کراچی کو میئر نہیں وزیر اعلیٰ چاہیے
میئر کتنا با اختیار اور کتنا بے اختیار ہونا چاہیے۔ یہ سب کراچی کے مسائل کا حل نہیں ہے۔
آج کل سندھ کے بلدیاتی نظام کے حوالے سے ایک بحث شروع ہے۔ میں نے جان بوجھ کر اس بحث پر نہیں لکھا۔ سندھ اور بالخصوص کراچی کا بلدیاتی نظام کیسا ہونا چاہیے۔ میئر کے پاس کتنے اختیار ہونا چاہیے۔
میئر کتنا با اختیار اور کتنا بے اختیار ہونا چاہیے۔ یہ سب کراچی کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ کراچی کے مسائل کسی بھی میئر کے بس میں نہیں ہیں۔ کراچی کو اب میئر شپ نہیں وزارت اعلیٰ چاہیے۔ کراچی کو با اختیار میئر نہیں بلکہ کراچی کے مسائل کا حل یہی ہے کہ سندھ کا وزیر اعلیٰ کراچی سے ہو۔
کراچی کے پاس سندھ کی گورنری عرصہ دراز سے چلی آرہی ہے۔ ایم کیو ایم کی سیاست کا بھی سب سے افسوسناک پہلو یہی رہا ہے کہ انھوں نے کراچی کے مینڈیٹ کی سودے بازی ایک گورنری پر ہی کی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان کے آئین و قانون میں گورنر ایک نمائشی اور بے اختیا ر عہدہ ہے' ایم کیو ایم سندھ کی گورنری پر ہی راضی ہوتی رہی ۔ جس کی وجہ سے کراچی کے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایک گورنری لینے سے کراچی کے استحصال میں اضافہ ہوا ہے۔ کراچی پر مظالم بھی ہوئے ہیں۔ اب تحریک انصاف سے بھی وہی غلطی ہوئی ہے' وہ شاید یہی خیال کر رہی ہے کہ وہ کراچی کو گورنری دیکر کراچی کی سیاست کر لیں گے۔ حالانکہ ماضی میں ایسے تجربات ناکام ہو ئے ہیں۔
آپ مانیں یا نہ مانیں کراچی کو جتنا مرضی با اختیار میئر دے دیں' وہ کراچی کے مسائل حل نہیں کر سکے گا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک با اختیار میئر کراچی کے مسائل حل کر سکے گا وہ حالات کا گہرائی میں جا کر جائزہ نہیں لے رہے۔ آپ دیکھیں مصطفی کمال ایک مضبوط میئر ہونے کے باوجود بھی کراچی کے مسائل کوئی خاص حل نہیں کر سکے۔ ان کی کارکردگی وسیم اختر سے تقابلی جائزہ میں تو شاید بہتر ہو سکتی ہے، لیکن کراچی کے مسائل حل نہیں ہوئے تھے۔
ویسے تو اگر آج بھی صحیح مردم شماری کر دی جائے تو عین ممکن ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی کو اندرون سندھ کی سیاسی بالادستی سے چھٹکارا مل جائے۔ عین ممکن ہے بلکہ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں سو فیصد سندھ کا وزیر اعلیٰ شہری سندھ سے آجائے گا۔ شاید مردم شماری کی راہ میں مسائل ہی یہی ہیں کہ کہیں کراچی پر دیہی سندھ کے وڈیروں اور پیروں' گدی نشینوں کی حاکمیت نہ ختم ہو جائے۔
سیاسی تجزیہ نگار پنجاب کی تقسیم کی بہت بات کرتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کی بہت بات کی جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی حمایت کرنے والے کراچی کی درست مردم شما ری پر چپ ہو جاتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے حق کی بات کرنے والے کراچی کے حق پر کیوں خاموش ہو جاتے ہیں۔ ویسے تو جنوبی پنجاب کو وزارت اعلیٰ مل گئی ہے۔ عثمان بزدار کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ شہری سندھ کو وزارت اعلیٰ کب ملے گی۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ کراچی سے صدر پاکستان بھی ہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ صدر پاکستان بھی اب ایک نمائشی عہدہ ہے جس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں صدر ممنون حسین کا تعلق بھی کراچی سے ہی تھا۔ لیکن صدر پاکستان ہوتے ہوئے نہ تو وہ کراچی کی کوئی خدمت کر سکے اور نہ ہی موجودہ صدر پاکستان عارف علوی کراچی کی کوئی خدمت کر سکتے ہیں۔
آج کل کراچی کی انتظامی خود مختاری کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کراچی کی انتظامی خو د مختاری بھی تب ہی ممکن ہے جب کراچی کو اس کا جائز سیاسی حق دیا جائے گا۔ کراچی کو اکاموڈیٹ کرنے کی پالیسی ماضی میں بھی ناکام رہی ہے۔ اور آیندہ بھی ناکام ہی رہے گی۔ کراچی کو سیاسی خیرات نہیں چاہیے بلکہ کراچی کو سیاسی حق چاہیے۔ جو لوگ جنوبی پنجاب کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی بات کرتے ہیں وہ کراچی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی بات کیوں نہیں کرتے۔
کیا کراچی پاکستان کے لیے جنوبی پنجاب سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ کراچی پاکستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کمزور کرتے جائیں گے تو پاکستان کیسے مضبوط ہوگا۔ ویسے تو پیپلزپارٹی کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ کراچی کو وزارت اعلیٰ دے دے۔ انھوں نے بھی اندرون سندھ کو شہری سندھ پر ترجیح دی ہے۔ کیا یہ درست نہیں کہ پیپلزپارٹی کراچی کے ساتھ انصاف نہیں کر سکی۔
آپ کراچی کے میئر کو جتنے مرضی اختیارات دے دیں لیکن وہ وزیر اعلیٰ کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ کہیں بھی میئر وزیر اعلیٰ کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ میں یہ نہیںکہتا کہ کراچی کو زبردستی وزارت اعلیٰ دے دی جائے۔ حالانکہ جنوبی پنجاب کو زبردستی دی گئی ہے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر جنوبی پنجاب کا ویسے حق نہیں ہے جیسے شہری سندھ کو ہے' اگر کراچی کی درست مردم شماری ہو جائے تو سندھ کی وزارت اعلیٰ پر شہری سندھ کا حق خود بخود بن جائے گا۔ انتظامی خود مختاری خود بخود مل جائے گی۔ اندرون سندھ کی سیاسی بالادستی ختم ہو جائے گی۔
ویسے جب کراچی کی درست مردم شماری ہو جائے گی اور سندھ دیہی اشرافیہ کی سیاسی بالادستی سے باہر نکل آئے گا تو جو سیاستدان آج سندھ کی تقسیم پر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں وہ وہی سندھ کی تقسیم کی بات کرنے لگ جائیں ۔ شاید اندرون سندھ کی سیاسی قیادت میں پنجاب کی قیادت جیسا حوصلہ نہیں ہے کہ سیاسی بالا دستی کے باوجود جنوبی صوبے کی وزارت اعلیٰ دے دی جائے۔ کیا اندرون سندھ کی سیاسی قیادت آج شہری سندھ کو وزارت اعلیٰ دے سکتی ہے۔ جو میئر کو معمولی اختیار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں وہ شہری سندھ کو وزارت اعلیٰ کیا دیں گے۔
جہاں تک کوٹہ سسٹم اور دیگر مسائل کا تعلق ہے جب کراچی کو اس کا حق حاکمیت مل جائے گا یہ مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ جب وڈیروں اور پیروں کی سیاسی بالا ستی ختم ہوگی تو امتیازی قوانین بھی ختم ہو جائیں گے۔ جعلی ڈومیسائل جیسے مسائل بھی ختم ہو جائیں گے۔ اگر نسلہ ٹاور گر سکتا ہے تو جعلی ڈومیسائل پر لی گئی نوکریاں بھی ختم ہو جائیں گی۔ شہری سندھ کی نوکریاں بھی واپس مل جائیں گی۔ افسوس کی بات ہے کہ تحریک انصاف بھی کراچی کے اصل مسائل حل کرنے میں کوئی سنجیدہ نظر نہیں آئی ہے۔ جتنا کراچی گریٹ ہوگا اتنا ہی پاکستان گریٹ ہوگا۔ اگر کراچی کے ساتھ انصاف ہوگا تو کراچی اور پاکستان کا رشتہ مضبوط ہوگا۔ استحصال اور نا انصافی کے ساتھ مضبوط رشتہ بھی کمزور ہو سکتا ہے۔
میئر کتنا با اختیار اور کتنا بے اختیار ہونا چاہیے۔ یہ سب کراچی کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ کراچی کے مسائل کسی بھی میئر کے بس میں نہیں ہیں۔ کراچی کو اب میئر شپ نہیں وزارت اعلیٰ چاہیے۔ کراچی کو با اختیار میئر نہیں بلکہ کراچی کے مسائل کا حل یہی ہے کہ سندھ کا وزیر اعلیٰ کراچی سے ہو۔
کراچی کے پاس سندھ کی گورنری عرصہ دراز سے چلی آرہی ہے۔ ایم کیو ایم کی سیاست کا بھی سب سے افسوسناک پہلو یہی رہا ہے کہ انھوں نے کراچی کے مینڈیٹ کی سودے بازی ایک گورنری پر ہی کی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان کے آئین و قانون میں گورنر ایک نمائشی اور بے اختیا ر عہدہ ہے' ایم کیو ایم سندھ کی گورنری پر ہی راضی ہوتی رہی ۔ جس کی وجہ سے کراچی کے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایک گورنری لینے سے کراچی کے استحصال میں اضافہ ہوا ہے۔ کراچی پر مظالم بھی ہوئے ہیں۔ اب تحریک انصاف سے بھی وہی غلطی ہوئی ہے' وہ شاید یہی خیال کر رہی ہے کہ وہ کراچی کو گورنری دیکر کراچی کی سیاست کر لیں گے۔ حالانکہ ماضی میں ایسے تجربات ناکام ہو ئے ہیں۔
آپ مانیں یا نہ مانیں کراچی کو جتنا مرضی با اختیار میئر دے دیں' وہ کراچی کے مسائل حل نہیں کر سکے گا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک با اختیار میئر کراچی کے مسائل حل کر سکے گا وہ حالات کا گہرائی میں جا کر جائزہ نہیں لے رہے۔ آپ دیکھیں مصطفی کمال ایک مضبوط میئر ہونے کے باوجود بھی کراچی کے مسائل کوئی خاص حل نہیں کر سکے۔ ان کی کارکردگی وسیم اختر سے تقابلی جائزہ میں تو شاید بہتر ہو سکتی ہے، لیکن کراچی کے مسائل حل نہیں ہوئے تھے۔
ویسے تو اگر آج بھی صحیح مردم شماری کر دی جائے تو عین ممکن ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی کو اندرون سندھ کی سیاسی بالادستی سے چھٹکارا مل جائے۔ عین ممکن ہے بلکہ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں سو فیصد سندھ کا وزیر اعلیٰ شہری سندھ سے آجائے گا۔ شاید مردم شماری کی راہ میں مسائل ہی یہی ہیں کہ کہیں کراچی پر دیہی سندھ کے وڈیروں اور پیروں' گدی نشینوں کی حاکمیت نہ ختم ہو جائے۔
سیاسی تجزیہ نگار پنجاب کی تقسیم کی بہت بات کرتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کی بہت بات کی جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی حمایت کرنے والے کراچی کی درست مردم شما ری پر چپ ہو جاتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے حق کی بات کرنے والے کراچی کے حق پر کیوں خاموش ہو جاتے ہیں۔ ویسے تو جنوبی پنجاب کو وزارت اعلیٰ مل گئی ہے۔ عثمان بزدار کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ شہری سندھ کو وزارت اعلیٰ کب ملے گی۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ کراچی سے صدر پاکستان بھی ہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ صدر پاکستان بھی اب ایک نمائشی عہدہ ہے جس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں صدر ممنون حسین کا تعلق بھی کراچی سے ہی تھا۔ لیکن صدر پاکستان ہوتے ہوئے نہ تو وہ کراچی کی کوئی خدمت کر سکے اور نہ ہی موجودہ صدر پاکستان عارف علوی کراچی کی کوئی خدمت کر سکتے ہیں۔
آج کل کراچی کی انتظامی خود مختاری کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کراچی کی انتظامی خو د مختاری بھی تب ہی ممکن ہے جب کراچی کو اس کا جائز سیاسی حق دیا جائے گا۔ کراچی کو اکاموڈیٹ کرنے کی پالیسی ماضی میں بھی ناکام رہی ہے۔ اور آیندہ بھی ناکام ہی رہے گی۔ کراچی کو سیاسی خیرات نہیں چاہیے بلکہ کراچی کو سیاسی حق چاہیے۔ جو لوگ جنوبی پنجاب کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی بات کرتے ہیں وہ کراچی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی بات کیوں نہیں کرتے۔
کیا کراچی پاکستان کے لیے جنوبی پنجاب سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ کراچی پاکستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کمزور کرتے جائیں گے تو پاکستان کیسے مضبوط ہوگا۔ ویسے تو پیپلزپارٹی کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ کراچی کو وزارت اعلیٰ دے دے۔ انھوں نے بھی اندرون سندھ کو شہری سندھ پر ترجیح دی ہے۔ کیا یہ درست نہیں کہ پیپلزپارٹی کراچی کے ساتھ انصاف نہیں کر سکی۔
آپ کراچی کے میئر کو جتنے مرضی اختیارات دے دیں لیکن وہ وزیر اعلیٰ کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ کہیں بھی میئر وزیر اعلیٰ کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ میں یہ نہیںکہتا کہ کراچی کو زبردستی وزارت اعلیٰ دے دی جائے۔ حالانکہ جنوبی پنجاب کو زبردستی دی گئی ہے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر جنوبی پنجاب کا ویسے حق نہیں ہے جیسے شہری سندھ کو ہے' اگر کراچی کی درست مردم شماری ہو جائے تو سندھ کی وزارت اعلیٰ پر شہری سندھ کا حق خود بخود بن جائے گا۔ انتظامی خود مختاری خود بخود مل جائے گی۔ اندرون سندھ کی سیاسی بالادستی ختم ہو جائے گی۔
ویسے جب کراچی کی درست مردم شماری ہو جائے گی اور سندھ دیہی اشرافیہ کی سیاسی بالادستی سے باہر نکل آئے گا تو جو سیاستدان آج سندھ کی تقسیم پر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں وہ وہی سندھ کی تقسیم کی بات کرنے لگ جائیں ۔ شاید اندرون سندھ کی سیاسی قیادت میں پنجاب کی قیادت جیسا حوصلہ نہیں ہے کہ سیاسی بالا دستی کے باوجود جنوبی صوبے کی وزارت اعلیٰ دے دی جائے۔ کیا اندرون سندھ کی سیاسی قیادت آج شہری سندھ کو وزارت اعلیٰ دے سکتی ہے۔ جو میئر کو معمولی اختیار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں وہ شہری سندھ کو وزارت اعلیٰ کیا دیں گے۔
جہاں تک کوٹہ سسٹم اور دیگر مسائل کا تعلق ہے جب کراچی کو اس کا حق حاکمیت مل جائے گا یہ مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ جب وڈیروں اور پیروں کی سیاسی بالا ستی ختم ہوگی تو امتیازی قوانین بھی ختم ہو جائیں گے۔ جعلی ڈومیسائل جیسے مسائل بھی ختم ہو جائیں گے۔ اگر نسلہ ٹاور گر سکتا ہے تو جعلی ڈومیسائل پر لی گئی نوکریاں بھی ختم ہو جائیں گی۔ شہری سندھ کی نوکریاں بھی واپس مل جائیں گی۔ افسوس کی بات ہے کہ تحریک انصاف بھی کراچی کے اصل مسائل حل کرنے میں کوئی سنجیدہ نظر نہیں آئی ہے۔ جتنا کراچی گریٹ ہوگا اتنا ہی پاکستان گریٹ ہوگا۔ اگر کراچی کے ساتھ انصاف ہوگا تو کراچی اور پاکستان کا رشتہ مضبوط ہوگا۔ استحصال اور نا انصافی کے ساتھ مضبوط رشتہ بھی کمزور ہو سکتا ہے۔