او آئی سی کانفرنس کے ایجنڈے میں طالبان کو تسلیم کرنے کی کوئی بات نہیں وزیر خارجہ
عالمی برادری افغانوں کی مدد پر آمادہ ہے لیکن انہیں کچھ چیزوں پر خدشات ہیں، سینئر صحافیوں کو بریفنگ
WUHAN:
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کے ایجںڈا میں طالبان کو تسلیم کرنے کی کوئی بات نہیں، عالمی برادری افغانوں کی مدد پر آمادہ ہے لیکن انہیں کچھ چیزوں پر خدشات ہیں جنہیں دور کرنا ہوگا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ میں سینیئر صحافیوں کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس کے حوالے سے بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کے 11 اہم کمانڈرز اور سابق سفرا، اپنی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے، ان کی مدد کی جائے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ، اقوام متحدہ کی ایجنسیز، پی 5 اور اہم یورپی ممالک کے نمائندگان کو بھی مدعو کیا ہے، ہم نے افغان وفد کو بھی مدعو کیا ہے تاکہ وہ اپنا موقف خود پیش کر سکیں اور صورتحال سے آگاہ کر سکتے ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی برادری افغانوں کی مدد پر آمادہ ہے لیکن انہیں کچھ چیزوں پر خدشات ہیں جن میں افغانستان میں انسانی حقوق کی پاس داری، دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کی ضمانت اور محفوظ انخلاء جیسے نکات شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عالمی برادری کے خدشات، افغان عبوری قیادت تک پہنچائے اور انہیں باور کروایا کہ انہیں عالمی برادری کے خدشات کو دور کرنا ہو گا، دوسری طرف ہم نے عالمی برادری کو بھی کہا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے، اگر افغانستان میں صورتحال قابو میں نہ آئی تو یہ ہم سب کے لیے خطرے کا باعث ہوگی اور یورپ بھی متاثر ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پوری کوشش افغانستان کو انسانی المیے سے بچانا ہے، اس وقت افغانستان میں معاشی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، انسانی جانیں خطرے میں ہیں، یو این ڈی پی کے مطابق 2022ء کے وسط تک 97 فیصد افغان سطح غربت سے نیچے چلے جائیں گے، ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 95 فیصد افغانوں کو مناسب خوراک میسر نہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم سعودی عرب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس برائے افغانستان کی تجویز کو پذیرائی دی، آج سیکریٹری جنرل او آئی سی تشریف لائیں گے، 19 تاریخ کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے تین سیسشن ہوں گے، ابتدائی سیشن سے وزیراعظم خطاب کریں گے جبکہ ورکنگ سیشن ان کیمرا ہوگا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کے ایجںڈا میں طالبان کو تسلیم کرنے کی کوئی بات نہیں، عالمی برادری افغانوں کی مدد پر آمادہ ہے لیکن انہیں کچھ چیزوں پر خدشات ہیں جنہیں دور کرنا ہوگا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ میں سینیئر صحافیوں کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس کے حوالے سے بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کے 11 اہم کمانڈرز اور سابق سفرا، اپنی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے، ان کی مدد کی جائے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ، اقوام متحدہ کی ایجنسیز، پی 5 اور اہم یورپی ممالک کے نمائندگان کو بھی مدعو کیا ہے، ہم نے افغان وفد کو بھی مدعو کیا ہے تاکہ وہ اپنا موقف خود پیش کر سکیں اور صورتحال سے آگاہ کر سکتے ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی برادری افغانوں کی مدد پر آمادہ ہے لیکن انہیں کچھ چیزوں پر خدشات ہیں جن میں افغانستان میں انسانی حقوق کی پاس داری، دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کی ضمانت اور محفوظ انخلاء جیسے نکات شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عالمی برادری کے خدشات، افغان عبوری قیادت تک پہنچائے اور انہیں باور کروایا کہ انہیں عالمی برادری کے خدشات کو دور کرنا ہو گا، دوسری طرف ہم نے عالمی برادری کو بھی کہا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے، اگر افغانستان میں صورتحال قابو میں نہ آئی تو یہ ہم سب کے لیے خطرے کا باعث ہوگی اور یورپ بھی متاثر ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پوری کوشش افغانستان کو انسانی المیے سے بچانا ہے، اس وقت افغانستان میں معاشی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، انسانی جانیں خطرے میں ہیں، یو این ڈی پی کے مطابق 2022ء کے وسط تک 97 فیصد افغان سطح غربت سے نیچے چلے جائیں گے، ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 95 فیصد افغانوں کو مناسب خوراک میسر نہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم سعودی عرب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس برائے افغانستان کی تجویز کو پذیرائی دی، آج سیکریٹری جنرل او آئی سی تشریف لائیں گے، 19 تاریخ کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے تین سیسشن ہوں گے، ابتدائی سیشن سے وزیراعظم خطاب کریں گے جبکہ ورکنگ سیشن ان کیمرا ہوگا۔