سقوط ڈھاکا خدارا اپنی غلطی تسلیم کریں

یہ ہمارا قومی مسلہ بھی ہے، علاقائی بھی ہے، لسانی بھی ہے، خاندانی بھی ہے اور انفرادی بھی۔

ali.dhillon@ymail.com

QUETTA:
''ہم بنگلہ دیش کوپاکستان سے الگ ہوئے 50 برس ہوچکے ہیں۔ اب بنگلہ دیش ایک آزاد وخومختار اور یو این کا رکن ملک ہے! مگر ہم تو آج بھی یہ دل سے یہ تسلیم نہیں کرتے کہ بنگلہ دیش کوئی ''ملک '' ہے مگر آج یہ حقیقت ہے کہ ''بنگلہ دیش'' کی معیشت پاکستان اور بھارت دونوں سے آگے نکل چکی ہے۔

تمام یورپی ممالک کے سرمایہ کار بنگلہ دیش کا رُخ کر رہے ہیں، میں ذاتی طور پر حسینہ واجد کی حکومت کو اچھا نہیں سمجھتا لیکن اُس کی معاشی پالیسیوں میں ایسا تسلسل ہے کہ نہ تو حسینہ واجد کے جانے سے اُس پر اثر پڑے گا ہے اور نہ ہی خالدہ ضیاء کے آنے سے پڑے گا۔

پاکستان'' ابھی تک یہ طے نہیں کرسکا کہ ''سقوط ڈھاکا'' میں غلطی کس کی تھی، دنیا چاند پر چلی گئی، ڈی این اے دریافت کر لیا، آرٹیفیشل انٹیلی جنس بنا لی، مریخ کا سفر شروع کر دیا مگر ہم آج بھی یہ طے نہیں کرسکے کہ ملک کو دو لخت کرنے میں کون کون قصور وار تھا۔ ویسے ہم پاکستانیوں کی ایک بات ضرور ہے کہ ہم تعریف کرنے میں بھی کافی کنجوسی دکھاتے ہیںاور بسا اوقات بغض بھی رکھتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر کہ اگر ہم نے کوئی غلطی کی ہوتی ہے، یا کسی کے ساتھ غلط کیا ہوتا ہے تو اُسے ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے!

یہ ہمارا قومی مسلہ بھی ہے، علاقائی بھی ہے، لسانی بھی ہے، خاندانی بھی ہے اور انفرادی بھی۔ ورنہ آپ خود دیکھ لیں کہ جرمنی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے پہلا کام ہی یہ کیا کہ اُس نے اپنی غلطی تسلیم کی اور عہد کیا کہ ہم دوبارہ ایسی غلطیاں نہیں دہرائیں گے ، جس سے ہمیں جنگ کی طرف لوٹ کر جانا پڑے۔ اسی طرح اٹلی کو دیکھ لیں، جاپان کی مثال سب کے سامنے ہے،اس کے علاوہ اُن تمام ممالک کو دیکھ لیں جو دوسری جنگ عظیم میں ملبے کے ڈھیر تھے ۔ لیکن آج وہ دنیا کے لیے سپر پاور کا درجہ رکھتے ہیں۔


سوال یہ ہے کہ ہماری غلطی کیا تھی اور غلطی کا پوچھیں بھی کس سے؟ قومی سطح پر ہمارا کوئی تھنک ٹینک تو ہے نہیں جو یہ بتا سکے کہ کون غلط تھا اور کون صحیح یا جو اس ملک کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کر سکے۔ تھنک ٹینک کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں ایک انگریز ریسرچر مائیکل اسٹانزے نے کہا تھا کہ شکست خوردہ، غریب، نومولود جمہوریت والے اور اُبھرتی معیشت والے ممالک کے لیے '' تھنک ٹینک'' ایسے ہی ہے جیسے جسم کے لیے سانس لینا، اُس کا کہنا تھا کہ یہ آپ کی غلطیوں کی تلافی کرواتا، معاشی صورتحال پر درست سمت فراہم کرتا اور اُن موضوعات پر بحث کرواتا ہے جو ملک کے لیے آیندہ خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ لیکن مائیکل نے اپنی ریسرچ کے آخر میں یہ بھی تنبیہ کر دی کہ تھنک ٹینک کے لیے شرط یہ ہے کہ اُس کی کسی مخصوص خاندان یا پارٹی سے وابستگی نہ ہو ورنہ یہی تھنک ٹینک گلے بھی پڑ سکتا ہے۔

خیر بات سقوط ڈھاکا کی ہورہی تھی کہ اس دن کی مناسبت سے ہم نے آج تک کوئی کام نہیں کیے، ہم آج بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیںاورہم آج بھی غدار غدار کی گیم کھیل رہے ۔ ہم نے آج تک اس بات پر کبھی غور نہیں کیا کہ جو قائداعظم کے سپاہی یا جانشین تھے وہ اُن کی رحلت کے بعد ''غدار'' کیسے ہوگئے ۔ آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ ہم نے کس کس موقع پر ،کس کس کو غدار قرار دیا۔ ہم نے سابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین جن کا تعلق بنگال سے تھا کو نہ صرف برطرف کیا بلکہ انھیں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر بھی مجبور کیا، حسین شہید سہر وردی جو قائد اعظم کے قریبی ساتھ تھے اور بنگالی بھی تھے، کو ہم نے وزیر اعظم بنایا اور ''غدار'' کے خطاب سے نواز دیا اور وہ 1962میں پراسرار انداز میں بیروت میں انتقال کر گئے۔پھر قائد دور کے وزیر قانون جوگیندر ناتھ منڈل کو بھارت واپس جانے پر مجبور کر دیا۔پھر شیخ مجیب الرحمن کو ہم نے غدار قرار دیااور وہی شخص بنگالی قوم کا ہیرو بن گیا۔

اس کے بعد ایوب دور میں قائداعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا گیا۔ ایوب خان نے انھیں بدترین دھاندلی کرکے صدارتی انتخاب ہروایا حالانکہ وہ جیتی ہوئی تھیں۔ خدائی خدمت گار تحریک کے خان عبدالغفار خان کو بھی غدار کہا گیا۔ بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی اور اس کے رہنماؤں پر غداری کے مقدمات قائم ہوئے۔ جام صادق اور غلام مصطفی کھر پر بھی غداری کے الزامات لگے اور انھیں انڈین ایجنٹ قرار دیا گیا۔ عبد الصمد خان اچکزئی، عطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری بھی غداری کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں۔ لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اصل ذمے دار تو اُس وقت کے ڈکٹیٹر تھے جنھوں نے 13سال حکومت کی، اس کے بعد بھی اگر سیاستدان ذمے دار ہیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے! کیوں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ ایڈمنسٹریٹر تھے، اور کام کوئی اور دکھا گیا!

الغرض قارئین !قوم وہ ہوتی ہے جو دوسروں کے بجائے اپنی غلطیاں درست کرکے آگے بڑھے اور ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو آیندہ سدھارنے کی کوشش کرے، ہم کسی پر الزام نہیں لگانا چاہتے، کہ سانحہ مشرقی پاکستان کس کی وجہ سے ہوا ہے لیکن جو ہماری اجتماعی غلطیاں ہیں، جس کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار اکثریت نے اقلیت سے آزادی حاصل کی، کو کم از کم تسلیم ہی کر لیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بنگالی سیاستدان دودھ کے دھلے تھے، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ انھوں نے متحدہ پاکستان میں رہنے کی سر توڑ کوششیں کیں ، مگر یہ سوال ضرور ذہن میں اُبھرتا ہے کہ آخر ہم سے غلطی کہاں ہوئی؟ کم از کم ہم غلطیاں تسلیم تو کریں۔

بہرحال مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے 50 سال بیت چکے ہیں لیکن ہم آج بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ہماری قیادت نے بنگالی عوام سے جو سلوک روا رکھا ، اس کا منطقی نتیجہ بنگلہ دیش کا قیام ہی تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اُس قوم کی آج تک حالت نہیں بدلی اور نہ وہ ایک قوم بن سکی جس قوم نے اپنی غلطی تسلیم نہیں کی۔ہم آج بلوچستان کے غریب عوام کو اہمیت نہیں دے رہے اور بااثر افراد کے ساتھ ساز باز کرکے کام چلا رہے ہیں۔گوادر کے عوام سڑکوں پر ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے ہیں کہ کہیں نہ کہیں زیادتی ہو رہی ہے۔ لہٰذاہم جب تک غلطیوں کو تسلیم نہیں کرتے تب تک اُن کا حل بھی نہیں نکلے گا اور پاکستان کی ترقی کو ''ریورس'' گیئر لگا رہے گا !
Load Next Story