سانحہ سیالکوٹ مضمرات

ملک کے دانشور اور صاحب فہم حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اس انتہا پسندی تک کیوں پہنچا؟

SEOUL:
لبنانی نژاد معروف دانشور خلیل جبران کا قول ہے کہ درندوں نے بہمیت کے تمام گُر درحقیقت ابن آدم ہی سے سیکھے ہیں۔ ابن آدم کی شقی القلبی، سفاکی اور بربریت دیکھتا ہوں تو فلسطین سے لے کر کشمیر تک انسانیت کی تذلیل، توہین، وحشی پن، سنگدلی اور ظلم و ستم کی ہزاروں داستانیں تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔

بدقسمتی سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں وقفے وقفے سے ایسی دل خراش خبریں دل کو دہلا دیتی ہیں۔ درندگی کے اجتماعی واقعات اپنی جگہ لیکن دنیا کے مختلف ممالک میں انفرادی سطح پر بھی بعض ایسے دردناک سانحے رونما ہوتے رہے ہیں جو مثال بن کر انسانیت کی توہین کا چہرہ بے نقاب کردیتے ہیں۔

دنیا بھر میں جرم و سزا کے قوانین موجود ہیں۔ جرم کسی بھی نوعیت کا اور کسی بھی سطح پر ہو دعویداروں کو ٹھوس ثبوت اور شواہد پیش کرنے پڑتے ہیں۔ اسلام میں عدل کے لیے حاکم وقت کو بھی کٹہرے میں کھڑے ہو کر اپنی بے گناہی ثابت کرنا پڑتی ہے۔ اور جرم ثابت ہونے پر سزا کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ آپؐ کے دور میں قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت فاطمہ چوری کے جرم میں گرفتار ہوئی تو قاضی وقت نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر کیا۔ اس کے قبیلے کے اکابرین نے اس خاتون کو سزا سے بچانے کے لیے تمام تر حربے استعمال کیے۔

لیکن آپؐ نے اس موقع پر تاریخی جملے ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ ''اگر اس کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دیتا۔'' تاریخ کی کتابوں میں ایک اور واقعہ ملتا ہے کہ خلیفہ وقت حضرت عمرؓ نے گورنر کے بیٹے کو سرعام کوڑے مارے اور ثابت کیا کہ اسلام میں قانون سب کے لیے برابر ہے۔ قانون کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ امیر غریب اور چھوٹے بڑے کی تفریق ختم کردی جائے۔ ہر ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ ثبوتوں، شواہد اور گواہوں کی گواہی کی بنیاد پر عدالت ہی ملزم کو مجرم ٹھہرا کر سزا دے سکتی ہے۔ ماورائے عدالت فیصلے کرنے کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔

بحیثیت مسلمان ہم اپنے دین سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں اور پیغمبر اسلام، آقائے دو جہاں، خاتم النبین حضرت محمد مصطفیؐ سے اپنی قلبی عقیدت کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ آپؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر حب رسولؐ کا ثبوت دینے میں ہم اپنی مثال آپ ہیں۔ فرانس کا خبیث کارٹونسٹ جب نعوذباللہ آپؐ کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا تو دنیا بھر کے مسلمان ایک آواز بلند ہو کر اس ملعون کے خلاف سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔ ہم ناموس رسالت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔


پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ اس کا دستور اور قانون بھی قرآن و سنت کے مطابق بنایا گیا ہے۔ وطن عزیز میں توہین مذہب کا قانون بھی موجود ہے۔ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کسی بھی جگہ شان رسالت میں کوئی ملعون اگر گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے تو ایک ذمے دار شہری کی حیثیت سے ایسے شخص کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے تاکہ اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے نہ کہ خود قانون ہاتھ میں لے کر کوئی ایسا انتہائی قدم اٹھا لیا جائے جو نہ صرف یہ کہ ملک و قوم کی رسوائی و شرمندگی کا باعث بنے بلکہ دین اسلام کی تعلیمات کے بھی برعکس ہو اور خود اپنے لیے بھی افسوس اور ندامت کا باعث بنے۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو سیالکوٹ میں اسپورٹس گارمنٹ کی نجی فیکٹری میں کام کرنے والے سری لنکن منیجر پریانتھاکمارا کے ساتھ جو ہوا ،وہ افسوسناک ہے، اس کی لاش سے شعلے اٹھتے رہے تو دوسری طرف لوگوں کی بے حسی کا یہ عالم کہ وہ اس دل خراش منظر کی ویڈیو بناتے رہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل گئی اور چند ہی گھنٹوں میں عالمی سطح پر وطن عزیز رسوائی، بدنامی اور شرمندگی کی پاتال میں اتر گیا۔ پریانتھا کمارا کے ساتھ پیش آنے والے انسانیت سوز سانحے پر ہر طبقہ فکر اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ''سری لنکن منیجر کو زندہ جلانے کا واقعہ پاکستان کے لیے شرم کا دن ہے'' آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پریانتھا کمارا کے بہیمانہ قتل کو ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہوئے ایسے انتہائی اقدام کو ناقابل قبول قرار دیا۔ مفتی تقی عثمانی کا موقف ہے کہ سانحہ سیالکوٹ ہمارے لیے بہت خطرے کی بات ہے، کسی شخص کا دوسرے شخص پر توہین رسالت کا الزام لگا کر خود ہی سزا دینے کا رجحان بہت غلط ہے۔

مفتی منیب الرحمن کا کہنا ہے کہ آئینی و قانونی نظام کے ہوتے ہوئے قانون ہاتھ میں لینے کا کوئی جواز نہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں میاں شہباز شریف، بلاول بھٹو، مریم نواز، سراج الحق اور مولانا فضل الرحمن سب ہی نے سانحہ سیالکوٹ کی مذمت کرتے ہوئے اسے افسوس ناک قرار دیا۔ سری لنکن صدر گوٹابا راجاپا نے کہا ہے کہ اس واقعے پر میں صدمے میں ہوں، ہماری حکومت کو وزیر اعظم عمران خان پر مکمل بھروسہ ہے کہ وہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔

ملک کے دانشور اور صاحب فہم حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اس انتہا پسندی تک کیوں پہنچا؟ کیا صرف تعزیتوں اور مذمتی بیانات سے معاشرے کی انتہا پسندانہ سوچ کو تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ عوام کی رہنمائی اور ان کی ذہن سازی کون کرے گا کہ اسلام امن و آشتی کا دین ہے جس میں جزا و سزا کے قوانین موجود ہیں۔ کسی بھی صورت قانون ہاتھ میں لینے اور عام آدمی کے ازخود فیصلہ کرنے اور ملزم کو مجرم جان کر سزا دینے کا مطلب رائج نظام عدل سے روگردانی کے مترادف ہے۔ ایسے کسی بھی عمل کی پذیرائی نہیں کی جاسکتی۔ وقت و حالات کی نزاکتوں کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنا ارباب اختیار کی ذمے داری ہے۔

مذہبی منافرت، انتہا پسندانہ عزائم، تشدد آمیز رجحانات اور منتقمانہ مسلکی سوچ کے خاتمے کے لیے ٹھوس جامع اور دیرپا منصوبہ بندی کرنا ازبس ضروری ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کا یہ متفقہ موقف حوصلہ افزا ہے کہ سانحہ سیالکوٹ جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک جامع حکمت عملی پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت سیکیورٹی اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر کس حد تک عمل ہوگا یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
Load Next Story