راجہ صاحب ایسے ہی ڈٹے رہنا
رمیز راجہ کے آنے سے نمایاں بہتری تو نظر آنے لگی لیکن کئی معاملات دیکھ کر وہ خود سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
PESHAWAR:
پی ایس ایل کے ڈرافٹ کیلیے لاہور جانا چاہیے، میں نے یہ سوچا اور آفس میں بات کی،سفری انتظامات بھی ہوگئے، لاہور کے رپورٹر عباس رضا کوآگاہ کیا اور انٹرویوز وغیرہ پلان کرنے لگا، اگلے روز عباس کی کال آئی کہ آپ کی ایکریڈیشن یقینی نہیں ہے۔
پی سی بی میڈیا ڈپارٹمنٹ کے بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کے باس (رمیز راجہ نہیں) شاید اس کی اجازت نہ دیں، آپ دیکھ لیں آنا ہے یا نہیں، میں اب سوچ رہا ہوں کہ جانا چاہیے یا نہیں، ورلڈکپ میں جو مسائل ہوئے وہ آپ کے سامنے ہیں وہ تو آئی سی سی پر بعض لوگوں کا زور نہیں چلتا ورنہ وہ یو اے ای میں بھی کوریج نہیں کرنے دیتے، خیر آپ دیکھ لیں کہ اس سے کیا فرق پڑا۔
الحمداللہ معمولات تو ویسے ہی جاری ہیں، پہلے بھی پی سی بی میں میرے کام سے بعض لوگوں کو مسئلہ ہوا تھا، انھوں نے بھی ایسے ہی اقدامات کیے لیکن اب وہ بیچارے کہیں نظر بھی نہیں آتے، چیئرمین رمیز راجہ ابھی بڑے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں، اس لیے میں نے ان سے کوئی بات نہیں کی، ویسے بھی شکایات کمزور لوگ کرتے ہیں۔ خیر بات پی ایس ایل کی ہو رہی تھی عموماً ڈرافٹ سے قبل خاصی گہما گہمی ہوتی ہے مگر اب تین دن باقی رہ گئے کوئی خاص سرگرمی نظر نہیں آ رہی۔
سوشل میڈیا پر بھی وہ شور نہیں، لیگ میں تو ابھی کافی وقت باقی ہے، ویسٹ انڈیزسے تو پیر کو پہلا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل ہونا ہے، کیا آپ کو اس سیریز کی کوئی ہائپ نظر آ رہی ہے؟ پی ایس ایل میں پاکستانی شائقین بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں،مسابقت سے بھرپور میچز میں ملکی اسٹارز کے ساتھ غیرملکی کرکٹرز بھی شریک ہوتے ہیں، رمیز چیئرمین بنے تو انھوں نے فرنچائزز پر زور دیا کہ وہ پلیئرز بجٹ بڑھائیں تاکہ بڑے ناموں کو متوجہ کیا جا سکے۔
جواب میں ان سے کہا گیا کہ آپ سپراسٹارز کو لائیں ہم زیادہ معاوضے دینے کو تیار ہوں گے، البتہ کھلاڑیوں کی جو ابتدائی فہرست سامنے آئی اس میں بیشتر وہی ہیں جو پہلے بھی پی ایس ایل کھیل چکے، لیگ کے بیشتر اہم معاملات سنبھالنے والے عمران احمد خان شادی کی وجہ سے چھٹیوں پر تھے،اب تو انھوں نے استعفیٰ بھی دے دیا ہے،اتنے اہم وقت میں عمران کا جانا بورڈ کیلیے بڑا نقصان ثابت ہوگا،فرنچائزز بھی اس سے پریشان ہیں،پی سی بی کے سی او او سلمان نصیر کا ستارہ بھی گردش میں ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اگر ان کے حوالے سے زیرگردش ایک دستاویز کو درست مانا جائے تو 2011میں انھوں نے 90 ہزار روپے ماہانہ پر بطور منیجر لیگل کام شروع کیا تھا، 10 سال کے دوران وہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے سینئر منیجر لیگل، جی ایم لیگل، سینئر جی ایم لیگل اور پھر چیف آپریٹنگ آفیسر بن گئے، اس دوران ان کی تنخواہ کے چیک میں صفر بھی بڑھتے گئے جو اب غالباً 11 لاکھ روپے ماہانہ ہو چکی ہے، سابقہ سی او او سبحان احمد نے انھیں بہت سپورٹ کیا، شہریارخان، نجم سیٹھی اور احسان مانی بھی مہربان رہے، یقیناً اہلیت ہی بنا پر ہی انھیں پسند کیا جاتا ہوگا۔
ورنہ وہ کسی ایک چیئرمین کی آنکھ کا تارا تو بن سکتے تھے سب کے نہیں، نشریاتی حقوق کے حوالے سے تنازع پر ان سے بھی استعفیٰ لینے کی باتیں ہو رہی تھیں مگر قریبی ذرائع کہتے ہیں کہ فی الحال ایسا ہونے کا امکان نہیں اور رمیز راجہ بھی انھیں پسند کرنے لگے ہیں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ چیئرمین بھی ذرا محتاط ہو کر کھیل رہے ہیں، کئی آفیشلز کا جانا طے ہے مگر ایسا آہستہ آہستہ ہی ہوگا۔
ویسے رمیز راجہ کو اندازہ ہو گیاکہ پی سی بی کو چلانا کوئی آسان کام نہیں،وہ کمنٹری سے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کما لیتے ہوں گے مگر ملکی کرکٹ کو ٹھیک کرنے کا عزم لیے اب اعزازی طور پر کام کر رہے ہیں، انھیں بخوبی علم ہو چکاکہ معاملات کس حد تک بگڑے ہوئے ہیں، اسی لیے خود ہی سب کچھ کررہے ہیں، حال ہی میں انھوں نے ایک بڑا مسئلہ حل کرایا جس سے بورڈ کو اب زیادہ مالی فائدہ ہوگا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب کچھ رمیز کو کرنا ہے تو دیگر کس لیے بھاری تنخواہیں لے رہے ہیں،پہلے بھی کئی بار کہہ چکا کہ کپتان جتنا بھی اچھا ہو اگر ٹیم میں دم نہیں توکوئی کچھ نہیں کر سکتا رمیز کو بھی اچھی ٹیم بنانی چاہیے تاکہ ان پر سے کام کا بوجھ بھی کم ہو، جس طرح رمیز راجہ نے گذشتہ دنوں بعض معاملات کو ہینڈل کیا اسے دیکھ کر میری ان سے امیدیں بڑھ گئیں کہ وہ پاکستان کرکٹ کو بھی ٹھیک کر سکتے ہیں۔
پی ایس ایل کے فنانشل ماڈل کے تنازع کو حل کرنے میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا، بس انھیں ایک بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ انداز سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے،چاہے فرنچائز مالکان ہوں یا بورڈ ملازمین تحمل مزاجی سے سب کے ساتھ خوشگوار موڈ میں بات کریں، جب وہ اپنی ذمہ داریاں دوسروں میں تقسیم کریں گے تو لازماً بہتری آئے گی لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ بااعتماد لوگ اردگرد موجود ہوں، راجہ صاحب کو آستینیں جھاڑتے رہنا چاہیے۔
سب سے اچھی بات یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم ان دنوں بابر اعظم کی زیرقیادت عمدہ کھیل پیش کر رہی ہے، نیوزی لینڈ ٹیم کی واپسی اور انگلینڈ کے دورے سے انکار پر ملکی میدان دوبارہ ویران ہونے کا خدشہ تھا، چیئرمین نے اچھی حکمت عملی سے اس مسئلے کو بھی سنبھالا اور اب آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ٹیموں نے دورے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے،نیوزی لینڈ سے بھی مثبت اشارے ملے ہیں، ویسٹ انڈیز کی ٹیم کراچی پہنچ چکی، پی ایس ایل بھی کراچی اور لاہور میں ہونی ہے، یوں پاکستان میں عالمی کرکٹ کا سفر جاری رہے گا۔
رمیز راجہ کے آنے سے نمایاں بہتری تو نظر آنے لگی لیکن کئی معاملات دیکھ کر وہ خود سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، بس انھیں ثابت قدم رہتے ہوئے بہتری کیلیے کوشش جاری رکھنی چاہیئں، راستے میں کئی رکاوٹیں آئیں گی، کبھی مایوسی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا لیکن وہ ڈٹے رہے تو چند برسوں میں پی سی بی کو مضبوط ادارہ بنا سکتے ہیں۔
رمیز راجہ کو وزیر اعظم عمران خان کی مکمل سپورٹ حاصل ہے، ان کے طرز عمل اور اعتماد سے بھی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ان کو پیسے کی کوئی کمی نہیں، نہ ہی غیر ملکی دوروں یا مستقبل میں کسی ملازمت کی لالچ ہے، ایک ایسے انسان کو جب پاور ملے تو وہ بغیر کسی خوف کے اقدامات کر کے بہتری لا سکتا ہے،رمیز کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، ہم سب کی سپورٹ ان کے ساتھ ہے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
پی ایس ایل کے ڈرافٹ کیلیے لاہور جانا چاہیے، میں نے یہ سوچا اور آفس میں بات کی،سفری انتظامات بھی ہوگئے، لاہور کے رپورٹر عباس رضا کوآگاہ کیا اور انٹرویوز وغیرہ پلان کرنے لگا، اگلے روز عباس کی کال آئی کہ آپ کی ایکریڈیشن یقینی نہیں ہے۔
پی سی بی میڈیا ڈپارٹمنٹ کے بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کے باس (رمیز راجہ نہیں) شاید اس کی اجازت نہ دیں، آپ دیکھ لیں آنا ہے یا نہیں، میں اب سوچ رہا ہوں کہ جانا چاہیے یا نہیں، ورلڈکپ میں جو مسائل ہوئے وہ آپ کے سامنے ہیں وہ تو آئی سی سی پر بعض لوگوں کا زور نہیں چلتا ورنہ وہ یو اے ای میں بھی کوریج نہیں کرنے دیتے، خیر آپ دیکھ لیں کہ اس سے کیا فرق پڑا۔
الحمداللہ معمولات تو ویسے ہی جاری ہیں، پہلے بھی پی سی بی میں میرے کام سے بعض لوگوں کو مسئلہ ہوا تھا، انھوں نے بھی ایسے ہی اقدامات کیے لیکن اب وہ بیچارے کہیں نظر بھی نہیں آتے، چیئرمین رمیز راجہ ابھی بڑے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں، اس لیے میں نے ان سے کوئی بات نہیں کی، ویسے بھی شکایات کمزور لوگ کرتے ہیں۔ خیر بات پی ایس ایل کی ہو رہی تھی عموماً ڈرافٹ سے قبل خاصی گہما گہمی ہوتی ہے مگر اب تین دن باقی رہ گئے کوئی خاص سرگرمی نظر نہیں آ رہی۔
سوشل میڈیا پر بھی وہ شور نہیں، لیگ میں تو ابھی کافی وقت باقی ہے، ویسٹ انڈیزسے تو پیر کو پہلا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل ہونا ہے، کیا آپ کو اس سیریز کی کوئی ہائپ نظر آ رہی ہے؟ پی ایس ایل میں پاکستانی شائقین بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں،مسابقت سے بھرپور میچز میں ملکی اسٹارز کے ساتھ غیرملکی کرکٹرز بھی شریک ہوتے ہیں، رمیز چیئرمین بنے تو انھوں نے فرنچائزز پر زور دیا کہ وہ پلیئرز بجٹ بڑھائیں تاکہ بڑے ناموں کو متوجہ کیا جا سکے۔
جواب میں ان سے کہا گیا کہ آپ سپراسٹارز کو لائیں ہم زیادہ معاوضے دینے کو تیار ہوں گے، البتہ کھلاڑیوں کی جو ابتدائی فہرست سامنے آئی اس میں بیشتر وہی ہیں جو پہلے بھی پی ایس ایل کھیل چکے، لیگ کے بیشتر اہم معاملات سنبھالنے والے عمران احمد خان شادی کی وجہ سے چھٹیوں پر تھے،اب تو انھوں نے استعفیٰ بھی دے دیا ہے،اتنے اہم وقت میں عمران کا جانا بورڈ کیلیے بڑا نقصان ثابت ہوگا،فرنچائزز بھی اس سے پریشان ہیں،پی سی بی کے سی او او سلمان نصیر کا ستارہ بھی گردش میں ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اگر ان کے حوالے سے زیرگردش ایک دستاویز کو درست مانا جائے تو 2011میں انھوں نے 90 ہزار روپے ماہانہ پر بطور منیجر لیگل کام شروع کیا تھا، 10 سال کے دوران وہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے سینئر منیجر لیگل، جی ایم لیگل، سینئر جی ایم لیگل اور پھر چیف آپریٹنگ آفیسر بن گئے، اس دوران ان کی تنخواہ کے چیک میں صفر بھی بڑھتے گئے جو اب غالباً 11 لاکھ روپے ماہانہ ہو چکی ہے، سابقہ سی او او سبحان احمد نے انھیں بہت سپورٹ کیا، شہریارخان، نجم سیٹھی اور احسان مانی بھی مہربان رہے، یقیناً اہلیت ہی بنا پر ہی انھیں پسند کیا جاتا ہوگا۔
ورنہ وہ کسی ایک چیئرمین کی آنکھ کا تارا تو بن سکتے تھے سب کے نہیں، نشریاتی حقوق کے حوالے سے تنازع پر ان سے بھی استعفیٰ لینے کی باتیں ہو رہی تھیں مگر قریبی ذرائع کہتے ہیں کہ فی الحال ایسا ہونے کا امکان نہیں اور رمیز راجہ بھی انھیں پسند کرنے لگے ہیں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ چیئرمین بھی ذرا محتاط ہو کر کھیل رہے ہیں، کئی آفیشلز کا جانا طے ہے مگر ایسا آہستہ آہستہ ہی ہوگا۔
ویسے رمیز راجہ کو اندازہ ہو گیاکہ پی سی بی کو چلانا کوئی آسان کام نہیں،وہ کمنٹری سے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کما لیتے ہوں گے مگر ملکی کرکٹ کو ٹھیک کرنے کا عزم لیے اب اعزازی طور پر کام کر رہے ہیں، انھیں بخوبی علم ہو چکاکہ معاملات کس حد تک بگڑے ہوئے ہیں، اسی لیے خود ہی سب کچھ کررہے ہیں، حال ہی میں انھوں نے ایک بڑا مسئلہ حل کرایا جس سے بورڈ کو اب زیادہ مالی فائدہ ہوگا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب کچھ رمیز کو کرنا ہے تو دیگر کس لیے بھاری تنخواہیں لے رہے ہیں،پہلے بھی کئی بار کہہ چکا کہ کپتان جتنا بھی اچھا ہو اگر ٹیم میں دم نہیں توکوئی کچھ نہیں کر سکتا رمیز کو بھی اچھی ٹیم بنانی چاہیے تاکہ ان پر سے کام کا بوجھ بھی کم ہو، جس طرح رمیز راجہ نے گذشتہ دنوں بعض معاملات کو ہینڈل کیا اسے دیکھ کر میری ان سے امیدیں بڑھ گئیں کہ وہ پاکستان کرکٹ کو بھی ٹھیک کر سکتے ہیں۔
پی ایس ایل کے فنانشل ماڈل کے تنازع کو حل کرنے میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا، بس انھیں ایک بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ انداز سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے،چاہے فرنچائز مالکان ہوں یا بورڈ ملازمین تحمل مزاجی سے سب کے ساتھ خوشگوار موڈ میں بات کریں، جب وہ اپنی ذمہ داریاں دوسروں میں تقسیم کریں گے تو لازماً بہتری آئے گی لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ بااعتماد لوگ اردگرد موجود ہوں، راجہ صاحب کو آستینیں جھاڑتے رہنا چاہیے۔
سب سے اچھی بات یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم ان دنوں بابر اعظم کی زیرقیادت عمدہ کھیل پیش کر رہی ہے، نیوزی لینڈ ٹیم کی واپسی اور انگلینڈ کے دورے سے انکار پر ملکی میدان دوبارہ ویران ہونے کا خدشہ تھا، چیئرمین نے اچھی حکمت عملی سے اس مسئلے کو بھی سنبھالا اور اب آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ٹیموں نے دورے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے،نیوزی لینڈ سے بھی مثبت اشارے ملے ہیں، ویسٹ انڈیز کی ٹیم کراچی پہنچ چکی، پی ایس ایل بھی کراچی اور لاہور میں ہونی ہے، یوں پاکستان میں عالمی کرکٹ کا سفر جاری رہے گا۔
رمیز راجہ کے آنے سے نمایاں بہتری تو نظر آنے لگی لیکن کئی معاملات دیکھ کر وہ خود سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، بس انھیں ثابت قدم رہتے ہوئے بہتری کیلیے کوشش جاری رکھنی چاہیئں، راستے میں کئی رکاوٹیں آئیں گی، کبھی مایوسی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا لیکن وہ ڈٹے رہے تو چند برسوں میں پی سی بی کو مضبوط ادارہ بنا سکتے ہیں۔
رمیز راجہ کو وزیر اعظم عمران خان کی مکمل سپورٹ حاصل ہے، ان کے طرز عمل اور اعتماد سے بھی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ان کو پیسے کی کوئی کمی نہیں، نہ ہی غیر ملکی دوروں یا مستقبل میں کسی ملازمت کی لالچ ہے، ایک ایسے انسان کو جب پاور ملے تو وہ بغیر کسی خوف کے اقدامات کر کے بہتری لا سکتا ہے،رمیز کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، ہم سب کی سپورٹ ان کے ساتھ ہے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)