صحافت کا گو ہر نایاب ’’ضیا الدین‘‘
وہ چاروں بہت دکھی تھے، وہ صحافتی منڈلی کے بکھرنے پر گھنٹوں باتیں کیا کرتے
HARARE:
وہ چاروں بہت دکھی تھے، وہ صحافتی منڈلی کے بکھرنے پر گھنٹوں باتیں کیا کرتے ، صحافت کے بکھرے تنکوں کو ایک جگہ کرنے میں فکرمند رہتے، وہ چاروں ایک اکھنڈ اور ایک مضبوط منڈلی کے وہ سرفروش تھے۔
جنھوں نے تحریر و تقریر اور قلم کے وقار کو سرنگوں نہ ہونے دیا ، رحیم اللہ یوسف زئی ، حسین نقی ، ناصر زیدی اور ضیا الدین جانتے تھے کہ صحافیوں کا اتحاد ہی اس ملک کی جمہوری اور شہری آزادیوں کو غیر جمہوری قوتوں کے جبر سے نکال پائے گا ، وہ اس سے بھی واقف تھے کہ وقت کے حکمرانوں نے سماج کو تقسیم کرنے کے تمام طریقے اختیار کرکے اس سماج کو ایک بے سمت سماج کر دیا ہے ، مگر اس کے باوجود ان چار درد مندوں کو امید تھی کہ وہ صحافت کے بکھرے شیرازے کو جوڑنے کی کوشش میں جتے رہیں گے اور ایک روز ان کی کاوشیں کوئی بہتری ضرور لائیں گی۔
اس تمام کوششوں میں ان کے ہم رکاب ناصر ملک ، عصمت اللہ نیازی اور سی آر شمسی بھی فکرمند اور متحرک رہے ، مجھے یاد ہے کہ 2016 کے اوائل میں صحافیوں کی یکجہتی کو مضبوط کرنے کی یہ مہم اسلام آباد سے ضیا الدین نے شروع کی اور اس میں حسین نقی اور دیگر دوست دن رات کوششوں میں مصروف رہے۔
ضیا الدین صحافتی وقار اور اس کے تحفظ کے لیے کوششوں میں نہ وہ تھکے اور نہ رکے، مدراس کی مٹی کس قدر غرور سے سرشار ہوگی کہ 1938 میں جنم لینے والا اس کا پوت ضیا واقعی پاکستان کی صحافت میں اس روشنی کا استعارہ بنا جو مشعل منہاج برنا اور ساتھیوں نے ملکر جلائی تھی ، مشرقی پاکستان کے دکھوں کو سمجھنے والے ضیا الدین اس ہولناکی سے واقف تھے جو غیر جمہوری قوتوں نے مشرقی پاکستان کے عوام اور صحافت سے روا رکھی تھیں ، جنگ کے دوران مشرقی پاکستان کے صحافیوں پر حقائق بر مبنی رپورٹنگ کے دروازے بند کروا دیے گئے تھے اور مغربی حصے کے عوام کو '' سب اچھا ہے'' کا یکطرفہ راگ دیا جارہا تھا۔
ضیا الدین صحافت کے اس قبیل سے تھے جنھوں نے صحافت کی آبرو قائم رکھنے میں کبھی سودے بازی یا مصلحت سے کام نہیں لیا ، بقول ناصر ملک، ضیا الدین صاحب کو وزیراعظم بے نظیر نے بلایا اور ان سے اپنی حکومت کی کارکردگی کے متعلق پوچھا تو انھوں نے برجستہ کہا کہ ''آپ جب تک غیر جمہوری قوتوں سے ہاتھ ملائے رکھیں گی ، اس عوام کی بہتری نہیں ہو سکے گی، ان کے خیال میں عوام کی جمہوری آزادی میں سب سے بڑی رکاوٹ غیر جمہوری افراد اور اسٹبلشمنٹ ہے'' ، اب ایسے جرات مند اور بلند حوصلہ وہ صحافی کہاں جو جبر کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کریں۔
منہاج برنا اور ساتھیوں کے مشن کو آگے بڑھانے کی یہی وجہ رہی کہ ضیا الدین صاحب نے اپنے کالموں میں ملک میں آئین کے تحفظ اور جمہوری اقدار کے فروغ پر نہ صرف زور دیا بلکہ ان بیرونی قوتوں کا چہرہ بھی عوام کو دکھاتے رہے ، جن کے اشاروں پر ملکی جمہوریت اور ملکی معیشت کو غیر جمہوری حکمرانوں نے داؤ پر لگایا ، ضیا الدین نے اخبار '' ایکسپریس ٹریبیون '' میں اپنے آخری دنوں میں '' سمٹ فار ڈیموکریسی'' میں امریکی سامراج کی جمہوری حقوق اور عوامی جمہوریت کے مقابل آمروں کی حمایت کرنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے امریکا کو آمروں کا سہولت کار اور ایک روشن خیال جمہوری معاشرے کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ، یہی وجہ رہی کہ وہ ملک میں آمریتوں کے خلاف اپنا قلم آخری دم تک چلاتے رہے ، ملک میں صحافت کی آزادی کے لیے ہر ہر محاذ پر دوستوں کے ساتھ جڑے رہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں نے صحافتی جدوجہد کی تاریخ کو ترتیب دے کر کتاب کی شکل دی تو سب سے پہلے ضیا الدین صاحب کا فون آیا اور انھوں نے نہایت شفقت سے نہ صرف میری حوصلہ افزائی کی بلکہ میرے کا م کو سراہا ، جب اس کتاب پر سیمینار ہوا تو ضیا صاحب اور ایک انگریزی اخبار کے محمد علی صدیقی نے خصوصی طور اپنی محبتیں ہم سب تک پہنچائیں ، سوچتا ہوں چنائی کے اس ہیرے کو تراشنے میں جتنی جانفشانی منہاج برنا ایسے نے صحافتی تنظیم کے مرہون منت کی، وہی فکر اب تک کسی نہ کسی طرح اس صحافت دشمن پالیسیوں سے نبرد آزما ہے اور ضیا الدین ایسوں کی دی ہوئی یہی قوت ایک روز پابند صحافت کی زنجیریں اپنی جدوجہد سے ضرور توڑنے میں کامیاب ہوگی۔
وہ چاروں بہت دکھی تھے، وہ صحافتی منڈلی کے بکھرنے پر گھنٹوں باتیں کیا کرتے ، صحافت کے بکھرے تنکوں کو ایک جگہ کرنے میں فکرمند رہتے، وہ چاروں ایک اکھنڈ اور ایک مضبوط منڈلی کے وہ سرفروش تھے۔
جنھوں نے تحریر و تقریر اور قلم کے وقار کو سرنگوں نہ ہونے دیا ، رحیم اللہ یوسف زئی ، حسین نقی ، ناصر زیدی اور ضیا الدین جانتے تھے کہ صحافیوں کا اتحاد ہی اس ملک کی جمہوری اور شہری آزادیوں کو غیر جمہوری قوتوں کے جبر سے نکال پائے گا ، وہ اس سے بھی واقف تھے کہ وقت کے حکمرانوں نے سماج کو تقسیم کرنے کے تمام طریقے اختیار کرکے اس سماج کو ایک بے سمت سماج کر دیا ہے ، مگر اس کے باوجود ان چار درد مندوں کو امید تھی کہ وہ صحافت کے بکھرے شیرازے کو جوڑنے کی کوشش میں جتے رہیں گے اور ایک روز ان کی کاوشیں کوئی بہتری ضرور لائیں گی۔
اس تمام کوششوں میں ان کے ہم رکاب ناصر ملک ، عصمت اللہ نیازی اور سی آر شمسی بھی فکرمند اور متحرک رہے ، مجھے یاد ہے کہ 2016 کے اوائل میں صحافیوں کی یکجہتی کو مضبوط کرنے کی یہ مہم اسلام آباد سے ضیا الدین نے شروع کی اور اس میں حسین نقی اور دیگر دوست دن رات کوششوں میں مصروف رہے۔
ضیا الدین صحافتی وقار اور اس کے تحفظ کے لیے کوششوں میں نہ وہ تھکے اور نہ رکے، مدراس کی مٹی کس قدر غرور سے سرشار ہوگی کہ 1938 میں جنم لینے والا اس کا پوت ضیا واقعی پاکستان کی صحافت میں اس روشنی کا استعارہ بنا جو مشعل منہاج برنا اور ساتھیوں نے ملکر جلائی تھی ، مشرقی پاکستان کے دکھوں کو سمجھنے والے ضیا الدین اس ہولناکی سے واقف تھے جو غیر جمہوری قوتوں نے مشرقی پاکستان کے عوام اور صحافت سے روا رکھی تھیں ، جنگ کے دوران مشرقی پاکستان کے صحافیوں پر حقائق بر مبنی رپورٹنگ کے دروازے بند کروا دیے گئے تھے اور مغربی حصے کے عوام کو '' سب اچھا ہے'' کا یکطرفہ راگ دیا جارہا تھا۔
ضیا الدین صحافت کے اس قبیل سے تھے جنھوں نے صحافت کی آبرو قائم رکھنے میں کبھی سودے بازی یا مصلحت سے کام نہیں لیا ، بقول ناصر ملک، ضیا الدین صاحب کو وزیراعظم بے نظیر نے بلایا اور ان سے اپنی حکومت کی کارکردگی کے متعلق پوچھا تو انھوں نے برجستہ کہا کہ ''آپ جب تک غیر جمہوری قوتوں سے ہاتھ ملائے رکھیں گی ، اس عوام کی بہتری نہیں ہو سکے گی، ان کے خیال میں عوام کی جمہوری آزادی میں سب سے بڑی رکاوٹ غیر جمہوری افراد اور اسٹبلشمنٹ ہے'' ، اب ایسے جرات مند اور بلند حوصلہ وہ صحافی کہاں جو جبر کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کریں۔
منہاج برنا اور ساتھیوں کے مشن کو آگے بڑھانے کی یہی وجہ رہی کہ ضیا الدین صاحب نے اپنے کالموں میں ملک میں آئین کے تحفظ اور جمہوری اقدار کے فروغ پر نہ صرف زور دیا بلکہ ان بیرونی قوتوں کا چہرہ بھی عوام کو دکھاتے رہے ، جن کے اشاروں پر ملکی جمہوریت اور ملکی معیشت کو غیر جمہوری حکمرانوں نے داؤ پر لگایا ، ضیا الدین نے اخبار '' ایکسپریس ٹریبیون '' میں اپنے آخری دنوں میں '' سمٹ فار ڈیموکریسی'' میں امریکی سامراج کی جمہوری حقوق اور عوامی جمہوریت کے مقابل آمروں کی حمایت کرنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے امریکا کو آمروں کا سہولت کار اور ایک روشن خیال جمہوری معاشرے کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ، یہی وجہ رہی کہ وہ ملک میں آمریتوں کے خلاف اپنا قلم آخری دم تک چلاتے رہے ، ملک میں صحافت کی آزادی کے لیے ہر ہر محاذ پر دوستوں کے ساتھ جڑے رہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں نے صحافتی جدوجہد کی تاریخ کو ترتیب دے کر کتاب کی شکل دی تو سب سے پہلے ضیا الدین صاحب کا فون آیا اور انھوں نے نہایت شفقت سے نہ صرف میری حوصلہ افزائی کی بلکہ میرے کا م کو سراہا ، جب اس کتاب پر سیمینار ہوا تو ضیا صاحب اور ایک انگریزی اخبار کے محمد علی صدیقی نے خصوصی طور اپنی محبتیں ہم سب تک پہنچائیں ، سوچتا ہوں چنائی کے اس ہیرے کو تراشنے میں جتنی جانفشانی منہاج برنا ایسے نے صحافتی تنظیم کے مرہون منت کی، وہی فکر اب تک کسی نہ کسی طرح اس صحافت دشمن پالیسیوں سے نبرد آزما ہے اور ضیا الدین ایسوں کی دی ہوئی یہی قوت ایک روز پابند صحافت کی زنجیریں اپنی جدوجہد سے ضرور توڑنے میں کامیاب ہوگی۔