ملک میں ہر طرف اشرافیہ کا قبضہ ہے سپریم کورٹ
ایلیٹ شخصیات کا نہیں بلکہ پورے طبقے کا نام ہے، جسٹس عمر عطاء بندیال
LONDON:
سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملک میں ہر طرف ایلیٹ کا قبضہ ہے۔
سپریم کورٹ میں 16 ہزار برطرف ملازمین کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیا بھرتیوں کا عمل شفاف تھا، کیا تقرریوں کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے ہوئے، معاملہ پبلک فنڈز کے استعمال سے جڑا ہے، حکومت کل تک قانون کی مخالف تھی آج حمایت کر رہی ہے، اٹارنی جنرل کا کہنا ہے 2010 ہوتا تو قانون کا دفاع نہ کرتا، بہتر نہیں اگر ملازمین کو ریلیف دینا تو پارلیمنٹ سے دیں، حکومت کی ذمہ داری ہے تقرری میں شفافیت کو مد نظر رکھے، 1999 میں نکالے گئے کنٹریکٹ ملازمین کو 2010 کے ایکٹ کے ذریعے بحال اور مستقل کر دیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم کیساتھ تجاویز پر بات کرکے دلائل دوں گا۔ آئی بی کے وکیل رضا ربانی نے دلائل دیے کہ 1947 سے اشرافیہ نے سول ملٹری کے مفادات کا دفاع کیا ہے، ذوالفقار بھٹو کی حکومت کو غیر آئینی طریقہ سے ہٹایا گیا۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ سال 1993-96 تک بھرتیاں مستقل بنیادوں پر کیوں نہیں کی گئیں؟ سب غلطیاں اس وقت کی حکومت کی ہیں، ریاست اور عوام کے پیسے سے 2010 میں اپنی غلطی کا داغ دھونے کی کوشش کی گئی، ملک میں ہر طرف ایلیٹ کا قبضہ ہے، ایلیٹ شخصیات کا نہیں بلکہ پورے طبقے کا نام ہے، لوگ اپنا پیسہ بیرون ملک لیجا کر چھپا دیتے ہیں، جو کام 1993 میں کرنا چاہیے تھا وہ 2010 میں کیا گیا، اہلیت جانے بغیر انہیں مستقل کیا گیا، ملازمین کو اگر پنشن اور مراعات دی جاتی ہیں وہ بھی معیشت پر بڑا بوجھ ہوسکتا ہے، ریاست کو غریبوں کا بوجھ اٹھانا چاہیے، ربانی صاحب آج پارلیمان موجود ہے اس کے ذریعے جمہوریت لائیں، سیاسی چوائسز پارلیمنٹ کی ہو سکتی ہیں ہماری نہیں۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل ہدایات لے کر آگاہ کریں کہ ملازمین کے لیے پارلیمنٹ کیا اقدامات کر سکتی ہے؟ کل کیس کو نمٹا دیں گے۔
سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملک میں ہر طرف ایلیٹ کا قبضہ ہے۔
سپریم کورٹ میں 16 ہزار برطرف ملازمین کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیا بھرتیوں کا عمل شفاف تھا، کیا تقرریوں کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے ہوئے، معاملہ پبلک فنڈز کے استعمال سے جڑا ہے، حکومت کل تک قانون کی مخالف تھی آج حمایت کر رہی ہے، اٹارنی جنرل کا کہنا ہے 2010 ہوتا تو قانون کا دفاع نہ کرتا، بہتر نہیں اگر ملازمین کو ریلیف دینا تو پارلیمنٹ سے دیں، حکومت کی ذمہ داری ہے تقرری میں شفافیت کو مد نظر رکھے، 1999 میں نکالے گئے کنٹریکٹ ملازمین کو 2010 کے ایکٹ کے ذریعے بحال اور مستقل کر دیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم کیساتھ تجاویز پر بات کرکے دلائل دوں گا۔ آئی بی کے وکیل رضا ربانی نے دلائل دیے کہ 1947 سے اشرافیہ نے سول ملٹری کے مفادات کا دفاع کیا ہے، ذوالفقار بھٹو کی حکومت کو غیر آئینی طریقہ سے ہٹایا گیا۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ سال 1993-96 تک بھرتیاں مستقل بنیادوں پر کیوں نہیں کی گئیں؟ سب غلطیاں اس وقت کی حکومت کی ہیں، ریاست اور عوام کے پیسے سے 2010 میں اپنی غلطی کا داغ دھونے کی کوشش کی گئی، ملک میں ہر طرف ایلیٹ کا قبضہ ہے، ایلیٹ شخصیات کا نہیں بلکہ پورے طبقے کا نام ہے، لوگ اپنا پیسہ بیرون ملک لیجا کر چھپا دیتے ہیں، جو کام 1993 میں کرنا چاہیے تھا وہ 2010 میں کیا گیا، اہلیت جانے بغیر انہیں مستقل کیا گیا، ملازمین کو اگر پنشن اور مراعات دی جاتی ہیں وہ بھی معیشت پر بڑا بوجھ ہوسکتا ہے، ریاست کو غریبوں کا بوجھ اٹھانا چاہیے، ربانی صاحب آج پارلیمان موجود ہے اس کے ذریعے جمہوریت لائیں، سیاسی چوائسز پارلیمنٹ کی ہو سکتی ہیں ہماری نہیں۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل ہدایات لے کر آگاہ کریں کہ ملازمین کے لیے پارلیمنٹ کیا اقدامات کر سکتی ہے؟ کل کیس کو نمٹا دیں گے۔
سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔