بانبڑی مائی گوندرانی روغان اور شابان
گرمیوں میں پاکستان بھر سے لوگ یہاں تفریح کے لیے آتے ہیں ان درختوں اور چشموں کے پاس وقت گزارتے ہیں۔
لاہور:
بلوچستان میں موجود جن پہاڑوں کی اپنی اپنی خوبصورتی اور حسن ہے، ان پہاڑوں میں میٹھے پانی کے چشمے، جنگلات کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ پہاڑ اور جنگلات مختلف اقسام کے چرند، پرند کا مسکن بھی ہیں۔پختہ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی بلوچستان میں ایسے دیدہ زیب خوبصورت علاقے موجود ہیں جن کے متعلق کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ انھی علاقوں میں ضلع لسبیلہ میں موجود بانبڑی ہے۔
اوتھل سے بانبڑی کا فاصلہ پینتالیس کلو میٹر اور ویراو چیک پوسٹ سے 16 کلو میٹر ہے۔ کچی سڑک اس خوبصورت جگہ لے جاتی ہے۔ قومی شاہراہ سے 29 کلو میٹر سفر کرنے کے بعد ''ویراو'' چیک پوسٹ کے دائیں طرف ایک کچی سڑک بانبڑی کی طرف جاتی ہے مجھے چونکہ معلوم تھا کہ 4x4 کی گاڑی زیادہ بہتر رہے گی لہٰذا میں نے اپنے دوست کو ساتھ لیا اس کے پاس نئی 4x4 کی جیپ تھی وہ اس راستے کے لیے مفید ثابت ہوئی۔
یہاں پہنچ کر اپنے رب تبارک و تعالیٰ کی قدرت کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ چاروں جانب بنجر پہاڑ اور ایک تنگ جگہ پر واقع یہ خوبصورت درہ اور اس میں بہتے پانی کے ٹھنڈے چشمے نہایت پرکیف یہ ایک تصوراتی جگہ ہے۔ گرمیوں کی دھوپ میں چٹانوں کے سایہ اور درہ کی مظہر کن ہواؤں نے مجبور کردیا کہ اپنی زندگی کے حسین لمحات گزارنے کی بات ہی الگ ہے۔ بانبڑی کی آبادی صرف سولہ گھرانوں پر مشتمل ہے جوکہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جوکہ جاموٹ قبیلے سے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش مائننگ اور گلہ بانی ہے۔ یہاں ایک سرکاری اسکول اور محکمہ صحت کا اسپتال بھی موجود ہے۔ آبشار کا نظارہ، خوبصورت سبزہ زار چھوٹا سا علاقہ ہے۔
کھجور کے درخت اور پیرو کے درخت ہیں۔ ایک جگہ اوپر سے پانی نیچے کی طرف بہتا ہے۔ پرسکون علاقہ ہے پرندوں کی چہچہاہٹ سنائی دیتی ہے۔ شاید بہت ہی کم افراد کو اس علاقے کے بارے میں معلوم ہوگا۔
بانبڑی کو حاجی میر محمد گوٹھ کے نام سے جانتے ہیں، اوتھل سے تقریباً 45 کلو میٹر فاصلے پر ہے یہ انتہائی خوبصورت اور پرلطف علاقہ ہے۔
ضلع لسبیلہ میں وائی کا فاصلہ اوتھل سے پچاس کلو میٹر اور کراچی سے 175 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اوتھل سے 45 کلو میٹر کا سفر طے کیا تو میری دائیں جانب نہڑ اسٹاپ آیا جہاں سے پانچ میٹر سفر کرنے کے بعد ایک کچی سڑک ہے جس پر مزید پانچ کلو میٹر کا سفر کرنے کے بعد وائی کا خوبصورت علاقہ ہے پانی کے چشمے اندر تیرتی ہوئی مچھلیاں خوب لگتی ہیں۔ وائی اپنی خوبصورتی کے ساتھ بہترین پکنک پوائنٹ بھی ہے۔
مائی گوندرانی: کراچی سے تقریباً 175 کلو میٹر کے فاصلے پر ضلع لسبیلہ میں ہے اس جگہ کا نام روغان ہے لیکن یہ مائی گوندرانی کے نام سے مشہور ہے۔ تاریخی، قدیمی علاقہ ہے دو ہزار سال کے آثار موجود ہیں ضلع لسبیلہ سے آٹھ میل شمال میں تاریخی و قدیمی شہر موجود ہے۔ تنگ وادی کے بیچ ایک طرف سبزہ اور چٹیل میدان ہے تو دوسری طرف خوبصورت پہاڑوں کے دامن میں اس قدیم شہر کو روغان،اورگان، مائی گوندرانی، اوڈک اور مائی پیر بھی کہا جاتا ہے۔ اونچائی سے شہر روغان کا نظارہ انوکھا معلوم دیتا ہے۔ کچے پکے راستوں سے گزرتے ہوئے ان پہاڑوں کے نزدیک جائیں تو جا بجا غار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ پانچ سو فٹ عمودی اونچی اور تقریباً 15 فٹ مربع پر محیط ہیں۔
ان غاروں کو تنگ راستوں، چھوٹی گلیوں اور سرنگوں کی شکل میں کاٹا گیا ہے۔ ان ٹیلوں پر تین طرف کے مکانات تعمیر کیے گئے تھے۔ نیچے سے اوپر تک چٹان کو دوسری چٹان کی طرف تعمیر اور اس کے راستوں سے منفرد بنایا گیا۔ سامنے دروازہ اندرونی کمرے ان کے دروازے بعض غاروں میں ایک سے زائد کشادہ کمرے دیکھے۔ روشنی کے لیے اندرون خانہ چھوٹے دریچے جب کہ کئی غاروں میں طاق کی جگہ موجود پائی۔ ان میں پہاڑوں کے نچلے حصے میں متعدد غار ہیں جن میں اناج اور دیگر ضروریات کی اشیا رکھنے کی جگہ کے آثار ملتے ہیں۔
پتھریلے راستوں سے گزر کر اندر داخل ہونے پر ایک گھاٹی دکھائی دیتی ہے۔ اس گھاٹی کے بالائی حصے میں اوپر کی چٹانوں سے پانی گرتا رہتا ہے اسے جمع کرنے کا انتظام کیا گیا ہے مقامی آبادی کے افراد اس پانی کو نہ صرف آب شفا کہتے ہیں بلکہ اس جگہ منتیں بھی مانگی جاتی ہیں۔ ان ہی پہاڑوں کی چوٹی پر ایک مسجد بھی ہے۔ گھاٹی میں ملحق، ملکہ بلقیس کا محل جو 20 مربع فٹ کمرے پر مشتمل ہے۔ لیکن اس جگہ تک رسائی مشکل ہی نہیں میرے خیال میں ناممکن ہے۔
کئی راستے گزرتے وقت کے ساتھ ختم ہو چکے ہیں۔ جو باقی ہیں وہ خطرات سے بھرے ہوئے ہیں۔ چند مورخین کے خیال میں شہر روغان کے ان غاروں کو بدھ مت کے پیروکار نے اپنی رہائش کے لیے بنایا تھا۔ تاہم بعض تاریخ دان مورخین اس علاقے کو دو ہزار سال پرانا بتاتے ہیں جب کہ ''بیلہ'' کے مقامی لوگ اس شہر سے متعلق لوگ کئی پر اثرار واقعات و روایات منسوب کرتے ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ غاروں میں کن لوگوں کی رہائش تھی اور کیوں؟
شہر روغان کی بیرونی جانب ایک شفاف ندی بہہ رہی ہے جس کا پانی میٹھا اور ٹھنڈا ہے۔ اس ندی کی تیز موجوں کو عبور کریں تو پتھروں کے ڈھیر اور جنگلی جھاڑیوں کی دوسری طرف ایک مزار دکھائی دیا میں اس مزار پر گیا تاکہ معلوم کیا جاسکے یہ واقعی مائی گوندرانی کا مزار ہے یا کسی اور کا؟ یہ حقیقتاً مائی گوندرانی کا مزار ہے میں نے مقامی افراد سے معلوم کیا، تو انھوں نے بتایا اس کو پیر مائی یعنی مائی پیر کا مزار کہتے ہیں۔
اس مزار سے متعلق کئی واقعات بیلہ کے مضبوط عقائد کی غمازی کرتے ہیں۔ حکومت کی عدم دلچسپی اور محکمہ آثار قدیمہ کے نہ ہونے کے باعث اب یہاں تقریباً دو ہزار میں سے صرف تین سو سے چار سو غار بچے ہیں۔ اس کے باوجود کچے پکے راستوں سے میری طرح کئی گھنٹوں کی مسافت طے کرکے شہر روغان کے انوکھے غار دیکھنے لوگ آتے ہیں۔ مہم جو سیاح ان غاروں پر چڑھ کر ان کو اندر باہر سے دیکھتے ہیں۔
بعدازاں مائی گوندرانی یا پیر مائی کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں۔ قریبی ندی سے پیاس بجھاتے اور اچھی آب و ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اپنی یادگاری تصویر کشی کرتے ہیں، اندھیرا ہونے سے قبل واپسی کے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ آخر میں یہ کہتا چلوں جیساکہ مجھے بھی بتایا گیا کہ شاید یہ ممکن ہے کہ ساتویں صدی عیسوی کے بدھ مت کے ماننے والوں نے یہ غار بنائے۔ اس وقت اس کی اونچائی چھ فٹ رکھی گئی تھی اندر جانے سے کسی کا سر غار کی چھت پر نہیںلگتا۔ بدھ مت کی بات درست ہے۔
شابان: سطح سمندر سے 8 ہزار فٹ بلند درہ زرخند کے دامن میں واقع ہے۔ شابان بلوچستان کے سرد ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ کوئٹہ شہر کے مشرق میں واقع پہاڑی سلسلہ صنوبر کے جنگلات کی وجہ سے مشہور ہے۔ زیارت کے بعد صنوبر کے دوسرے بڑے جنگلات درہ زرخند میں واقع ہے جو ہزاروں سال پرانے ہیں۔ اس جنگلی درخت کی خصوصیت یہ ہے کہ پانچ سال میں یہ درخت صرف ایک انچ بڑھتا ہے۔
یہ گھنے جنگلات اور ٹھنڈے چشمے کا پانی کوہ پیمائی کے شوقین کے لیے کسی جنت سے کم نہیں، ایک ہزار سات سو اڑتیس فٹ بلند بلوچستان کی سب سے بلند چوٹی ''لوئے سرمیکان'' میں اسی پہاڑی سلسلہ کی زینت ہے۔ یہاں ''کاکڑ'' قوم کی ذیلی شاخ سے تعلق رکھنے والے ''دمڑ'' قبیلہ آباد ہے، جن کا زیادہ تر ذریعہ معاش گلہ بانی اور کھیتی باڑی ہے۔ کوئٹہ سے ''تورشور'' کا فاصلہ 60 کلو میٹر ہے۔ کوئٹہ سے 20 کلو میٹر کے فاصلے کے بعد ''اوڑن'' وادی ہے یہاں کے خوبصورت نظاروں کو دیکھنے کے بعد انسانی عقل اپنے رب تبارک تعالیٰ کی جمالیاتی ذوق پر ششدر و دنگ رہ جاتی ہے۔
سیب کے باغات کے درمیان اس سفر کو مزید حسین بنا دیتا ہے۔ 23 کلو میٹر سفر طے کرنے کے بعد بائیں جانب ایک کچی سڑک ''شابان'' کی طرف لے جاتی ہے جوکہ زیادہ تر پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے۔ شابان جس کو طارق آباد کہا جاتا ہے میٹھے پانی کا چشمہ اور باغات ہیں چاروں اطراف ہریالی ہے۔ سارے خوبصورت نظارے ہیں، محکمہ جنگلات کا خوبصورت ریسٹ ہاؤس موجود ہے۔ یہاں ایک تالاب ٹراؤود مچھلیوں کا ہے یہاں ایک نجی ریسٹ ہاؤس ہے لیکن محکمہ جنگلات کا ریسٹ ہاؤس بہت خوبصورت، مختلف رنگوں کے پتھر استعمال کیے گئے ہیں۔ تورشور ریسٹ ہاؤس 1996 میں تعمیر ہوا، خاصا بڑا ہے اس کے ہال میں 25 سے زائد افراد بیٹھ سکتے ہیں۔
فرنیچر سارا سامان موجود ہے کمرے کشادہ ہیں ہر کمرے کے ساتھ ملحق واش روم ہے۔ یہاں پودوں کی نرسری بھی ہے جہاں پودوں کی آب یاری کی جاتی ہے۔ تورشور صوبہ بلوچستان کا تفریح گاہوں میں سے ایک ہے اپریل سے ستمبر تک یہاں کا موسم خوشگوار رہتا ہے گرمیوں میں پاکستان بھر سے لوگ یہاں تفریح کے لیے آتے ہیں ان درختوں اور چشموں کے پاس وقت گزارتے ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں پہاڑی، سرسبز مقامات صحت افزا ہیں۔
بلوچستان میں موجود جن پہاڑوں کی اپنی اپنی خوبصورتی اور حسن ہے، ان پہاڑوں میں میٹھے پانی کے چشمے، جنگلات کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ پہاڑ اور جنگلات مختلف اقسام کے چرند، پرند کا مسکن بھی ہیں۔پختہ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی بلوچستان میں ایسے دیدہ زیب خوبصورت علاقے موجود ہیں جن کے متعلق کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ انھی علاقوں میں ضلع لسبیلہ میں موجود بانبڑی ہے۔
اوتھل سے بانبڑی کا فاصلہ پینتالیس کلو میٹر اور ویراو چیک پوسٹ سے 16 کلو میٹر ہے۔ کچی سڑک اس خوبصورت جگہ لے جاتی ہے۔ قومی شاہراہ سے 29 کلو میٹر سفر کرنے کے بعد ''ویراو'' چیک پوسٹ کے دائیں طرف ایک کچی سڑک بانبڑی کی طرف جاتی ہے مجھے چونکہ معلوم تھا کہ 4x4 کی گاڑی زیادہ بہتر رہے گی لہٰذا میں نے اپنے دوست کو ساتھ لیا اس کے پاس نئی 4x4 کی جیپ تھی وہ اس راستے کے لیے مفید ثابت ہوئی۔
یہاں پہنچ کر اپنے رب تبارک و تعالیٰ کی قدرت کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ چاروں جانب بنجر پہاڑ اور ایک تنگ جگہ پر واقع یہ خوبصورت درہ اور اس میں بہتے پانی کے ٹھنڈے چشمے نہایت پرکیف یہ ایک تصوراتی جگہ ہے۔ گرمیوں کی دھوپ میں چٹانوں کے سایہ اور درہ کی مظہر کن ہواؤں نے مجبور کردیا کہ اپنی زندگی کے حسین لمحات گزارنے کی بات ہی الگ ہے۔ بانبڑی کی آبادی صرف سولہ گھرانوں پر مشتمل ہے جوکہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جوکہ جاموٹ قبیلے سے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش مائننگ اور گلہ بانی ہے۔ یہاں ایک سرکاری اسکول اور محکمہ صحت کا اسپتال بھی موجود ہے۔ آبشار کا نظارہ، خوبصورت سبزہ زار چھوٹا سا علاقہ ہے۔
کھجور کے درخت اور پیرو کے درخت ہیں۔ ایک جگہ اوپر سے پانی نیچے کی طرف بہتا ہے۔ پرسکون علاقہ ہے پرندوں کی چہچہاہٹ سنائی دیتی ہے۔ شاید بہت ہی کم افراد کو اس علاقے کے بارے میں معلوم ہوگا۔
بانبڑی کو حاجی میر محمد گوٹھ کے نام سے جانتے ہیں، اوتھل سے تقریباً 45 کلو میٹر فاصلے پر ہے یہ انتہائی خوبصورت اور پرلطف علاقہ ہے۔
ضلع لسبیلہ میں وائی کا فاصلہ اوتھل سے پچاس کلو میٹر اور کراچی سے 175 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اوتھل سے 45 کلو میٹر کا سفر طے کیا تو میری دائیں جانب نہڑ اسٹاپ آیا جہاں سے پانچ میٹر سفر کرنے کے بعد ایک کچی سڑک ہے جس پر مزید پانچ کلو میٹر کا سفر کرنے کے بعد وائی کا خوبصورت علاقہ ہے پانی کے چشمے اندر تیرتی ہوئی مچھلیاں خوب لگتی ہیں۔ وائی اپنی خوبصورتی کے ساتھ بہترین پکنک پوائنٹ بھی ہے۔
مائی گوندرانی: کراچی سے تقریباً 175 کلو میٹر کے فاصلے پر ضلع لسبیلہ میں ہے اس جگہ کا نام روغان ہے لیکن یہ مائی گوندرانی کے نام سے مشہور ہے۔ تاریخی، قدیمی علاقہ ہے دو ہزار سال کے آثار موجود ہیں ضلع لسبیلہ سے آٹھ میل شمال میں تاریخی و قدیمی شہر موجود ہے۔ تنگ وادی کے بیچ ایک طرف سبزہ اور چٹیل میدان ہے تو دوسری طرف خوبصورت پہاڑوں کے دامن میں اس قدیم شہر کو روغان،اورگان، مائی گوندرانی، اوڈک اور مائی پیر بھی کہا جاتا ہے۔ اونچائی سے شہر روغان کا نظارہ انوکھا معلوم دیتا ہے۔ کچے پکے راستوں سے گزرتے ہوئے ان پہاڑوں کے نزدیک جائیں تو جا بجا غار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ پانچ سو فٹ عمودی اونچی اور تقریباً 15 فٹ مربع پر محیط ہیں۔
ان غاروں کو تنگ راستوں، چھوٹی گلیوں اور سرنگوں کی شکل میں کاٹا گیا ہے۔ ان ٹیلوں پر تین طرف کے مکانات تعمیر کیے گئے تھے۔ نیچے سے اوپر تک چٹان کو دوسری چٹان کی طرف تعمیر اور اس کے راستوں سے منفرد بنایا گیا۔ سامنے دروازہ اندرونی کمرے ان کے دروازے بعض غاروں میں ایک سے زائد کشادہ کمرے دیکھے۔ روشنی کے لیے اندرون خانہ چھوٹے دریچے جب کہ کئی غاروں میں طاق کی جگہ موجود پائی۔ ان میں پہاڑوں کے نچلے حصے میں متعدد غار ہیں جن میں اناج اور دیگر ضروریات کی اشیا رکھنے کی جگہ کے آثار ملتے ہیں۔
پتھریلے راستوں سے گزر کر اندر داخل ہونے پر ایک گھاٹی دکھائی دیتی ہے۔ اس گھاٹی کے بالائی حصے میں اوپر کی چٹانوں سے پانی گرتا رہتا ہے اسے جمع کرنے کا انتظام کیا گیا ہے مقامی آبادی کے افراد اس پانی کو نہ صرف آب شفا کہتے ہیں بلکہ اس جگہ منتیں بھی مانگی جاتی ہیں۔ ان ہی پہاڑوں کی چوٹی پر ایک مسجد بھی ہے۔ گھاٹی میں ملحق، ملکہ بلقیس کا محل جو 20 مربع فٹ کمرے پر مشتمل ہے۔ لیکن اس جگہ تک رسائی مشکل ہی نہیں میرے خیال میں ناممکن ہے۔
کئی راستے گزرتے وقت کے ساتھ ختم ہو چکے ہیں۔ جو باقی ہیں وہ خطرات سے بھرے ہوئے ہیں۔ چند مورخین کے خیال میں شہر روغان کے ان غاروں کو بدھ مت کے پیروکار نے اپنی رہائش کے لیے بنایا تھا۔ تاہم بعض تاریخ دان مورخین اس علاقے کو دو ہزار سال پرانا بتاتے ہیں جب کہ ''بیلہ'' کے مقامی لوگ اس شہر سے متعلق لوگ کئی پر اثرار واقعات و روایات منسوب کرتے ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ غاروں میں کن لوگوں کی رہائش تھی اور کیوں؟
شہر روغان کی بیرونی جانب ایک شفاف ندی بہہ رہی ہے جس کا پانی میٹھا اور ٹھنڈا ہے۔ اس ندی کی تیز موجوں کو عبور کریں تو پتھروں کے ڈھیر اور جنگلی جھاڑیوں کی دوسری طرف ایک مزار دکھائی دیا میں اس مزار پر گیا تاکہ معلوم کیا جاسکے یہ واقعی مائی گوندرانی کا مزار ہے یا کسی اور کا؟ یہ حقیقتاً مائی گوندرانی کا مزار ہے میں نے مقامی افراد سے معلوم کیا، تو انھوں نے بتایا اس کو پیر مائی یعنی مائی پیر کا مزار کہتے ہیں۔
اس مزار سے متعلق کئی واقعات بیلہ کے مضبوط عقائد کی غمازی کرتے ہیں۔ حکومت کی عدم دلچسپی اور محکمہ آثار قدیمہ کے نہ ہونے کے باعث اب یہاں تقریباً دو ہزار میں سے صرف تین سو سے چار سو غار بچے ہیں۔ اس کے باوجود کچے پکے راستوں سے میری طرح کئی گھنٹوں کی مسافت طے کرکے شہر روغان کے انوکھے غار دیکھنے لوگ آتے ہیں۔ مہم جو سیاح ان غاروں پر چڑھ کر ان کو اندر باہر سے دیکھتے ہیں۔
بعدازاں مائی گوندرانی یا پیر مائی کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں۔ قریبی ندی سے پیاس بجھاتے اور اچھی آب و ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اپنی یادگاری تصویر کشی کرتے ہیں، اندھیرا ہونے سے قبل واپسی کے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ آخر میں یہ کہتا چلوں جیساکہ مجھے بھی بتایا گیا کہ شاید یہ ممکن ہے کہ ساتویں صدی عیسوی کے بدھ مت کے ماننے والوں نے یہ غار بنائے۔ اس وقت اس کی اونچائی چھ فٹ رکھی گئی تھی اندر جانے سے کسی کا سر غار کی چھت پر نہیںلگتا۔ بدھ مت کی بات درست ہے۔
شابان: سطح سمندر سے 8 ہزار فٹ بلند درہ زرخند کے دامن میں واقع ہے۔ شابان بلوچستان کے سرد ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ کوئٹہ شہر کے مشرق میں واقع پہاڑی سلسلہ صنوبر کے جنگلات کی وجہ سے مشہور ہے۔ زیارت کے بعد صنوبر کے دوسرے بڑے جنگلات درہ زرخند میں واقع ہے جو ہزاروں سال پرانے ہیں۔ اس جنگلی درخت کی خصوصیت یہ ہے کہ پانچ سال میں یہ درخت صرف ایک انچ بڑھتا ہے۔
یہ گھنے جنگلات اور ٹھنڈے چشمے کا پانی کوہ پیمائی کے شوقین کے لیے کسی جنت سے کم نہیں، ایک ہزار سات سو اڑتیس فٹ بلند بلوچستان کی سب سے بلند چوٹی ''لوئے سرمیکان'' میں اسی پہاڑی سلسلہ کی زینت ہے۔ یہاں ''کاکڑ'' قوم کی ذیلی شاخ سے تعلق رکھنے والے ''دمڑ'' قبیلہ آباد ہے، جن کا زیادہ تر ذریعہ معاش گلہ بانی اور کھیتی باڑی ہے۔ کوئٹہ سے ''تورشور'' کا فاصلہ 60 کلو میٹر ہے۔ کوئٹہ سے 20 کلو میٹر کے فاصلے کے بعد ''اوڑن'' وادی ہے یہاں کے خوبصورت نظاروں کو دیکھنے کے بعد انسانی عقل اپنے رب تبارک تعالیٰ کی جمالیاتی ذوق پر ششدر و دنگ رہ جاتی ہے۔
سیب کے باغات کے درمیان اس سفر کو مزید حسین بنا دیتا ہے۔ 23 کلو میٹر سفر طے کرنے کے بعد بائیں جانب ایک کچی سڑک ''شابان'' کی طرف لے جاتی ہے جوکہ زیادہ تر پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے۔ شابان جس کو طارق آباد کہا جاتا ہے میٹھے پانی کا چشمہ اور باغات ہیں چاروں اطراف ہریالی ہے۔ سارے خوبصورت نظارے ہیں، محکمہ جنگلات کا خوبصورت ریسٹ ہاؤس موجود ہے۔ یہاں ایک تالاب ٹراؤود مچھلیوں کا ہے یہاں ایک نجی ریسٹ ہاؤس ہے لیکن محکمہ جنگلات کا ریسٹ ہاؤس بہت خوبصورت، مختلف رنگوں کے پتھر استعمال کیے گئے ہیں۔ تورشور ریسٹ ہاؤس 1996 میں تعمیر ہوا، خاصا بڑا ہے اس کے ہال میں 25 سے زائد افراد بیٹھ سکتے ہیں۔
فرنیچر سارا سامان موجود ہے کمرے کشادہ ہیں ہر کمرے کے ساتھ ملحق واش روم ہے۔ یہاں پودوں کی نرسری بھی ہے جہاں پودوں کی آب یاری کی جاتی ہے۔ تورشور صوبہ بلوچستان کا تفریح گاہوں میں سے ایک ہے اپریل سے ستمبر تک یہاں کا موسم خوشگوار رہتا ہے گرمیوں میں پاکستان بھر سے لوگ یہاں تفریح کے لیے آتے ہیں ان درختوں اور چشموں کے پاس وقت گزارتے ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں پہاڑی، سرسبز مقامات صحت افزا ہیں۔