بلدیاتی نظام حکومت اور عوام
پاکستان بائیس کروڑ آبادی کاایک گنجان آباد ملک ہیں، اس نسبت سے ہمارے مسائل بھی مختلف اور متنوع ہیں۔
ISLAMABAD:
مقامی حکومتوں کا تصور قدیم ہے ۔دنیا کی جدید تاریخ میں پہلی شہری حکومت کا قیام انگریزوں کے زیر سایہ 1840 میں ہوا ۔ معلوم تاریخ کے مطابق اس سے پہلے بھی شہری حکومتیں قائم رہی ہیں لیکن ان حکومتوں کی ترقی یافتہ شکل امریکا ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں تشکیل پائی ہے۔
شہری حکومتوں کا بنیادی مقصد عوام کے مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنا ہے۔ اس نظام حکومت کے ذریعے شہری نمایندوں کو یہ موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ مقامی افراد کے ساتھ مل کر اور ایک اجتماعی سوچ کو بروئے کار لا کر اپنے علاقے کی ترقی کا بیڑا اُٹھا سکیں۔ انگریز نے ہندوستان میں بھی ایسے ہی نظام کی بنیاد ڈالی ۔
ہمارے وزیر اعظم جو مغربی دنیا کے متعلق کسی بھی عام پاکستانی سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور اکثر مغربی دنیا کی ترقی کی مثالیں بھی دیتے رہتے ہیں جسے وہ مقامی حکومتوں کے نظام کے ساتھ جوڑتے ہیںان کے دل و دماغ میں حکومت سنبھالنے سے پہلے ہی مقامی حکومتوں کا ایک خاکہ گردش کر رہا ہے لیکن وہ اقتدارسنبھالنے کے بعد یورپ کی ترقی کے اس نظام کو عملی شکل دینے میں ناکام رہے ہیں ۔
برطانیہ میں مقامی حکومتوں کا مضبوط ڈھانچہ موجود ہے جو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مقامی آبادی کے مسائل کے حل میں اپناکردار بخوبی نبھا رہا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم جو اپنے کرکٹ کیرئیر کے دوران ایک طویل مدت تک برطانیہ میں مقیم رہے ہیں، انگریز کی شہری حکومت کے ماڈل سے متاثر ہیں اور شاید وہ اسی مقامی حکومت کے طرز حکمرانی کو ذہن میں رکھ کر پاکستان میںبلدیاتی حکومتیںفعال کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ برطانیہ ہویامغربی دنیا کوئی اور ملک ان کے حالات و اقعات ، مشکلات اور مسائل ہم سے کہیں زیادہ مختلف ہیں۔ بعض مغربی ملکوں کی آبادی ہمارے کسی ایک بڑے شہر کی آبادی سے بھی کم ہے۔
پاکستان بائیس کروڑ آبادی کاایک گنجان آباد ملک ہیں، اس نسبت سے ہمارے مسائل بھی مختلف اور متنوع ہیں۔ ہمارے شہروں اور دیہات کی صورتحال یکسر مختلف ہے۔ دیہات کی نسبت شہروں میں سہولیات کی بہتر فراوانی ہے اور صوبائی اور وفاقی حکومت کا زور شہروں کی ترقی اور سہولتوں پر زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ دیہی آبادی تیزی سے بڑے شہروں کو نقل مقانی کر رہی ہے اور شہروں کی آبادی اور مسائل میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جب کہ دیہاتی عوام صبر شکر کر کے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
مستقبل کے نظام کے لیے سب سے اہم چیز نیت ہے اور ہمیشہ کی طرح عوام حکمرانوں سے نیک نیتی کی امید رکھتی ہے بشرطیکہ یہ نظام عوام دوست ہو لیکن 'مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا' والا معاملہ ہے اور عوام کسی بھی حکمران پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ عوام کو جتنا زخم خوردہ کر دیا گیا ہے اب شاید مزید زخم کھانے کی ان میں سکت نہیں ہے اسی لیے وہ حکمرانوںسے لا تعلق ہوچکے ہیں البتہ وہ انتخابات میں اپنے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ووٹ ضرور دیں گے اور یہ ووٹ کس کو ملے گا، اس کا تعین ہونا ابھی باقی ہے کیونکہ سیاست ، لیڈری اور عوامی فلاح و بہبودکے حمام میں سب ننگ دھڑنگ نظر آتے ہیں۔
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا طریقہ کار وضع کیا جارہا ہے اور اس ضمن میں قوانین کو حتمی شکل بھی دے دی گئی ہے۔ بلدیاتی الیکشن کا اصل رنگ دیہات میں دیکھنے میں آتا ہے اور یہ رنگ و روپ خاندانوں اور دوست احباب کے درمیان طویل مدت تک ناراضگیوں اور لڑائیوں کی صورت میں ہوتا ہے کیونکہ یہ بنیادی جمہوریت انتہائی نچلی سطح کی ہے جو گلی محلے کے دوست اور رشتہ داروں کو آپس میں دشمن بنا دیتی ہے۔
گائوں کے بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ ایوب خان کے زمانے میں بلدیاتی انتخابات کی بنیاد رکھی گئی اور اور اس زمانے کی دشمنیاں اب تک باقی ہیں اور اب نئے انتخابات کے بعد نئی شروع ہونے والی ہیں۔انتخابات میں اگر خوشی کی نہیں تو غمی کی بھی کوئی بات نہیں ،اس سیاسی عمل سے پریشان نہیں ہونا چاہیے لیکن بعض اوقات اس سیدھے سادے عمل میں ایسی الجھنیں پیدا کر دی جاتی ہیں کہ ایک عام شہری بھی جسے صرف ووٹ دینا ہوتا ہے پریشان ہو جاتا ہے۔
ماضی میں پرویز مشرف کی گراس روٹ لیول کی ضلعی حکومتوں میں جتنے اختیارات مقامی نمایندوں کو منتقل کیے گئے اگر بغور جائزہ لیا جائے تو بے پناہ انتظامی اور مالیاتی اختیارات کے بل بوتے پر مقامی نمایندوں نے ضلعی حکومتوں میں جو حشر برپا کیے رکھا، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اس سے قبل ایم پی اے، ایم این اے، سینیٹر ، وزیر اور مشیر وغیرہ ترقیاتی منصوبوں اور سرکاری عمال کی تقریاں اور بھرتیاں کراتے تھے، پھر ڈسٹرک، تحصیل اور یونین کونسلز کے ناظمین نے یہی کام شروع کردیا۔ آپ آنکھیں بند کر کے غور کریں کہ آپ کے ضلع میں کون سے لوگ متوقع ضلعی حکمران بن سکتے ہیں، شاید ہی کوئی معقول اور ذہین آدمی دکھائی دے۔
جان کی امان پائوں تو عرض کروں کتابوں میں لکھے نظام اقتدار اور اختیار کوعوام کے سپرد کر دیا جائے گا اور انصاف وغیرہ ان کی دہلیز پر ہوں گے لیکن نظر دوڑائیں تو یہ اختیار اور اقتدار مجھے تو سندھ کے کسی وڈیرے، پنجاب کے کسی چوہدری، بلوچستان کے کسی سردار اور خیبر پختونخواہ کے کسی خان کے پہلو میں ہی نظر آتا ہے ۔ مجھے نہیں علم کہ وہ فرشتے،بے نفس لوگ اور خدائی خدمتگار کہاں سے آئیں گے جو اس بے پناہ اقتدار کو خدا کی امانت اور عوام کو اللہ کی مخلوق سمجھیں گے۔
آپ ایک بار پھر اپنے ضلع کے جانے پہچانے صاحب حیثیت اور صاحب سیاست افراد کا تصور کیجیے ان میں سے شریف ترین آدمی کو اپنے ضلعی ناظم کی شکل میں دیکھیے اور پھر مجھے بتائیے کہ آپ کا کیا خیال ہے؟
مقامی حکومتوں کا تصور قدیم ہے ۔دنیا کی جدید تاریخ میں پہلی شہری حکومت کا قیام انگریزوں کے زیر سایہ 1840 میں ہوا ۔ معلوم تاریخ کے مطابق اس سے پہلے بھی شہری حکومتیں قائم رہی ہیں لیکن ان حکومتوں کی ترقی یافتہ شکل امریکا ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں تشکیل پائی ہے۔
شہری حکومتوں کا بنیادی مقصد عوام کے مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنا ہے۔ اس نظام حکومت کے ذریعے شہری نمایندوں کو یہ موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ مقامی افراد کے ساتھ مل کر اور ایک اجتماعی سوچ کو بروئے کار لا کر اپنے علاقے کی ترقی کا بیڑا اُٹھا سکیں۔ انگریز نے ہندوستان میں بھی ایسے ہی نظام کی بنیاد ڈالی ۔
ہمارے وزیر اعظم جو مغربی دنیا کے متعلق کسی بھی عام پاکستانی سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور اکثر مغربی دنیا کی ترقی کی مثالیں بھی دیتے رہتے ہیں جسے وہ مقامی حکومتوں کے نظام کے ساتھ جوڑتے ہیںان کے دل و دماغ میں حکومت سنبھالنے سے پہلے ہی مقامی حکومتوں کا ایک خاکہ گردش کر رہا ہے لیکن وہ اقتدارسنبھالنے کے بعد یورپ کی ترقی کے اس نظام کو عملی شکل دینے میں ناکام رہے ہیں ۔
برطانیہ میں مقامی حکومتوں کا مضبوط ڈھانچہ موجود ہے جو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مقامی آبادی کے مسائل کے حل میں اپناکردار بخوبی نبھا رہا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم جو اپنے کرکٹ کیرئیر کے دوران ایک طویل مدت تک برطانیہ میں مقیم رہے ہیں، انگریز کی شہری حکومت کے ماڈل سے متاثر ہیں اور شاید وہ اسی مقامی حکومت کے طرز حکمرانی کو ذہن میں رکھ کر پاکستان میںبلدیاتی حکومتیںفعال کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ برطانیہ ہویامغربی دنیا کوئی اور ملک ان کے حالات و اقعات ، مشکلات اور مسائل ہم سے کہیں زیادہ مختلف ہیں۔ بعض مغربی ملکوں کی آبادی ہمارے کسی ایک بڑے شہر کی آبادی سے بھی کم ہے۔
پاکستان بائیس کروڑ آبادی کاایک گنجان آباد ملک ہیں، اس نسبت سے ہمارے مسائل بھی مختلف اور متنوع ہیں۔ ہمارے شہروں اور دیہات کی صورتحال یکسر مختلف ہے۔ دیہات کی نسبت شہروں میں سہولیات کی بہتر فراوانی ہے اور صوبائی اور وفاقی حکومت کا زور شہروں کی ترقی اور سہولتوں پر زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ دیہی آبادی تیزی سے بڑے شہروں کو نقل مقانی کر رہی ہے اور شہروں کی آبادی اور مسائل میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جب کہ دیہاتی عوام صبر شکر کر کے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
مستقبل کے نظام کے لیے سب سے اہم چیز نیت ہے اور ہمیشہ کی طرح عوام حکمرانوں سے نیک نیتی کی امید رکھتی ہے بشرطیکہ یہ نظام عوام دوست ہو لیکن 'مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا' والا معاملہ ہے اور عوام کسی بھی حکمران پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ عوام کو جتنا زخم خوردہ کر دیا گیا ہے اب شاید مزید زخم کھانے کی ان میں سکت نہیں ہے اسی لیے وہ حکمرانوںسے لا تعلق ہوچکے ہیں البتہ وہ انتخابات میں اپنے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ووٹ ضرور دیں گے اور یہ ووٹ کس کو ملے گا، اس کا تعین ہونا ابھی باقی ہے کیونکہ سیاست ، لیڈری اور عوامی فلاح و بہبودکے حمام میں سب ننگ دھڑنگ نظر آتے ہیں۔
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا طریقہ کار وضع کیا جارہا ہے اور اس ضمن میں قوانین کو حتمی شکل بھی دے دی گئی ہے۔ بلدیاتی الیکشن کا اصل رنگ دیہات میں دیکھنے میں آتا ہے اور یہ رنگ و روپ خاندانوں اور دوست احباب کے درمیان طویل مدت تک ناراضگیوں اور لڑائیوں کی صورت میں ہوتا ہے کیونکہ یہ بنیادی جمہوریت انتہائی نچلی سطح کی ہے جو گلی محلے کے دوست اور رشتہ داروں کو آپس میں دشمن بنا دیتی ہے۔
گائوں کے بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ ایوب خان کے زمانے میں بلدیاتی انتخابات کی بنیاد رکھی گئی اور اور اس زمانے کی دشمنیاں اب تک باقی ہیں اور اب نئے انتخابات کے بعد نئی شروع ہونے والی ہیں۔انتخابات میں اگر خوشی کی نہیں تو غمی کی بھی کوئی بات نہیں ،اس سیاسی عمل سے پریشان نہیں ہونا چاہیے لیکن بعض اوقات اس سیدھے سادے عمل میں ایسی الجھنیں پیدا کر دی جاتی ہیں کہ ایک عام شہری بھی جسے صرف ووٹ دینا ہوتا ہے پریشان ہو جاتا ہے۔
ماضی میں پرویز مشرف کی گراس روٹ لیول کی ضلعی حکومتوں میں جتنے اختیارات مقامی نمایندوں کو منتقل کیے گئے اگر بغور جائزہ لیا جائے تو بے پناہ انتظامی اور مالیاتی اختیارات کے بل بوتے پر مقامی نمایندوں نے ضلعی حکومتوں میں جو حشر برپا کیے رکھا، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اس سے قبل ایم پی اے، ایم این اے، سینیٹر ، وزیر اور مشیر وغیرہ ترقیاتی منصوبوں اور سرکاری عمال کی تقریاں اور بھرتیاں کراتے تھے، پھر ڈسٹرک، تحصیل اور یونین کونسلز کے ناظمین نے یہی کام شروع کردیا۔ آپ آنکھیں بند کر کے غور کریں کہ آپ کے ضلع میں کون سے لوگ متوقع ضلعی حکمران بن سکتے ہیں، شاید ہی کوئی معقول اور ذہین آدمی دکھائی دے۔
جان کی امان پائوں تو عرض کروں کتابوں میں لکھے نظام اقتدار اور اختیار کوعوام کے سپرد کر دیا جائے گا اور انصاف وغیرہ ان کی دہلیز پر ہوں گے لیکن نظر دوڑائیں تو یہ اختیار اور اقتدار مجھے تو سندھ کے کسی وڈیرے، پنجاب کے کسی چوہدری، بلوچستان کے کسی سردار اور خیبر پختونخواہ کے کسی خان کے پہلو میں ہی نظر آتا ہے ۔ مجھے نہیں علم کہ وہ فرشتے،بے نفس لوگ اور خدائی خدمتگار کہاں سے آئیں گے جو اس بے پناہ اقتدار کو خدا کی امانت اور عوام کو اللہ کی مخلوق سمجھیں گے۔
آپ ایک بار پھر اپنے ضلع کے جانے پہچانے صاحب حیثیت اور صاحب سیاست افراد کا تصور کیجیے ان میں سے شریف ترین آدمی کو اپنے ضلعی ناظم کی شکل میں دیکھیے اور پھر مجھے بتائیے کہ آپ کا کیا خیال ہے؟