نغمگی کے قدِ بالا پر قبائے سازتنگ
لڑکیوں کو زندگی میں ’’مراۃ العروس‘‘ کے علاوہ اور اس سے آگے اور بھی بہت کچھ جاننے کی ضرورت ہے۔
مندرجہ بالا نظموں کا زمانہ تحریر قیاسی طورپر 1925 اور 1940کے درمیان بنتا ہے جب کہ ان میں صنفِ مخالف کے ساتھ تعلقِ خاطر کی جو تصویریں سامنے آتی ہیں ان میں وہ عملی سطح پر دم بدم کھلتے اور اقداری سطح پر جس ماحول کی منظر کشی کرنے کے کوشش کر رہا تھا وہ دلکش اور توجہ طلب بھی تھا اور نیا اور اجنبی بھی کہ اس سے قبل کسی ''خاتون'' کی شخصیت کی بھرپور موجودگی کا اظہار زیادہ سے زیادہ علامہ صاحب کے لفظوں میں ''کی گود میں بلی دیکھ کر'' سے آگے نہیں بڑھ پاتا تھا لڑکیوں کو زندگی میں ''مراۃ العروس'' کے علاوہ اور اس سے آگے اور بھی بہت کچھ جاننے کی ضرورت ہے کہ اب انھیں گھروں میں چھپا کر رکھی ہوئی اور ایک معشیت اور رشتہ داریوں میں اُلجھی ہوئی کموڈیٹی سے آگے وہ کچھ کرنا تھا جس کے باعث اسی دنیا کے اندر سے ایک نئی دنیا نے ظہور کرنا تھا اور زندگی کے ہر شعبے میں اُس کی بھرپور موجودگی اور استقامت نے اُس وقت کے مستقبل قریب میں ایک مخصوص انداز کے ''طوفانِ نوح'' سے بھی گزر کرنا تھا۔
مجازؔ کا ایک بہت بڑا کمال یہ ہے کہ اُس نے اپنے مخصوص رومانوی انداز میں ہی سہی مگر پہلی بار اپنے اور اردگرد میں موجود عورت کی اس صلاحیت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اُس کے ساتھ مل اور چل کر ان منزلوں کو آسان کرنے کے لیے بھی ایسے راستے سُجھائے جو اُس وقت خالص مردوں کا علاقہ سمجھے جاتے تھے۔
میڈیکل ، نرسنگ اورتدریس کے ساتھ ساتھ دوسری جنگِ عظیم کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی دنیا میں برصغیر کی آنکھیں مل کر جاگتی ہوئی عورت کے لیے اور بھی کئی راستے تھے مگر تاریخ، تہذیب ، معاشرتی اقدار اور ''گھر کی ذمے دار مالکن کا دھندلکا'' آج کل کی ''اسموگ'' کی طرح ہر راستے میں پھیلا ہوا تھا جب کہ مجازؔ اس فکر اور فلسفی کا داعی ہونے کے باوجود خود بھی پوری طرح سے اس کے امکانات سے شائد آگاہ نہیں تھا اپنی اس بات یا خیال کی تائید کے لیے چند نظموں کی ان جستہ جستہ لائنوں کو دیکھنا یقینا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
اک مجمع رنگیں میں وہ گھبرائی ہوئی سی
بیٹھی ہے عجب ناز سے شرمائی ہوئی سی
آنکھوں میں حیا، لب پہ ہنسی آئی ہوئی سی
چھلکے تری آنکھوں سے شراب اور زیادہ
مہکیں ترے عارض کے گلاب اور زیادہ
اللہ کرے زورِ شباب اور زیادہ
(اُن کا جشنِ سالگرہ)
...
پھر اِدھر آئے نہ آئے یہ شمیم جاں فزا
پھر میسر ہو نہ ہو ایسا سماں، ایسی فضا
چھیڑ اس انداز سے اے مطربِ رنگیں نوا
ٹوٹ جائے آج اک اک تار تیرے ساز کا
ذکر جس کا زہرہ وپرویں کے کاشانے میں ہے
وہ صنم بھی آج اپنے ہی صنم خانے میں ہے
خالدہؔ تُو ہے بہشتِ ترکمانی کی بہار
تیری پیشانی پہ نورِ حُریت، آئینہ کار
تیرے رخ سے پَر توِ معصوم مریم، آشکار
تیرے جلوؤں کی صباحت سے فرشتے شرمسار
گل پشیماں، قلب بلبل رشک سے دو نیم ہے
تیری باتوں میں خمار کوثر و تسنیم ہے
...
یوں تو ہم ہر شمع علم وفن کے پروانے رہے
یہ حقیقت ہے کہ ہم تیرے بھی دیوانے رہے
مدتوں اپنی زباں پر تیرے افسانے رہے
تُو رہی بیگانہ لیکن ہم نہ بیگانے رہے
یاد تری اک زمانے سے ہمارے دل میں تھی
تو یہاں آنے سے پہلے بھی اسی محفل میں تھی
''نذر خالدہ'' (ترکی سے آئی ہوئی انقلابی خاتون خالدہؔ کے لیے نظم)
اتفاق سے چند دن قبل ایک آشنا سے واٹس ایپ گروپ میں (جو زبان و ادب اور عالمی ادب کے تناظر میں اُردو ادب کے مطالعے پر زیادہ کام کرتا ہے) اچانک کسی خاتون کو مجازؔ کی مشہور نظم''رات اور ریل'' پڑھتے ہوئے سنا تو مجازؔ کے کمالِ فن کی ایک اور نسبتاً فراموش کردہ خوبی ایک نئے روپ اور انداز میں اُبھر کر سامنے آئی۔ نغمگی، موسیقیت ، قافیوں کے اندرونی صوتی ربط اورسمعی رچاؤ سے مجازؔ کو ایک فطری لگاؤ ہے۔
اسی طرح Movement, Shot ، سین کی تقسیم اور امیجز کی ہمہ نوع مناسبت کو شعوری طور پر اُجاگر کرنا بھی اُس کے مزاج کا حصہ ہے لیکن اس جدید ٹیکنالوجی کے طفیل مجھے ان دونوں میں ایک نئے ربط کا بھی احساس ہوا کہ وہ صرف خوبصورت ہم صَوت الفاظ ہی استعمال نہیں کرتا بلکہ ان کے صوتی آہنگ سے بعض اوقات ان کی شکل و صورت اور پسِ منظر میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھی سین کا حصہ بناتا چلا جاتاہے یعنی آپ کو ان میں ایک ایسی Shot Divisioningکا احساس بھی ہونا شروع ہوجاتا ہے جو پہلی نظر میں فطری اور اتفاقی سطح پر اپنی موجودگی واضح کرنے کے بعد ایک صوتی اور بصری''کُل'' کی شکل اختیار کرجاتا ہے اور یوں نظم ایک ''منظر نامے'' کی شکل میں بھی ڈھلتی جاتی ہے اب اس پس منظر میں اس نظم کے چند شعر دیکھیے۔
پھر چلی ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی
نیم شب کی خامشی میں زیرِ لب گاتی ہوئی
ڈگمگاتی، جُھومتی، سیٹی بجاتی، کھیلتی
وادی و کہسار کی ٹھنڈی ہوا کھاتی ہوئی
تیز جھونکوں میں وہ چھم چھم کا سرورِ دل نشیں
آندھیوں میں مینہ برسنے کی صدا آتی ہوئی
نونہالوں کو سناتی میتھی میٹھی لوریاں
نازنینوں کو سنہرے خواب دکھلاتی ہوئی
سینہئِ کہسار پر چڑھتی ہوئی بے اختیار
ایک ناگن جس طرح مستی میں لہراتی ہوئی
پیش کرتی بیچ ندی میں چراغاں کا سماں
ساحلوں پر ریت کے ذروں کو چمکاتی ہوئی
غور کیجیے تو آپ کو ہر امیج میں آواز کا جادو منظر کے ساتھ ساتھ اپنی شکل بدلتا ہوا بھی محسوس ہوگا۔
مجازؔ کا ایک بہت بڑا کمال یہ ہے کہ اُس نے اپنے مخصوص رومانوی انداز میں ہی سہی مگر پہلی بار اپنے اور اردگرد میں موجود عورت کی اس صلاحیت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اُس کے ساتھ مل اور چل کر ان منزلوں کو آسان کرنے کے لیے بھی ایسے راستے سُجھائے جو اُس وقت خالص مردوں کا علاقہ سمجھے جاتے تھے۔
میڈیکل ، نرسنگ اورتدریس کے ساتھ ساتھ دوسری جنگِ عظیم کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی دنیا میں برصغیر کی آنکھیں مل کر جاگتی ہوئی عورت کے لیے اور بھی کئی راستے تھے مگر تاریخ، تہذیب ، معاشرتی اقدار اور ''گھر کی ذمے دار مالکن کا دھندلکا'' آج کل کی ''اسموگ'' کی طرح ہر راستے میں پھیلا ہوا تھا جب کہ مجازؔ اس فکر اور فلسفی کا داعی ہونے کے باوجود خود بھی پوری طرح سے اس کے امکانات سے شائد آگاہ نہیں تھا اپنی اس بات یا خیال کی تائید کے لیے چند نظموں کی ان جستہ جستہ لائنوں کو دیکھنا یقینا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
اک مجمع رنگیں میں وہ گھبرائی ہوئی سی
بیٹھی ہے عجب ناز سے شرمائی ہوئی سی
آنکھوں میں حیا، لب پہ ہنسی آئی ہوئی سی
چھلکے تری آنکھوں سے شراب اور زیادہ
مہکیں ترے عارض کے گلاب اور زیادہ
اللہ کرے زورِ شباب اور زیادہ
(اُن کا جشنِ سالگرہ)
...
پھر اِدھر آئے نہ آئے یہ شمیم جاں فزا
پھر میسر ہو نہ ہو ایسا سماں، ایسی فضا
چھیڑ اس انداز سے اے مطربِ رنگیں نوا
ٹوٹ جائے آج اک اک تار تیرے ساز کا
ذکر جس کا زہرہ وپرویں کے کاشانے میں ہے
وہ صنم بھی آج اپنے ہی صنم خانے میں ہے
خالدہؔ تُو ہے بہشتِ ترکمانی کی بہار
تیری پیشانی پہ نورِ حُریت، آئینہ کار
تیرے رخ سے پَر توِ معصوم مریم، آشکار
تیرے جلوؤں کی صباحت سے فرشتے شرمسار
گل پشیماں، قلب بلبل رشک سے دو نیم ہے
تیری باتوں میں خمار کوثر و تسنیم ہے
...
یوں تو ہم ہر شمع علم وفن کے پروانے رہے
یہ حقیقت ہے کہ ہم تیرے بھی دیوانے رہے
مدتوں اپنی زباں پر تیرے افسانے رہے
تُو رہی بیگانہ لیکن ہم نہ بیگانے رہے
یاد تری اک زمانے سے ہمارے دل میں تھی
تو یہاں آنے سے پہلے بھی اسی محفل میں تھی
''نذر خالدہ'' (ترکی سے آئی ہوئی انقلابی خاتون خالدہؔ کے لیے نظم)
اتفاق سے چند دن قبل ایک آشنا سے واٹس ایپ گروپ میں (جو زبان و ادب اور عالمی ادب کے تناظر میں اُردو ادب کے مطالعے پر زیادہ کام کرتا ہے) اچانک کسی خاتون کو مجازؔ کی مشہور نظم''رات اور ریل'' پڑھتے ہوئے سنا تو مجازؔ کے کمالِ فن کی ایک اور نسبتاً فراموش کردہ خوبی ایک نئے روپ اور انداز میں اُبھر کر سامنے آئی۔ نغمگی، موسیقیت ، قافیوں کے اندرونی صوتی ربط اورسمعی رچاؤ سے مجازؔ کو ایک فطری لگاؤ ہے۔
اسی طرح Movement, Shot ، سین کی تقسیم اور امیجز کی ہمہ نوع مناسبت کو شعوری طور پر اُجاگر کرنا بھی اُس کے مزاج کا حصہ ہے لیکن اس جدید ٹیکنالوجی کے طفیل مجھے ان دونوں میں ایک نئے ربط کا بھی احساس ہوا کہ وہ صرف خوبصورت ہم صَوت الفاظ ہی استعمال نہیں کرتا بلکہ ان کے صوتی آہنگ سے بعض اوقات ان کی شکل و صورت اور پسِ منظر میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھی سین کا حصہ بناتا چلا جاتاہے یعنی آپ کو ان میں ایک ایسی Shot Divisioningکا احساس بھی ہونا شروع ہوجاتا ہے جو پہلی نظر میں فطری اور اتفاقی سطح پر اپنی موجودگی واضح کرنے کے بعد ایک صوتی اور بصری''کُل'' کی شکل اختیار کرجاتا ہے اور یوں نظم ایک ''منظر نامے'' کی شکل میں بھی ڈھلتی جاتی ہے اب اس پس منظر میں اس نظم کے چند شعر دیکھیے۔
پھر چلی ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی
نیم شب کی خامشی میں زیرِ لب گاتی ہوئی
ڈگمگاتی، جُھومتی، سیٹی بجاتی، کھیلتی
وادی و کہسار کی ٹھنڈی ہوا کھاتی ہوئی
تیز جھونکوں میں وہ چھم چھم کا سرورِ دل نشیں
آندھیوں میں مینہ برسنے کی صدا آتی ہوئی
نونہالوں کو سناتی میتھی میٹھی لوریاں
نازنینوں کو سنہرے خواب دکھلاتی ہوئی
سینہئِ کہسار پر چڑھتی ہوئی بے اختیار
ایک ناگن جس طرح مستی میں لہراتی ہوئی
پیش کرتی بیچ ندی میں چراغاں کا سماں
ساحلوں پر ریت کے ذروں کو چمکاتی ہوئی
غور کیجیے تو آپ کو ہر امیج میں آواز کا جادو منظر کے ساتھ ساتھ اپنی شکل بدلتا ہوا بھی محسوس ہوگا۔