انجکشن کے بجائے ناک سے ویکسین دینا زیادہ بہتر ہے تحقیق
ناک سے دی جانے والی کووڈ 19 ویکسینز تیار کرلی جائیں تو کورونا وائرس کے کئی ویریئنٹس سے بیک وقت تحفظ حاصل ہوجائے
TOKYO:
امریکی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ ناک کے ذریعے پھوار یا بخارات کی شکل میں ویکسین دینے کا عمل، انجکشن لگانے کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔
ییل یونیورسٹی کے ماہرین نے پروفیسر اکیکو ایواساکی کی قیادت میں یہ تحقیق چوہوں پر انجام دی ہے، جس کے نتائج ''سائنس امیونولوجی'' کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق، چوہوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا جن میں سے ایک گروپ کو انفلوئنزا ویکسین کا انجکشن لگایا گیا جبکہ دوسرے گروپ کو ناک کے راستے وہی ویکسین دی گئی۔
پانچ ہفتے بعد معلوم ہوا کہ ناک کے راستے ویکسین لینے والے چوہوں میں انفلوئنزا (زکام/ فلُو) وائرس سے بچانے والی اینٹی باڈیز کی مقدار، انجکشن کے ذریعے ویکسین لینے والے چوہوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔
علاوہ ازیں، یہ بھی پتا چلا کہ ناک سے دی گئی ویکسین ان چوہوں کے جسم میں زیادہ مقامات تک پہنچی اور اس نے اینٹی باڈیز بنانے والے خلیوں کو بھی خوب سرگرم کیا، جس کا نتیجہ چوہوں میں زیادہ اینٹی باڈیز کی صورت میں ظاہر ہوا۔
ناک سے لی گئی انفلوئنزا ویکسین نے بطورِ خاص ناک، حلق اور پھیپھڑوں کے خلیوں پر اثر دکھایا اور فلُو وائرس کا حملہ بخوبی روکا۔
ایک اور بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ ان خلیوں سے بننے والی اینٹی باڈیز، انفلوئنزا وائرس کی مختلف اقسام کے خلاف بیک وقت کارآمد تھیں۔
اسی تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر ناک سے دی جانے والی کووِڈ 19 ویکسینز تیار کرلی جائیں تو بہت ممکن ہے کہ ہمیں ایک ویکسین سے کورونا وائرس کے کئی ویریئنٹس سے تحفظ حاصل ہوجائے۔
البتہ، ناک سے دی جانے والی ویکسین بنانا کوئی آسان کام نہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ برسوں کی تحقیق اور جدوجہد کے بعد اب تک صرف انفلوئنزا کی ایک ویکسین ہی ایسی بنائی جاسکی ہے جو ناک سے لی جاسکتی ہے۔
دیگر ویکسینز بنانے کی کوششیں پچھلے کئی سال سے انسانی آزمائشوں میں مسلسل ناکام ہوتی آرہی ہیں۔
امریکی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ ناک کے ذریعے پھوار یا بخارات کی شکل میں ویکسین دینے کا عمل، انجکشن لگانے کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔
ییل یونیورسٹی کے ماہرین نے پروفیسر اکیکو ایواساکی کی قیادت میں یہ تحقیق چوہوں پر انجام دی ہے، جس کے نتائج ''سائنس امیونولوجی'' کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق، چوہوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا جن میں سے ایک گروپ کو انفلوئنزا ویکسین کا انجکشن لگایا گیا جبکہ دوسرے گروپ کو ناک کے راستے وہی ویکسین دی گئی۔
پانچ ہفتے بعد معلوم ہوا کہ ناک کے راستے ویکسین لینے والے چوہوں میں انفلوئنزا (زکام/ فلُو) وائرس سے بچانے والی اینٹی باڈیز کی مقدار، انجکشن کے ذریعے ویکسین لینے والے چوہوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔
علاوہ ازیں، یہ بھی پتا چلا کہ ناک سے دی گئی ویکسین ان چوہوں کے جسم میں زیادہ مقامات تک پہنچی اور اس نے اینٹی باڈیز بنانے والے خلیوں کو بھی خوب سرگرم کیا، جس کا نتیجہ چوہوں میں زیادہ اینٹی باڈیز کی صورت میں ظاہر ہوا۔
ناک سے لی گئی انفلوئنزا ویکسین نے بطورِ خاص ناک، حلق اور پھیپھڑوں کے خلیوں پر اثر دکھایا اور فلُو وائرس کا حملہ بخوبی روکا۔
ایک اور بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ ان خلیوں سے بننے والی اینٹی باڈیز، انفلوئنزا وائرس کی مختلف اقسام کے خلاف بیک وقت کارآمد تھیں۔
اسی تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر ناک سے دی جانے والی کووِڈ 19 ویکسینز تیار کرلی جائیں تو بہت ممکن ہے کہ ہمیں ایک ویکسین سے کورونا وائرس کے کئی ویریئنٹس سے تحفظ حاصل ہوجائے۔
البتہ، ناک سے دی جانے والی ویکسین بنانا کوئی آسان کام نہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ برسوں کی تحقیق اور جدوجہد کے بعد اب تک صرف انفلوئنزا کی ایک ویکسین ہی ایسی بنائی جاسکی ہے جو ناک سے لی جاسکتی ہے۔
دیگر ویکسینز بنانے کی کوششیں پچھلے کئی سال سے انسانی آزمائشوں میں مسلسل ناکام ہوتی آرہی ہیں۔