بلوچستان کو کیا چاہیے

سیاسی مکالمہ کا آغاز نیک نیتی سے ہو تو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں، لیکن ملکی سیاست میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں۔

سیاسی مکالمہ کا آغاز نیک نیتی سے ہو تو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں، لیکن ملکی سیاست میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم عمران خان نے گوادر کے جفاکش ماہی گیروں کے جائز مطالبات کا نوٹس لیا۔ اتوارکو اپنے ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ٹرالرز کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور میں وزیر اعلیٰ بلوچستان سے بھی بات کروں گا۔

سیاسی مبصرین نے بلوچستان کے طول و عرض اور گوادر میں سیاسی مطالبات پر جلسے جلوس اور دھرنے کے انعقاد کو غیر معمولی قرار دیا اور مسائل کے حل میں ناکامی پر بلوچستان کی خواتین، سیاسی و مذہبی کارکنوں اور مدارس کے بچوں کی ایک کثیر تعداد کے سڑکوں پر جلوس نکالنے کو بلوچستان حکومت کے طرز عمل کو للکارا سے تعبیر کیا گیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کو ترقیاتی اور فلاحی اقدامات میں ہمیشہ نظر انداز کیا گیا، جس کی وجہ سے عوام میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ صوبہ کو جمہوری اسپرٹ اور اسپورٹس مین شپ کے ساتھ وہ حقوق نہیں دیے گئے جو بلوچستان کے عوام کا بنیادی حق ہے، سیاسی رہنما اس ضمن میں ماہی گیری کے پیشے کو اولیت دیتے ہیں۔

ان کا مطالبہ ہے کہ غیر ملکی ٹرالرز بلوچستان کی آبی حیات کی تجارت کو لوٹ کر لے جاتے ہیں، اور حکومت برس ہا برس سے ڈیپ سی فشنگ کا مسئلہ حل نہیں کرسکی، ماہی گیر برادری کو گوادر پورٹ کی تعمیر کے ساتھ ہی پینے کے صاف پانی اور بجلی کی فراہمی میں ملک کے دیگر علاقوں جیسی سہولتیں دستیاب نہیں، ماہی گیروں کو سندھ حکومت کی طرف سے بھی پکڑ دھکڑ کا سامنا ہے، جو ماہی گیر گوادر سٹی اور ساحل کے قریب تھے، انھیں گوادر پورٹ سے دور پھینک دیا گیا، ہزاروں ماہی گیر اپنے آبائی گھر فروخت کرکے لیاری، کراچی و سندھ کے دیگر علاقوں میں رہائش پر مجبور ہوئے۔

خواتین نے احتجاجی جلسے میں میڈیا سے گفتگو میں مسائل کے حل پر زور دیا، سیاسی رہنماؤں کے مطابق سیاسی جمود اور بیروزگاری و غربت کے خلاف گوادر میں ماہی گیروں کی جانب سے گزشتہ کئی دنوں سے بلوچستان کو حق دو کے نام سے تحریک اور دھرنا جاری ہے ، مظاہروں کی قیادت جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمان کررہے ہیں۔

دریں اثناء وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبد القدوس بزنجو نے اتوار کو اپنے ایک بیان میں وزیر اعظم کی جانب سے گوادر تحریک کے مطالبات کا نوٹس لینے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی یقین دہانی خوش آیند ہے، گوادر تحریک کے مطالبات انسانی حقوق کے تحفظ پر مبنی ہیں اور پہلے ہی سے موجودہ حکومت کی پالیسی میں شامل ہیں۔

صوبائی حکومت اپنی پالیسی اور گوادر تحریک کے مطالبات کے تحت بیشتر اقدامات پر عمل درآمد کر رہی ہے، صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں آنے والے مطالبات پر تیزی سے پیش رفت جاری ہے، بجلی سمیت بعض دیگر مطالبات کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے، وزیراعظم کی یقین دہانی سے وفاق سے متعلق مطالبات بھی پورے ہوں گے۔ متعلقہ وفاقی و صوبائی محکمے اور ادارے غیر قانونی ٹرالنگ کے سدباب کے لیے مزید مربوط و موثر اقدامات کریں گے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت سرحدی تجارت کے فروغ اور بارڈر مارکیٹوں کے منصوبے کی جلد تکمیل یقینی بنائیں گی۔

گوادر میں احتجاج کرنے والی ''بلوچستان کو حق دو تحریک'' کے روحِ رواں مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے اعلان کو مثبت سمجھتے ہوئے، اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے کہا کہ ہم ضدی لوگ نہیں ہیں، مسائل کے حل پر یقین رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ گوادر کے مسائل حل ہوں تو ہم سے زیادہ خوشی کسے ہو گی، مسئلہ عمل درآمد کا ہے۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ میں نے گوادر کے ماہی گیروں کے جائز مطالبات کا نوٹس لے لیا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری کیے گئے بیان میں وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ٹرالرز کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ وزیرِ اعظم کا اپنے بیان میں یہ بھی کہنا ہے کہ غیر قانونی ٹرالرز سے مچھلی کے شکار پر وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سے بات کروں گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ 27 روز سے گوادر میں ''بلوچستان کو حق دو تحریک'' کا دھرنا جاری ہے ، جس نے تاریخ رقم کر دی ہے۔ گزشتہ روز گوادر میں ہزاروں افراد کی تاریخی احتجاجی ریلی میں سڑکوں پر انسانوں کا سمندر امڈ آیا، دھرنے کی کمان خواتین نے سنبھال رکھی تھی۔ دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمٰن کا کہنا تھا کہ عزتِ نفس کی بحالی اور بنیادی حقوق پر سمجھوتا نہیں کریں گے، صوبائی حکومت کو بہانے تلاش کرنے کا موقع نہیں دیں گے، حق لے کر رہیں گے۔ بلوچستان کے ممتاز سیاستدان عبدالحکیم لہڑی اور سابقہ صوبائی وزیر میر اسلم بلیدی نے دھرنے میں شرکت کر کے تحریک کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔


سیاسی رہنماؤں نے کہا ہے کہ مائنڈ سیٹ بدلے گا تب ہی بلوچستان کے مطالبات تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔ سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں زمینی حقائق کو سمجھنے کی ضرورت ہے، حکومت سماجی اور سیاسی مطالبات کے حل کے لیے اپنی پالیسی کی سمت کی درستگی کے ساتھ ناراض بلوچ رہنماؤں سے مکالمے کا دروازہ کھولے، بلوچستان کے سیاسی مسائل سسٹم سے جڑے ہوئے ہیں، وہ دور ختم ہوا جب سیاستدان پہاڑوں پر جاتے تھے، قبائلی باقیات بھی دم توڑ رہی ہیں، جمہوری آزادی کے ساتھ عوام کو اظہار رائے اور پریس کو بے باکی کے ساتھ جدید ترین سہولتیں چاہئیں، ٹرانسپورٹ کی سرکاری سہولتیں عوام کو جلد ملنی چاہئیں، تعلیم و صحت اور آئی ٹی کی سہولتوں کے اعتبار سے بلوچستان بہت پسماندہ ہے، ماہی گیری کی جدید سہولتیں ناگزیر ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچستان کی سیاست میں پیراڈائم شفٹ آجائے، نئی نسل کو فکری اور سیاسی طور پر ایک نئے عہد میں سانس لینے کا احساس ہو، نظریاتی سیاست کے لیے نوجوانوں کو سیاسی پیش رفت میں تخلیقی بریک تھروکرنے کی مکمل آزادی ملے گی تو بلوچستان بآسانی ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ دوسرا عطا شاد بلوچستان میں پیدا نہیں ہوا۔

صوبائی حکومت نے سید ظہور شاہ ہاشمی المعروف ''سید ہاشمی'' کی پذیرائی اور قدر افزائی نہیں کی، بلوچستان میں بڑا ادبی، فکری اور تخلیقی پوٹنشل موجود ہے، بلوچستان کے رائٹرز اور ڈرامہ نویسوں نے اپنی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کیا ہے، سیاست دان ادبی گفتگو اور کتابوں کے مطالعے میں سب سے بازی لے گئے تھے، گوادر، خضدار اور مکران بیلٹ میں کوئی سرداری نہیں تھی، وہاں کا بیدار ذہن نوجوان گہرے ادبی مطالعہ کا ذوق رکھتا ہے، ادبی لائبریریاں اور کتب میلے صوبے میں جاری ہیں، تفریحی سہولتوں میں پھیلاؤ کی ضرورت ہے، فٹبال اور کرکٹ ٹیموں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئیں، باکسر محمد وسیم کی نظریں حکومت پر مرکوز ہیں، وہ اولمپک گیمز میں مصروف ہیں، خواتین میں ادبی کتب اور لٹریری مشغولیات میں مشکلات ہیں، کچھ سماجی بندشیں ہیں، کچھ خوفزدہ بھی ہیں، سیاسی واقعات اور دہشت گردی نے سیاست کو بہت آلودہ کیا ہے۔

بنیادی طور پر سیاسی آزادی ملنے کے امکانات زیادہ ملیں گے تو نئی نسل کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔ بلوچ مورخین سیاسی موضوعات پر آزادی کے طلبگار ہیں، وہ ملکی سیاست پر آزادی سے لکھنے کے منتظر ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ میڈیا وہ باتیں نہیں لکھ سکتا جو واقعاتی حقائق ہیں اور نئی نسل ان سے آشنا ہونا چاہتی ہے۔

ارباب اختیار بلوچستان کے بارے میں سیاسی مغالطوں کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، نوجوانوں کے وفود کو ملک کے دیگر شہروں سے بلوچستان کے مطالعاتی دورے کرائے جائیں، جس سے بلوچستان کا سیاسی، سماجی اور ثقافتی افق مزید روشن ہوسکتا ہے، جس کے لیے پبلشرز کو کتابوں کی اشاعت وطباعت میں سہولتیں دی جائیں، غربت کے خاتمے کے لیے صوبائی حکومت کو معاشی ریلیف اور اقتصادی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہونگی۔

میڈیا نے جلوس میں شریک خواتین اور بچوں کی غربت کو ان کے لباس اور پیروں کے آئینے میں دکھایا ہے، اس پر حکمراں سنجیدگی سے غورکریں۔ بلوچستان اندرونی تبدیلی کی دہلیز پر آگیا ہے، موجودہ پرامن جلسے جلوسوں نے بلوچستان کی سماجی تاریخ بدلنے کا طبل بجا دیا ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کو سیاسی دشمنیوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے، ایک معروف ادیب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اہل بلوچستان کے دل مانند گلاب ہیں، آپ ان سے پیار ہی پیار میں بہت سی ناگفتنی باتیں بھی سن لیتے ہیں، وہ ہٹ دھرمی پر یقین نہیں رکھتے، لیکن جبر وستم اور سیاسی مخالفت میں ان سے نرم سی نرم بات بھی منوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، لہذا بلوچستان کے مسئلہ کو پیار و محبت سے حل کرنا صائب ترین راستہ ہے، ارباب اختیار کو اسی انداز نظر کو اپنی پالیسی سازی میں اہمیت دینی چاہیے، کیونکہ دہشت گردی نے ملک کو سیاست اور بہترین مکالمے کی صفت سے محروم رکھا ہے، جب کہ بلوچستان کو بہترین سیاسی مکالمہ کی ضرورت پہلے سے کہیں آج زیادہ ہے۔

بزرگ اور نوجوان سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ سیاسی مکالمہ کا آغاز نیک نیتی سے ہو تو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں، لیکن ملکی سیاست میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں، اپوزیشن اور حکومت میں گفتگو میل ملاپ اور رواداری کا فقدان ہے۔ دشمنی عروج پر ہے، صرف ضرورت کے وقت ایک عارضی سیز فائر ہونے کے بعد کچھ جوڑ توڑ ہو تو ہو، لیکن سیاسی دورانیے کا بیشتر حصہ بغیر بات چیت کے گزر جاتا ہے، ایسے میں جمہوریت میں سبک روی کہاں سے آئے گی، بلوچستان کا مسئلہ کیسے حل ہوگا۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ حکومت، سیاسی رہنماؤں اور اسٹیبلشمنٹ کو مل بیٹھ کر بلوچستان میں معاملات کی درستگی کے لیے اقدام کرنا ہوں گے۔ ایک شاعر نے کہا ہے:

سرک رہی ہے بڑی دیر سے صدا پہ نہ جا

ہوا کا کوئی بھروسہ نہیں ہوا پہ نہ جا
Load Next Story