پاکستان سے آنے والی کال پر اشرف غنی فرار ہونے پر آمادہ ہوگئے امریکی اخبار
اشرف غنی کی اہل خانہ کے ہمراہ کابل سے فرار ہونے کی پوری روداد پہلی بار منظر عام پر آگئی
SHANGHAI/SHENZHEN:
امریکی میگزین نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان سے آنے والی ایک کال اور ایک ٹیکسٹ میسیج پر ہی افغان صدر اشرف غنی اور مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب افغانستان سے فرار ہوگئے تھے۔
ڈان ڈاٹ کام کے مطابق نیویارکر میگزین نے پیر کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی موبائل نمبر سے آنے والے ایک ٹیکسٹ پیغام اور کال نے افغان قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب کو سابق صدر اشرف غنی اور ان کے خاندان کے ساتھ افغانستان چھوڑنے پر آمادہ کیا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ کال 15 اگست کو ایک بجے کے قریب اس وقت آئی جب طالبان کابل میں داخل ہوچکے تھے اور اہم علاقوں کا کنٹرول بھی حاصل کرچکے تھے۔
رپورٹ کے مطابق خلیل حقانی نے مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب سے بات کرتے ہوئے نہ صرف ہتھیار ڈالنے کو کہا بلکہ اقتدار سے دستبردار ہونے کا بیان جاری کرنے کو کہا اور ایسا کرنے پر ملاقات کی پیشکش بھی کی۔
تاہم حمد اللہ محب نے ہتھیار ڈالنے اور بیان جاری کرنے کے بجائے پہلے فون پر معاملات طے کرنے کو ترجیح دی تاہم خلیل حقانی نے کال کاٹ دی جس پر افغان مشیر قومی سلامتی نے زلمے خلیل زاد کے نائب ٹام ویسٹ کو کال کی۔
یہ بھی خبر پڑھیں : افغان صدر کا مستعفی ہوکر اہل خانہ سمیت بیرون ملک منتقل ہونے کا فیصلہ، بھارتی میڈیا
زلمے خلیل زاد کے نائب نے محب اللہ کو مشورہ دیا کہ وہ کسی بھی میٹنگ کے لیے نہ جائیں کیوں کہ ملاقات کے بہانے آپ کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے جس کے بعد حمد اللہ محب اور صدر اشرف غنی نے متحدہ عرب امارات کے ایک سفارت کار کے ساتھ صدارتی دفتر میں فرار کا منصوبہ بنایا۔
امریکی میگزین کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ جب اشرف غنی اور حمد اللہ محب متحدہ عرب امارات کے سفارت کار سے ملک سے فرار ہونے کے منصوبہ طے کر رہے تھے اُس وقت صدارتی محل کے باہر سے گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
اسی دوران متحدہ عرب امارات کے رابطہ کاروں نے ایمریٹس ائیرلائن کی پرواز میں نشستیں پیش کیں جو سہ پہر چار بجے کابل سے روانہ ہونے والی تھی۔
اس موقع پر اشرف غنی نے مشیر قومی سلامتی کو ہدایت کی کہ وہ حفاظتی دستے کے ہمراہ خاتون اوّل کو دبئی لے جائیں اور پھر وہاں سے دوحہ میں مذاکراتی ٹیم میں شامل ہو کر زلمے خلیل زاد اور طالبان رہنما ملا برادر کے ساتھ کابل کے حوالے کرنے کے بارے میں بات چیت کو حتمی شکل دیں۔
امریکی میگزین کے مطابق اس گفتگو کے بعد حمد اللہ محب واپس کسی کام کے لیے چلے گئے اور دو بجے اشرف غنی کی رہائش گاہ پر واپس آئے اور خاتون اوّل رولا غنی کو حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ للے جانے کے لیے دلکشا پیلس کے عقب میں ہیلی پیڈ پر لے کر گئے۔
دوسری جانب صدر کے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹرز میں سے تین صدارتی محل میں تھے اور چوتھا ایئرپورٹ پر تھا۔ حمد اللہ محب کو معلوم ہوا کہ پائلٹوں نے ان ہیلی کاپٹروں میں مکمل طور پر ایندھن بھر دیا ہے کیونکہ وہ جلد از جلد تاجکستان یا ازبکستان کے لیے براہ راست پرواز کرنا چاہتے تھے۔ اس سے قبل بھی کئی فوجی پائلٹس پناہ کے تلاش میں یہ راستہ استعمال کر چکے تھے۔
یہ خبر پڑھیں : اشرف غنی قریبی ساتھیوں کو بغیر بتائے ملک چھوڑ گئے
نیویارکر میگزین کی رپورٹ کے مطابق ان پائلٹوں نے خاتون اوّل رولا کے ساتھ ہوائی اڈے پر جانے سے انکار کر دیا۔ پائلٹوں کو خدشہ تھا کہ حکومتی آفیشل کی حفاظت پر مامور افغان فوجیوإ کے خصوصی مشن وہاں ہیلی کاپٹر کو گراؤنڈ کر رہے ہیں۔
ابھی حمد اللہ محب پائلٹوں سے ممکنہ آپشنز پر بات چیت کر رہے تھے کہ صدارتی گارڈ کے سربراہ قہار کوچائی نے محب کو خبردار کیا "اگر آپ چلے گئے تو آپ صدر کی جان کو خطرے میں ڈالیں گے۔"
حمد اللہ محب نے کوچائی سے پوچھا کہ تو کیا کہ میں افغانستان میں ہی رہوں ؟ جس پر صدارتی گارڈ کے سربراہ نے جواب دیا کہ " نہیں، میں چاہتا ہوں کہ آپ صدر کو اپنے ساتھ لے جائیں،"
اگرچہ مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب کو یہ بھی یقین نہیں تھا کہ طالبان کے محل میں داخل ہوتے ہی اشرف غنی کے تمام محافظ وفادار رہیں گے جب کہ کوچائی پہلے ہی اشارہ دے چکے تھے کہ ان کے پاس صدر کی حفاظت کے لیے وسائل نہیں ہیں۔
امریکی میگزین کے مطابق ان حالات میں حمد اللہ محب نے ہیلی کاپٹر پر خاتون اوّل رولا کو انتظار کرنے کا کہہ کر صدارتی گارڈ کے چیف کے ہمراہ واپس اشرف غنی کے پاس ان کی رہائش گاہ پہنچ گئے اور کہا : "جنابِ صدر، یہی وقت ہے. ہمیں اب یہاں سے نکلنا چاہیئے۔''
اشرف غنی کچھ سامان اکٹھا کرنے کے لیے اوپر کمرے میں جانا چاہتے تھے لیکن حمد اللہ محب کو اس بات کی فکر تھی کہ ہر منٹ کی تاخیر سے مسلح محافظوں کی طرف سے خوف و ہراس اور بغاوت کا خطرہ مول لے سکتا ہے۔
جلد بازی اور افراتفری میں اشرف غنی اپنے پاسپورٹ کے بغیر ہی گاڑی میں چڑھ گئے جیسے ہی عملے اور محافظوں نے صدر کو جاتے ہوئے دیکھا وہ ہیلی کاپٹر میں سوار ہونے کے لیے آپس میں لڑنے اور شور مچانے لگے۔
پائلٹس کا کہنا تھا کہ ہر ہیلی کاپٹر صرف 6 مسافروں کو لے جا سکتا ہے۔ اشرف غنی، خاتون اوّل رولا اور محب اللہ کے ساتھ، نو دیگر اہلکار جہاز میں سوار ازبکستان کے لیے پرواز کر گئے اور چن دنوں بعد متحدہ عرب امارات میں منظر عام پر آئے۔
امریکی میگزین نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان سے آنے والی ایک کال اور ایک ٹیکسٹ میسیج پر ہی افغان صدر اشرف غنی اور مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب افغانستان سے فرار ہوگئے تھے۔
ڈان ڈاٹ کام کے مطابق نیویارکر میگزین نے پیر کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی موبائل نمبر سے آنے والے ایک ٹیکسٹ پیغام اور کال نے افغان قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب کو سابق صدر اشرف غنی اور ان کے خاندان کے ساتھ افغانستان چھوڑنے پر آمادہ کیا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ کال 15 اگست کو ایک بجے کے قریب اس وقت آئی جب طالبان کابل میں داخل ہوچکے تھے اور اہم علاقوں کا کنٹرول بھی حاصل کرچکے تھے۔
رپورٹ کے مطابق خلیل حقانی نے مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب سے بات کرتے ہوئے نہ صرف ہتھیار ڈالنے کو کہا بلکہ اقتدار سے دستبردار ہونے کا بیان جاری کرنے کو کہا اور ایسا کرنے پر ملاقات کی پیشکش بھی کی۔
تاہم حمد اللہ محب نے ہتھیار ڈالنے اور بیان جاری کرنے کے بجائے پہلے فون پر معاملات طے کرنے کو ترجیح دی تاہم خلیل حقانی نے کال کاٹ دی جس پر افغان مشیر قومی سلامتی نے زلمے خلیل زاد کے نائب ٹام ویسٹ کو کال کی۔
یہ بھی خبر پڑھیں : افغان صدر کا مستعفی ہوکر اہل خانہ سمیت بیرون ملک منتقل ہونے کا فیصلہ، بھارتی میڈیا
زلمے خلیل زاد کے نائب نے محب اللہ کو مشورہ دیا کہ وہ کسی بھی میٹنگ کے لیے نہ جائیں کیوں کہ ملاقات کے بہانے آپ کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے جس کے بعد حمد اللہ محب اور صدر اشرف غنی نے متحدہ عرب امارات کے ایک سفارت کار کے ساتھ صدارتی دفتر میں فرار کا منصوبہ بنایا۔
امریکی میگزین کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ جب اشرف غنی اور حمد اللہ محب متحدہ عرب امارات کے سفارت کار سے ملک سے فرار ہونے کے منصوبہ طے کر رہے تھے اُس وقت صدارتی محل کے باہر سے گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
اسی دوران متحدہ عرب امارات کے رابطہ کاروں نے ایمریٹس ائیرلائن کی پرواز میں نشستیں پیش کیں جو سہ پہر چار بجے کابل سے روانہ ہونے والی تھی۔
اس موقع پر اشرف غنی نے مشیر قومی سلامتی کو ہدایت کی کہ وہ حفاظتی دستے کے ہمراہ خاتون اوّل کو دبئی لے جائیں اور پھر وہاں سے دوحہ میں مذاکراتی ٹیم میں شامل ہو کر زلمے خلیل زاد اور طالبان رہنما ملا برادر کے ساتھ کابل کے حوالے کرنے کے بارے میں بات چیت کو حتمی شکل دیں۔
امریکی میگزین کے مطابق اس گفتگو کے بعد حمد اللہ محب واپس کسی کام کے لیے چلے گئے اور دو بجے اشرف غنی کی رہائش گاہ پر واپس آئے اور خاتون اوّل رولا غنی کو حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ للے جانے کے لیے دلکشا پیلس کے عقب میں ہیلی پیڈ پر لے کر گئے۔
دوسری جانب صدر کے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹرز میں سے تین صدارتی محل میں تھے اور چوتھا ایئرپورٹ پر تھا۔ حمد اللہ محب کو معلوم ہوا کہ پائلٹوں نے ان ہیلی کاپٹروں میں مکمل طور پر ایندھن بھر دیا ہے کیونکہ وہ جلد از جلد تاجکستان یا ازبکستان کے لیے براہ راست پرواز کرنا چاہتے تھے۔ اس سے قبل بھی کئی فوجی پائلٹس پناہ کے تلاش میں یہ راستہ استعمال کر چکے تھے۔
یہ خبر پڑھیں : اشرف غنی قریبی ساتھیوں کو بغیر بتائے ملک چھوڑ گئے
نیویارکر میگزین کی رپورٹ کے مطابق ان پائلٹوں نے خاتون اوّل رولا کے ساتھ ہوائی اڈے پر جانے سے انکار کر دیا۔ پائلٹوں کو خدشہ تھا کہ حکومتی آفیشل کی حفاظت پر مامور افغان فوجیوإ کے خصوصی مشن وہاں ہیلی کاپٹر کو گراؤنڈ کر رہے ہیں۔
ابھی حمد اللہ محب پائلٹوں سے ممکنہ آپشنز پر بات چیت کر رہے تھے کہ صدارتی گارڈ کے سربراہ قہار کوچائی نے محب کو خبردار کیا "اگر آپ چلے گئے تو آپ صدر کی جان کو خطرے میں ڈالیں گے۔"
حمد اللہ محب نے کوچائی سے پوچھا کہ تو کیا کہ میں افغانستان میں ہی رہوں ؟ جس پر صدارتی گارڈ کے سربراہ نے جواب دیا کہ " نہیں، میں چاہتا ہوں کہ آپ صدر کو اپنے ساتھ لے جائیں،"
اگرچہ مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب کو یہ بھی یقین نہیں تھا کہ طالبان کے محل میں داخل ہوتے ہی اشرف غنی کے تمام محافظ وفادار رہیں گے جب کہ کوچائی پہلے ہی اشارہ دے چکے تھے کہ ان کے پاس صدر کی حفاظت کے لیے وسائل نہیں ہیں۔
امریکی میگزین کے مطابق ان حالات میں حمد اللہ محب نے ہیلی کاپٹر پر خاتون اوّل رولا کو انتظار کرنے کا کہہ کر صدارتی گارڈ کے چیف کے ہمراہ واپس اشرف غنی کے پاس ان کی رہائش گاہ پہنچ گئے اور کہا : "جنابِ صدر، یہی وقت ہے. ہمیں اب یہاں سے نکلنا چاہیئے۔''
اشرف غنی کچھ سامان اکٹھا کرنے کے لیے اوپر کمرے میں جانا چاہتے تھے لیکن حمد اللہ محب کو اس بات کی فکر تھی کہ ہر منٹ کی تاخیر سے مسلح محافظوں کی طرف سے خوف و ہراس اور بغاوت کا خطرہ مول لے سکتا ہے۔
جلد بازی اور افراتفری میں اشرف غنی اپنے پاسپورٹ کے بغیر ہی گاڑی میں چڑھ گئے جیسے ہی عملے اور محافظوں نے صدر کو جاتے ہوئے دیکھا وہ ہیلی کاپٹر میں سوار ہونے کے لیے آپس میں لڑنے اور شور مچانے لگے۔
پائلٹس کا کہنا تھا کہ ہر ہیلی کاپٹر صرف 6 مسافروں کو لے جا سکتا ہے۔ اشرف غنی، خاتون اوّل رولا اور محب اللہ کے ساتھ، نو دیگر اہلکار جہاز میں سوار ازبکستان کے لیے پرواز کر گئے اور چن دنوں بعد متحدہ عرب امارات میں منظر عام پر آئے۔