عدالتی فیصلوں کیخلاف قانون سازی ہو تو عدلیہ کی آزادی کہاں رہے گی سپریم کورٹ
عدالت کسی کو سزا دے تو کیا پارلیمنٹ قانون سازی سے اسے بری کر سکتی ہے؟ جسٹس منصور
NEW DELHI:
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالتی فیصلوں کیخلاف قانون سازی ہونے لگے تو عدلیہ کی آزادی کہاں رہے گی۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے ایکٹ 2010 کے ذریعے بحال ملازمین کو برطرف کرنے کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے آرڈیننس اور ایکٹ کے ذریعے بحال ہونے والے ملازمین کی فہرست طلب کرلی۔
سوئی گیس اور اسٹیٹ لائف کے برطرف ملازمین کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہوتے ہی بھرتی ہونے والے ملازمین نکالے جاتے ہیں، کیا یہ بھی اتفاق ہے؟ پیپلزپارٹی نے آمریت کے برطرف شدہ ججز کو بھی بحال کیا تھا۔ ہمارا انتخابی وعدہ تھا کہ ملازمین کو بحال کرینگے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا خلاف قانون برطرفیاں 1947 سے ہو رہی ہونگی، صرف ان چند ملازمین کو ہی کیوں بحال کیا گیا ہے؟ لطیف کھوسہ نے کہا برطرفی کے بعد ملازمین نے عدالتوں سے رجوع کیا تھا،عدالتوں نے کئی ملازمین کو بحال کیا اورکئی کی برطرفی برقرار رکھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاعدالتی فیصلے کیخلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی، عدالت کسی کو سزا دے تو کیا پارلیمنٹ قانون سازی سے اسے بری کر سکتی ہے؟عدالتی فیصلوں کیخلاف قانون سازی ہونے لگے تو عدلیہ کی آزادی کہاں رہے گی، اسی انداز میں چلنا ہے تو آج تک جتنے لوگ نکالے گئے سب کو بحال کریں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا نظرثانی دائر کرنے والے ملازمین عارضی طور پر بھرتی تھے، پارلیمنٹ صرف ہمدردی کی بنیاد ہر فیصلے نہیں کر سکتی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا 1996۔97 میں کچھ ملازمین نکالے گئے۔ کیا ان کا برطرفی کو چیلنج کرنا فطری نہیں تھا، کچھ فیصلے ملازمین کے حق میں آئے کچھ انکے خلاف آئے۔
لطیف کھوسہ نے کہا 2021 سے پہلے کسی عدالت نے ملازمین کیخلاف فیصلہ نہیں دیا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا بنیادی سوال تو یہی ہے برطرف ملازمین کا معاملہ عدالت کیوں نہیں لیکر آئے، لطیف کھوسہ نے کہا ہم معزول ججز کا معاملہ بھی عدالت نہیں لائے تھے۔ ہم نے معزول ججز کو بھی ایگزیکٹو آرڈر سے بحال کیا تھا۔
اے پی پی کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے2010 کے ایکٹ میں کیوں نہیں لکھا کہ ملازمین کے ساتھ زیادتی ہوئی، اس لیے بحال کیا، بنیادی سوال پوچھ رہے ہیں آپ بار بار ججز کی بحالی پر آجاتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر ملازمین سیاسی انتقام پر نکالے گئے تو یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ میں لکھنا چاہیے تھا، ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے عدلیہ کی آزادی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی، ،کیا کوئی ایسی قانون سازی ہو سکتی ہے جو عدالتی فیصلوں کو ختم کر دے، کیا عدالتی فیصلے پارلیمنٹ ختم کرسکتی ہے، جب عدالتوں نے ملازمین بحال نہیں کیے تو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے کیسے بحالی ہو سکتی ہے ۔ مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالتی فیصلوں کیخلاف قانون سازی ہونے لگے تو عدلیہ کی آزادی کہاں رہے گی۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے ایکٹ 2010 کے ذریعے بحال ملازمین کو برطرف کرنے کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے آرڈیننس اور ایکٹ کے ذریعے بحال ہونے والے ملازمین کی فہرست طلب کرلی۔
سوئی گیس اور اسٹیٹ لائف کے برطرف ملازمین کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہوتے ہی بھرتی ہونے والے ملازمین نکالے جاتے ہیں، کیا یہ بھی اتفاق ہے؟ پیپلزپارٹی نے آمریت کے برطرف شدہ ججز کو بھی بحال کیا تھا۔ ہمارا انتخابی وعدہ تھا کہ ملازمین کو بحال کرینگے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا خلاف قانون برطرفیاں 1947 سے ہو رہی ہونگی، صرف ان چند ملازمین کو ہی کیوں بحال کیا گیا ہے؟ لطیف کھوسہ نے کہا برطرفی کے بعد ملازمین نے عدالتوں سے رجوع کیا تھا،عدالتوں نے کئی ملازمین کو بحال کیا اورکئی کی برطرفی برقرار رکھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاعدالتی فیصلے کیخلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی، عدالت کسی کو سزا دے تو کیا پارلیمنٹ قانون سازی سے اسے بری کر سکتی ہے؟عدالتی فیصلوں کیخلاف قانون سازی ہونے لگے تو عدلیہ کی آزادی کہاں رہے گی، اسی انداز میں چلنا ہے تو آج تک جتنے لوگ نکالے گئے سب کو بحال کریں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا نظرثانی دائر کرنے والے ملازمین عارضی طور پر بھرتی تھے، پارلیمنٹ صرف ہمدردی کی بنیاد ہر فیصلے نہیں کر سکتی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا 1996۔97 میں کچھ ملازمین نکالے گئے۔ کیا ان کا برطرفی کو چیلنج کرنا فطری نہیں تھا، کچھ فیصلے ملازمین کے حق میں آئے کچھ انکے خلاف آئے۔
لطیف کھوسہ نے کہا 2021 سے پہلے کسی عدالت نے ملازمین کیخلاف فیصلہ نہیں دیا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا بنیادی سوال تو یہی ہے برطرف ملازمین کا معاملہ عدالت کیوں نہیں لیکر آئے، لطیف کھوسہ نے کہا ہم معزول ججز کا معاملہ بھی عدالت نہیں لائے تھے۔ ہم نے معزول ججز کو بھی ایگزیکٹو آرڈر سے بحال کیا تھا۔
اے پی پی کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے2010 کے ایکٹ میں کیوں نہیں لکھا کہ ملازمین کے ساتھ زیادتی ہوئی، اس لیے بحال کیا، بنیادی سوال پوچھ رہے ہیں آپ بار بار ججز کی بحالی پر آجاتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر ملازمین سیاسی انتقام پر نکالے گئے تو یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ میں لکھنا چاہیے تھا، ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے عدلیہ کی آزادی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی، ،کیا کوئی ایسی قانون سازی ہو سکتی ہے جو عدالتی فیصلوں کو ختم کر دے، کیا عدالتی فیصلے پارلیمنٹ ختم کرسکتی ہے، جب عدالتوں نے ملازمین بحال نہیں کیے تو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے کیسے بحالی ہو سکتی ہے ۔ مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔