’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘
اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں صحابہ کرامؓ کے نیک اعمال کی مثال ملتی ہے۔
QUETTA:
زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور ہر مقصد کے حصول کے لیے عمل بہت ضروری ہے۔ ہمارا دین عمل کے لیے نیّت پر زور دیتا ہے۔
اعمال کا دارومدار نیّت پر ہے لہٰذا ہر عمل سے پہلے اس کی نیّت بہت ضروری ہے۔ نیّت نیک تو منزل آسان۔ جس طرح نیک اعمال کا نیک انجام ہوتا ہے اسی طرح بُرے اعمال کا بُرا انجام ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی نظر میں اس کے بندے کا معمولی سا نیک عمل بھی قبول ہے۔ لہٰذا بندے کی بھی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کا اہتمام رکھے اور بُرے اعمال سے اجتناب کیا جائے۔ ہمیں اپنے اردگرد ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی جنہوں نے نیکیوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اپنی زندگی کو انسانیت کی فلاح اور بہبود کے لیے وقف کر دیا۔
اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں صحابہ کرامؓ کے نیک اعمال کی مثال ملتی ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے ایک یہودی سے کنواں خرید کر بلا تفریق اسے سب کے پانی پینے کے لیے عام کردیا۔ یہ سب روشن مثالیں ہم سب کی تربیت کے لیے کافی ہیں۔ جو بوؤ گے، وہی کاٹو گے۔ اچھا کرو گے تو اچّھا پاؤ گے۔ کر بھلا سو ہو بھلا۔ نیکی کا انعام جنّت اور بدی کا انجام جہنّم ہے۔
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے، آتے ہیں جو کام دوسروں کے۔ بے شک! انسان خطا کا پتلا ہے اور ہر وقت شیاطین کے وار سے بچنا اﷲ کی مدد کے بغیر ناممکن ہے اس لیے ضروری ہے کہ انسان اﷲ سے دوستی کر کے اپنا نیکیوں کا کھاتہ کھول لے جس میں وہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں جمع کرے تاکہ آخرت سنور سکے۔ اِس کھاتے میں منافع ہی منافع ہے۔ بندہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے، توبہ کرے اور اﷲ سے کاروبار کرلے تاکہ اس کا ابدی مقام جنّت ہو۔
آخرت کے لیے نیک اعمال کا ذخیرہ ہی کام آئے گا۔ کہیں کسی غریب کے بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست کردیا تو کسی کم زور طالب علم کی پڑھائی میں مدد کردی، پانی کا کنواں کھدوا دیا، بھوکوں کو کھانا کھلا دیا تو کہیں لبِ سڑک پانی کے کولر نصب کردیے، اور تو اور گرمیوں میں پرندوں کے لیے ٹھنڈے پانی کا بندوبست کردیا۔ چھوٹے چھوٹے نیک اعمال بھی اﷲ تعالٰی کے ہاں مقبول ہیں۔ جس نے راستے سے پتھر بھی ہٹایا تو اسے اس کا بھی اجر ملے گا۔ اپنی نیکی کی ابتداء اپنے گھر سے کیجیے۔
اپنے والدین کی مدد اور خدمت کیجیے، کبھی کسی بزرگ کے چھوٹے چھوٹے کام کر دیجیے، بچوں سے شفقت سے پیش آئیے، اپنا اخلاق اچھّا رکھیے، نادار و کم زور اور غریب افراد کے ساتھ رحم دلی سے پیش آئیے، ان کی مدد کیجیے اور اپنے نیک اعمال کے ذریعے اﷲ تعالٰی کو راضی کیجیے۔
رب راضی تو سب راضی! اِس کے علاوہ صدقات اور خیرات کی مدد سے نیکی کمائیے۔ قیامت کے دن یہی چھوٹی چھوٹی نیکیاں پہاڑ بن جائیں گی اور ایسی نیکیاں جو کہ محض دنیا دکھاوے کی نیّت سے کی گئیں وہ قیامت کے دن اپنے کرنے والے کے منہ پر ماری جائیں گی اس لیے کوئی بھی نیکی دنیا داری اور اپنی تشہیر کے لیے نہیں بل کہ آخرت میں کام یابی کے لیے کی جائیں اور اِس طرح کی جائیں کہ ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کی خبر نہ ہونے پائے۔
ہماری ہر نیکی کا مقصد اﷲ کی خوش نُودی حاصل کرنا ہو۔ نیکی کی توفیق ہو تو اﷲ کا شکر ادا کریں اور نیکی بِلا جھجک فوراً کر دیجیے کہ وہ بھی توفیق من جانب اﷲ ہے انسان کا اپنا کوئی کمال نہیں۔ انسان کا کام ہے کہ وہ ہر وقت نیکی کی جستجو میں لگا رہے اور اﷲ سے اور اﷲ والوں سے رجوع کرے اور ان سے جُڑا رہے تاکہ خوفِ خدا بیدار رہے اور سفرِ آخرت کے لیے بھی کچھ سامان جمع ہو سکے۔
دنیا کے اے مسافر! منزل تیری قبر ہے۔ اگر ہم روز مرّہ زندگی پر نظر ڈالیں تو خاص و عام کی اکثریت برائیوں میں مبتلا نظر آئیں گے جن میں جھوٹ، دھوکے بازی، لالچ و طمع، چغلی، ٹوہ وغیرہ اور دوسرے بُرے اعمال شامل ہیں۔ بُرے کاموں اور گناہوں سے خود کو بچائیے تاکہ اﷲ کی نظروں میں سرخ رُو ہوسکیں۔ اﷲ تعالٰی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اسے خیر اور بد یا برائی میں فرق کرنے اور پھر گناہوں سے بچنے کا فہم اور عقل عطا فرمائی ہے کہ ہر ذی شعور انسان اتنی طاقت ضرور رکھتا ہے کہ وہ بُرے اعمال سے خود کو بچا سکے۔ جھوٹ، غیبت، ٹوہ، چغلی کرنا وغیرہ یہ تمام وہ اعمال ہیں جن سے اﷲ تعالٰی سخت ناراض ہوتے ہیں اور جن سے خود کو اور دوسروں کو بچایا جا سکتا ہے اگر انسان سمجھ داری کا مظاہرہ کرے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی جہنّم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اﷲ تعالٰی کی اِس دنیا میں نیک بندوں کی کمی نہیں جو خاموشی سے شب و روز نیکیاں کمانے کی جستجو میں مشغول ہیں۔ تاریخِ اسلام نیک اور باکردار لوگوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ نیکی وہ ہے جو بے لوث کی جائے اِسی لیے کہا گیا:
''نیکی کر دریا میں ڈال''
زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور ہر مقصد کے حصول کے لیے عمل بہت ضروری ہے۔ ہمارا دین عمل کے لیے نیّت پر زور دیتا ہے۔
اعمال کا دارومدار نیّت پر ہے لہٰذا ہر عمل سے پہلے اس کی نیّت بہت ضروری ہے۔ نیّت نیک تو منزل آسان۔ جس طرح نیک اعمال کا نیک انجام ہوتا ہے اسی طرح بُرے اعمال کا بُرا انجام ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی نظر میں اس کے بندے کا معمولی سا نیک عمل بھی قبول ہے۔ لہٰذا بندے کی بھی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کا اہتمام رکھے اور بُرے اعمال سے اجتناب کیا جائے۔ ہمیں اپنے اردگرد ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی جنہوں نے نیکیوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اپنی زندگی کو انسانیت کی فلاح اور بہبود کے لیے وقف کر دیا۔
اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں صحابہ کرامؓ کے نیک اعمال کی مثال ملتی ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے ایک یہودی سے کنواں خرید کر بلا تفریق اسے سب کے پانی پینے کے لیے عام کردیا۔ یہ سب روشن مثالیں ہم سب کی تربیت کے لیے کافی ہیں۔ جو بوؤ گے، وہی کاٹو گے۔ اچھا کرو گے تو اچّھا پاؤ گے۔ کر بھلا سو ہو بھلا۔ نیکی کا انعام جنّت اور بدی کا انجام جہنّم ہے۔
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے، آتے ہیں جو کام دوسروں کے۔ بے شک! انسان خطا کا پتلا ہے اور ہر وقت شیاطین کے وار سے بچنا اﷲ کی مدد کے بغیر ناممکن ہے اس لیے ضروری ہے کہ انسان اﷲ سے دوستی کر کے اپنا نیکیوں کا کھاتہ کھول لے جس میں وہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں جمع کرے تاکہ آخرت سنور سکے۔ اِس کھاتے میں منافع ہی منافع ہے۔ بندہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے، توبہ کرے اور اﷲ سے کاروبار کرلے تاکہ اس کا ابدی مقام جنّت ہو۔
آخرت کے لیے نیک اعمال کا ذخیرہ ہی کام آئے گا۔ کہیں کسی غریب کے بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست کردیا تو کسی کم زور طالب علم کی پڑھائی میں مدد کردی، پانی کا کنواں کھدوا دیا، بھوکوں کو کھانا کھلا دیا تو کہیں لبِ سڑک پانی کے کولر نصب کردیے، اور تو اور گرمیوں میں پرندوں کے لیے ٹھنڈے پانی کا بندوبست کردیا۔ چھوٹے چھوٹے نیک اعمال بھی اﷲ تعالٰی کے ہاں مقبول ہیں۔ جس نے راستے سے پتھر بھی ہٹایا تو اسے اس کا بھی اجر ملے گا۔ اپنی نیکی کی ابتداء اپنے گھر سے کیجیے۔
اپنے والدین کی مدد اور خدمت کیجیے، کبھی کسی بزرگ کے چھوٹے چھوٹے کام کر دیجیے، بچوں سے شفقت سے پیش آئیے، اپنا اخلاق اچھّا رکھیے، نادار و کم زور اور غریب افراد کے ساتھ رحم دلی سے پیش آئیے، ان کی مدد کیجیے اور اپنے نیک اعمال کے ذریعے اﷲ تعالٰی کو راضی کیجیے۔
رب راضی تو سب راضی! اِس کے علاوہ صدقات اور خیرات کی مدد سے نیکی کمائیے۔ قیامت کے دن یہی چھوٹی چھوٹی نیکیاں پہاڑ بن جائیں گی اور ایسی نیکیاں جو کہ محض دنیا دکھاوے کی نیّت سے کی گئیں وہ قیامت کے دن اپنے کرنے والے کے منہ پر ماری جائیں گی اس لیے کوئی بھی نیکی دنیا داری اور اپنی تشہیر کے لیے نہیں بل کہ آخرت میں کام یابی کے لیے کی جائیں اور اِس طرح کی جائیں کہ ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کی خبر نہ ہونے پائے۔
ہماری ہر نیکی کا مقصد اﷲ کی خوش نُودی حاصل کرنا ہو۔ نیکی کی توفیق ہو تو اﷲ کا شکر ادا کریں اور نیکی بِلا جھجک فوراً کر دیجیے کہ وہ بھی توفیق من جانب اﷲ ہے انسان کا اپنا کوئی کمال نہیں۔ انسان کا کام ہے کہ وہ ہر وقت نیکی کی جستجو میں لگا رہے اور اﷲ سے اور اﷲ والوں سے رجوع کرے اور ان سے جُڑا رہے تاکہ خوفِ خدا بیدار رہے اور سفرِ آخرت کے لیے بھی کچھ سامان جمع ہو سکے۔
دنیا کے اے مسافر! منزل تیری قبر ہے۔ اگر ہم روز مرّہ زندگی پر نظر ڈالیں تو خاص و عام کی اکثریت برائیوں میں مبتلا نظر آئیں گے جن میں جھوٹ، دھوکے بازی، لالچ و طمع، چغلی، ٹوہ وغیرہ اور دوسرے بُرے اعمال شامل ہیں۔ بُرے کاموں اور گناہوں سے خود کو بچائیے تاکہ اﷲ کی نظروں میں سرخ رُو ہوسکیں۔ اﷲ تعالٰی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اسے خیر اور بد یا برائی میں فرق کرنے اور پھر گناہوں سے بچنے کا فہم اور عقل عطا فرمائی ہے کہ ہر ذی شعور انسان اتنی طاقت ضرور رکھتا ہے کہ وہ بُرے اعمال سے خود کو بچا سکے۔ جھوٹ، غیبت، ٹوہ، چغلی کرنا وغیرہ یہ تمام وہ اعمال ہیں جن سے اﷲ تعالٰی سخت ناراض ہوتے ہیں اور جن سے خود کو اور دوسروں کو بچایا جا سکتا ہے اگر انسان سمجھ داری کا مظاہرہ کرے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی جہنّم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اﷲ تعالٰی کی اِس دنیا میں نیک بندوں کی کمی نہیں جو خاموشی سے شب و روز نیکیاں کمانے کی جستجو میں مشغول ہیں۔ تاریخِ اسلام نیک اور باکردار لوگوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ نیکی وہ ہے جو بے لوث کی جائے اِسی لیے کہا گیا:
''نیکی کر دریا میں ڈال''