اسٹیل ملزنجکاری کیساتھ بحران سے نکالنے کی کوشش بھی جاری
انتظامیہ کئی محاذوں پر ڈٹ گئی،6 ماہ میں 6 ارب روپے کی مصنوعات فروخت کی گئیں
بدترین مالی بحران اور خام مال کی قلت کے باوجود پاکستان اسٹیل ماہانہ ایک ارب روپے کی مصنوعات فروخت کررہا ہے۔
پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ اہم قومی اثاثے کو بحران سے نکالنے کے لیے بیک وقت کئی محاذوں پر ڈٹی ہوئی ہے۔ ایک جانب ادارے کی فروخت کے ذریعے ریونیو حاصل کرنے کی کوششیں جاری ہیں، دوسری جانب یوٹلیٹیز کے واجبات کی ادائیگیاں بھی جاری ہیں، تیسری سمت میں خام مال کی دستیابی کو بھی یقینی بنایا جارہا ہے تاکہ پیداواری سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے مل کو مکمل طور پر بند ہونے سے پہنچنے والے بھاری نقصانات سے بچایا جاسکے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران پاکستان اسٹیل نے مجموعی طور پر تقریباً چھ ارب روپے کی مصنوعات فروخت کی ہیں، جو نامساعد حالات میں ایک کارنامے سے کم نہیں۔ ذرائع کے مطابق چھ ماہ کے د وران پاکستان اسٹیل نے پانی بجلی گیس، میڈیکل اور ایندھن کی مد میں بھی بھاری مالیت کے واجبات اپنے وسائل سے ادا کیے ہیں۔ چھ ماہ کے دوران مجموعی طور پر 3ارب 25 کروڑ روپے یوٹلیٹیز، میڈیکل اور ایندھن کی مد میں ادا کیے گئے۔
صرف بجلی کی مد میں 2ارب 15کروڑ 70لاکھ روپے کے بل ادا کیے گئے۔ گیس کے 60کروڑ روپے، پانی کے 16کروڑ روپے، میڈیکل کی مد میں 30سے 40کروڑ روپے اور متفرق 60کروڑ روپے کی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔
پاکستان اسٹیل کی چھ ماہ کے دوران چھ ارب روپے کی فروخت اور اربوں روپے کے واجبات کی ادائیگیوں سے پاکستان اسٹیل کو اونے پونے ٹھکانے لگانے کے لیے مل کے کارخانوں اور انتظامیہ کی صلاحیت کے بارے میں کیا جانے والا پراپیگنڈہ بھی غلط ثابت ہوگیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان اسٹیل کو ابھی تک خام مال کی خریداری کے لیے کوئی بیل آؤٹ نہیں دیا گیا۔ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے موجودہ حکومت نے مختلف اقساط میں 3ارب 62کروڑ روپے ادا کیے۔
سابقہ حکومت نے چار سال میں 40ارب روپے کا بیل آؤٹ دیا تاہم یہ رقم بھی خالصتاً کمرشل لون کی شکل میں دی گئی جو مہنگے قرضے ثابت ہونے کے ساتھ چھوٹی چھوٹی اقساط میں ملنے کی وجہ سے بے فیض رہے۔ پاکستان اسٹیل کے ملازمین کے مطابق ادارے کو یکمشت 28ارب روپے کا پیکج دیا جائے تو مل کو منافع بخش بنایا جاسکتا ہے۔ مل کے کارخانوں کی مرمت کے لیے بھی اپنے وسائل پر بھروسہ کیا جارہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ مل کو بحران سے نکالنے کے لیے ہرممکن کوششوں میں مصروف ہے۔ مل کے لیے خام مال کا حصول سب سے اہم ہے 23ہزار میٹرک ٹن آئرن اوور درآمد کیا جاچکا ہے۔ 30ہزار ٹن پہلے سے موجود ہے۔ اس طرح 53ہزار ٹن آئرن اور کے مجموعی اسٹاک مہیا کیے گئے ہیں۔ 11ہزار ٹن کوک بھی درآمد کی جاچکی ہے جبکہ 11ہزار ٹن کوک چند روز میں پورٹ قاسم پہنچنے والی ہے۔ پاکستان اسٹیل کے ملازمین کو 45روز کی تنخواہیں ادا کردی گئی ہیں جس کے بعد دسمبر اور جنوری کے مہینوں کی تنخواہیں واجب ہیں جن کی ادائیگی کے لیے حکومت سے 2ارب روپے کی ادائیگیوں کی درخواست کی جاچکی ہے۔
پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ اہم قومی اثاثے کو بحران سے نکالنے کے لیے بیک وقت کئی محاذوں پر ڈٹی ہوئی ہے۔ ایک جانب ادارے کی فروخت کے ذریعے ریونیو حاصل کرنے کی کوششیں جاری ہیں، دوسری جانب یوٹلیٹیز کے واجبات کی ادائیگیاں بھی جاری ہیں، تیسری سمت میں خام مال کی دستیابی کو بھی یقینی بنایا جارہا ہے تاکہ پیداواری سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے مل کو مکمل طور پر بند ہونے سے پہنچنے والے بھاری نقصانات سے بچایا جاسکے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران پاکستان اسٹیل نے مجموعی طور پر تقریباً چھ ارب روپے کی مصنوعات فروخت کی ہیں، جو نامساعد حالات میں ایک کارنامے سے کم نہیں۔ ذرائع کے مطابق چھ ماہ کے د وران پاکستان اسٹیل نے پانی بجلی گیس، میڈیکل اور ایندھن کی مد میں بھی بھاری مالیت کے واجبات اپنے وسائل سے ادا کیے ہیں۔ چھ ماہ کے دوران مجموعی طور پر 3ارب 25 کروڑ روپے یوٹلیٹیز، میڈیکل اور ایندھن کی مد میں ادا کیے گئے۔
صرف بجلی کی مد میں 2ارب 15کروڑ 70لاکھ روپے کے بل ادا کیے گئے۔ گیس کے 60کروڑ روپے، پانی کے 16کروڑ روپے، میڈیکل کی مد میں 30سے 40کروڑ روپے اور متفرق 60کروڑ روپے کی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔
پاکستان اسٹیل کی چھ ماہ کے دوران چھ ارب روپے کی فروخت اور اربوں روپے کے واجبات کی ادائیگیوں سے پاکستان اسٹیل کو اونے پونے ٹھکانے لگانے کے لیے مل کے کارخانوں اور انتظامیہ کی صلاحیت کے بارے میں کیا جانے والا پراپیگنڈہ بھی غلط ثابت ہوگیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان اسٹیل کو ابھی تک خام مال کی خریداری کے لیے کوئی بیل آؤٹ نہیں دیا گیا۔ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے موجودہ حکومت نے مختلف اقساط میں 3ارب 62کروڑ روپے ادا کیے۔
سابقہ حکومت نے چار سال میں 40ارب روپے کا بیل آؤٹ دیا تاہم یہ رقم بھی خالصتاً کمرشل لون کی شکل میں دی گئی جو مہنگے قرضے ثابت ہونے کے ساتھ چھوٹی چھوٹی اقساط میں ملنے کی وجہ سے بے فیض رہے۔ پاکستان اسٹیل کے ملازمین کے مطابق ادارے کو یکمشت 28ارب روپے کا پیکج دیا جائے تو مل کو منافع بخش بنایا جاسکتا ہے۔ مل کے کارخانوں کی مرمت کے لیے بھی اپنے وسائل پر بھروسہ کیا جارہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ مل کو بحران سے نکالنے کے لیے ہرممکن کوششوں میں مصروف ہے۔ مل کے لیے خام مال کا حصول سب سے اہم ہے 23ہزار میٹرک ٹن آئرن اوور درآمد کیا جاچکا ہے۔ 30ہزار ٹن پہلے سے موجود ہے۔ اس طرح 53ہزار ٹن آئرن اور کے مجموعی اسٹاک مہیا کیے گئے ہیں۔ 11ہزار ٹن کوک بھی درآمد کی جاچکی ہے جبکہ 11ہزار ٹن کوک چند روز میں پورٹ قاسم پہنچنے والی ہے۔ پاکستان اسٹیل کے ملازمین کو 45روز کی تنخواہیں ادا کردی گئی ہیں جس کے بعد دسمبر اور جنوری کے مہینوں کی تنخواہیں واجب ہیں جن کی ادائیگی کے لیے حکومت سے 2ارب روپے کی ادائیگیوں کی درخواست کی جاچکی ہے۔