مجرموں کو سزا کے بجائے جزا دینے کی پالیسی

بڑا دکھ ہوتا ہے جب کوئی ’’منفی تنقید‘‘یا ہمارے پیارے پیارے ملک مملکت خداداد پاکستان پرمنفی تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے...

barq@email.com

بڑا دکھ ہوتا ہے جب کوئی ''منفی تنقید''یا ہمارے پیارے پیارے ملک مملکت خداداد پاکستان پرمنفی تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہاں چوروں، لٹیروں، ڈاکوؤں، قاتلوں اور گرہ کٹوں وغیرہ کو ''سزا'' کے بجائے ''جزا'' ملتی ہے، بات تو سچ ہے اتنا ہم بھی جانتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ بات نہ ''رسوائی'' کی ہے اور نہ اس پر منفی تنقید کی ضرورت ہے یہ لوگ دراصل وہ آدھے بھرے اور آدھے خالی گلاس کا قصہ دہراتے ہیں آدھا خالی گلاس تو دیکھ لیتے ہیں لیکن نیچے جو آدھا بھرا ہوا ہے اس پر نظر تک نہیں ڈالتے، بزرگوں نے اس سوچ کو منفی سوچ بتایا ہے حالاں کہ اگر آدھا خالی گلاس یہ ہے کہ مجرموں کو سزا کے بجائے جزا ملتی ہے تو آدھا بھرا ہوا گلاس یہ ہے کہ بے گناہوں کو جرم بے گناہی کی سزائیں بھی تو ملتی ہیں، ''جزا'' کے بدلے ۔۔۔ تھوڑا سا فرق یہ ہوتا ہے کہ یہاں کی جزا اٹھا کر وہاں اور وہاں کی سزا اٹھا کر یہاں رکھ دی جاتی ہیں یعنی گلاس کے منہ پر ہتھیلی یا کاغذ رکھ کر الٹا کر دیا جاتا ہے، خالی حصہ بھر جاتا ہے اور بھرا ہوا حصہ خالی ہو جاتا ہے، تو اس میں کیا ہے اتنی سی بات ہے جسے افسانہ کر دیا، گلاس الٹا کر کے رکھنا اتنی بڑی بات تو نہیں ہے کہ یہ منفی تنقیدیئے لوگ اسے افسانہ کر دیتے ہیں، ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں ان منفی تنقیدیوں کا آئی سائٹ اور آئی کیو دونوں ہی ترچھے اور الٹے ہیں بھینگے کہیں کے

ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دلگیر کو
کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو

یہ تو ہم نے صرف منطق سے منطق نکالی ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے اور اس پر ہم ابھی فلسفہ کے حوض میں غوطہ لگا کر ایسا موتی برآمد کرتے ہیں کہ ان بھینگے ترچھے منفی تنقیدیوں کی آنکھیں ہی چکا چوند ہو جائیں گی اور پاکستان کے بہی خواہ اور ہمارے فین عش عش کرتے ہوئے غش کھا جائیں گے لیکن غشی طاری ہونے سے پہلے ضرور یہ پکار اٹھیں گے کہ ۔۔ ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی، کالم پڑھنے کے بعد آپ ترنم میں گنگنانے لگیں گے کہ

ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں

آکے لکھدے کوئی اس ''کالم'' سے بڑھ کر کالم

شعر تھوڑا سا لنگڑا ہو گیا لیکن بھینگے منفی تنقیدیوں کا جواب لنگڑے ہی دے سکتے ہیں، ذرا سوچئے دنیا میں آج تک سزا و جزا کے جتنے بھی قوانین نافذ ہوئے ہیں ان میں ایک مشترکہ دفعہ یہ ہوتی ہے کہ سزا تو اپنی جگہ ہے لیکن ''عفوو درگزر'' سے کام لینا بہتر ہوتا ہے۔ جرم کی سزا اپنی جگہ لیکن ''معاف کرنا''ایک اعلیٰ اخلاقی رویہ ہے اور پاکستان نہ صرف مسلمانوں کا ملک ہے، اسلام کا قلعہ اور جیتی جاگتی مثال بھی ہے اور ہر کام یہاں اعلیٰ پیمانے پر ہوتا ہے، سب کچھ آپ کے سامنے ہے قدم قدم پر جو بھی کچھ ہے وہ اعلیٰ اور مثالی ہے اس کی حکومتیں مثالی، اس کی جمہوریت مثالی، اس کا آئین مثالی، قانون مثالی، قانون نافذ کرنے والے ادارے مثالی، صحت، تعلیم، انتظامیہ، عدلیہ کیا ہے جو مثالی نہیں ہے اور یہاں کی اقتصادیات و معاشیات تو اتنی زیادہ مثالی ہیں کہ دنیا بھر کے ماہرین معاشیات و اقتصادیات یہ آرزو کرتے ہیں کہ کاش ہم پاکستان میں پیدا ہوتے، خاص طور پر سوئٹزر لینڈ کے بینکار، دبئی کے صنعت کار، مشرق بعید کے سرمایہ دار، یورپ اور امریکا کے تجار ... پاکستان میں پیدا نہ ہونے پر کف افسوس ملتے ہیں ایسے میں کیا یہ بات اچھی لگتی ہے کہ پاکستان میں جاہلوں اور اجڈوں کی طرح جرائم پر سخت سزائیں دی جاتیں اور عفوو درگذر کی مثالیں قائم نہ کی جاتیں، لیکن ایسا کیسے ہو سکتا تھا، مثالی ملک کی حکومتیں اور حکومتوں کے ادارے ایسا کیسے کر سکتے تھے اس لیے سب کچھ میں مثالی پاکستان نے جرم و سزا میں بھی عظیم مثال بنتے ہوئے ''عفوو درگزر'' کی اعلیٰ مثال قائم کی، کوئی کچھ بھی کرے کرتا رہے، ہماری طرف سے ''عام معافی'' کا اعلان ہے

ادائے خاص سے غالب ہوا ہے ''معافی سزا''
صلائے عام ہے ''چوران و رہزنان'' کے لیے

پھر اس میں ہمت، جرأت اور دلیری کا بھی ایک بڑا فلسفہ ہے جو کرے کرتا رہے چاہے وہ کچھ بھی کرے ... اس کے لیے ''ہمت و جرأت'' کی جزا ہے کہ جو اس نے لوٹا، چوری کیا، حاصل کیا، چھینا جھپٹا وہ اس کی ''دلیری'' کا معاوضہ اور اس کے لیے ''ماں کا دودھ'' ہے لیکن جو ''کاہل بے ہمت اور بزدل'' کچھ بھی نہ کریں یا لوٹیں ان کے لیے ''سزائے سخت'' حبس دوام، قید بامشقت اور زندگی کی چکی پیسنگ اینڈ پیسنگ اینڈ پیسنگ ... چنانچہ اس وقت پاکستان جرأت و ہمت کی بڑی بڑی جزاؤں اور بے ہمتی و کاہلی کی شدید سزاؤں میں نمبر ون پوزیشن پر ہے یہاں ہمت دکھانے والوں کو اتنا کچھ مل جاتا ہے کہ ان کی سات پشتیں تک آرام سے کھا سکتی ہیں۔حکومت کی اس دور رس اور حکمت و فلسفہ پر مبنی پالیسی کا یہ خوش گوار نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ اس ملک میں اب باقاعدہ دو خاندان بن گئے ہیں ایک وہ جو دلیر ہیں باہمت ہیں جری اور بہادر ہیں ... اور مانگتے نہیں بلکہ چھینتے ہیں ان کے لیے انعامات و اکرامات اور تاحیات مراعات کی کوئی حد نہیں ہے جو کچھ وہ حاصل کرتے ہیں کماتے ہیں یا لوٹتے اور چراتے ہیں وہ تو ان کی ہمت و دلیری کاپھل ہے ہی ... لیکن حکومت بھی ہمت و جرأت کی قدر دانی میں بے مثال دیالو ہے وزارتوں، سفارتوں، جائیدادوںاور مراعات کے ذریعے ان کو بڑے بڑے انعامات سے نوازتی ہے، لیکن جو بے ہمت نالائق اور کاہل الوجود ہوتے ہیں ان کو عوام یعنی شودر اور کمی کمین کہہ کر دہری سزائیں دی جاتی ہیں ۔

یہ ساری تفصیل ہم نے ان منفی تنقیدیوں کا منہ بند کرنے کے لیے بیان کی ہے جو خواہ مخواہ حکومت پر بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں کہ یہاں چوروں، لٹیروں، ڈاکوؤں اور ہر قسم کے ''خوروں'' کو سزا کے بجائے جزا کیوں دی جاتی ہے اور آج تک اس ملک میں جرائم تو بے پناہ ہوئے لیکن نہ کوئی مجرم پکڑا گیا اور نہ کسی کو سزا ہوئی، امید ہے منفی تنقیدیئے لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ ''جرم'' کی سزا دینے سے زیادہ معافی اور انعام دینے کی پالیسی کتنی فائدہ مند ہے اور اگر سمجھ گئے ہیں تو پھر ان کو بھی یہی پالیسی اپنا کر منفی تنقید کے بجائے عفو و درگزر سے کام لے کر ہماری طرح مثبت تنقید کرنا چاہیے۔
Load Next Story