وزارتوں اور ان کے ماتحت اداروں کا رئیل اسٹیٹ بزنس کرنا بظاہر غیر قانونی ہے اسلام آباد ہائیکورٹ

یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے، ایف آئی اے غیر قانونی سوسائٹیز کے خلاف کارروائیاں کرتی ہے خود بھی وہ کام کر رہی ہے، عدالت

یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے، ایف آئی اے غیر قانونی سوسائٹیز کے خلاف کارروائیاں کرتی ہے خود بھی وہ کام کر رہی ہے، عدالت

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ بادی النظر میں وزارتوں اور ان کے ماتحت اداروں کا رئیل اسٹیٹ بزنس کرنا غیر قانونی ہے۔

ہائی کورٹ میں وزارتوں اور ان کے ماتحت اداروں کے نام پر رئیل اسٹیٹ بزنس کے خلاف کیسز کی سماعت ہوئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ بادی النظر میں وزارتوں اور ان کے ماتحت اداروں کا رئیل اسٹیٹ بزنس کرنا غیر قانونی ہے، اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پر حتمی دلائل دیں اس کیس کا فیصلہ کریں گے، کیا حکومت کے کنٹرول کیے جانے والے ادارے بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی بزنس کر سکتے ہیں؟۔


ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ نے جواب دیا کہ عدالتی ہدایت کے مطابق اس ہفتے کابینہ کو اس حوالے سے سمری بھیجوا دیں گے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ سرکاری ادارے اپنے نام کے ساتھ رئیل اسٹیٹ بزنس کر سکتے ہیں؟ یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے، ایف آئی اے غیر قانونی سوسائٹیز کے خلاف کارروائیاں کرتی ہے خود بھی وہ کام کر رہی ہے، کیا سرکار خود کام نہیں کر سکتی ؟ کیا ہر چیز اس عدالت نے آپ کو کہنا ہوتی ہے کہ یہ کریں، یہ کورٹ قانون کو دیکھ کر فیصلہ کرے گی ، ریاست خود کرمنلز کو تحفظ دیتی ہے یہاں کرمنلز اپیلوں میں یہ نظر آرہا ہوتا ہے، اسٹیٹ خود ان کرائمز میں شامل ہے یہ کورٹ تو آپ کو بتا رہی ہے کہ اس میں بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔

عدالت نے حتمی دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت 17 جنوری تک ملتوی کردی۔
Load Next Story