بلدیاتی انتخابات سیاسی جماعتوں کےلیے عام انتخابات کی ریہرسل
19 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات سیاسی جماعتوں کےلیے عام انتخابات کی ریہرسل ہے
اب سے چند روز بعد خیبرپختونخوا کے 17 اضلاع میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں، جس کےلیے انتخابی مہم اس وقت زوروں پر ہے۔
حکمران جماعت تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں اور ہر سیاسی جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی۔ اس سلسلے میں امیدواروں نے اپنی کامیابی کےلیے دن رات ایک کردیے ہیں۔ صبح ہو یا شام اپنے حامیوں کے ساتھ ووٹ کے حصول کےلیے گلی گلی، محلہ محلہ اور بازاروں کے چکر لگارہے ہیں۔ امیدوار جس گلی سے زندگی میں نہیں گزرے تھے اب الیکشن مہم میں وہ علاقے بھی دیکھنے پڑ رہے ہیں اور ووٹروں سے وعدے وعید کے قلابے ملائے جارہے ہیں۔
پشاور میں سیاسی گہماگہمی کی وجہ سے تاریک گلیاں بھی روشن نظر آرہی ہیں۔ شہر کی دیواروں پر امیدواروں کے بینرز اور پوسٹرز چسپاں ہیں۔ مین شاہراہوں، گلیوں، بازاروں میں لگے کھبموں پر پارٹی پرچم لگ چکے ہیں، حتیٰ کہ جی ٹی روڈ پر گزرنے والی بی آر ٹی شاہراہ پر بھی پارٹی پرچم لگادیے گئے ہیں۔ 19 دسمبر سے قبل شہر میں پارٹی پرچموں، امیدواروں کے بینرز کی ایک بہار آئی ہوئی ہے۔ اس گرم سیاسی ماحول میں کسی پارٹی کی کامیابی کی پیش گوئی قبل از وقت ہوگی۔
بلدیاتی انتخابات کی اس ساری صورت حال میں نظریں پشاور، نوشہرہ اور ڈی آئی خان پر لگی ہوئی ہیں۔ پشاور میں سٹی میئر کےلیے 17 امیدوار میدان میں ہیں اور کانٹے کا مقابلہ تحریک انصاف کے رضوان بنگش، پیپلزپارٹی کے زرک خان، اے این پی کے شیر رحمان، جماعت اسلامی کے بحراللہ ایڈووکیٹ اور جے یو آئی کے زبیر علی کے درمیان ہے۔ مسلم لیگ ن جے یو آئی کی حمایت کرچکی ہے۔
نوشہرہ میں مقابلہ دو چچا زاد بھائیوں کے درمیان ہے۔ وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک ناراضی کے باعث پیپلزپارٹی کے کیمپ میں جاچکے ہیں۔ لیاقت خٹک کے بیٹے احد خٹک تحصیل کونسل کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پرویزخٹک کے بیٹے اسحاق خٹک میدان میں ہیں۔ دونوں چچازاد بھائیوں کا پلڑا بظاہر بھاری نظر آرہا ہے لیکن اس حوالے سے عوامی رائے کا اتنظار کرنا ہوگا۔
تیسرا بڑا مقابلہ ڈی آئی خان میں ہونے جارہا ہے، جہاں پیپلزپارٹی کے امیدوار سابق ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی ہیں اور ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے امیدوار وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کے بھائی عمر امین گنڈا پور سے ہے۔ یہاں پیپلزپارٹی کو جے یو آئی کی سپورٹ حاصل ہے۔
پشاور کا جائزہ لیں تو قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر تحریک انصاف کامیابی حاصل کرچکی ہے اور اس وقت پشاور کی سات تحصیلوں میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کی انتخابی مہم میں ارکان اسمبلی سمیت پشاور سے تعلق رکھنے والے وزرا بھی سرگرم ہوچکے ہیں۔ حجروں اور کارنر میٹنگز میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی شرکت کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی بھرپورکوشش ہے کہ وہ پشاور سٹی میئرشپ سمیت باقی چھ تحصیلوں پر کامیابی حاصل کرے۔ دوسری جانب اے این پی سمیت جے یو آئی، جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی بھی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
پشاور میں سٹی میئر کےلیے کانٹے کے مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔ حکمران جماعت تحریک انصاف نے رضوان بنگش کو میدان میں اتارا ہے۔ خیال یہ کیا جارہا تھا کہ سابق ڈسٹرکٹ نائب ناظم قاسم علی شاہ کو میئر کا ٹکٹ دیا جائے گا اور میئر کی نشست پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے جانے کی تاریخ تک فیصلہ نہ ہوسکا۔ صوبے کی اہم سیاسی حکومتی شخصیت کی مداخلت پر قرعہ فال رضوان بنگش کے نام نکلا۔ پی ٹی آئی کے امیدوار کو اپوزیشن جماعتوں کے مقابلے کے ساتھ اندرونی اختلافات کا مقابلہ بھی کرنا ہوگا۔ بظاہر پی ٹی آئی کے تمام عہدیدار اور کارکن رضوان بنگش کی انتخابی مہم میں سرگرم ہیں لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ میئر ٹکٹ کی تقسیم پر پی ٹی آئی میں ناراضی پائی جاتی ہے۔ رضوان بنگش کی کامیابی کےلیے پشاور سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزرا اور ارکان اسمبلی بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ آئندہ عام انتخابات میں پشاور میں اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے کےلیے پی ٹی آئی کےلیے پشاور سٹی میئرشپ کی نشست جیتنا ضروری ہے۔
دوسری جانب سابق وزیراعلیٰ ارباب جہانگیر کے پوتے اور وفاقی وزیر ارباب عالمگیر کے بیٹے ارباب زرک میدان میں ہیں اور انھیں اندرون شہر پیپلزپارٹی کی سپورٹ کے علاوہ تہکال، یونیورسٹی ٹاؤن اور کینٹ سے ملحقہ علاقوں میں ارباب فیملی کی حمایت بھی حاصل ہے، جب کہ مولانا فضل الرحمان کے داماد کے بھائی اور سابق ضلع ناظم حاجی غلام علی کے بیٹے زبیرعلی بھی سٹی میئر کے امیدوار ہیں۔ حاجی غلام علی دوراندیش سیاستدان ہیں۔ انہوں نے سیاسی میدان میں جو بھی قدم اٹھایا باقاعدہ منصوبہ بندی اور سوچ بچار کے بعد قدم اٹھایا ہے، اپنے بیٹے کی کامیابی کےلیے وہ خود انتخابی مہم کی نگرانی کررہے ہیں۔ تاجر رہنما ہونے کے ناتے جے یو آئی کے امیدوار کو تاجر برادری کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ اگرچہ تاجر برادری بھی گروپ بندی کا شکار ہے لیکن حاجی غلام علی نے سب سے بنا کر رکھی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی 2018 کے عام انتخابات کے بعد سیاسی میدان میں پہلے سے بڑھ کر متحرک ہے اور اندرون شہر بلور خاندان کا اثر و رسوخ ہونے کی وجہ سے اے این پی کے امیدوار شیر رحمان کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ لیکن اے این پی کو اس وقت بڑا نقصان اٹھانا پڑا جب حاجی غلام احمد بلور کے بھیتجے اور سابق سینیٹر الیاس بلور کے صاحابزادے غضنفر بلور نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ غضنفر بلور اگرچہ پارٹی سیاست میں اتنے سرگرم نہ تھے لیکن والد کی وجہ سے صنعت کاروں اور تاجر برادری میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اسی کا فائدہ تحریک انصاف والوں نے اٹھاتے ہوئے غضںفر بلور کو پی ٹی آئی میں شامل کرلیا۔ اب غضنفر بلور کپتان کے کھلاڑی بن گئے ہیں لیکن بلور خاندان اب بھی اے این پی ہی کے ساتھ ہے۔
اے این پی کی رکن صوبائی اسمبلی ثمر بلور خود پارٹی امیدوار کےلیے انتخابی مہم میں حصہ لے رہی ہیں اور اس وقت دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح اے این پی بھی پشاور سٹی میئر کی نشست کے حصول کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔ ن لیگ، جے یو آئی کی حمایت کرچکی ہے۔ جماعت اسلامی بھی پشاور سٹی میئر کی دوڑ میں شامل ہے۔ بحراللہ ایڈووکیٹ جماعت اسلامی کے سرگرم کارکن ہیں۔ جماعت اسلامی نے بھی پشاور میں انتخابی مہم زوروشور سے جاری رکھی ہوئی ہے لیکن دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح جماعت اسلامی کے امیدوار کے پیچھے کوئی موروثی سیاست نہیں۔ اپنے منشور و نظریے پر جماعت اسلامی اپنے امیدوار کےلیے ووٹ مانگ رہی ہے۔
انتخابی مہم اس قدر زوروں پر پہنچ چکی ہے کہ انتخابات کےلیے جاری ضابطہ اخلاق کو خاطر میں نہیں لایا جارہا۔ پی ٹی آئی کے صوبائی وزرا پارٹی امیدواروں کی انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں، جس کے باعث الیکشن کمیشن وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور، صوبائی وزیر کامران بنگش کو نوٹس جاری کرچکا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی احمد کنڈی کی تقریر کا بھی نوٹس لیا گیا ہے۔ شہر میں مقررہ سائز سے زیادہ بینرز لگانے پر پشاور سٹی میئر کےلیے پی ٹی آئی کے امیدوار رضوان بنگش، جے یو آئی کے زبیرعلی اور ن لیگ کے امیدوار نیک زادہ کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں اگر ماضی میں ہونے والے عام انتخابات کا جائزہ جائے تو تحریک انصاف کو عوامی حمایت حاصل رہی ہے لیکن تین سال کے عرصے میں ہونے والے ضمنی اور قبائلی اضلاع کے انتخابات میں پی ٹی آئی بہتر نتائج نہیں دے سکی۔ جنوبی اضلاع میں جے یو آئی ایک بار پھر عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہورہی ہے۔ اسی طرح پشاور سمیت مالاکنڈ میں اے این پی بھی ابھر رہی ہے۔ اے این پی کی قیادت اس وقت مالاکنڈ کی طرف بھرپور توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ پیپلزپارٹی کی نئی قیادت کے آنے کے بعد پیپلزپارٹی بھی بھرپور فارم میں نظر آرہی ہے۔ پیپلزپارٹی ناراض کارکنوں کو منانے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اس کی کوشش ہے کہ عام انتخابات سے قبل پورے صوبے میں عوامی رابطہ مہم کا سلسلہ مکمل کیا جائے۔ جبکہ آنے والے دنوں میں بلاول بھٹو زرداری خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں جلسے منعقد کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔
19 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات سیاسی جماعتوں کےلیے عام انتخابات کی ریہرسل ہے اور دیکھنا ہوگا کہ حکمران جماعت اپنا ووٹ بینک بچانے میں کامیاب ہوتی ہے یا اپوزیشن جماعتیں بہتر نتائج حاصل کرکے اپنے سیاسی پلڑے کو بھاری کرتی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
حکمران جماعت تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں اور ہر سیاسی جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی۔ اس سلسلے میں امیدواروں نے اپنی کامیابی کےلیے دن رات ایک کردیے ہیں۔ صبح ہو یا شام اپنے حامیوں کے ساتھ ووٹ کے حصول کےلیے گلی گلی، محلہ محلہ اور بازاروں کے چکر لگارہے ہیں۔ امیدوار جس گلی سے زندگی میں نہیں گزرے تھے اب الیکشن مہم میں وہ علاقے بھی دیکھنے پڑ رہے ہیں اور ووٹروں سے وعدے وعید کے قلابے ملائے جارہے ہیں۔
پشاور میں سیاسی گہماگہمی کی وجہ سے تاریک گلیاں بھی روشن نظر آرہی ہیں۔ شہر کی دیواروں پر امیدواروں کے بینرز اور پوسٹرز چسپاں ہیں۔ مین شاہراہوں، گلیوں، بازاروں میں لگے کھبموں پر پارٹی پرچم لگ چکے ہیں، حتیٰ کہ جی ٹی روڈ پر گزرنے والی بی آر ٹی شاہراہ پر بھی پارٹی پرچم لگادیے گئے ہیں۔ 19 دسمبر سے قبل شہر میں پارٹی پرچموں، امیدواروں کے بینرز کی ایک بہار آئی ہوئی ہے۔ اس گرم سیاسی ماحول میں کسی پارٹی کی کامیابی کی پیش گوئی قبل از وقت ہوگی۔
بلدیاتی انتخابات کی اس ساری صورت حال میں نظریں پشاور، نوشہرہ اور ڈی آئی خان پر لگی ہوئی ہیں۔ پشاور میں سٹی میئر کےلیے 17 امیدوار میدان میں ہیں اور کانٹے کا مقابلہ تحریک انصاف کے رضوان بنگش، پیپلزپارٹی کے زرک خان، اے این پی کے شیر رحمان، جماعت اسلامی کے بحراللہ ایڈووکیٹ اور جے یو آئی کے زبیر علی کے درمیان ہے۔ مسلم لیگ ن جے یو آئی کی حمایت کرچکی ہے۔
نوشہرہ میں مقابلہ دو چچا زاد بھائیوں کے درمیان ہے۔ وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک ناراضی کے باعث پیپلزپارٹی کے کیمپ میں جاچکے ہیں۔ لیاقت خٹک کے بیٹے احد خٹک تحصیل کونسل کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پرویزخٹک کے بیٹے اسحاق خٹک میدان میں ہیں۔ دونوں چچازاد بھائیوں کا پلڑا بظاہر بھاری نظر آرہا ہے لیکن اس حوالے سے عوامی رائے کا اتنظار کرنا ہوگا۔
تیسرا بڑا مقابلہ ڈی آئی خان میں ہونے جارہا ہے، جہاں پیپلزپارٹی کے امیدوار سابق ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی ہیں اور ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے امیدوار وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کے بھائی عمر امین گنڈا پور سے ہے۔ یہاں پیپلزپارٹی کو جے یو آئی کی سپورٹ حاصل ہے۔
پشاور کا جائزہ لیں تو قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر تحریک انصاف کامیابی حاصل کرچکی ہے اور اس وقت پشاور کی سات تحصیلوں میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کی انتخابی مہم میں ارکان اسمبلی سمیت پشاور سے تعلق رکھنے والے وزرا بھی سرگرم ہوچکے ہیں۔ حجروں اور کارنر میٹنگز میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی شرکت کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی بھرپورکوشش ہے کہ وہ پشاور سٹی میئرشپ سمیت باقی چھ تحصیلوں پر کامیابی حاصل کرے۔ دوسری جانب اے این پی سمیت جے یو آئی، جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی بھی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
پشاور میں سٹی میئر کےلیے کانٹے کے مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔ حکمران جماعت تحریک انصاف نے رضوان بنگش کو میدان میں اتارا ہے۔ خیال یہ کیا جارہا تھا کہ سابق ڈسٹرکٹ نائب ناظم قاسم علی شاہ کو میئر کا ٹکٹ دیا جائے گا اور میئر کی نشست پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے جانے کی تاریخ تک فیصلہ نہ ہوسکا۔ صوبے کی اہم سیاسی حکومتی شخصیت کی مداخلت پر قرعہ فال رضوان بنگش کے نام نکلا۔ پی ٹی آئی کے امیدوار کو اپوزیشن جماعتوں کے مقابلے کے ساتھ اندرونی اختلافات کا مقابلہ بھی کرنا ہوگا۔ بظاہر پی ٹی آئی کے تمام عہدیدار اور کارکن رضوان بنگش کی انتخابی مہم میں سرگرم ہیں لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ میئر ٹکٹ کی تقسیم پر پی ٹی آئی میں ناراضی پائی جاتی ہے۔ رضوان بنگش کی کامیابی کےلیے پشاور سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزرا اور ارکان اسمبلی بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ آئندہ عام انتخابات میں پشاور میں اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے کےلیے پی ٹی آئی کےلیے پشاور سٹی میئرشپ کی نشست جیتنا ضروری ہے۔
دوسری جانب سابق وزیراعلیٰ ارباب جہانگیر کے پوتے اور وفاقی وزیر ارباب عالمگیر کے بیٹے ارباب زرک میدان میں ہیں اور انھیں اندرون شہر پیپلزپارٹی کی سپورٹ کے علاوہ تہکال، یونیورسٹی ٹاؤن اور کینٹ سے ملحقہ علاقوں میں ارباب فیملی کی حمایت بھی حاصل ہے، جب کہ مولانا فضل الرحمان کے داماد کے بھائی اور سابق ضلع ناظم حاجی غلام علی کے بیٹے زبیرعلی بھی سٹی میئر کے امیدوار ہیں۔ حاجی غلام علی دوراندیش سیاستدان ہیں۔ انہوں نے سیاسی میدان میں جو بھی قدم اٹھایا باقاعدہ منصوبہ بندی اور سوچ بچار کے بعد قدم اٹھایا ہے، اپنے بیٹے کی کامیابی کےلیے وہ خود انتخابی مہم کی نگرانی کررہے ہیں۔ تاجر رہنما ہونے کے ناتے جے یو آئی کے امیدوار کو تاجر برادری کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ اگرچہ تاجر برادری بھی گروپ بندی کا شکار ہے لیکن حاجی غلام علی نے سب سے بنا کر رکھی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی 2018 کے عام انتخابات کے بعد سیاسی میدان میں پہلے سے بڑھ کر متحرک ہے اور اندرون شہر بلور خاندان کا اثر و رسوخ ہونے کی وجہ سے اے این پی کے امیدوار شیر رحمان کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ لیکن اے این پی کو اس وقت بڑا نقصان اٹھانا پڑا جب حاجی غلام احمد بلور کے بھیتجے اور سابق سینیٹر الیاس بلور کے صاحابزادے غضنفر بلور نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ غضنفر بلور اگرچہ پارٹی سیاست میں اتنے سرگرم نہ تھے لیکن والد کی وجہ سے صنعت کاروں اور تاجر برادری میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اسی کا فائدہ تحریک انصاف والوں نے اٹھاتے ہوئے غضںفر بلور کو پی ٹی آئی میں شامل کرلیا۔ اب غضنفر بلور کپتان کے کھلاڑی بن گئے ہیں لیکن بلور خاندان اب بھی اے این پی ہی کے ساتھ ہے۔
اے این پی کی رکن صوبائی اسمبلی ثمر بلور خود پارٹی امیدوار کےلیے انتخابی مہم میں حصہ لے رہی ہیں اور اس وقت دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح اے این پی بھی پشاور سٹی میئر کی نشست کے حصول کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔ ن لیگ، جے یو آئی کی حمایت کرچکی ہے۔ جماعت اسلامی بھی پشاور سٹی میئر کی دوڑ میں شامل ہے۔ بحراللہ ایڈووکیٹ جماعت اسلامی کے سرگرم کارکن ہیں۔ جماعت اسلامی نے بھی پشاور میں انتخابی مہم زوروشور سے جاری رکھی ہوئی ہے لیکن دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح جماعت اسلامی کے امیدوار کے پیچھے کوئی موروثی سیاست نہیں۔ اپنے منشور و نظریے پر جماعت اسلامی اپنے امیدوار کےلیے ووٹ مانگ رہی ہے۔
انتخابی مہم اس قدر زوروں پر پہنچ چکی ہے کہ انتخابات کےلیے جاری ضابطہ اخلاق کو خاطر میں نہیں لایا جارہا۔ پی ٹی آئی کے صوبائی وزرا پارٹی امیدواروں کی انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں، جس کے باعث الیکشن کمیشن وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور، صوبائی وزیر کامران بنگش کو نوٹس جاری کرچکا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی احمد کنڈی کی تقریر کا بھی نوٹس لیا گیا ہے۔ شہر میں مقررہ سائز سے زیادہ بینرز لگانے پر پشاور سٹی میئر کےلیے پی ٹی آئی کے امیدوار رضوان بنگش، جے یو آئی کے زبیرعلی اور ن لیگ کے امیدوار نیک زادہ کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں اگر ماضی میں ہونے والے عام انتخابات کا جائزہ جائے تو تحریک انصاف کو عوامی حمایت حاصل رہی ہے لیکن تین سال کے عرصے میں ہونے والے ضمنی اور قبائلی اضلاع کے انتخابات میں پی ٹی آئی بہتر نتائج نہیں دے سکی۔ جنوبی اضلاع میں جے یو آئی ایک بار پھر عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہورہی ہے۔ اسی طرح پشاور سمیت مالاکنڈ میں اے این پی بھی ابھر رہی ہے۔ اے این پی کی قیادت اس وقت مالاکنڈ کی طرف بھرپور توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ پیپلزپارٹی کی نئی قیادت کے آنے کے بعد پیپلزپارٹی بھی بھرپور فارم میں نظر آرہی ہے۔ پیپلزپارٹی ناراض کارکنوں کو منانے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اس کی کوشش ہے کہ عام انتخابات سے قبل پورے صوبے میں عوامی رابطہ مہم کا سلسلہ مکمل کیا جائے۔ جبکہ آنے والے دنوں میں بلاول بھٹو زرداری خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں جلسے منعقد کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔
19 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات سیاسی جماعتوں کےلیے عام انتخابات کی ریہرسل ہے اور دیکھنا ہوگا کہ حکمران جماعت اپنا ووٹ بینک بچانے میں کامیاب ہوتی ہے یا اپوزیشن جماعتیں بہتر نتائج حاصل کرکے اپنے سیاسی پلڑے کو بھاری کرتی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔