سیاسی اخلاقیات
سیاسی حلقوں میں مہمان خاص کر ساتھ آنے والوں کو بھی عزت سے مخصوص جگہ بٹھا کر ان کی تکریم کی جاتی ہے۔
SEOUL:
ملک میں پہلے سیاسی اور اخلاقی مہمان نوازی کی مثالیں دی جاتی تھیں اور دشمن کے گھر آجانے پر اس کی عزت کی جاتی تھی مگر گزشتہ ایک عشرے سے سیاست میں جو بداخلاقی، قابل اعتراض ریمارکس اور مخالفین پر نازیبا الزامات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اب بداخلاقی سے شرم ناک ویڈیوز تک پہنچ گیا ہے جب کہ جھوٹ تو انتہا پر پہنچا ہوا ہے ماضی میں یہ نوبت کبھی نہیں آئی تھی۔ جنرل ضیا الحق اگرچہ آمر کہلاتے تھے مگر ان کی انکساری اور اخلاق جیسی مثال کسی سیاستدان نے پیش نہیں کی۔
سابق وزیر اعظم بھٹو نے اپنے سیاسی مخالفین کو مختلف ناموں سے اپنے جلسوں میں پکارنا شروع کیا تھا مگر کسی جلسے میں جوتا دکھانے والے کو انھوں نے نہیں جھاڑا تھا بلکہ کہا تھا کہ '' مجھے پتا ہے کہ جوتے مہنگے ہوگئے ہیں۔'' وزیر اعظم عمران خان نے اپنے حالیہ غیر ملکی دورے میں حسب حال اشعار سنانے پر نہ صرف جھاڑ دیا بلکہ وطن واپس آ کر اشعار سنانے والے تعلیم یافتہ شخص کی مذکورہ وفد میں شمولیت کی تحقیقات بھی شروع ہوگئی کہ ایسا شخص تجارتی وفد میں کیوں شامل کیا گیا اور اس نے ملکی حالات اشعار کی صورت میں وزیر اعظم کے سامنے سنانے کی جرأت کیسے کی تھی۔
راقم نے دور آمریت اور اپوزیشن کی ملک گیر تحریک کے دوران آمر قرار دیے جانے والے جنرل ضیا کا اخلاق شکار پور اور لاڑکانہ میں قریب سے دیکھا تھا کہ وہ لوگوں کی باتوں کا جواب خوش اخلاقی اور مذاقیہ طور پر دیتے تھے اور برا نہیں مناتے تھے مگر جمہوری وزیر اعظم کہلانے والے نے غیر ملک میں پاکستانی تاجر کو جھاڑ کر کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی۔ انھیں حقائق پر مبنی اشعار کا جواب احسن طریقے سے دینا چاہیے تھا کیونکہ وہ خود اپوزیشن میں ہوتے ہوئے حکومت کے خلاف انتہا پر چلے جاتے تھے۔
ملک کی اپوزیشن پی ٹی آئی پر سیاسی جھوٹ در جھوٹ تک کے الزامات عائد کرتی ہے کہ پی ٹی آئی سے قبل ایسا نہیں تھا۔ 2014 کے اسلام آباد میں تحریک انصاف کے دھرنے میں جو کچھ ہوا تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ حکومت میں آنے کے بعد ان کا رویہ تبدیل اور رہنماؤں کو یہ برداشت اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا مگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی طرف سے مخالفین اور اینکروں پر تھپڑوں کے مناظر نے سیاست میں انتہا پسندی ہی کو فروغ دیا اور سیاست سے شرافت ختم ہوتی گئی۔
لاہور میں ایک سیاستدان کے گارڈز نے دوسرے سیاستدان کے مہمان سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ جس سلوک کا مظاہرہ کیا اس پر غور کرنا چاہیے۔ سیاستدان ایک دوسرے سے ملنے ان کے گھر جاتے ہیں تو ان کے سیکیورٹی گارڈز بھی ساتھ ہوتے ہیں بڑے سیاستدانوں کے گھرانے چھوٹے نہیں ہوتے کہ مہمان کے گارڈوں کو کسی جگہ عزت سے نہ بٹھایا جاسکے۔ پٹھان تو مہمان نوازی میں مشہور ہیں۔
دوسرے سیاستدان کے ساتھ آنے والے سیکیورٹی گارڈز کا پہلے سیاستدان کو بھی پتا ہوگا کیونکہ وہ بھی سیکیورٹی گارڈز کے جھرمٹ میں سفر کرتے ہیں۔ سیاستدان عام طور پر مہمان نواز ہوتے ہیں۔ چوہدری برادران کی مہمان نوازی بھی مشہور ہے ، ان کے گھروں پر لنگر چلتا رہتا ہے۔ میاں نواز شریف اخلاقی طور پر مشہور ہیں۔ پی ٹی آئی کے بعض سیاستدانوں کے لیے تو یہ مشہور ہے کہ وہ گھر آئے کسی بڑے کو بھی چائے کا نہیں پوچھتے مگر شریفوں کی بداخلاقی کا کوئی واقعہ مشہور نہیں ہے۔
سیاسی حلقوں میں مہمان خاص کر ساتھ آنے والوں کو بھی عزت سے مخصوص جگہ بٹھا کر ان کی تکریم کی جاتی ہے اور کھانے کے وقت کھانا بھی کھلایا جاتا ہے اور اپنی پبلسٹی کے لیے میڈیا کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے اور انھیں کسی شکایت کا موقعہ نہیں دیا جاتا۔ اسمبلیوں کے ایوانوں میں ایک دوسرے سے الجھنے اور لڑنے والے سیاستدان باہر آ کر ایک ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی غمی خوشی میں بھی شریک ہوتے ہیں اور یہ ہونا بھی چاہیے۔
امید تو نہیں کہ دوسرے سیاستدان کے گارڈز بھی جواب میں پہلے والے سیاستدان کے ساتھ آنے والے سیکیورٹی گارڈز سے جواب میں ان جیسا ہی سلوک کریں گے اس لیے سیاستدانوں کو بڑوں کے ساتھ نچلے درجے کے ان سیکیورٹی گارڈز اور ڈرائیوروں کا بھی سوچنا چاہیے اور ان غریبوں کا بھی خیال کرنا چاہیے جو اپنی ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں۔
ملک میں پہلے سیاسی اور اخلاقی مہمان نوازی کی مثالیں دی جاتی تھیں اور دشمن کے گھر آجانے پر اس کی عزت کی جاتی تھی مگر گزشتہ ایک عشرے سے سیاست میں جو بداخلاقی، قابل اعتراض ریمارکس اور مخالفین پر نازیبا الزامات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اب بداخلاقی سے شرم ناک ویڈیوز تک پہنچ گیا ہے جب کہ جھوٹ تو انتہا پر پہنچا ہوا ہے ماضی میں یہ نوبت کبھی نہیں آئی تھی۔ جنرل ضیا الحق اگرچہ آمر کہلاتے تھے مگر ان کی انکساری اور اخلاق جیسی مثال کسی سیاستدان نے پیش نہیں کی۔
سابق وزیر اعظم بھٹو نے اپنے سیاسی مخالفین کو مختلف ناموں سے اپنے جلسوں میں پکارنا شروع کیا تھا مگر کسی جلسے میں جوتا دکھانے والے کو انھوں نے نہیں جھاڑا تھا بلکہ کہا تھا کہ '' مجھے پتا ہے کہ جوتے مہنگے ہوگئے ہیں۔'' وزیر اعظم عمران خان نے اپنے حالیہ غیر ملکی دورے میں حسب حال اشعار سنانے پر نہ صرف جھاڑ دیا بلکہ وطن واپس آ کر اشعار سنانے والے تعلیم یافتہ شخص کی مذکورہ وفد میں شمولیت کی تحقیقات بھی شروع ہوگئی کہ ایسا شخص تجارتی وفد میں کیوں شامل کیا گیا اور اس نے ملکی حالات اشعار کی صورت میں وزیر اعظم کے سامنے سنانے کی جرأت کیسے کی تھی۔
راقم نے دور آمریت اور اپوزیشن کی ملک گیر تحریک کے دوران آمر قرار دیے جانے والے جنرل ضیا کا اخلاق شکار پور اور لاڑکانہ میں قریب سے دیکھا تھا کہ وہ لوگوں کی باتوں کا جواب خوش اخلاقی اور مذاقیہ طور پر دیتے تھے اور برا نہیں مناتے تھے مگر جمہوری وزیر اعظم کہلانے والے نے غیر ملک میں پاکستانی تاجر کو جھاڑ کر کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی۔ انھیں حقائق پر مبنی اشعار کا جواب احسن طریقے سے دینا چاہیے تھا کیونکہ وہ خود اپوزیشن میں ہوتے ہوئے حکومت کے خلاف انتہا پر چلے جاتے تھے۔
ملک کی اپوزیشن پی ٹی آئی پر سیاسی جھوٹ در جھوٹ تک کے الزامات عائد کرتی ہے کہ پی ٹی آئی سے قبل ایسا نہیں تھا۔ 2014 کے اسلام آباد میں تحریک انصاف کے دھرنے میں جو کچھ ہوا تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ حکومت میں آنے کے بعد ان کا رویہ تبدیل اور رہنماؤں کو یہ برداشت اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا مگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی طرف سے مخالفین اور اینکروں پر تھپڑوں کے مناظر نے سیاست میں انتہا پسندی ہی کو فروغ دیا اور سیاست سے شرافت ختم ہوتی گئی۔
لاہور میں ایک سیاستدان کے گارڈز نے دوسرے سیاستدان کے مہمان سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ جس سلوک کا مظاہرہ کیا اس پر غور کرنا چاہیے۔ سیاستدان ایک دوسرے سے ملنے ان کے گھر جاتے ہیں تو ان کے سیکیورٹی گارڈز بھی ساتھ ہوتے ہیں بڑے سیاستدانوں کے گھرانے چھوٹے نہیں ہوتے کہ مہمان کے گارڈوں کو کسی جگہ عزت سے نہ بٹھایا جاسکے۔ پٹھان تو مہمان نوازی میں مشہور ہیں۔
دوسرے سیاستدان کے ساتھ آنے والے سیکیورٹی گارڈز کا پہلے سیاستدان کو بھی پتا ہوگا کیونکہ وہ بھی سیکیورٹی گارڈز کے جھرمٹ میں سفر کرتے ہیں۔ سیاستدان عام طور پر مہمان نواز ہوتے ہیں۔ چوہدری برادران کی مہمان نوازی بھی مشہور ہے ، ان کے گھروں پر لنگر چلتا رہتا ہے۔ میاں نواز شریف اخلاقی طور پر مشہور ہیں۔ پی ٹی آئی کے بعض سیاستدانوں کے لیے تو یہ مشہور ہے کہ وہ گھر آئے کسی بڑے کو بھی چائے کا نہیں پوچھتے مگر شریفوں کی بداخلاقی کا کوئی واقعہ مشہور نہیں ہے۔
سیاسی حلقوں میں مہمان خاص کر ساتھ آنے والوں کو بھی عزت سے مخصوص جگہ بٹھا کر ان کی تکریم کی جاتی ہے اور کھانے کے وقت کھانا بھی کھلایا جاتا ہے اور اپنی پبلسٹی کے لیے میڈیا کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے اور انھیں کسی شکایت کا موقعہ نہیں دیا جاتا۔ اسمبلیوں کے ایوانوں میں ایک دوسرے سے الجھنے اور لڑنے والے سیاستدان باہر آ کر ایک ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی غمی خوشی میں بھی شریک ہوتے ہیں اور یہ ہونا بھی چاہیے۔
امید تو نہیں کہ دوسرے سیاستدان کے گارڈز بھی جواب میں پہلے والے سیاستدان کے ساتھ آنے والے سیکیورٹی گارڈز سے جواب میں ان جیسا ہی سلوک کریں گے اس لیے سیاستدانوں کو بڑوں کے ساتھ نچلے درجے کے ان سیکیورٹی گارڈز اور ڈرائیوروں کا بھی سوچنا چاہیے اور ان غریبوں کا بھی خیال کرنا چاہیے جو اپنی ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں۔