اور انسانیت جل کر راکھ ہوگئی

اگر توہین رسالت کا الزام غلط اور جھوٹا ثابت ہو جائے تو الزام لگانے والوں کو بھی یہی سزادی جائے۔

ashfaqkhan@express.com.pk

لاہور:
گزشتہ جمعہ کو مندنی چارسدہ کے واقعہ پر مغموم دل کے ساتھ اپنے خون جگر سے کالم لکھا اور ایک بے بس پاکستانی مسلمان کی حیثیت سے ریاست اور عوام تک اپنے احساسات، اس قسم کے واقعات کے محرکات اور روک تھام کے لیے چند مشورے دیے۔

یہ جانتے ہوئے کہ نہ سرکار کے کانوں پر جوں رینگے گی اور نہ ہی آپے سے باہر متشدد عوام کے دلوں پر میری بات اثر کرے گی۔ میرا ایمان ہے کہ مجھ سمیت ہر بندے سے اللہ اس قسم کے معاملات پر وہ سوال ضرور کریگا جسکا وہ مکلف ہوگا۔ میں صرف اس پر مکلف تھا کہ اس سلگتے ہوئے حادثے پر وہ لکھوں جو میری فہم و فراست کے مطابق قرآن و سنت اور اخلاقیات کے دائرے میں جو بحیثیت کالم نویس لکھ سکتا تھا اور میں نے لکھا۔

شکر الحمدللہ نامور جید علماء کرام، پولیس آفیسرز اور تبدیلی کے قارئین سے مجھے سیکڑوں فون کالزاور بیسیوں ای میلز موصول ہوئیں اور سراہا جس سے میرا حوصلہ بڑھایا۔ آج اس بات کو میں نے دل سے تسلیم کیا کہ:

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

اسی دوران مجھے سیالکوٹ کے سانحے کی اطلاع ملی۔ تفصیلات جاننے کے لیے سیالکوٹ کے دوستوں سے رابطہ کیا تو سب کے مغموم لہجوں سے ان کی ذہنی کیفیت عیاں تھی۔ مشاہدہ ہے کہ اکثر پروڈکشن ہالز، مشینوں اور دیواروں پہ لبیک یا حسین، یا علی، پنجتن پاک، شیر خدا اور لبیک یا رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم )کے اسٹیکرز چسپاں ہوتے ہیں۔ اور ا کثر اوقات ان پر کوئی آیت یا حدیث نہیں لکھی ہوتی ہے مگر عرف عام میں یہ پوسٹرز اور اسٹیکرز مذہبی اسٹیکر اور پوسٹرز کہلائے جاتے ہیں۔ اور ہر جگہ سالانہ صفائی اور رنگ و روغن کے لیے اتارے جاتے ہیں اور اس کے بعد لگانے والے نئے لگا دیتے ہیں۔ اس فیکٹری میں بھی سٹیکرز لگے ہوئے تھے۔

مذکورہ کمپنی کا 90 فیصد کاروبار اسپورٹس ویئر کی ایکسپورٹ کا ہے، ان کے ساتھ ایک بڑے معاہدے کے لیے کلائنٹ کا نمایندہ فیکٹری انسپیکشن اور معاہدہ دستخط کرنے کے لیے آرہا تھا۔ سری لنکن منیجر نے فیکٹری کے پروڈکشن ہال کے معائنے کے دوران، صفائی کا آرڈر دیا تھا۔ ورکرز نے اپنی اپنی مشین اور ساتھ والی دیوار کی صفائی شروع کی مگر مرکزی مجرم فرحان ادریس نقوی نے اپنی مشین پر لبیک یاحسین، کے اسٹیکر اتارنے سے انکار کیاتو منیجر نے خود اسٹیکر مشین سے اتار دیا۔ اس بات پر تلخ کلامی ہاتھا پائی تک جاپہنچی۔

منیجر نے بھاگ کر، اپنے آفس میں پناہ لی مگر مجرم فرحان ادریس نقوی نے فیکٹری منیجمنٹ/مالکان سے بات کرنے کے بجائے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کمرے میں زبردستی گھس گیا، منیجر کو کھینچ کر باہر نکالا، اور ڈنڈے مارمار کر جان لے لی اورمسخ شدہ لاش کو پاؤ ں سے پکڑکر سڑک پر گھسیٹتے رہے اور لاش پر ڈنڈے برساتے رہے۔ جب ان کا جنون تمام شیطانی حدیں پار کر گیا تو ہجوم کے درمیان اسے آگ لگا دی گئی میرے خیال صرف ایک انسان نہیں سیالکوٹ کے سڑکوں پر انسانیت جل کر راکھ ہوگئی۔

یہ ایسے وحشت ناک مناظر تھے جن کا نہ کوئی اخلاقی جواز ہے اور نہ شریعت میں کوئی گنجائش، جرم اگر سرزد ہو بھی گیا ہو تو مجرم کو سزا دینے کا حق اور اختیار صرف ریاست کو ہے کسی فرد یا گروہ کو نہیں، مگر آگ کی سزا کا اختیار حدیث نبوی کے مطابق کسی ریاست کو بھی نہیں صرف اللہ رب العالمین کو ہے۔ ہجوم تماشہ دیکھتا رہا کچھ لوگ موبائل سے ویڈیوز اور آگ لگی لاش کے ساتھ سیلفیاں بناتے رہے یہ تھوڑا وقت نہیں طویل دورانیہ تھا حیران ہوں اس دوران پولیس اور قانون نافذ کرنے والے کہاں تھے اورکیوں بر وقت نہ پہنچ سکے۔

اللہ ہمیں اپنے قہر غضب سے اپنے حفظ و امان میں رکھے مگر مجھے محسوس ہوا کہ اب شاید ہم بحیثیت قوم اللہ کے قہر کی طرف دوڑے جا رہے ہیں، اللہ کا قہر و غضب تو دور کی بات انسان تو خالق کے امتحان کا متحمل بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک انتہائی حساس ایشو ہے اس کی مکمل تحقیق از حد ضروری ہے۔ ایک فیکٹری منیجر اور ورکر کے تعلق کوسمجھ کر اخذ کیا سکتا ہے کہ معاملہ ذاتی عناد اور رنجش کا بھی ہو سکتا ہے۔

اگر سانحہ میں توہین رسالت کا عنصر شامل نہیں اور لبیک یا رسول اللّٰہ کا نعرہ اپنے آپ کو کور کرنے کے لیے پلان کا حصہ ہو یا کوئی اور فیکٹر موجود ہو تو اس سانحے کی نوعیت، حساسیت اور خطرناک نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ خارج از امکان نہیں کہ دشمن کی منظم پلاننگ ہو، اس لیے تمام اداروں کو اس زاویہ پر توجہ دینے کی ضروت ہے کہ اگر اس کے پیچھے کوئی سازش ہے تو بے نقاب کر کے ماسٹر مائنڈ کو نشان عبرت بنائے۔ کیونکہ یہ حادثہ مسائل میں گھرے پاکستان کے بنیادوں میں بارودی سرنگ نصب کرنے کے مترادف ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ایک انسان سڑک پر جل کر راکھ ہوگیا مگر نہ ویڈیوز بنانے والوں کے ضمیر جاگے نہ سرکار جاگی اور نہ ہی پولیس کے نا اہل اہلکار وقت پر پہنچ سکے۔ اب پولیس کی ذمے داری ہے کہ اصل اور حقیقی مجرموں کو پکڑیں نہ کہ سیاسی مصلحتوں کے تحت یا کسی سے کسی کا حساب برابر کرنے یا گنتی پورا کرنے کے لیے بے گناہوں کو گرفتار کرے، مجرموں کو نامزد کرکے پرچہ درج کرے اور عدالت روزانہ مقدمہ کی سماعت کرے۔ جتنی جلدی ہوسکے عبرتناک سزائیں سنائے۔


سانحہ سیالکوٹ کی ذمے داری سے ہمارے گزشتہ، موجودہ تمام بے حس حکمران اور ریاست بری ذمہ نہیں اور اگر مجرم نہیں تو شریک جرم ضرور ہیں۔ ماضی میں عوام توہین کے ملزم کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کرتے تھے مگر ہماری بدقسمتی کہ ہر بار ملزم باعزت بری ہو جاتاتھا۔ دو دہائیاں پہلے ملزمان کے بری ہونے پر احتجاج شروع کیا گیا مگر ریاست نے اپنی روش نہیں بدلی اور عوامی رویے میں آہستہ آہستہ تشدد آتا گیا۔ پھر امریکا و برطانیہ نے توہین کے مرتکب ملعون ملزمان کی وکالت اور انعام کے طور پر شہریت دینے کا آغاز کیا، اور ریاست و عدالت سے مایوسی نے نوجوانوں کو پر تشدد احتجاج کا راستہ دکھایا۔ ریاستی چشم پوشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایسے واقعات کو ملک دشمن اور اسلام دشمن عناصر نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر استعمال کرنا شروع کیا ۔

مغرب نے مسلمان سے سرزد ہونے والے جرم کو ہمیشہ اسلام سے جوڑا اور غیر مسلم کے جرم کو اس کا انفرادی جرم سمجھ کر مذہب سے جدا رکھا۔آج ہمارے ملک میں بھی حکومت، صحافی، عوام، علماء مجرموں کے آگے عاشق رسول، مسلمان لکھ کر مجرموں کے انفرادی جرائم کو اسلام سے جوڑ کر مغرب کی تقلید کررہے ہیں۔ جرم کو مذہب، ریاست یا جماعت کے ساتھ تب جوڑا جا سکتا ہے جب وہ عمل ریاست کے دستور، جماعت کے منشور اور مذہب کی کتاب میں لکھا ہو۔

ایسے سانحات کے مواقع پر مذمت صرف اور صرف علماء کرام ہی کی کارآمد ہوتی ہے اور شکر الحمدللہ پاکستان کے ہر مکتبہ فکر کے علماء کرام نے بھر پور مذمت کی اور واضح الفاظ میں قوم کو بتا دیا کہ یہ ظلم اور بربریت ہے اس کا اسلام اور عشق رسول سے کوئی لینا دینا نہیں اور ریاست کو متنبہ کیا کہ اس واقعے میں ملوث تمام مجرموں کو قانون کے مطابق فوری سزائیں دلائیں۔

رہی اہل اقتدار اور ریاست کے ذمے داران کی روایتی مذمت اور افسوس تو آج بھی حسب سابق مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ حکمران اور ریاست کا کام ظالم کو سخت ترین عبرتناک سزائیں اور مظلوم کو سستا اور فوری انصاف دلانا ہے اور عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ مذمت اور افسوس تو بیوہ عورت بھی کرسکتی ہے۔ نام نہاد ریاست مدینہ کے دعویدارو قوم آپ سے اقدامات چاہتی ہے مذمت نہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے سیاسی لیڈران بھی مذمت اور افسوس پر جان نہیں چھڑا سکتے وہ اللہ اور قوم دونوں سے معافی مانگیں کہ انھوں نے اپنے دور اقتدار میں اس ظلم اور بربریت کا رستہ نہیں روکا۔

رحمت سید لولاک پہ کامل ایمان

امت سید لولاک سے خوف آتا ہے

اس ملک میں حکومت بیچاری تو اپنے آپ کو نہیں بچا سکتی تو ہمیں اس وحشت اور بربریت سے کیسے بچائے گی، اگر ریاست چاہیے تو سیالکوٹ کے اس حادثے کو آخری بنا سکتی ہے وہ بھی صرف اور صرف اللہ کی طرف رجوع سے:

وہ ایک سجدہ جیسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے بندے کو دلاتا ہے نجات

ریاست ہمت سے کام لیتے ہوئے شرعی سزاؤں کا آغاز کرے۔ ابتدا سانحہ سیالکوٹ کے درندہ صفت مجرموں کو برسرعام لٹکا کر نشان عبرت بنائے تاکہ آیندہ کوئی ملک اور اسلام دشمن شر پسند ایسی ناپاک جسارت سے باز رہے۔ اس کے علاوہ اس وقت توہین رسالت کے موجود تمام گرفتار مجرموں کو بشرطیکہ ان پر جرم ثابت ہو جائے۔

ایک ہی دن وقفے وقفے سے ملک کے مختلف چوراہوں پر لٹکا کر یوم سزا منائیں اگر توہین رسالت کا الزام غلط اور جھوٹا ثابت ہو جائے تو الزام لگانے والوں کو بھی یہی سزادی جائے تاکہ اس ملک اور ہماری صفوں میں موجود چھپے وحشیوں پر وحشت طاری ہو اور یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے رک جائے، ورنہ یہ دنیا اور عاقبت کی بربادی کا سبب بنے گی۔

اللہ رب العزت کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان اور اس کے مسلمانوں کو ہر قسم کے جبر و ظلم سے اپنے حفظ و امان رکھے اور ہمیں اس ملک کی عدالتوں کو قرآن کے مطابق فیصلے کرنے کی ہمت دے۔
Load Next Story