ملازمین برطرفی کیس آرڈیننس لانا جمہوری طریقہ نہیں سپریم کورٹ
پھر تو ہر حکومت آرڈیننس لائے، بھرتیاں کرے، جمہوریت میں پارلیمان سپریم ہے، عدالت
لاہور:
سپریم کورٹ نے ایکٹ2010 کے ذریعے بحال ملازمین کو برطرف کرنے کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواستوں پر سوموار کو اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہوئے ملازمین کی بھرتیوں کا طریقہ کار اور ان کی تفصیلات طلب کرلیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ بہت لوگ نکالے گئے لیکن ایکٹ صرف خاص گروپ کو ریلیف دینے کیلئے کیوں بنایاگیا ،قانون سازوں کے ذہن تو نہیں پڑھ سکتے تاہم پیش کی گئی دستاویزات بھی خاموش ہیں، تقرریاں درست ہوں یا غلط کیا دس بارہ سال ملازمت کا کوئی فائدہ دیا جا سکتا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فیصلے سے دس بارہ سال ملازمت سے حاصل ہونے والے فائدے کو بھی روک دیا گیا۔ سوئی سدرن گیس کمپنی ملازمین کے وکیل حامد خان نے بتایا کہ 19 سال کی عمر میں بھرتی ہونے والا بھی آج 40 سال کا ہوچکا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرڈیننس کے ذریعے ہونے والی بھرتیوں کا سٹیٹس بھی دیکھنا ہے ،آرڈیننس تو ختم ہو جاتا ہے کیا اسکے تحت بھرتی ہونے والے ملازمین رہ سکتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آ رڈیننس تو جمہوری طریقہ کار ہی نہیں ہے، پھر تو ہر حکومت آرڈیننس لائے اور بھرتیاں کرے، ایسے تو سارے کام آرڈیننسز سے ہی چلتے رہیں گے۔ جمہوری نظام حکومت میں پارلیمنٹ سپریم ہے۔
رضا ربانی نے کہا موجودہ دور حکومت میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ایکٹ کا کوئی بھی سیکشن بنیادی حقوق یا آئین کے خلاف نہیں، عدالت کو مختلف دستاویزات دکھاؤں گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیس کے کیا نتائج ہوں گے، نظر ثانی کیس میں اسکا بھی جائزہ لے رہے ہیں ، پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیں، پھر باقی وکلا دلائل دیں۔
اٹارنی جنرل عدالتی سوالات پر دلائل دیں کہ عدالتی فیصلوں کے باوجود کیا ملازمین کو یوں بحال کیا جا سکتا تھا،کیا دوبارہ بحالی کے عمل میں ملازمین میں تفریق ہو سکتی ہے، پہلے حکومت نے ایکٹ 2010 کی مخالفت کی، اب حمایت کی کیا وجہ ہے۔ بحال کیے گئے ملازمین میں کتنے سرکاری اور کتنے خود مختار اداروں سے تعلق رکھتے تھے۔ مزید سماعت سوموار تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ نے ایکٹ2010 کے ذریعے بحال ملازمین کو برطرف کرنے کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواستوں پر سوموار کو اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہوئے ملازمین کی بھرتیوں کا طریقہ کار اور ان کی تفصیلات طلب کرلیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ بہت لوگ نکالے گئے لیکن ایکٹ صرف خاص گروپ کو ریلیف دینے کیلئے کیوں بنایاگیا ،قانون سازوں کے ذہن تو نہیں پڑھ سکتے تاہم پیش کی گئی دستاویزات بھی خاموش ہیں، تقرریاں درست ہوں یا غلط کیا دس بارہ سال ملازمت کا کوئی فائدہ دیا جا سکتا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فیصلے سے دس بارہ سال ملازمت سے حاصل ہونے والے فائدے کو بھی روک دیا گیا۔ سوئی سدرن گیس کمپنی ملازمین کے وکیل حامد خان نے بتایا کہ 19 سال کی عمر میں بھرتی ہونے والا بھی آج 40 سال کا ہوچکا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرڈیننس کے ذریعے ہونے والی بھرتیوں کا سٹیٹس بھی دیکھنا ہے ،آرڈیننس تو ختم ہو جاتا ہے کیا اسکے تحت بھرتی ہونے والے ملازمین رہ سکتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آ رڈیننس تو جمہوری طریقہ کار ہی نہیں ہے، پھر تو ہر حکومت آرڈیننس لائے اور بھرتیاں کرے، ایسے تو سارے کام آرڈیننسز سے ہی چلتے رہیں گے۔ جمہوری نظام حکومت میں پارلیمنٹ سپریم ہے۔
رضا ربانی نے کہا موجودہ دور حکومت میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ایکٹ کا کوئی بھی سیکشن بنیادی حقوق یا آئین کے خلاف نہیں، عدالت کو مختلف دستاویزات دکھاؤں گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیس کے کیا نتائج ہوں گے، نظر ثانی کیس میں اسکا بھی جائزہ لے رہے ہیں ، پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیں، پھر باقی وکلا دلائل دیں۔
اٹارنی جنرل عدالتی سوالات پر دلائل دیں کہ عدالتی فیصلوں کے باوجود کیا ملازمین کو یوں بحال کیا جا سکتا تھا،کیا دوبارہ بحالی کے عمل میں ملازمین میں تفریق ہو سکتی ہے، پہلے حکومت نے ایکٹ 2010 کی مخالفت کی، اب حمایت کی کیا وجہ ہے۔ بحال کیے گئے ملازمین میں کتنے سرکاری اور کتنے خود مختار اداروں سے تعلق رکھتے تھے۔ مزید سماعت سوموار تک ملتوی کردی گئی۔