سعد احمد (جو فارن سروس میں ہے) نیویارک میں تھا اور بہن ملیحہ بھی امریکا میں تھی۔ کچھ دیر بعد اسامہ کے سسر برادرم طارق نجمی صاحب (سیکریٹری تو پریذیڈنٹ) اور ان کی فیملی بھی پہنچ گئی، ان کی حالت بھی ہم سے مختلف نہیں تھی۔ ابھی تو اسامہ کی شادی کی باتیں تروتازہ تھیں کہ اس کے جنازے کی باتیں ہونے لگیں۔

کچھ عرصہ پہلے جو دوست اس کے ولیمے پر قہقہے لگارہے تھے اب روتے ہوئے ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ یہ کوئی عمر تھی اسامہ کے جنازے کی۔ مگر مالک کائنات کی اپنی ترتیب ہے اور اس کی حکمتیں انسانی ادراک سے ماورا ہیں۔ قبرستان میں بہت بڑا ہجوم امڈ آیا تھا، خیبر پختونخواہ کے سول اور ملٹری حکام اسامہ کے ابو جان کے سامنے اپنے شہید ڈپٹی کمشنر کے اوصاف بیان کرتے رہے ۔ اسوقت بھی اور آج بھی سب یہی کہتے ہیں کہ اسامہ تو چیف سیکریٹری میٹریل تھا۔

میرے پیارے اسامہ! کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب تم یاد نہیں آتے، میں پچھلے دنوں ایبٹ آباد گیا تو ابوبکر اور علی نے ڈی آئی جی ہاؤس جانے پر اصرار کیا، جہاں وہ کئی سال پہلے آئے تھے۔ وہ ڈی آئی جی ہاؤس کے لان میں بیٹھے رہے اور میری نظریں اس سے جڑے اے سی ہاؤس پر رہیں جہاں میں تمہارے پاس کئی بار آیا تھا۔ ایف سکس کے پرانے گھر کے پاس سے گزروں تو تم یاد آتے ہو، ایف ٹین جاؤں تو تم ساتھ ہوتے ہو۔ یاد کیاتم تو ہم سے جدا ہی نہیں ہوئے، تم ہمارے دلوں میں، ہماری یادوں میں، ہمارے دنوں میں اور ہماری راتوں میں تم ہی بستے ہو۔ دسمبر 2000میں جب تم سے مخاطب ہوکر میں نے چند لائنیں لکھی تھیں تو آنکھوں سے اتنا پانی نکلا تھا کہ بہت سے کاغذ گیلے ہوگئے تھے، آج جب تم سے مخاطب ہوں تو اس وقت سے بھی زیادہ کاغذ گیلے ہوگئے ہیں۔

ہمارے بے حد پیارے اسامہ! آپ میرے شاگرد بھی تھے اور دوست بھی، مجھ سے اندر کی باتیں بھی پوچھا کرتے تھے تو اندر کی بات تو یہ ہے کہ تمہاری امی تمہاری جدائی سے ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔اب نہ انھیں اچھا کھانے کا ہوش ہے نہ پہننے کا شوق۔ ہر وقت بے چین اور بے قرار رہتی ہیں اور تمہاری تلاش میں ہی رہتی ہیں۔

پارک میں بھی جاتی ہیں تو تمہارا پیچھا کرنے، چھت پر جاتی ہیں تو بھی تمہیں ڈھونڈنے کہ شاید تم وہاں نظر آجاؤ۔ کہنے کو تو وہ سعد اور ملیحہ کے پاس رہنے کے لیے امریکا جاتی ہیں مگر وہاں بھی وہ تمہاری تلاش میں ہی جاتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ شہادت اور مخلوق خدا کی بے پناہ خدمت کے صلے میں تمہاری دربار الٰہی تک ضرور رسائی ہوگی، تو وہاں یہ التجا کر ناکہ اے موت و حیات کے خالق! اگر مائیں تخلیق کی ہیں تو موت کو، ان کے جوان بیٹے چھیننے سے منع فرمادیں، یہ ماؤںکی برداشت سے باہر ہے۔
Load Next Story