ڈھاکا سے واپسی

ڈھاکا سے میں کل ہی لوٹا ہوں اور گیا بھی تو دو دنوں کے لیے تھا کہ وہاں عالمی امن کانفرنس تھی۔

Jvqazi@gmail.com

باتیں پچاس سال پرانی ہیں، یوں چشم تر بن جاتی ہیں کہ جیسے کل ہی کی باتیں ہوں، بھلائوں تو بھولتا نہیں، ایک طویل سی داستان ہے، محبت کی، میرے دیار میں امڈ آتی ہیں۔ یہ جو طوق دار تھے جو ہم کو نصیب ہوئے، اس لمحے میں بھی عاصمہ جہانگیر کے ساتھ صف میں تھا۔ ہم دونوں اجداد سے عوامی لیگی تھے۔

بھٹو کو تو مشرقی پاکستان میں کھڑا کرنے کے لیے ایک بھی شخص نہیں ملا 1970 کے انتخابات میں ۔مگر شیخ مجیب کو میرے اور عاصمہ کے ابا کی شکل میں شخص ملے تھے مغربی پاکستان کے چنائو میں کھڑا کرنے کے لیے۔ پیپلز پارٹی کے حاکم علی زرداری تھے، جن کے مقابلے میں میرے والد صاحب عوامی لیگ کی ٹکٹ پے کھڑے تھے۔ بھٹو صاحب ہمارے دروازے پے کھڑے تھے ہاتھ پھیلائے کہ تم پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پے لڑو قاضی صاحب ۔ ایسے نہ جانے کتنے مواقع تھے جو ابا نے ٹھکرا دیے ہوں گے۔

ڈھاکا سے میں کل ہی لوٹا ہوں اور گیا بھی تو دو دنوں کے لیے تھا کہ وہاں عالمی امن کانفرنس تھی۔ دنیا بھر سے وفود آئے اور آن لائن موجود تھے۔ کئی سابق وزیر اعظموں سے لے کر وزیر خارجہ اور دنیا بھر کی سول سوسائٹی سے لوگ مدعو تھے۔ افتتاح صدر بنگلا دیش نے کیا تو اختتامی سیشن کی مہمان خاص وزیر اعظم شیخ حسینہ تھیں ۔ اس سے پہلے جب بھی گیا ہوں ان سے میری ملاقات ضرور ہوتی تھی۔ اس بار COVID کی احتیاطی تدابیر کی وجہ سے ون آن ون نہ ہو پائی۔

مگر اس بھرے اجلاس میں ان کے وزیر خارجہ نے میرے والد اور میرا نام لے کے شیخ حسینہ کی موجودگی میں ان پرانی محبتوں کا ذکر کر کے جس طرح والہانہ استقبال کیا کہ یوں لگا کہ رشتے ٹوٹتے نہیں۔

اس چھوٹے سے کالم میں اتنی ساری باتیں ہیں کہ میں شاید ہی مکمل کر پائوں۔ اس بار ڈھاکا میںاپنی اہلیہ کے ساتھ گیا ان کے وزیر خارجہ کی دعوت پر۔ پورے دو دن مسلسل بارش ہو رہی تھی ۔ سب کے پاس چھتریاں تھیں یہ ان مکینوں کی زندگی کا لازم سا حصہ ہے۔ سائیکل والی بگیاں گھنے درختوں کے لامتناہی سلسلے۔ یہ وہ ڈھاکا ہے جہاں میرے والد 1940 سے جاتے تھے۔ جب وہاں قحط آیا تو علامہ مشرقی کے کہنے پر خاکساروں کے جتھہ لے کر کلکتہ کے نواح میں کیمپ لگائے تھے، قحط زدہ لوگوں کے لیے مہینوں بھر ٹھہرنے کے بعد کئی بچوں و جوانوں کو اپنے ساتھ گائوں لے آئے۔

اماں کہتی تھیں کہ اتنی مٹی جمی تھی ان کے جسموں پر اتنی مٹی تھی کہ نہلاتے نہلاتے کئی دنوں کے بعد جاکہ وہ مٹی اتری۔ جب سب واپس ٹھیک ہو گیا تو یہ سب جانے لگے، مگر دوچھوٹی بچیاں تھیں جن کا کچھ بھی باقی نہ تھا، نہ ان کے ماں باپ کا اتہ پتا معلوم تھا، اماں نے ان کو اپنی بیٹیاں بنا لیا۔ وہ یہیں کی ہو گئیں ہمارے آنگن میں پلی بڑھیں، ان کی شادیاں یہیں ہوئیں ان کے بچے یہیں کے ہوگئے۔

ہمارے گھر کا حصہ تھے کامریڈ سوبھو گیان چندانی، والد اور حیدر بخش جتوئی کے ساتھ سندھ میں دہقانوں کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ پتہ نہیں ان کے والد کو 1930 کی دہائی میں نہ جانے کیسے خیال آیا، پڑھنے کے لیے کلکتہ کے قریب رابندر ناتھ ٹیگور والے شانتی نکیتن اسکول بھیج دیا۔ ٹیگور نے اسے داخلہ اس لیے دیا کہ وہ موہن جو دڑو کے قریب گائوں سے تعلق رکھتا تھا، جو ان کے والد نے ٹیگور کو خط میں بیٹے کے داخلہ کے لیے لکھا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نہرو نے بھی اپنی بیٹی اندرا کو ٹیگور کے شانتی نکیتن میں بھیجا تھا۔

سوبھو اور اندرا ایک ہی زمانوں میں ٹیگور کے پاس شاگرد رہے۔ جب بٹوارہ ہوا، ہندو یہاں سے جانے لگے کامریڈ سوبھو کے خاندان والے بھی مگر سوبھو نے جانے سے انکار کر دیا۔ صوفیوں کی دھرتی کا مان اونچا کیا۔ اسے اس مٹی کے دہقانوں کے ساتھ رہنا تھا۔ جب ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان بننے کی حمایت کی تو سجاد ظہیر جیسے کئی کامریڈ جو آگے جاکے راولپنڈی سازش کیس میں اسیر ہوئے۔ کامریڈ سوبھو نے اپنے آپ کو ان سے جوڑ دیا، اسیر ہوئے۔

انڈر گرائونڈ ہونے کے زمانوں میں مہینوں ہمارے گھر کے چھت والے کمرے میں مکین رہے۔ میں نے ذکر کیا ہوگا شہید سہروردی کا حیدرآباد جیل میں راولپنڈی سازش کیس کراچی سے لڑنے جاتے تھے۔ فیض احمد فیض، سجاد ظہیر اور ان اسیروں کا۔ یہ بات مجھے شیخ مجیب کی سوانح حیات سے معلوم ہوئی کہ شیخ مجیب نے ان کے ساتھ حیدر آباد سے کراچی کا سفر ان کی گاڑی میں کیا تھا جو خود سہروردی چلا رہے تھے، کہ شیخ مجیب چاہتے تھے کہ ان کے محترم شہید سہروردی جن کو اپنا سب کچھ سمجھتے تھے، واپس سیاست میں آجائیں۔

میرے والد کی شیخ مجیب کے ساتھ دوستی میں شہید سہروردی کا بڑا ہاتھ تھا تو خود سندھ کے اندر دہقانوں کی تحریک سے شیخ مجیب بہت متاثر تھے۔ شہید سہروردی کے زمانوں سے عوامی لیگ میں تھے۔ میر رسول بخش ٹالپور سندھ کے صدر اور ابا جنرل سیکریٹری تھے ابھی ون یونٹ نظام متعارف نہیں ہوا تھا۔ جب سہروردی وزیر اعظم ہوئے تو اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پے سینٹو اور سیٹو کا حصہ بنے اور نہر سوئز پے امریکی قبضے پے واضع موقف نہ دے سکے ۔ تب ابا نے عوامی لیگ کو خیر آباد کیا۔


وزیر اعظم ہائوس میں سینٹرل کمیٹی کا اجلاس تھا ہنگامہ ہوا جس کی قیادت میرے والد نے کی۔ اور اسی طرح ڈھاکا میں جاکے نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی باچا خان اور بھاشانی اس کے اہم لیڈران بن کے ابھرے۔ یہ سب ہمارے یہاں نوابشاہ کے قریب سرہاڑی میں ایک عظیم دہقانوں کے جلسے میں بھی شریک ہوئے بمع لاہور سے میاں افتخار الدین میجر اسحاق۔ جب ڈھاکا میں نیپ کا پہلا اجلاس ہوا تو عوامی لیگ والوں نے اس پر حملہ کروایا۔ سوبھو گیان چندانی کے بقول کے میرے والد پر جو ڈنڈے برسائے گئے ان کے پیچھے شیخ مجیب کے بھیجے ہوئے لوگ تھے جو کہ اس وقت شہید سہروردی پے اندھا اعتقاد رکھتے تھے۔ شہید سہروردی بہت آئے ہمارے پاس جب کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا۔

اگرتلا کیس میں رہائی کے بعد پھر ابا واپس 1966 میں عوامی لیگ میں آگئے، اس وعدے پے ابا عوامی لیگ میں واپس آئے کہ شیخ مجیب نے وعدہ کیا کہ وہ ون یونٹ نظام کو ختم کرنے کے لیے سندھ کی آواز کے ساتھ یک بہ یک کھڑے ہوں گے۔

اور پھر یوں جب شاگردوں نے ووٹر لسٹوں کے سندھی میں چھپنے پے بھوک ہڑتال کر دی تو ابا بھی مرنے کی گھڑی تک روزہ رکھ کے ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ کیمپ کو حیدرآباد میں اکھاڑا گیا، ڈنڈے برسائے گئے، ابا کو جیل میں ڈالا گیا مگر روزہ وہ توڑنے کے لیے تیار نہ تھے بات ڈھاکا جاکے پہنچی، شیخ مجیب پریشان، ادھر دن بڑھتے جا رہے تھے، ابا کی حالت اور خراب ہوتی جا رہی تھی بیس دن روزے کو ہوگئے شیخ مجیب کی اس دوران جنرل یحییٰ سے ملاقات بھی ہوئی تھی اور انھوں نے یہ ماجرا بھی ان کے سامنے رکھا۔

بھٹو جو کہ وزیر خارجہ تھے جنرل یحییٰ کی حکومت خود حیدرآباد چل کے آئے، ابا اور دوسرے اسیروں کو سرکٹ ہائوس لایا گیا۔ بھٹو نے وعدہ کیا کہ لسٹیں سندھی میں چھپیں گی مگر ابا نے روزہ کھولنے سے انکار کر دیا تاوقت یہ کہ اپنا اعلان سرکاری طور پر ہوا۔ ادھر ڈاکٹر نے یہ باور کرا دیا کہ اگر یہ روزہ ایک ہفتہ اور چلا تو میرے والد کی حالت تشویشناک حد تک خراب ہوسکتی ہے، ابا کو پھر اسپتال منتقل کیا گیا اور اس طرح ریڈیو پے جنرل یحییٰ نے یہ اعلان کیا کہ ون یونٹ نظام کا خاتمہ جس کی رو سے خود سندھی میں ووٹر لسٹیں شایع ہونے کا اعلان بھی کیا۔

مگر پھر کیا ہوا اس طویل داستان کے اس نقطے پے جو پچھلی بار عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ڈھاکا گیا تھا وہاں میں نے وہ خطوط جو شیخ مجیب نے اس دوران ابا کو لکھے تھے وہ دیے جن کے اعتراف میں شیخ حسینہ صاحبہ نے مجھے بھی خط دیا تھا۔ یہ وہ خطوط تھے جس کی کہیں بھی شیخ مجیب علیحدگی پرست نظر نہیں آئے ۔ خود شیخ حسینہ نے خط میں مجھے لکھا میرے ان کو دیے ہوئے خطوط اس پوری تاریخ کو نیا موڑ دیتے ہیں۔

اور پھر 24 مارچ 1971 کی آخری رات بھی ابا شیخ مجیب کے ساتھ دھان منڈی والے گھر میں تھے جہاں شیخ مجیب 15 اگست 1975 کو بمع پورے خاندان ماسوائے دو بیٹیوں کے مارے گئے تھے۔ جب شیخ مجیب نے ابا کو کہا ''اب ہم دو مختلف ملکوں کے شہری ہیں'' وہ دونوں بغل گیر ہوئے ابا اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ الوداعی ملاقات میں آنسو نہ شیخ مجیب روک سکا اور نہ میں۔

پھر یہاں بھٹو کا دور شروع ہوا، ابا اماں کے ساتھ عمرے پے جا رہے تھے۔ جہاز کو روکا گیا ابا اور اماں کو جہاز سے اتار دیا گیا۔ ابا نے بارڈر کراس کیا، جلا وطن ہوئے، لندن میں کچھ سال گزارے پھر واپس آئے بھٹو نے جیل میں ڈال دیا اور پھر جب بھٹو کا دور ختم ہوا ابا آزاد ہو رہے تھے ابا کو اجازت ملی کہ وہ نوابشاہ شہر تک محدود رہیں اور وکالت کریں، کہ ابا نے یہ درخواست دی کہ ان کے گھر میں فاقے آگئے ہیں انھیں جینے کے لیے وکالت بحال رکھنی ہے۔

مگر تب تک ان پانچ سالوں میں ابا کی تیس سالہ پرانی وکالت جس سے انھوں نے اپنے دس بچے پال پوس کے بڑے کیے، سیاست کی، استاد بڑے غلام علی جیسے ہندوستانی گویوں سے محفلیں سجائیں، شاندار بنگلا تعمیر کروایا اس کے ایک مہینے کی کمائی سے جو بیٹل گاڑی آ جاتی تھی، حالات اتنے خراب ہوئے کہ میرے پیٹارو میں داخلہ ہونے پے ان کے پاس فیس دینے کے بھی پیسے نہ تھے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد ابا چند سال بعد اپنے غریب خانہ میں انتقال کرگئے۔

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
Load Next Story