اے کون اے
راجہ صاحب محمود آباد اور ان کے کام کو کتنے لوگ جانتے ہیں۔اس کا ثبوت فیس بک پر ان کے نام سے قائم کردہ پیج ہے۔
ISLAMABAD:
قبل از بیسویں صدی
بھارتی ریاست اتر پردیش کے دارلحکومت لکھنؤسے باون کیلومیٹر پرے ضلع سیتا پورکی ایک تحصیل محمود آباد ہے۔محمود آباد قصبے میں ایک قدیم محل ہے جسے قلعہ کہتے ہیں۔اس قلعے کے اردگرد چھیاسٹھ گاؤں ہیں جو مل ملا کے محمود آباد اسٹیٹ کہلاتے ہیں۔یہاں پر ایک ایسا خاندان اکبرِ اعظم کے دور سے آباد ہے جس کے آباؤ اجداد بغداد کے عباسی دربار سے وابستہ تھے اور ہلاکو خان کے حملے کے بعد ہندوستان آئے اور پھر نسل در نسل محمد تغلق سے جہانگیر تک اور پھر ریاست اودھ کی ایڈمنسٹیریشن میں اور پھر انگریزی دورِ حکومت میں یوپی کے انتظام میں شامل رہے۔اس خاندان کو راجہ صاحب محمود آباد کا خانوادہ کہا جاتا ہے۔ان کے پرکھوں کو صدیوں پر پھیلی جنگی خدمات کے طور پر ہزاروں ایکڑ زمین ملی۔ یوں محمود آباد اسٹیٹ کا شمار یوپی کی امیر کبیر جاگیروں میں ہونے لگا۔اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی میں نواب واجد علی شاہ کا ساتھ دینے کی پاداش میں کمپنی نے محمود آباد اسٹیٹ کے نواب علی خان کی آدھی سے زیادہ جائیداد ضبط کرلی جس میں سے کچھ بعد ازاں واگذار ہوگئی۔
بیسویں صدی
سن انیس سو تین میں امیر حسن خان راجہ صاحب محمود آباد بنے۔ انھوں نے انیس سو چھ میں ڈھاکہ میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے اس اجلاس کی بھر پور مالی معاونت کی جس سے آل انڈیا مسلم لیگ کا جنم ہوا۔وہ مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ لے کر وائسرائے سے ملنے والے اس وفد کا بھی حصہ تھے جس کی قیادت آغا خان سوم کررہے تھے۔وہ ایم اے او کالج علی گڑھ کے ٹرسٹی بھی تھے اور جب اس کالج نے انیس سو بیس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا روپ لیا تو پہلے وائس چانسلر بھی یہی امیر حسن خان راجہ صاحب محمود آباد بنے۔اسی عرصے میں وہ اپنے قریبی دوست گورنر اترپردیش سر سپنسر ہارٹ کورٹ بٹلر کی صوبائی انتظامی کونسل میں امورِ داخلہ کے نگراں رہے۔اسی دوران انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی کی بنا ڈالنے کے لیے ایک لاکھ روپیہ دان کیا۔کنگ جارج میڈیکل کالج اور امین الدولہ لائبریری کے قیام کے لیے وسائل فراہم کیے۔
راجہ امیر حسن خان کا شمار اپنے زمانے کے امیر ترین ہندوستانیوں میں تھا۔جس کی املاکی سرمایہ کاری لکھنؤ کے حضرت گنج سے لے کے نینی تال تک پھیلی تھی۔ان کے نام کے عطر کا برانڈ بنتا تھا۔مگر انھوں نے پیسہ دانت سے پکڑنے کے بجائے دونوں ہاتھوں سے لٹایا،مجروں پر نہیں بلکہ عام لوگوں کی تعلیمی و سماجی و سیاسی فلاح پر۔
بیسویں صدی کے اوائل میں راجہ امیر حسن خان کو ایک نوجوان وکیل مل گیا۔محمد علی جناح۔ دونوں کی طبیعت نے لگا کھایا، یوں دائمی دوستی کا آغاز ہوا۔راجہ صاحب نے بیرسٹر جناح کو اپنی اسٹیٹ کے معاملات کا قانونی مشیر بنا لیا۔جب رتی اور بیرسٹر جناح کی شادی ہوئی تو نکاح راجہ صاحب نے پڑھایا اور نوبیاہتا جوڑے نے نینی تال کے جس میٹروپول ہوٹل میں قیام کیا، وہ بھی راجہ صاحب کی املاک میں تھا۔
انگریز حکومت کی سیاسی پالیسیاں بھلے جو بھی تھیں لیکن راجہ صاحب کا مولانا محمد علی جوہر ، حسرت موہانی ، جناح اور موتی لال نہرو سے تعلقِ خاطر الگ سے رہا۔حالانکہ موتی لال کے صاحبزادے جواہر لال نہرو جانتے تھے کہ راجہ صاحب آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس انیس سو سترہ ، اٹھارہ اور اٹھائیس کی صدارت کرچکے ہیں مگر جواہر لال نے راجہ صاحب کو ہمیشہ بھائی صاحب کہہ کے ہی مخاطب کیا۔
ایک روز دلی میں راجہ صاحب امیر حسن خان اپنے کم سن ولی عہد امیر احمد خان کو لے کر جناح صاحب کے پاس آئے اور برخوردار سے کہا کہ چچا کو آداب کرو۔میں رہوں نا رہوں تم چچا کا ہاتھ نہیں چھوڑو گے۔جناح صاحب نے بچے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اسے قریب کرلیا اور منہ سے بولے بنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔راجہ امیر حسن خان نے بھی اپنی وصیت میں محمد علی جناح کو اپنے صاحبزادے کا سرپرست مقرر کیا۔ آخری برسوں میں راجہ امیر حسن خان مرثیہ گوئی کی جانب مائل ہوا اور محب تخلص کیا۔
امیر احمد خان تئیس مارچ انیس سو اکتیس کو اپنے والد امیر حسن خان کی وفات کے بعد راجہ صاحب محمود آباد بنے۔ اس وقت وہ لکھنؤ کے لا مارٹینئر کالج سے سینئیر کیمبرج کرچکے تھے۔انھوں نے اپنے سرپرست محمد علی جناح سے مزید تعلیم کے بارے میں مشورہ کیا تو جناح صاحب کا جواب تھا کہ بس میرے ساتھ رہو، میں ہی تمہاری یونیورسٹی ہوں۔نئے راجہ صاحب آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے سب سے کم عمر رکن بنے۔بعد ازاں وہ مسلم لیگ کے خازن مقرر ہوئے۔
محمود آباد اسٹیٹ کی سالانہ آمدنی چالیس لاکھ روپے کے لگ بھگ تھی۔خاندانی و انتظامی اخراجات منہا کرنے کے بعد جو بھی بچتا وہ مسلم لیگ کی سرگرمیوں پر صرف ہوجاتا تھا۔ انیس سو سینتیس میں لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا وہ سالانہ اجلاس جس کا انتظام و خرچہ راجہ صاحب نے اٹھایا تحریکِ پاکستان کا ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوا اور مسلم لیگ اس نتیجے پر پہنچی کہ اب ایک ملک میں گذارہ مشکل ہے۔جناح صاحب نے برخوردار راجہ صاحب کو مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کرنے کا اشارہ دیا اور اس فیڈریشن کے بانی صدر بھی راجہ صاحب ہی بنے۔اس تنظیم نے علی گڑھ سے پشاور تک اگلے نو برس میں پاکستان کے مفہوم و معنی عام آدمی تک پہنچانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
راجہ صاحب نے صحافت کے محاذِ جنگ پر بھی خاصی مدد فراہم کی اور مسلم لیگ کے ترجمان اخبار ڈان ، چوہدری خلیق الزماں کے اخبار تنویرِ لکھنؤ ، ہمدم اور ہفت روز حق کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے مالی معاونت کی۔بس دوچار اخبارات و جرائد ہی تھے جو مسلم لیگ کے صحافتی وکیل تھے اور ان کو راجہ صاحب کی سرپرستی حاصل تھی۔
انیس سوپینتالیس چھیالیس کے انتخابات میں مسلم لیگ مسلمان نشستوں پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ بعد کے مہینوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا بخار بڑھتا گیا اور پھر مار کاٹ شروع ہوگئی۔شائد راجہ صاحب کے لیے یہ خونریزی غیر متوقع تھی۔چنانچہ ایک دن انھوں نے ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا مگر کراچی یا لاہور کے بجائے اپنی لائبریری ، چند ملازمین اور باورچیوں کے ساتھ عراق کا رخ کیا۔راجہ صاحب لگ بھگ دس برس نجف ، کربلا اور بغداد میں رہے اور پھر انیس سو ستاون میں جانے کیا سوجھی کہ کراچی آ کے بس گئے۔مگر خود کو پاکستان سے بے تعلقی کی عمومی سیاست سے مکمل لا تعلق رکھا۔شائد انھوں نے فیض صاحب کا مصرعہ دل میں اتار لیا ہو۔
کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔
ایوب خان نے پہلے سفارت ، پھر وزارت اور پھر کنونشن مسلم لیگ کی صدارت کی پیش کش کی لیکن ایوب خان کو شائد کسی نے نہیں بتایا کہ یہ وہ صاحب ہیں جن کی دو نسلوں نے تحریکِ پاکستان کے نظریاتی انجن میں مالیاتی تیل نہ ڈالا ہوتا تو ایوب خان شائد برٹش آرمی کے بریگیڈیر ہی رہ جاتے۔
انیس سو پینسٹھ کی جنگ شروع ہوئی تو بھارت میں شاستری حکومت نے راجہ صاحب کی تمام خاندانی املاک اینیمی پراپرٹی قرار دیتے ہوئے بحقِ سرکار ضبط کرلیں۔کیونکہ راجہ صاحب ایک دشمن ملک ( پاکستان) کے شہری تھے۔
اتنا کچھ کھونے کے بعد بھی راجہ صاحب کا پاکستان میں جی نہیں لگا اور وہ انیس سو اڑسٹھ میں لندن منتقل ہوگئے۔جانے وہ سیکڑوں خدام ، خانسامے کہاں گئے۔بس ایک ملازم آخری وقت تک ساتھ رہا۔راجہ صاحب لندن میں اسلامک کلچرل سینٹر کے تنخواہ دار ڈائریکٹر کے طور پر خود کو مصروف رکھتے رہے اور وہاں اردو ، فارسی ، عربی ، سنسکرت ، انگریزی اور فرنچ پر دسترس سے تحقیقی کام لیتے رہے۔اور پھر چودہ اکتوبر انیس سو تہتر کو انتقال کرگئے اور مشہد میں امام علی رضا کے روضہ کے احاطے میں دفن ہوئے۔
انیس سو اٹھانوے میں بھارتی سپریم کورٹ نے محمود آباد کی ضبط شدہ املاک واگذار کرکے وارثوں کو لوٹا دیں۔لیکن جب قلعے اور بٹلر پیلس کے مہربند تالے کھلے تو بیشتر قیمتی اشیا سربمہر ہونے کے باوجود غائب پائی گئیں۔موجودہ راجہ صاحب محمود آباد محمد امیر محمد خان راجیو گاندھی کے دور میں دو مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پر لوک سبھا کے ممبر بنے مگر گذشتہ پچیس برس سے سیاست سے دور ہیں۔
اکیسویں صدی
راجہ صاحب محمود آباد اور ان کے کام کو کتنے لوگ جانتے ہیں۔اس کا ثبوت فیس بک پر ان کے نام سے قائم کردہ پیج ہے۔ تین برس میں صرف چار سو چار افراد نے اس پیج کو لائیک کیا ہے۔ کیا راجہ صاحب کے نام پر کوئی عمارت ، کوئی شاہراہ ، کوئی چوک ، کسی بلڈنگ کا کوئی گوشہ یا چھوٹی موٹی لائبریری ہے؟؟؟؟ ہو سکتا ہے ہو اور کسی چاغی پہاڑ یا توپ یا میزائل کے ماڈل کے پیچھے چھپی ہوئی ہو۔۔۔تو پھر مجھے بھی آگاہ کیجیے گا۔البتہ محکمہ ڈاک نے کبھی ایک یادگاری ٹکٹ ضرور جاری کیا تھا۔
ارے یاد آیا ! پچھلے دورِ حکومت میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نصابی نظرِ ثانی کے ایک اجلاس میں جب یہ بحث ہو رہی تھی کہ طلبا کو کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر تحریکِ پاکستان کی کن کن شخصیات سے تفصیلاً روشناس کرانے کی ضرورت ہے تو اجلاس میں شریک ایک صاحب نے راجہ صاحب محمود آباد امیر احمد خان کا نام بھی تجویز کیا۔اس پر دیگر دو شرکاء بیک وقت بولے
'' اے کون اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )
قبل از بیسویں صدی
بھارتی ریاست اتر پردیش کے دارلحکومت لکھنؤسے باون کیلومیٹر پرے ضلع سیتا پورکی ایک تحصیل محمود آباد ہے۔محمود آباد قصبے میں ایک قدیم محل ہے جسے قلعہ کہتے ہیں۔اس قلعے کے اردگرد چھیاسٹھ گاؤں ہیں جو مل ملا کے محمود آباد اسٹیٹ کہلاتے ہیں۔یہاں پر ایک ایسا خاندان اکبرِ اعظم کے دور سے آباد ہے جس کے آباؤ اجداد بغداد کے عباسی دربار سے وابستہ تھے اور ہلاکو خان کے حملے کے بعد ہندوستان آئے اور پھر نسل در نسل محمد تغلق سے جہانگیر تک اور پھر ریاست اودھ کی ایڈمنسٹیریشن میں اور پھر انگریزی دورِ حکومت میں یوپی کے انتظام میں شامل رہے۔اس خاندان کو راجہ صاحب محمود آباد کا خانوادہ کہا جاتا ہے۔ان کے پرکھوں کو صدیوں پر پھیلی جنگی خدمات کے طور پر ہزاروں ایکڑ زمین ملی۔ یوں محمود آباد اسٹیٹ کا شمار یوپی کی امیر کبیر جاگیروں میں ہونے لگا۔اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی میں نواب واجد علی شاہ کا ساتھ دینے کی پاداش میں کمپنی نے محمود آباد اسٹیٹ کے نواب علی خان کی آدھی سے زیادہ جائیداد ضبط کرلی جس میں سے کچھ بعد ازاں واگذار ہوگئی۔
بیسویں صدی
سن انیس سو تین میں امیر حسن خان راجہ صاحب محمود آباد بنے۔ انھوں نے انیس سو چھ میں ڈھاکہ میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے اس اجلاس کی بھر پور مالی معاونت کی جس سے آل انڈیا مسلم لیگ کا جنم ہوا۔وہ مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ لے کر وائسرائے سے ملنے والے اس وفد کا بھی حصہ تھے جس کی قیادت آغا خان سوم کررہے تھے۔وہ ایم اے او کالج علی گڑھ کے ٹرسٹی بھی تھے اور جب اس کالج نے انیس سو بیس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا روپ لیا تو پہلے وائس چانسلر بھی یہی امیر حسن خان راجہ صاحب محمود آباد بنے۔اسی عرصے میں وہ اپنے قریبی دوست گورنر اترپردیش سر سپنسر ہارٹ کورٹ بٹلر کی صوبائی انتظامی کونسل میں امورِ داخلہ کے نگراں رہے۔اسی دوران انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی کی بنا ڈالنے کے لیے ایک لاکھ روپیہ دان کیا۔کنگ جارج میڈیکل کالج اور امین الدولہ لائبریری کے قیام کے لیے وسائل فراہم کیے۔
راجہ امیر حسن خان کا شمار اپنے زمانے کے امیر ترین ہندوستانیوں میں تھا۔جس کی املاکی سرمایہ کاری لکھنؤ کے حضرت گنج سے لے کے نینی تال تک پھیلی تھی۔ان کے نام کے عطر کا برانڈ بنتا تھا۔مگر انھوں نے پیسہ دانت سے پکڑنے کے بجائے دونوں ہاتھوں سے لٹایا،مجروں پر نہیں بلکہ عام لوگوں کی تعلیمی و سماجی و سیاسی فلاح پر۔
بیسویں صدی کے اوائل میں راجہ امیر حسن خان کو ایک نوجوان وکیل مل گیا۔محمد علی جناح۔ دونوں کی طبیعت نے لگا کھایا، یوں دائمی دوستی کا آغاز ہوا۔راجہ صاحب نے بیرسٹر جناح کو اپنی اسٹیٹ کے معاملات کا قانونی مشیر بنا لیا۔جب رتی اور بیرسٹر جناح کی شادی ہوئی تو نکاح راجہ صاحب نے پڑھایا اور نوبیاہتا جوڑے نے نینی تال کے جس میٹروپول ہوٹل میں قیام کیا، وہ بھی راجہ صاحب کی املاک میں تھا۔
انگریز حکومت کی سیاسی پالیسیاں بھلے جو بھی تھیں لیکن راجہ صاحب کا مولانا محمد علی جوہر ، حسرت موہانی ، جناح اور موتی لال نہرو سے تعلقِ خاطر الگ سے رہا۔حالانکہ موتی لال کے صاحبزادے جواہر لال نہرو جانتے تھے کہ راجہ صاحب آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس انیس سو سترہ ، اٹھارہ اور اٹھائیس کی صدارت کرچکے ہیں مگر جواہر لال نے راجہ صاحب کو ہمیشہ بھائی صاحب کہہ کے ہی مخاطب کیا۔
ایک روز دلی میں راجہ صاحب امیر حسن خان اپنے کم سن ولی عہد امیر احمد خان کو لے کر جناح صاحب کے پاس آئے اور برخوردار سے کہا کہ چچا کو آداب کرو۔میں رہوں نا رہوں تم چچا کا ہاتھ نہیں چھوڑو گے۔جناح صاحب نے بچے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اسے قریب کرلیا اور منہ سے بولے بنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔راجہ امیر حسن خان نے بھی اپنی وصیت میں محمد علی جناح کو اپنے صاحبزادے کا سرپرست مقرر کیا۔ آخری برسوں میں راجہ امیر حسن خان مرثیہ گوئی کی جانب مائل ہوا اور محب تخلص کیا۔
امیر احمد خان تئیس مارچ انیس سو اکتیس کو اپنے والد امیر حسن خان کی وفات کے بعد راجہ صاحب محمود آباد بنے۔ اس وقت وہ لکھنؤ کے لا مارٹینئر کالج سے سینئیر کیمبرج کرچکے تھے۔انھوں نے اپنے سرپرست محمد علی جناح سے مزید تعلیم کے بارے میں مشورہ کیا تو جناح صاحب کا جواب تھا کہ بس میرے ساتھ رہو، میں ہی تمہاری یونیورسٹی ہوں۔نئے راجہ صاحب آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے سب سے کم عمر رکن بنے۔بعد ازاں وہ مسلم لیگ کے خازن مقرر ہوئے۔
محمود آباد اسٹیٹ کی سالانہ آمدنی چالیس لاکھ روپے کے لگ بھگ تھی۔خاندانی و انتظامی اخراجات منہا کرنے کے بعد جو بھی بچتا وہ مسلم لیگ کی سرگرمیوں پر صرف ہوجاتا تھا۔ انیس سو سینتیس میں لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا وہ سالانہ اجلاس جس کا انتظام و خرچہ راجہ صاحب نے اٹھایا تحریکِ پاکستان کا ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوا اور مسلم لیگ اس نتیجے پر پہنچی کہ اب ایک ملک میں گذارہ مشکل ہے۔جناح صاحب نے برخوردار راجہ صاحب کو مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کرنے کا اشارہ دیا اور اس فیڈریشن کے بانی صدر بھی راجہ صاحب ہی بنے۔اس تنظیم نے علی گڑھ سے پشاور تک اگلے نو برس میں پاکستان کے مفہوم و معنی عام آدمی تک پہنچانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
راجہ صاحب نے صحافت کے محاذِ جنگ پر بھی خاصی مدد فراہم کی اور مسلم لیگ کے ترجمان اخبار ڈان ، چوہدری خلیق الزماں کے اخبار تنویرِ لکھنؤ ، ہمدم اور ہفت روز حق کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے مالی معاونت کی۔بس دوچار اخبارات و جرائد ہی تھے جو مسلم لیگ کے صحافتی وکیل تھے اور ان کو راجہ صاحب کی سرپرستی حاصل تھی۔
انیس سوپینتالیس چھیالیس کے انتخابات میں مسلم لیگ مسلمان نشستوں پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ بعد کے مہینوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا بخار بڑھتا گیا اور پھر مار کاٹ شروع ہوگئی۔شائد راجہ صاحب کے لیے یہ خونریزی غیر متوقع تھی۔چنانچہ ایک دن انھوں نے ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا مگر کراچی یا لاہور کے بجائے اپنی لائبریری ، چند ملازمین اور باورچیوں کے ساتھ عراق کا رخ کیا۔راجہ صاحب لگ بھگ دس برس نجف ، کربلا اور بغداد میں رہے اور پھر انیس سو ستاون میں جانے کیا سوجھی کہ کراچی آ کے بس گئے۔مگر خود کو پاکستان سے بے تعلقی کی عمومی سیاست سے مکمل لا تعلق رکھا۔شائد انھوں نے فیض صاحب کا مصرعہ دل میں اتار لیا ہو۔
کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔
ایوب خان نے پہلے سفارت ، پھر وزارت اور پھر کنونشن مسلم لیگ کی صدارت کی پیش کش کی لیکن ایوب خان کو شائد کسی نے نہیں بتایا کہ یہ وہ صاحب ہیں جن کی دو نسلوں نے تحریکِ پاکستان کے نظریاتی انجن میں مالیاتی تیل نہ ڈالا ہوتا تو ایوب خان شائد برٹش آرمی کے بریگیڈیر ہی رہ جاتے۔
انیس سو پینسٹھ کی جنگ شروع ہوئی تو بھارت میں شاستری حکومت نے راجہ صاحب کی تمام خاندانی املاک اینیمی پراپرٹی قرار دیتے ہوئے بحقِ سرکار ضبط کرلیں۔کیونکہ راجہ صاحب ایک دشمن ملک ( پاکستان) کے شہری تھے۔
اتنا کچھ کھونے کے بعد بھی راجہ صاحب کا پاکستان میں جی نہیں لگا اور وہ انیس سو اڑسٹھ میں لندن منتقل ہوگئے۔جانے وہ سیکڑوں خدام ، خانسامے کہاں گئے۔بس ایک ملازم آخری وقت تک ساتھ رہا۔راجہ صاحب لندن میں اسلامک کلچرل سینٹر کے تنخواہ دار ڈائریکٹر کے طور پر خود کو مصروف رکھتے رہے اور وہاں اردو ، فارسی ، عربی ، سنسکرت ، انگریزی اور فرنچ پر دسترس سے تحقیقی کام لیتے رہے۔اور پھر چودہ اکتوبر انیس سو تہتر کو انتقال کرگئے اور مشہد میں امام علی رضا کے روضہ کے احاطے میں دفن ہوئے۔
انیس سو اٹھانوے میں بھارتی سپریم کورٹ نے محمود آباد کی ضبط شدہ املاک واگذار کرکے وارثوں کو لوٹا دیں۔لیکن جب قلعے اور بٹلر پیلس کے مہربند تالے کھلے تو بیشتر قیمتی اشیا سربمہر ہونے کے باوجود غائب پائی گئیں۔موجودہ راجہ صاحب محمود آباد محمد امیر محمد خان راجیو گاندھی کے دور میں دو مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پر لوک سبھا کے ممبر بنے مگر گذشتہ پچیس برس سے سیاست سے دور ہیں۔
اکیسویں صدی
راجہ صاحب محمود آباد اور ان کے کام کو کتنے لوگ جانتے ہیں۔اس کا ثبوت فیس بک پر ان کے نام سے قائم کردہ پیج ہے۔ تین برس میں صرف چار سو چار افراد نے اس پیج کو لائیک کیا ہے۔ کیا راجہ صاحب کے نام پر کوئی عمارت ، کوئی شاہراہ ، کوئی چوک ، کسی بلڈنگ کا کوئی گوشہ یا چھوٹی موٹی لائبریری ہے؟؟؟؟ ہو سکتا ہے ہو اور کسی چاغی پہاڑ یا توپ یا میزائل کے ماڈل کے پیچھے چھپی ہوئی ہو۔۔۔تو پھر مجھے بھی آگاہ کیجیے گا۔البتہ محکمہ ڈاک نے کبھی ایک یادگاری ٹکٹ ضرور جاری کیا تھا۔
ارے یاد آیا ! پچھلے دورِ حکومت میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نصابی نظرِ ثانی کے ایک اجلاس میں جب یہ بحث ہو رہی تھی کہ طلبا کو کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر تحریکِ پاکستان کی کن کن شخصیات سے تفصیلاً روشناس کرانے کی ضرورت ہے تو اجلاس میں شریک ایک صاحب نے راجہ صاحب محمود آباد امیر احمد خان کا نام بھی تجویز کیا۔اس پر دیگر دو شرکاء بیک وقت بولے
'' اے کون اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )