سانحہ اے پی ایس دہشت گردی کا مکمل صفایا قومی مشن ہے
آرمی پبلک اسکول پر حملے کی تاریخ کے انتخاب کو اتفاق قرار نہیں دیا جاسکتا۔
جب بھی سولہ دسمبر کا دن آتا ہے تو مجھے یہ شعر یاد آجاتا ہے کہ
ماں مجھے بھی صورت موسیٰ بہا دے نہر میں
قتل طفلاں کی منادی ہوچکی ہے شہر میں
ہاں اس قیامت خیز دن کو ہمیں یہ مناظر بھی دیکھنا اور سہنا پڑے کہ عموماً اور روایتاً لوگ جنازوں پر پھول رکھتے اور برساتے ہیں مگر اس دن ہزاروں پاکستانیوں نے معصوم کلیوں اور پھولوں کے خون آلود جنازوں کو کندھا دیا۔
کیا اسے محض اتفاق قرار دیا جا سکتا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم بچوں کو خاک و خون میں نہلانے کے لئے دشمن نے اُسی تاریخ کا انتخاب کیا جس تاریخ پر 43 برس قبل دسمبر 1971میں دشمن نے متحدہ پاکستان کو دو لخت کرنے کا غیر معمولی مشن کامیابی سے مکمل کیا تھا؟۔
پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ'' زمین وہی جلتی ہے جہاں آگ لگی ہو''اور یہ آگ آج بھی اے پی ایس کے معصوم شہداء کے والدین اور عزیز واقارب کے دلوں میں جل رہی ہے۔ ویسے بھی انسانی تاریخ میں یہ ایک ناقابل فراموش سانحہ ہے مگر جب بھی یہ دن اور یہ تاریخ آئے گی تو ان شہداء کے والدین بہن بھائیوں اور رشتہ داروں پر کیا اور کیسے گزرے گی۔
یہ درد و غم صرف وہ لوگ جان اور محسوس کرسکتے ہیں جو خود صاحب اولاد ہیں۔جو انسانیت سے پیار کرتے ہیں جن کے سینوں میں دل دھڑکتا ہے اور دورسروں کا درد و غم محسوس کرسکتا ہے۔ نو برس قبل آج ہی کے دن جب معمول کے مطابق بچے تیار ہو کر سکول جا ر ہے تھے تو ان معصوم کلیوں اور پھولوں کو کیا معلوم تھا کہ انسانیت اور مذہب کے دشمن انہیں اپنے پیروں تلے روند دیں گے۔انہیں کیا خبر تھی کہ اپنے اپنے گھروں سے جاتے اور نکلتے وقت انہیں الوداع کہنے والے والدین،بہن بھائیوں کا یہ الوداع ان کی زندگی کا آخری الوداع ثابت ہوگا،انسانیت کے دشمنوں،اور سفاک دہشت گردوں نے ان معصوم بچوں پر جو قیامت ڈھائی اس کی چھاپ اور درد آج بھی ان بچوں کے والدین، رشتہ داروں اور پوری پاکستانی قوم کے دلوں میں تازہ ہے۔
ملک کی تاریخ میں یہ دن ایک سیاہ دن تصور کیا جاتا ہے کیونکہ سانحہ اے پی ایس سے قبل یہ دن 1971ء میں بنگلہ دیش کی جدائی کا دن تھا۔ دسمبر کا مہینہ پاکستان کیلئے ہر سال کچھ ایسی غمگین صورتحال لے کر آتا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ آج بھی طلبہ کی یاد دلوں کو افسردہ کر رہی ہے اور دنیا بھر کے کروڑوں لوگ اس واقعہ کو یاد کر کے دل گرفتہ ہو جائیں گے۔
سانحہ آرمی پبلک سکول کو آٹھ سال بیت گئے لیکن چھلنی دلوں کو آج بھی قرار نہ مل پایا اور کیسے مل پاتا یہ تو زندگی بھر کا ایسا گھاؤ ہے جو ہوا کی ہلکی سی سرسراہٹ پر پھر سے ہرا ہو جائے گا، اس اندوہناک سانحے نے ناصرف ان بچوں کے والدین کوگھائل کر رکھا ہے بل کہ ہر پاکستانی کو خون کے آنسورلایا ہے ، اس الم ناک اور غم ناک سانحے نے اگر ایک طرف پاکستانی قوم کے دل چھلنی چھلنی کردیئے ہیں تودوسری جانب ہمیں یہ پیغام بھی دیاہے کہ ہم نے اپنا فرض پورا کردیا۔
لازوال قربانی دے دی لیکن اے ہم وطنوہماری ان قربانیوں کو آپس کی اختلافات میں ضائع نہ کرنا اور آئندہ نسلوں کی سلامتی اور بقاء کے لیے اپنے دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا، دوسری بات یہ بھی کہ ان شہداء کے والدین یا عزیز و اقارب کو تب تک چین نہ آسکے گا جب تک من الحیث القوم ہم دہشت گردی کے اس ناسور کوجڑ سے اکھاڑ نہیں پھینکتے اوران کی دلجوئی کے لیے حقائق سامنے نہیں لاتے،حقیقیت میں یہ پھول جیسے بچے ہی ہمارے ہیرو ہیں اور ان کے والدین کی ہمت وحوصلے سے ہمیں اتحاد و اتفاق کا سبق ملناچاہیے، کیوں کہ ان شہداء کے والدین آج عزم و حوصلے اور عظمت و استقلال کااستعارہ بن چکے ہیں، بچوں کی جدائی کا غم، ان کی پرنم آنکھوں اور افسردہ مگر پرعزم چہروں نے پوری قوم کوجگا دیا ہے۔
شہداء کے ناموں سے پہچان والدین کے لیے باعث فخر بن چکی ہے، خاص کر شہداؤں کی ماؤں کے حوصلے قابل دید ہیں، ایسی مائیں بھی منظر پر آئیں جنہوں نے وطن عزیز کے لیے اپنے اکلوتے لخت جگر کو قربان کر دیا، ہر دن ہر پل یاد ستانے کے باوجود شہید کی ماں اور شہید کا والد کہلوانا والدین کے لیے قابل فخر بن گیا ہے لیکن اب ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا کہ ان کے بچوں نے تو وطن کے لیے قربانی دے دی اب عسکریت پسندوں کا مکمل قلع قمع اور ہر سو امن کے شادیانے بجنے چاہیں،
سانحہ آرمی پبلک سکول کو اگرچہ آٹھ برس بیت توچکے ہیں لیکن16 دسمبر کا دن کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا، سرد اور یخ بستہ صبح کومامتا کی گرم آغوش سے مادر علمی کی گود میں آنے والے کب جانتے تھے کہ آج انہیں واپس جانا نصیب نہیں ہو گا اور چوکھٹ پر منتظرنگاہیں تاقیامت بے خواب ہی رہیں گی، اس دل خراش سانحے نے پوری قوم پر سکتہ طاری کر دیا کہ دشمنوں نے قوم کے دل اور مستقبل پر وار کیا جس کے نتیجے میں پوری قوم، سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی،فوجی قیادت کے ساتھ کھڑی ہو گئی، نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر سب متفق ہوئے اور پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے اس ناسورکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ایک پرامن معاشرے کے قیام کے لیے راہیں متعین کیں، آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا، شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا ہونے لگا۔
اس سانحہ نے پوری قوم کومتحد کیا اور قوم ایک بحرانی کیفیت سے نکل آئی لیکن اسی پر اکتفا کر کے ہمیں مطمئن ہو جانے کی بجائے دہشت گردی کے اس عفریت کا مکمل طور پر قلع قمع کرنے کے لیے ابھی مزید آگے جانا ہے، اب بھی کچھ سوالات تشنہ ہیں جن کے مکمل جوابات ملنے تک شہداء اور غازیوں کے والدین سمیت پوری قوم منتظر رہے گی،جب کہ یہ بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ اس سارے عرصے میں ان شہداء کے والدین اور پوری قوم پر کیا بیتی اور 16 دسمبر 2014ء کے بعد پوری قوم نے جس یک جہتی کامظاہرہ کیا اور جو اہداف رکھے گئے تھے کیا ہم اس جانب اسی رفتار سے آگے بڑھے ہیں اور اسے حاصل کیا ہے؟اتنا عرصہ والدین کی جانب سے جوڈیشل انکوائری کے مطالبے پر کیوں دیرسے عمل ہوناشروع ہوا؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کی جان کاری کے بعد ہی قوم اورشہداء کے والدین کو قرار مل سکتا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان میں شامل تمام نکات پوری قوم کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی ہیں اور اس عزم کا اظہار کہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیاجائے گا، اپنی جگہ قابل ستائش بات ہے، مگر جہاں اور جن طور طریقوں اور راستوں سے دہشت گردی،انتہاپسندی اور شدت پسندی کی نظریاتی تعلیم پھیلتی ہے اس سپلائی لائن کوکاٹنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔
ماں مجھے بھی صورت موسیٰ بہا دے نہر میں
قتل طفلاں کی منادی ہوچکی ہے شہر میں
ہاں اس قیامت خیز دن کو ہمیں یہ مناظر بھی دیکھنا اور سہنا پڑے کہ عموماً اور روایتاً لوگ جنازوں پر پھول رکھتے اور برساتے ہیں مگر اس دن ہزاروں پاکستانیوں نے معصوم کلیوں اور پھولوں کے خون آلود جنازوں کو کندھا دیا۔
کیا اسے محض اتفاق قرار دیا جا سکتا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم بچوں کو خاک و خون میں نہلانے کے لئے دشمن نے اُسی تاریخ کا انتخاب کیا جس تاریخ پر 43 برس قبل دسمبر 1971میں دشمن نے متحدہ پاکستان کو دو لخت کرنے کا غیر معمولی مشن کامیابی سے مکمل کیا تھا؟۔
پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ'' زمین وہی جلتی ہے جہاں آگ لگی ہو''اور یہ آگ آج بھی اے پی ایس کے معصوم شہداء کے والدین اور عزیز واقارب کے دلوں میں جل رہی ہے۔ ویسے بھی انسانی تاریخ میں یہ ایک ناقابل فراموش سانحہ ہے مگر جب بھی یہ دن اور یہ تاریخ آئے گی تو ان شہداء کے والدین بہن بھائیوں اور رشتہ داروں پر کیا اور کیسے گزرے گی۔
یہ درد و غم صرف وہ لوگ جان اور محسوس کرسکتے ہیں جو خود صاحب اولاد ہیں۔جو انسانیت سے پیار کرتے ہیں جن کے سینوں میں دل دھڑکتا ہے اور دورسروں کا درد و غم محسوس کرسکتا ہے۔ نو برس قبل آج ہی کے دن جب معمول کے مطابق بچے تیار ہو کر سکول جا ر ہے تھے تو ان معصوم کلیوں اور پھولوں کو کیا معلوم تھا کہ انسانیت اور مذہب کے دشمن انہیں اپنے پیروں تلے روند دیں گے۔انہیں کیا خبر تھی کہ اپنے اپنے گھروں سے جاتے اور نکلتے وقت انہیں الوداع کہنے والے والدین،بہن بھائیوں کا یہ الوداع ان کی زندگی کا آخری الوداع ثابت ہوگا،انسانیت کے دشمنوں،اور سفاک دہشت گردوں نے ان معصوم بچوں پر جو قیامت ڈھائی اس کی چھاپ اور درد آج بھی ان بچوں کے والدین، رشتہ داروں اور پوری پاکستانی قوم کے دلوں میں تازہ ہے۔
ملک کی تاریخ میں یہ دن ایک سیاہ دن تصور کیا جاتا ہے کیونکہ سانحہ اے پی ایس سے قبل یہ دن 1971ء میں بنگلہ دیش کی جدائی کا دن تھا۔ دسمبر کا مہینہ پاکستان کیلئے ہر سال کچھ ایسی غمگین صورتحال لے کر آتا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ آج بھی طلبہ کی یاد دلوں کو افسردہ کر رہی ہے اور دنیا بھر کے کروڑوں لوگ اس واقعہ کو یاد کر کے دل گرفتہ ہو جائیں گے۔
سانحہ آرمی پبلک سکول کو آٹھ سال بیت گئے لیکن چھلنی دلوں کو آج بھی قرار نہ مل پایا اور کیسے مل پاتا یہ تو زندگی بھر کا ایسا گھاؤ ہے جو ہوا کی ہلکی سی سرسراہٹ پر پھر سے ہرا ہو جائے گا، اس اندوہناک سانحے نے ناصرف ان بچوں کے والدین کوگھائل کر رکھا ہے بل کہ ہر پاکستانی کو خون کے آنسورلایا ہے ، اس الم ناک اور غم ناک سانحے نے اگر ایک طرف پاکستانی قوم کے دل چھلنی چھلنی کردیئے ہیں تودوسری جانب ہمیں یہ پیغام بھی دیاہے کہ ہم نے اپنا فرض پورا کردیا۔
لازوال قربانی دے دی لیکن اے ہم وطنوہماری ان قربانیوں کو آپس کی اختلافات میں ضائع نہ کرنا اور آئندہ نسلوں کی سلامتی اور بقاء کے لیے اپنے دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا، دوسری بات یہ بھی کہ ان شہداء کے والدین یا عزیز و اقارب کو تب تک چین نہ آسکے گا جب تک من الحیث القوم ہم دہشت گردی کے اس ناسور کوجڑ سے اکھاڑ نہیں پھینکتے اوران کی دلجوئی کے لیے حقائق سامنے نہیں لاتے،حقیقیت میں یہ پھول جیسے بچے ہی ہمارے ہیرو ہیں اور ان کے والدین کی ہمت وحوصلے سے ہمیں اتحاد و اتفاق کا سبق ملناچاہیے، کیوں کہ ان شہداء کے والدین آج عزم و حوصلے اور عظمت و استقلال کااستعارہ بن چکے ہیں، بچوں کی جدائی کا غم، ان کی پرنم آنکھوں اور افسردہ مگر پرعزم چہروں نے پوری قوم کوجگا دیا ہے۔
شہداء کے ناموں سے پہچان والدین کے لیے باعث فخر بن چکی ہے، خاص کر شہداؤں کی ماؤں کے حوصلے قابل دید ہیں، ایسی مائیں بھی منظر پر آئیں جنہوں نے وطن عزیز کے لیے اپنے اکلوتے لخت جگر کو قربان کر دیا، ہر دن ہر پل یاد ستانے کے باوجود شہید کی ماں اور شہید کا والد کہلوانا والدین کے لیے قابل فخر بن گیا ہے لیکن اب ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا کہ ان کے بچوں نے تو وطن کے لیے قربانی دے دی اب عسکریت پسندوں کا مکمل قلع قمع اور ہر سو امن کے شادیانے بجنے چاہیں،
سانحہ آرمی پبلک سکول کو اگرچہ آٹھ برس بیت توچکے ہیں لیکن16 دسمبر کا دن کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا، سرد اور یخ بستہ صبح کومامتا کی گرم آغوش سے مادر علمی کی گود میں آنے والے کب جانتے تھے کہ آج انہیں واپس جانا نصیب نہیں ہو گا اور چوکھٹ پر منتظرنگاہیں تاقیامت بے خواب ہی رہیں گی، اس دل خراش سانحے نے پوری قوم پر سکتہ طاری کر دیا کہ دشمنوں نے قوم کے دل اور مستقبل پر وار کیا جس کے نتیجے میں پوری قوم، سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی،فوجی قیادت کے ساتھ کھڑی ہو گئی، نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر سب متفق ہوئے اور پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے اس ناسورکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ایک پرامن معاشرے کے قیام کے لیے راہیں متعین کیں، آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا، شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا ہونے لگا۔
اس سانحہ نے پوری قوم کومتحد کیا اور قوم ایک بحرانی کیفیت سے نکل آئی لیکن اسی پر اکتفا کر کے ہمیں مطمئن ہو جانے کی بجائے دہشت گردی کے اس عفریت کا مکمل طور پر قلع قمع کرنے کے لیے ابھی مزید آگے جانا ہے، اب بھی کچھ سوالات تشنہ ہیں جن کے مکمل جوابات ملنے تک شہداء اور غازیوں کے والدین سمیت پوری قوم منتظر رہے گی،جب کہ یہ بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ اس سارے عرصے میں ان شہداء کے والدین اور پوری قوم پر کیا بیتی اور 16 دسمبر 2014ء کے بعد پوری قوم نے جس یک جہتی کامظاہرہ کیا اور جو اہداف رکھے گئے تھے کیا ہم اس جانب اسی رفتار سے آگے بڑھے ہیں اور اسے حاصل کیا ہے؟اتنا عرصہ والدین کی جانب سے جوڈیشل انکوائری کے مطالبے پر کیوں دیرسے عمل ہوناشروع ہوا؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کی جان کاری کے بعد ہی قوم اورشہداء کے والدین کو قرار مل سکتا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان میں شامل تمام نکات پوری قوم کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی ہیں اور اس عزم کا اظہار کہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیاجائے گا، اپنی جگہ قابل ستائش بات ہے، مگر جہاں اور جن طور طریقوں اور راستوں سے دہشت گردی،انتہاپسندی اور شدت پسندی کی نظریاتی تعلیم پھیلتی ہے اس سپلائی لائن کوکاٹنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔