قابل فخر تہذیب کے علمبردار…
وادیٔ سندھ کی عظیم دراوڑی تہذیب کا ایک پہلو جس نے روز اول سے محققین کو متحیر کیے رکھا ہے...
اس دنیا میں موجود ایسی چند تہذیبوں میں سے ایک تہذیب وادیٔ سندھ کی تہذیب بھی ہے، اس تہذیب کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ماہرین آثار قدیمہ نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد چار وادیوں کو انسانی تہذیب کے پالنوں کا نام دیا ہے، جن میں بیٹھ کر نسل انسانی نے تہذیب وتمدن کے پہلے ہلکورے لیے۔ ان چار پالنوں میں ایک یوفریٹس اور ٹائگریس (دریائے دجلہ و فرات) کی وادی میسو پوٹیما، دوسری مصر میں دریائے نیل کی وادی، تیسری چین میں ہوئنگ ہو اور یانگٹیسکانگ کی وادی اور چوتھی سندھ میں دریائے سندھ کی وادی ہیں۔ یہ وہ وادیاں ہیں جہاں سے انسانوں نے ہزاروں سال پہلے اس سفر کا آغاز کیا جو آج بھی جاری ہے۔ اس زمانے میں وادیٔ سندھ کے معاشی، معاشرتی اور تجارتی تعلقات اپنی ہم عصر تہذیبوں یعنی مصری اور سومیری تہذیبوں سے استوار تھے، موئن جودڑو اور ہڑپا اس تہذیب کے دارالحکومت تھے لیکن آثاروں میں دریافت ہونیوالے گھروں، گلیوں، محلوں وغیرہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس تہذیب کا اصل مرکز موئن جو دڑو ہی تھا، کیونکہ موئن جودڑو کی ٹائون پلاننگ، نکاسی و فراہمی آب کا نظام اور گھر و گلیاں ہڑپہ سے بدرجہا بہتر ہیں۔
موئن جودڑو سے برآمد ہونیوالے ڈھانچے آریائوں کے نہیں کیونکہ ان میں وہ اوصاف موجود نہیں ہیں جو آریائوں کے تھے۔ انسانی ڈھانچوں پر تحقیق کے بعد محقق حضرات اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موئن جو دڑو میں رہنے والوں کے سر بڑے، بال گھنگھریالے، قد چھوٹا، نتھنے چوڑے اور رنگ سیاہی مائل تھا، یہ خصوصیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ اس زمانے میں وادیٔ سندھ پر راج کرنیوالے اور موئن جو دڑو کو آباد کرنیوالے آریائی نہیں بلکہ دراوڑ نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ ان دراوڑوں کو بعد میں آریائوں نے وادیٔ سندھ سے نکالا اور وہ آریائوں کے آگے آگے بھاگتے ہندوستان کی حدود میں پہنچ گئے۔
دراوڑوں کے زمانے میں وادیٔ سندھ کی تہذیب دنیا کی سب سے بڑی تہذیبی وحدت تھی، اس کا رقبہ اپنی تمام ہم عصر تہذیبوں سے بڑا تھا، پاکستان کے ممتاز محقق و تاریخ دان سبط حسن اپنی کتاب ''پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء'' میں لکھتے ہیں کہ یہ تہذیب دنیا کی سب سے بڑی تہذیب تھی کیونکہ اس کا دائرہ ہم عصر مصری، سومیری اور ایرانی تہذیبوں سے کہیں زیادہ وسیع تھا۔ سندھی دراوڑوں کا شمار دنیا کی ان گنتی کی چند اقوام میں ہوتا ہے جو اس وقت اپنی شہری زندگی کی تنظیم کو عروج پر پہنچ چکی تھیں جب دوسری اقوام غاروں میں یا قبیلوں کی شکل میں خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ وادیٔ سندھ میں رہنے والے دراوڑ اس زمانے میں بھی نہ صرف مہذب، بلکہ متمدن بھی تھے کیونکہ تہذیب معاشرے کی اجتماعی تخلیقات اور اقدار کو کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے وادیٔ سندھ دنیا کی ان چند ہی اولین درسگاہوں میں سے ایک ہے، جہاں سے عالم انسانیت کو تمدن کا درس ملا۔
موئن جو دڑوکو اگر کسی اونچائی سے دیکھا جائے تو یہ شہر دو حصوں میں منقسم ہے، اس کا ایک حصہ جو Upper City شہر کہلاتا ہے ایک طرح کا ایڈمنسٹریشن بلاک ہے، اس میں اسٹوپا، بڑا تالاب، ایک جامعہ اور ستونوں والے ہال کی باقیات موجود ہیں، اس کا دوسرا حصہ نچلا شہر یا زیریں شہر کہلاتا ہے۔ یہ رہائشی اور کاروباری علاقہ ہے، یہاں رہائشی مکان، دکان، شراب خانے اور گودام وغیرہ ہیں، زیریں شہر کی پلاننگ بے نظیر نوعیت کی ہے۔ سرجان مارشل نے اس منصوبہ بندی کو دیکھ کر حیرت زدہ لہجے میں کہا تھا ''میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہاں کے لوگ اس وقت بھی اتنے ترقی یافتہ تھے کہ انھوں نے اس شہر کو آباد کرلیا، مجھے تو اس شہر کی فرسٹ اسٹریٹ اور ایسٹ اسٹریٹ کے مقام اتصال کو دیکھ کر موجودہ لندن میں واقع آکسفورڈ سرکس کا چوراہا یاد آتا ہے۔ ''
اس بات کا فخر بھی سندھ ہی کے باشندوں کو حاصل ہے کہ دنیا بھر میں نکاسی آب کا پہلا مربوط نظام ان کی سرزمین پر بنا اور اس سلسلے میں دنیا کی کوئی بھی ہم عصر تہذیب موئن جودڑو کی ہم عصری نہیں کرسکتی۔
وادیٔ سندھ کا ایک اور احسان جو باقی دنیا پر قیامت تک رہے گا، کپاس کی کاشت اور اس کے ریشے سے دھاگا بنانے کے بعد کپڑا بننے کے فن کی ایجاد ہے۔ کپاس کے ریشے سے بنا جانے والا کپڑا، انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتا ہے، اس کی ستر پوش کرتا ہے، اسے سردی گرمی سے بچاتا ہے، کبھی دستار بن کر آدمی کی عزت افزائی کرتا ہے تو کبھی آنچل بن کر حیائی علامت بن جاتا ہے، حتیٰ کہ مرنے کے بعد کفن بن کر قبر میں بھی ساتھ جاتا ہے۔ یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جس وقت دوسری اقوام کھالوں سے اپنی ستر پوشی کرتی تھیں اس وقت وادیٔ سندھ کے زرخیز کھیتوں میں کپاس کے اجلے اجلے سفید پھول ستاروں کی طرح جگمگایا کرتے تھے، جس وقت دوسری اقوام کے افراد درختوں کی چھال میں پتے پروکر کمر سے باندھتے تھے، اس وقت موئن جو دڑو کے ہر ایک آنگن سے چرخوں اور تکلوں کے پہیے گھومنے کی آوازیں آتی تھیں۔ کپاس کے بیج یا کپاس کے ریشے سے بنائی جانیوالی ہر چیز کے کاروبار پر سندھیوں کی اجارہ داری تھی اور پوری دنیا کو سوتی ملبوسات، کپاس، کپاس کے بیچ یا سوتی دھاگا فقط سندھ سے سپلائی کیا جاتا تھا۔ میسو پوٹیما کی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ سیمر میں اُرکے تیسرے گھرانے کے تخت کے دور میں (جس کا عرصہ 2100سے 2000ق ۔ م کے لگ بھگ کہا جاتا ہے) کھالوں اور پٹ سن سے تیار کردہ لباس پہنے جاتے تھے۔ کپاس سے تیار کردہ پیراہن کی نرمی اور لطافت دیکھ کر میسو پوٹیما کے باسیوں نے وادیٔ سندھ کے رہنے والوں سے، اس جنس کے بیج فراہم کرنے کی استدعا کی تھی، وادیٔ سندھ کے باشندوں نے فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے انھیں یہ بیج فراہم کردیے۔
وادیٔ سندھ کی عظیم دراوڑی تہذیب کا ایک پہلو جس نے روز اول سے محققین کو متحیر کیے رکھا ہے وہ ان کی انتہا درجے کی امن پسندی ہے، ہڑپا ہو یا موئن جو دڑو، کاہو جو دڑو ہو یا جھکر جو دڑو، غرض کہ وادیٔ سندھ میں دراوڑی تہذیب کے جتنے بھی شہر دریافت ہوئے ہیں، ان سب کی باقیات سے کسی بھی قسم کے آلات حرب و ضرب برآمد نہیں ہوئے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سندھ کی یہ عظیم و پرشکوہ تہذیب پورے ایک ہزار برس تک بڑی شان و شوکت اور آن بان سے زندہ رہی۔ پھر کچھ معاملہ ایسا ہوا، جس کی وجہ سے اس شہر بے پناہ کی رونقیں اور پرہجوم بازار، ایک بھولا بسرا خواب بن کر رہ گئے اور سندھ میں دراوڑوں کے دور کا خاتمہ ہوا۔ اس عظیم دور کے خاتمے کے مختلف عوامل بیان کیے جاتے ہیں ان میں بارش کی سالانہ اوسط کی کمی، دریائے سندھ کا رخ بدلنا وغیرہ شامل ہیں، لیکن جس چیز نے دراوڑوں اور موئن جو دڑو کی تباہی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی وہ آریائوں کے حملے تھے۔
دوسری جانب روایتوں کے مطابق موئن جو دڑو شہر عذاب خداوندی کا شکار ہوا اور پورا شہر ایک نہیں بلکہ کئی بار الٹا گیا۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے اس سلسلے میں تاریخ خاموش ہے۔
وادیٔ سندھ کی خاک مشک میں قدرت نے کچھ ایسی تاثیر رکھ دی ہے کہ یہ خاک گم ناموں کو نام وری اور فانیوں کو ابدی شہرت بخش دیتی ہے۔ اس خاک نے ذروں کو آفتاب، جنگلیوں کو مہذب بلکہ متمدن اور خانہ بدوشوں کو عظیم سلطنتوں کا وارث بنایا ہے، یہ اس خاک کا اثر ہے کہ جب نگر نگر میں کسی خزاں رسیدہ پتے کی طرح، حالتوں کی ہوائوں کے رخ پر آوارہ بھٹکنے والے آریائی اس خطہ ارض میں سکونت پذیر ہوئے تو ایسی عظیم سلطنتوں کے موجد ٹھہرے جن کے نام تاریخ کے افق پر چودھویں کے چاند کی مانند جگمگاتے رہیں گے۔
موئن جو دڑو کے قدیمی آثار وادیٔ سندھ کے لیے کسی گوہر نایاب سے کم نہیں، ان کی حفاظت وادیٔ سندھ کے باشندوں اور حکومت کا فرض ہے مگر ہم نے دیکھا کہ پچھلے دنوں سندھ کی ثقافت کو اجاگر کرنے کی خواہش لے کر موئن جو دڑو پر منعقد ہونیوالے سندھ فیسٹیول سے ایک جانب قدیمی آثاروں اور خستہ حال دیواروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے تو دوسری جانب فیسٹیول میں سندھی ثقافت کے بجائے ایک ایسا نیا کلچر متعارف کرایا گیا جو کہ نہ مغرب کا ہے اور نہ ہی مشرق کا ہے۔ جس سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں کوئی مثبت پیغام نہیں گیا اور نہ ہی ثقافت کی خدمت ہوئی بلکہ یہ سمجھ ہی نہیں آسکا کہ وہ نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فیسٹیول پر رقم کے ضیاع کے بجائے سندھ کے نامور دانشوروں، محققوں کی خدمات حاصل کرکے موئن جو دڑو کے نوادرات پر لکھی ہوئی زبان جاننے کے لیے کام کیا جاتا اور انھیں آثار قدیمہ کے متعلق مزید تحقیقات کے لیے ماحول اور وسائل فراہم کیے جاتے تاکہ آثار کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس و موثر منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ تحقیقات میں مزید پیش رفت ہوتی۔
موئن جودڑو سے برآمد ہونیوالے ڈھانچے آریائوں کے نہیں کیونکہ ان میں وہ اوصاف موجود نہیں ہیں جو آریائوں کے تھے۔ انسانی ڈھانچوں پر تحقیق کے بعد محقق حضرات اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موئن جو دڑو میں رہنے والوں کے سر بڑے، بال گھنگھریالے، قد چھوٹا، نتھنے چوڑے اور رنگ سیاہی مائل تھا، یہ خصوصیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ اس زمانے میں وادیٔ سندھ پر راج کرنیوالے اور موئن جو دڑو کو آباد کرنیوالے آریائی نہیں بلکہ دراوڑ نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ ان دراوڑوں کو بعد میں آریائوں نے وادیٔ سندھ سے نکالا اور وہ آریائوں کے آگے آگے بھاگتے ہندوستان کی حدود میں پہنچ گئے۔
دراوڑوں کے زمانے میں وادیٔ سندھ کی تہذیب دنیا کی سب سے بڑی تہذیبی وحدت تھی، اس کا رقبہ اپنی تمام ہم عصر تہذیبوں سے بڑا تھا، پاکستان کے ممتاز محقق و تاریخ دان سبط حسن اپنی کتاب ''پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء'' میں لکھتے ہیں کہ یہ تہذیب دنیا کی سب سے بڑی تہذیب تھی کیونکہ اس کا دائرہ ہم عصر مصری، سومیری اور ایرانی تہذیبوں سے کہیں زیادہ وسیع تھا۔ سندھی دراوڑوں کا شمار دنیا کی ان گنتی کی چند اقوام میں ہوتا ہے جو اس وقت اپنی شہری زندگی کی تنظیم کو عروج پر پہنچ چکی تھیں جب دوسری اقوام غاروں میں یا قبیلوں کی شکل میں خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ وادیٔ سندھ میں رہنے والے دراوڑ اس زمانے میں بھی نہ صرف مہذب، بلکہ متمدن بھی تھے کیونکہ تہذیب معاشرے کی اجتماعی تخلیقات اور اقدار کو کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے وادیٔ سندھ دنیا کی ان چند ہی اولین درسگاہوں میں سے ایک ہے، جہاں سے عالم انسانیت کو تمدن کا درس ملا۔
موئن جو دڑوکو اگر کسی اونچائی سے دیکھا جائے تو یہ شہر دو حصوں میں منقسم ہے، اس کا ایک حصہ جو Upper City شہر کہلاتا ہے ایک طرح کا ایڈمنسٹریشن بلاک ہے، اس میں اسٹوپا، بڑا تالاب، ایک جامعہ اور ستونوں والے ہال کی باقیات موجود ہیں، اس کا دوسرا حصہ نچلا شہر یا زیریں شہر کہلاتا ہے۔ یہ رہائشی اور کاروباری علاقہ ہے، یہاں رہائشی مکان، دکان، شراب خانے اور گودام وغیرہ ہیں، زیریں شہر کی پلاننگ بے نظیر نوعیت کی ہے۔ سرجان مارشل نے اس منصوبہ بندی کو دیکھ کر حیرت زدہ لہجے میں کہا تھا ''میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہاں کے لوگ اس وقت بھی اتنے ترقی یافتہ تھے کہ انھوں نے اس شہر کو آباد کرلیا، مجھے تو اس شہر کی فرسٹ اسٹریٹ اور ایسٹ اسٹریٹ کے مقام اتصال کو دیکھ کر موجودہ لندن میں واقع آکسفورڈ سرکس کا چوراہا یاد آتا ہے۔ ''
اس بات کا فخر بھی سندھ ہی کے باشندوں کو حاصل ہے کہ دنیا بھر میں نکاسی آب کا پہلا مربوط نظام ان کی سرزمین پر بنا اور اس سلسلے میں دنیا کی کوئی بھی ہم عصر تہذیب موئن جودڑو کی ہم عصری نہیں کرسکتی۔
وادیٔ سندھ کا ایک اور احسان جو باقی دنیا پر قیامت تک رہے گا، کپاس کی کاشت اور اس کے ریشے سے دھاگا بنانے کے بعد کپڑا بننے کے فن کی ایجاد ہے۔ کپاس کے ریشے سے بنا جانے والا کپڑا، انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتا ہے، اس کی ستر پوش کرتا ہے، اسے سردی گرمی سے بچاتا ہے، کبھی دستار بن کر آدمی کی عزت افزائی کرتا ہے تو کبھی آنچل بن کر حیائی علامت بن جاتا ہے، حتیٰ کہ مرنے کے بعد کفن بن کر قبر میں بھی ساتھ جاتا ہے۔ یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جس وقت دوسری اقوام کھالوں سے اپنی ستر پوشی کرتی تھیں اس وقت وادیٔ سندھ کے زرخیز کھیتوں میں کپاس کے اجلے اجلے سفید پھول ستاروں کی طرح جگمگایا کرتے تھے، جس وقت دوسری اقوام کے افراد درختوں کی چھال میں پتے پروکر کمر سے باندھتے تھے، اس وقت موئن جو دڑو کے ہر ایک آنگن سے چرخوں اور تکلوں کے پہیے گھومنے کی آوازیں آتی تھیں۔ کپاس کے بیج یا کپاس کے ریشے سے بنائی جانیوالی ہر چیز کے کاروبار پر سندھیوں کی اجارہ داری تھی اور پوری دنیا کو سوتی ملبوسات، کپاس، کپاس کے بیچ یا سوتی دھاگا فقط سندھ سے سپلائی کیا جاتا تھا۔ میسو پوٹیما کی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ سیمر میں اُرکے تیسرے گھرانے کے تخت کے دور میں (جس کا عرصہ 2100سے 2000ق ۔ م کے لگ بھگ کہا جاتا ہے) کھالوں اور پٹ سن سے تیار کردہ لباس پہنے جاتے تھے۔ کپاس سے تیار کردہ پیراہن کی نرمی اور لطافت دیکھ کر میسو پوٹیما کے باسیوں نے وادیٔ سندھ کے رہنے والوں سے، اس جنس کے بیج فراہم کرنے کی استدعا کی تھی، وادیٔ سندھ کے باشندوں نے فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے انھیں یہ بیج فراہم کردیے۔
وادیٔ سندھ کی عظیم دراوڑی تہذیب کا ایک پہلو جس نے روز اول سے محققین کو متحیر کیے رکھا ہے وہ ان کی انتہا درجے کی امن پسندی ہے، ہڑپا ہو یا موئن جو دڑو، کاہو جو دڑو ہو یا جھکر جو دڑو، غرض کہ وادیٔ سندھ میں دراوڑی تہذیب کے جتنے بھی شہر دریافت ہوئے ہیں، ان سب کی باقیات سے کسی بھی قسم کے آلات حرب و ضرب برآمد نہیں ہوئے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سندھ کی یہ عظیم و پرشکوہ تہذیب پورے ایک ہزار برس تک بڑی شان و شوکت اور آن بان سے زندہ رہی۔ پھر کچھ معاملہ ایسا ہوا، جس کی وجہ سے اس شہر بے پناہ کی رونقیں اور پرہجوم بازار، ایک بھولا بسرا خواب بن کر رہ گئے اور سندھ میں دراوڑوں کے دور کا خاتمہ ہوا۔ اس عظیم دور کے خاتمے کے مختلف عوامل بیان کیے جاتے ہیں ان میں بارش کی سالانہ اوسط کی کمی، دریائے سندھ کا رخ بدلنا وغیرہ شامل ہیں، لیکن جس چیز نے دراوڑوں اور موئن جو دڑو کی تباہی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی وہ آریائوں کے حملے تھے۔
دوسری جانب روایتوں کے مطابق موئن جو دڑو شہر عذاب خداوندی کا شکار ہوا اور پورا شہر ایک نہیں بلکہ کئی بار الٹا گیا۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے اس سلسلے میں تاریخ خاموش ہے۔
وادیٔ سندھ کی خاک مشک میں قدرت نے کچھ ایسی تاثیر رکھ دی ہے کہ یہ خاک گم ناموں کو نام وری اور فانیوں کو ابدی شہرت بخش دیتی ہے۔ اس خاک نے ذروں کو آفتاب، جنگلیوں کو مہذب بلکہ متمدن اور خانہ بدوشوں کو عظیم سلطنتوں کا وارث بنایا ہے، یہ اس خاک کا اثر ہے کہ جب نگر نگر میں کسی خزاں رسیدہ پتے کی طرح، حالتوں کی ہوائوں کے رخ پر آوارہ بھٹکنے والے آریائی اس خطہ ارض میں سکونت پذیر ہوئے تو ایسی عظیم سلطنتوں کے موجد ٹھہرے جن کے نام تاریخ کے افق پر چودھویں کے چاند کی مانند جگمگاتے رہیں گے۔
موئن جو دڑو کے قدیمی آثار وادیٔ سندھ کے لیے کسی گوہر نایاب سے کم نہیں، ان کی حفاظت وادیٔ سندھ کے باشندوں اور حکومت کا فرض ہے مگر ہم نے دیکھا کہ پچھلے دنوں سندھ کی ثقافت کو اجاگر کرنے کی خواہش لے کر موئن جو دڑو پر منعقد ہونیوالے سندھ فیسٹیول سے ایک جانب قدیمی آثاروں اور خستہ حال دیواروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے تو دوسری جانب فیسٹیول میں سندھی ثقافت کے بجائے ایک ایسا نیا کلچر متعارف کرایا گیا جو کہ نہ مغرب کا ہے اور نہ ہی مشرق کا ہے۔ جس سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں کوئی مثبت پیغام نہیں گیا اور نہ ہی ثقافت کی خدمت ہوئی بلکہ یہ سمجھ ہی نہیں آسکا کہ وہ نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فیسٹیول پر رقم کے ضیاع کے بجائے سندھ کے نامور دانشوروں، محققوں کی خدمات حاصل کرکے موئن جو دڑو کے نوادرات پر لکھی ہوئی زبان جاننے کے لیے کام کیا جاتا اور انھیں آثار قدیمہ کے متعلق مزید تحقیقات کے لیے ماحول اور وسائل فراہم کیے جاتے تاکہ آثار کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس و موثر منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ تحقیقات میں مزید پیش رفت ہوتی۔