بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

موجودہ اتحاد جو نواز شریف اور زرداری میں ہوا ہے کیا یہ اس صورت حال میں سود مند بھی ہو گا یا نہیں...

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری اور میرا کردار مشعل راہ ہونا چاہیے۔ سیاسی قیادت متحد ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کو ہمارا مل بیٹھنا اچھا نہ لگے۔ سابق صدر زرداری نے کہا کہ اب ہمیں نواز شریف کی قیادت میں ملک کی ترقی کے لیے کام کرنا ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار سندھ میں تھر کے مقام پر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کا مشترکہ طور پر سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا گیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا اگر ہم نے سیاسی یکجہتی کا مظاہرہ کیا تو 20 سال کے مسائل 5سال میں حل ہو سکتے ہیں۔ اس منصوبے پر پونے دو سو ارب روپے لاگت آئے گی اور یہ 2017ء میں مکمل ہو گا۔ اس منصوبے کا مشترکہ طور پر سنگ بنیاد رکھا گیاہے۔ اگر پچھلے تیس سال کی ان دونوں پارٹیوں کی تاریخ کو مد نظر رکھا جائے تو یہ بات ناقابل یقین اور حیرت انگیز لگتی ہے۔ اس پر یہ کہنا بہت موزوں ہو گا کہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے ماضی قریب تک ان دونوں پارٹیوں کی محاذ آرائی دیکھی ہے انھیں سمجھ نہیں آئیگی کہ یہ سب کایا پلٹ کس طرح ہو گئی۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے جس دوراہے پر کھڑا ہے۔ یہ سب اس کا کرشمہ ہے۔ اس موقع پر کہا گیا کہ تھرکول منصوبہ پاکستان کے لیے سونے کی کان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے درمیان ہیلی کاپٹر میں ون آن ون ملاقات بھی ہوئی۔ ہیلی کاپٹر میں ہونے والی اس گفتگو میں دونوں رہنمائوں نے مذاکرات کے حوالے سے حکمت عملی پر بھی بات کی۔

وزیر اعظم نواز شریف نے اس بات کی درست نشاندہی کی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے مخالفین کو ہمارا مل بیٹھنا اچھا نہ لگے۔ یہ پاکستان کے ان دونوں بڑے لیڈروں کی بالغ نظری ہے کہ وہ متحدہ ہو گئے ہیں۔ اگر یہ سوچ بہت پہلے پیدا ہو جاتی تو پاکستان ترقی کی بہت سی منزلیں طے کر چکا ہوتا۔ اس اتحاد پر وہ قوتیں بہت مایوس ہوئی ہوں گی جو جمہوری قوتوں کو آپس میں لڑا کر رکھتی تھیں۔ لیکن انھیں بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ بھی ایک وقت تھا جب جمہوری قوتیں آپس میں لڑ کر غیر جمہوری قوتوں کی آمد ممکن بناتی تھیں۔ اب وہ وقت گزر چکا۔ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ دیر آید درست آید۔ اے کاش کہ آج سے چند عشرے پہلے یہ سوچ عمل پذیر ہوتی تو ہمارا ملک آج دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا۔ بظاہر سیاسی قوتوں کی مضبوطی کا یہ بھی ثبوت ہے کہ آج وہ نادیدہ قوتوں سے بے نیاز ہو کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام رہی ہیں۔ اس موقع پر جب کہ پاکستانی حکومت طالبان سے مذاکرات کر رہی ہے، یہ پیغام جانا بہت ضروری تھا کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کی ٹائمنگ بہت قابل غور ہے۔ پہلا یہ کہ اگر جمہوریت کو خطرات لاحق ہوتے ہیں جو کہ ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں تو دونوں پارٹیاں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جمہوریت کی حفاظت کریں گی۔


دوسرا طالبان سے مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں یہ اتحاد انتہائی غیر معمولی اہمیت اختیار کر جائے گا جب کہ امکان ہے کہ دوسری طرف عمران خان اور مذہبی جماعتیں کھڑی ہوں گی۔ پرویز مشرف پر مقدمہ قائم کرنا اور اس کو چلاتے رہنا بھی نواز شریف اور آصف علی زرداری کے اتحاد سے ہی ممکن ہوا۔ دوسری صورت میں شاید یہ نا ممکن ہوتا۔ پھر سابق صدر آصف علی زرداری کی بھی یہ بات یاد آتی ہے جو انھوں نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں کہی کہ ہم نے جان بوجھ کر13ء کے انتخابات میں بھرپور دلچسپی نہیں لی کیونکہ ابھی ایک بہت بڑے طوفان نے گزرنا ہے۔ ہم چاہتے تھے کہ اس طوفان کے گزرنے کے وقت ہم موجود نہ ہوں۔ اب یہ طوفان واقعی سر پر آن کھڑا ہے۔ دونوں جماعتوں کے اتحاد کے حوالے سے یہ انہونی ہمیں کیا بتاتی ہے۔ یہی کہ پاکستان اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے اندرون ملک سرحدوں پر اور خطے کے حوالے سے اس کا مقابلہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی قیادت میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی عرب بہار خزاں میں بدل گئی ہے۔ مصر اسی تجربے کی ناکامی کے بعد فوجی کنٹرول میں چلا گیا ہے۔ عراق اور شام کے ایک حصے پر باغیوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔

یوں دیکھا جائے تو پاکستان بھی غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے' وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور سابق صدر زرداری صورت حال کی سنگینی سے آگاہ ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہ درست سمت میں سیاسی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں' یہی وقت کا تقاضا ہے۔ جمہوری حکومت کو کسی ایڈونچر سے بچنا چاہیے۔ ہمیں آخری نتیجے پر نظر رکھنی چاہیے کہ اس پالیسی کا فائدہ کسے ہو گا اور نقصان کس کے کھاتے میں جائے گا۔اس دفعہ اگر جمہوریت کا بستر لپٹ گیا تو اس کی دوبارہ نوبت شاید ایک طویل مدت تک نہ آئے۔ موجودہ اتحاد جو نواز شریف اور زرداری میں ہوا ہے کیا یہ اس صورت حال میں سود مند بھی ہو گا یا نہیں۔ اگر کوئی غیر معمولی صورتحال خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک آمریتوں کا دور پھر سے شروع ہونے والا ہے۔ اگر احتیاط نہ کی گئی تو اس کی بڑی ذمے داری قوتوں پر ہی عائد ہو گی جو صورت حال کا درست ادراک نہ کر سکیں ۔مسلم دنیا میں انتشار کے حوالے سے ہمیں ایک جانب امریکا نظر آتا ہے تو دوسری طرف مسلم دنیا کی اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہے۔ جب بھی امریکا اور اسٹیلشمنٹ بحران میں پھنستی ہیں تو یہ ان کی چہیتی قوتیں فائدہ بھی اپنے تخلیق کاروں کو ہی پہنچاتی ہیں۔ ملک کی جمہوری قوتوں کو بڑی فہم و فراست سے آگے بڑھنا ہو گا' میاں نواز شریف ' آصف علی زرداری اور ملک کی دیگر جمہوری قوتوں کو عرب بہار کے بطن سے پیدا ہونے والے نتائج پر گہری نظر رکھنی ہو گی' اگر کہیں غلطی ہوئی تو اس کا نتیجہ طویل آمریت کی شکل میں نکل سکتا ہے۔
Load Next Story