تھائی ڈیم…بھارت کا متنازعہ منصوبہ
پاکستان نے تھائی ڈیم کا ڈیزائن نہ دینے پر بھارت سے احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک خبر کے مطابق بھارت مقبوضہ کشمیر...
پاکستان نے تھائی ڈیم کا ڈیزائن نہ دینے پر بھارت سے احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک خبر کے مطابق بھارت مقبوضہ کشمیر میں پانی و بجلی کے متعدد بڑے منصوبے بنا رہا ہے۔ بھارت نے 1999ء میں دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم کی تعمیر کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان نے اس ڈیم کی تعمیر پر اعتراض کیا اور اسے 1960ء میں دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا۔ اسی طرح بھارت نے 2007ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں دریائے جہلم پر کشن گنگا ڈیم کی تعمیر شروع کر دی جس کی تعمیر 2016ء میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔ پاکستانی حکومت کی یہ تشویش بجا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ڈیموں کی تعمیر سے دریائے چناب اور جہلم کے پانی کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں آ جائے گا اور اس کے پانی میں کمی آ جائے گی۔ اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ دریائے چناب اور جہلم کے پانی میں کمی آتی جا رہی ہے اگر یہ دونوں دریا بھارت کے کنٹرول میں مکمل آ جاتے ہیں تو اس سے پاکستان کے زرخیز علاقے پانی نہ ملنے سے بنجر ہو جائیں گے اور یہاں لہلہاتی فصلوں کے بجائے دھول اڑنا شروع ہو جائے گی۔ بھارت کی جانب سے بگلیہار ڈیم کی تعمیر پر پاکستان نے اعتراض اٹھایا اور اس مسئلہ پر 1999ء سے لے کر 2004ء تک دونوں ممالک کے درمیان کئی بار مذاکرات ہوئے مگر بے نتیجہ رہے۔ آخر 2005ء میں پاکستان یہ مسئلہ ورلڈ بینک کے پاس لے گیا۔ جہاں چند ترامیم کے ساتھ بھارت کو ڈیم تعمیر کرنے کی اجازت مل گئی۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں متعدد ڈیم تعمیر کر کے دریاؤں کو اپنے کنٹرول میں لا کر پاکستانی زراعت کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ پاکستان کی زراعت کو نقصان پہنچنے پر یہاں اجناس کی قلت پیدا ہو سکتی ہے اور اس طرح پاکستان خود بخود بھارت کے دباؤ میں آنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ اب بھارت مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب پر 1380 میگاواٹ کے تھائی ڈیم کا ڈیزائن نہیں دے رہا جس پر پاکستان نے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان بگلیہار اور کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر بھی احتجاج کر چکا ہے مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا وہ سب کو معلوم ہے۔ کمشنر پاکستان سندھ طاس کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ بھارت کو مغربی دریاؤں پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹس تعمیر کرنے کی اجازت دیتا ہے البتہ ڈیم کا ڈیزائن طے شدہ طریق کار کے مطابق ہونا چاہیے۔ بھارت صنعتی میدان میں بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور آنے والے وقتوں میں وہ جنوبی ایشیا کی ایک بڑی قوت ہو گا۔ امریکا اور یورپین قوتیں بھی بھارت کے ساتھ سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو وسعت دینے میں دلچسپی لیتی ہیں۔ اس لیے کسی بھی تنازعہ کی صورت میں عالمی فورم پر بڑی طاقتیں پاکستان کے مقابل بھارتی موقف کو ترجیح دیتی نظر آتی ہیں۔ اگر بھارت مقبوضہ وادی میں مزید ڈیم تعمیر کر لیتا ہے تو وہ کسی بھی وقت پاکستانی دریاؤں کا پانی روک کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔پاکستان مقبوضہ وادی میں بھارتی ڈیموں کی تعمیر پر احتجاج ضرور کرے اور عالمی سطح پر اس ایشو کو پوری قوت سے اٹھائے اور بھارت کو اس حد تک جانے سے روکے کہ اسے پاکستانی دریاؤں پر مکمل کنٹرول حاصل ہو جائے۔ پانی اس وقت عالمی ایشو بن چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق آیندہ جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی۔ بھارت' ایران' ترکی اور چین پانی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ڈیم پر ڈیم تعمیر کرتے چلے جا رہے ہیں جب کہ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کر سکا حتی کہ بھاشا ڈیم بھی ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں پانی کے ذخائرتیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں،اسے اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ اگر اس نے آیندہ چند برسوں میں ڈیم تعمیر نہ کیے تو اسے پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی قوانین کے مطابق بھارت پاکستان کا پانی نہیں روک سکتا۔ پاکستان کو مقبوضہ وادی میں ڈیموں کی تعمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے ورنہ تاخیری حربوں سے اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
پاکستان بگلیہار اور کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر بھی احتجاج کر چکا ہے مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا وہ سب کو معلوم ہے۔ کمشنر پاکستان سندھ طاس کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ بھارت کو مغربی دریاؤں پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹس تعمیر کرنے کی اجازت دیتا ہے البتہ ڈیم کا ڈیزائن طے شدہ طریق کار کے مطابق ہونا چاہیے۔ بھارت صنعتی میدان میں بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور آنے والے وقتوں میں وہ جنوبی ایشیا کی ایک بڑی قوت ہو گا۔ امریکا اور یورپین قوتیں بھی بھارت کے ساتھ سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو وسعت دینے میں دلچسپی لیتی ہیں۔ اس لیے کسی بھی تنازعہ کی صورت میں عالمی فورم پر بڑی طاقتیں پاکستان کے مقابل بھارتی موقف کو ترجیح دیتی نظر آتی ہیں۔ اگر بھارت مقبوضہ وادی میں مزید ڈیم تعمیر کر لیتا ہے تو وہ کسی بھی وقت پاکستانی دریاؤں کا پانی روک کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔پاکستان مقبوضہ وادی میں بھارتی ڈیموں کی تعمیر پر احتجاج ضرور کرے اور عالمی سطح پر اس ایشو کو پوری قوت سے اٹھائے اور بھارت کو اس حد تک جانے سے روکے کہ اسے پاکستانی دریاؤں پر مکمل کنٹرول حاصل ہو جائے۔ پانی اس وقت عالمی ایشو بن چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق آیندہ جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی۔ بھارت' ایران' ترکی اور چین پانی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ڈیم پر ڈیم تعمیر کرتے چلے جا رہے ہیں جب کہ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کر سکا حتی کہ بھاشا ڈیم بھی ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں پانی کے ذخائرتیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں،اسے اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ اگر اس نے آیندہ چند برسوں میں ڈیم تعمیر نہ کیے تو اسے پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی قوانین کے مطابق بھارت پاکستان کا پانی نہیں روک سکتا۔ پاکستان کو مقبوضہ وادی میں ڈیموں کی تعمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے ورنہ تاخیری حربوں سے اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔