ایٹمی ہتھیاروں کی لاحاصل دوڑ

ایک اخباری خبر کے مطابق پاکستان اورہندوستان میں سے ہر ایک کے پاس سوایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ دونوں ملک ہر...

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

QUETTA:
ایک اخباری خبر کے مطابق پاکستان اورہندوستان میں سے ہر ایک کے پاس سوایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ دونوں ملک ہر سال اپنے ایٹمی ذخائر سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے رہتے ہیں، پاکستان اور ہندوستان دو ایسے ترقی پذیر ملک ہیں جو ایٹمی ہتھیار کے مالک ہیں۔ ترقی یافتہ ایٹمی ملکوں کے پاس بہت بڑے ایٹمی ذخائر موجود ہیں، کہا جاتاہے کہ امریکا کے پاس 11ہزار اور روس کے پاس 13ہزار ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر موجود ہیں، یہاں پر اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ 1945 میں امریکا نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر جو ایٹم بم گرائے تھے وہ آج کے ایٹم بموں سے بہت کم طاقت یا تباہی کے مالک تھے۔ ان انتہائی کم طاقتور ایٹم بموں کے استعمال سے پلک جھپکتے میں لاکھوں انسان اورعمارتیں جل کر راکھ ہوگئی تھیں۔ خدا نہ کرے اگر آج 1945سے سیکڑوں گنا زیادہ طاقتور ایٹم بم استعمال کیا گیا تو اس کی تباہ کاریوں کا کیا حال ہوگا؟ جب کہ ہمارے ایٹمی ملکوں کے پاس ہزاروں کی تعداد میں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، ایٹمی ہتھیار کے استعمال کے علاوہ ایٹمی ذخائر بذات خود کس قدر خطرناک ہوتے ہیں ۔ ایٹمی ذخائر میں ذرا سی بے احتیاطی کی وجہ سے جو نقصانات ایٹمی تابکاری کی شکل میں پیش آسکتے ہیں اس کی ہولناکی کا اندازہ بھارت اور روس کے ایٹمی ذخائر میں ہونے والی تابکاری سے لگایا جاسکتا ہے۔ جس کا ہزاروں معصوم انسان شکار ہوگئے۔ یہ تباہی بھوپال اور چرنوبل میں ہوئی۔

اس حوالے سے دوسرا بڑا خطرہ ان کی حفاظت کا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت بذات خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اس کے لیے ایٹمی ملکوں میں کمانڈ اینڈ کنٹرول کا ایک ایسا سخت نظام موجود ہے کہ ایٹمی ذخائر کے قریب پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ اس کے باوجود ایٹمی ہتھیاروں کی چوری کا خوف موجود ہوتا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی بلیک مارکیٹنگ کے خدشات بھی ظاہر کیے جاتے ہیں ۔شمالی کوریا کا جنوبی کوریا سے تنازعہ ہے اور جنوبی کوریا کی سرپرستی امریکا بہادرکررہا ہے، ان دونوں ملکوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر شمالی کوریا ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ ایٹمی ہتھیار ان ملکوں کے خلاف استعمال ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے ملکوں کی طرف سے جن میں روس اور چین بھی شامل ہیں شمالی کوریا پر مسلسل دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کی طرف پیش رفت سے باز رہے۔ شمالی کوریا کا مطالبہ ہے کہ جرمنی کی طرح شمالی اور جنوبی کوریا متحد ہوکر ترقی کی طرف پیش قدمی کریں لیکن امریکا اپنے طویل مدتی مفادات کی خاطر دونوں کوریاؤں کو متحد نہیں ہونے دے رہا ہے۔ایران دوسرا ملک تھا جو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی طرف پیش رفت کررہا تھا ایران کے ایٹمی طاقت بننے سے امریکا کو تو براہ راست کوئی خطرہ نہ تھا لیکن اسرائیل بلاشبہ ایٹمی ایران کی زد میں آسکتا تھا۔ اس ممکنہ خطرے سے بچنے کے لیے امریکا نے ایران پر طرح طرح کی اقتصادی اور سیاسی پابندیاں لگادیں۔ ایران کی نئی قیادت کو غالباً یہ احساس ہوا کہ اگر ایران اسی طرح اقتصادی پابندیوں کی زد میں رہا تو اس کی معیشت بالکل تباہ ہوجائے گی، سو نئی ایرانی قیادت نے امریکا کو یقین دہانی کرادی کہ وہ اپنی ایٹمی پیش رفت کو روک دے گا۔ یوں یہ تنازعہ اب ختم ہوتا نظر آرہاہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ دنیا میں ایٹمی ہتھیار کیوں بنائے گئے اور بنائے جارہے ہیں اور ان کے استعمال کا خطرہ کہاں اورکیوں محسوس کیا جاتاہے؟ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب نو آبادیاتی نظام کے رکھوالے ملک کمزور پڑنے لگے تو دنیا کی نئی طاقت امریکا کو یہ احساس پیدا ہوا کہ سامراجی کردار ادا کرے، لیکن دنیا میں امریکا کے علاوہ بھی بڑی فوجی طاقتیں موجود تھیں جن میں جرمنی، جاپان وغیرہ سر فہرست تھے اور عالمی سطح پر بحیثیت حریف کردار بھی ادا کررہے تھے سو امریکی حکمرانوں کے ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ایٹمی ہتھیار ہی ایک ایسا وسیلہ ہیں جن کا امریکا کو سپر پاور بنانے میں بھی اہم کردار رہا ہے سو امریکا نے نہ صرف ایٹمی ہتھیار بنانے میں پہل کی بلکہ انھیں دوسری عالمی جنگ میں جرمنی اور جاپان کی پیش رفت روکنے کے لیے بھی استعمال کیا۔


دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا دو واضح حصوں میں بٹ گئی، ایک مغربی بلاک دوسرا سوشلسٹ بلاک، مغربی بلاک کی قیادت امریکا کے ہاتھوں میں آئی اور سوشلسٹ بلاک کی قیادت روس کے ہاتھوں میں آئی، پھر ان دونوں بلاکس کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ کا جو سلسلہ شروع ہوا اس میں روس اور چین بھی ایٹمی ملکوں کی صف میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں سے بھی بازی لے گئی۔ روس کے وسائل اس مقابلے میں اس بری طرح زائل ہوتے گئے کہ آخر کار روس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ یوں سرد جنگ کا خاتمہ تو ہوگیا لیکن ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری نہ صرف جاری رہی بلکہ اس میں پھیلاؤ بھی آتا گیا۔ حتیٰ کہ ہندوستان اور پاکستان جیسے پسماندہ ترین ملک بھی ایٹمی ملک بن گئے اور ساری دنیا آج ایٹمی بارود کے ذخائر پر کھڑی ہے اور کوئی بھی سیاسی غلطی یا طاقت دنیا کو ایٹمی جنگ کی طرف لے جاسکتی ہے، کیوبا اور کارگل کے موقعوں پر روس، امریکا، ہندوستان، پاکستان ایٹمی جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے۔ہم نے اس حوالے سے دو سوال کیے تھے ایک یہ کہ ایٹمی ہتھیار کیوں بنائے جاتے ہیں، دوسرے یہ کہ ان کے استعمال کا خوف کیوں لاحق ہے؟ پہلے سوال کا جواب تو دے دیا گیا دوسرا سوال بہت اہم ہے۔ ہماری دنیا بے شمار تضادات میں بٹی ہوئی ہے اور یہ سارے تضادات عموماً سرمایہ دارانہ نظام کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔ مقابلے کو سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی کا بنیادی جز کہا جاتا ہے لیکن اگر یہ مقابلہ صرف ترقی اور خوشحالی کے میدانوں میں ہوتا تو یقیناً اس کے مثبت نتائج ممکن تھے لیکن بد قسمتی سے یہ مقابلہ منفی میدانوں میں بھی ہورہا ہے۔ یعنی سیاسی مفادات، علاقائی تنازعات بھی اس مقابلے کے میدان میں بنے ہوئے ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کے محرکات تو بہ ظاہر مختلف نظر آتے ہیں لیکن ذرا گہرائی سے ان کا جائزہ لیا جائے تو اس کا بنیادی محرک سرمایہ دارانہ نظام کا تضادات ہی نظر آتے ہیں۔

مثال کے طور پر ایران اور اسرائیل کے تنازعہ کو لے لیں۔ اسرائیلیوں کا موقف ہے کہ وہ اپنے بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں، ایران اسرائیل کا اس لیے بھی مخالف ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حوالے سے اسرائیلی جارحیت کو ناقابل قبول مانتا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور اس دولت پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے امریکا مشرق وسطیٰ پر اسرائیلی بالادستی کو ضروری سمجھتاہے اور اس کی بقاء کے لیے ہر اقدام اٹھانے کو تیار رہتاہے۔ عرب ملکوں میں اکثریت ایسے ملکوں کی ہے جن کے حکمراں اپنی بقاء امریکا کی تابعداری میں دیکھتے ہیں۔ یہ ایسے تضادات ہیں جو ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر کا مسئلہ ایک ایسی شکل اختیار کرسکتا ہے جو ان ملکوں کو ایٹمی جنگ کی طرف لے جاسکتا ہے۔ امریکا اگر چاہے تو بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دباؤ ڈال سکتاہے لیکن ایشیا میں چین کے گرد گھیرا برقرار رکھنے کے لیے امریکا بھارت کو ناراض نہیں کرسکتا۔ بھارت کے ڈیڑھ ارب عوام کی بڑی منڈی سے امریکا دست بردار نہیں ہوسکتا۔

یہ دو مثالیں ہم نے اس لیے دیں کہ سامراجی ملکوں کا کردار واضح ہو۔ دوسرا مسئلہ طاقت کے توازن کا ہے وجوہات خواہ کچھ ہوں دنیا میں ایٹمی جنگ کے خطرات موجود ہیں اور ان سے نجات کا واحد راستہ ایٹمی ہتھیاروں کی مکمل تلفی ہے امریکا اور روس کے درمیان ایٹمی اسلحہ میں تخفیف ایک بے مقصد ڈراما ہے۔ اگر یہ ملک دنیا کی بقاء میں مخلص ہیں تو ایٹمی ہتھیاروں کے مکمل خاتمے پر انھیں متفق ہونا پڑے گا۔
Load Next Story