سب سے سستا ملک پاکستان

یہ بات میں نہیں، وزیر اعظم پاکستان عمران خان کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے کم مہنگائی پاکستان میں ہے

zb0322-2284142@gmail.com

کراچی:
یہ بات میں نہیں، وزیر اعظم پاکستان عمران خان کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے کم مہنگائی پاکستان میں ہے۔ ایسا ہے تو اللہ کرے ان کے منہ میں گھی شکر، جب کہ حقیقی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ میں اپنے پڑوسی پسماندہ ملکوں کی مثال دوں گا۔ بنگلہ دیش میں اس وقت چاول، دال، سبزی، مچھلی، سویابین، گوشت، انڈے، دودھ اور کپڑے ہمارے یہاں سے سستے ہیں۔ ہمارے ہاں چاول 100 روپے سے 200 روپے کلو ہے جب کہ بنگلہ دیش میں 40 ٹکا سے 60 ٹکا تک ہے۔

دال مسور کی وہاں زیادہ استعمال ہوتی ہے، پاکستان کے مقابلے میں آدھی قیمت میں دستیاب ہے۔ سبزیاں تو ہمارے ہاں سے 50 فیصد سے بھی کم میں ملتی ہیں۔ ترئی، کچا کیلا، کچا کٹہل، اروی، کچا پپیتا، بینگن، کریلا یعنی جو سبزیاں یہاں 100 روپے کلو ہیں وہ بنگلہ دیش میں 40 روپے کلو ہیں۔ مچھلی تو وہاں 92 فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں اس لیے مہنگی تو ہے لیکن پاکستان کے مقابلے میں 35 فیصد کم قیمت ہے۔ آج کل جی ڈی میں سویا بین کا تیل عام استعمال ہے۔ اسی طرح خوردنی تیل 80 فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، اس وقت سویا بین کا تیل 190 ٹکا فی کلو ہے۔

بون لیس چکن 446 روپے کلو (واضح رہے کہ وہاں 85 فیصد دیسی مرغی کا گوشت استعمال ہوتا ہے۔) انڈے 110 ٹکا درجن، دودھ 86 ٹکا لیٹر اور کپڑے کی قیمت کم ہے۔ 90 فیصد لوگ مرد لونگی اور خواتین ساڑھی اور میکسی پہنتی ہیں۔ ان کپڑوں کی قیمت پاکستان سے کم ہے۔ ہندوستان میں چاول 66 روپے کلو (سفید) انڈے78 روپے درجن، دودھ 55 روپے لیٹر، پیاز 35 روپے کلو، پانی ڈیڑھ لیٹر 28 روپے، بھینس کا گوشت 440 روپے کلو۔ میں کراچی کی ایمپریس مارکیٹ میں ایک گوشت کی دکان پر گیا تو وہاں گائے کے پائے صرف 100 جب کہ بھینس کے 400 پائے رکھے ہوئے تھے۔

میں نے قصاب سے دریافت کیا کہ اگر بھینس کے پائے زیادہ ہیں تو پھر بھینس کا گوشت کہاں گیا؟ دکاندار نے مسکراتے ہوئے کہا کہ'' اگر ہم بھینس کا گوشت کہہ کر بیچیں تو گاہک نہیں خریدے گا۔'' سری لنکا میں چاول 126 روپے کلو ہے۔ مچھلی تو وہ برآمد کرتا ہے، مچھلی سستی ہے۔ ناریل کا تیل استعمال ہوتا ہے۔ یہی تیل خوردنی تیل کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور دیگر استعمال میں بھی لاتے ہیں۔ گرم مسالہ بھی برآمد کرتا ہے۔ خوردنی تیل، گرم مسالہ اور قیمتی پتھر برآمد کرتا ہے اور یہ چیزیں وہاں پاکستان کے مقابلے میں سستی ہیں۔

چین میں بھی ہمارے مقابلے میں اشیائے خوردنی کی قیمتیں کم ہیں۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو اس پر عالمی سامراجیوں نے اقتصادی پابندیاں لگا کر رکھی ہیں اور افغانستان پر بھی۔ ان دو ملکوں سے عالمی طور پر تجارتی لین دین نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایران کو صرف روس اور چین جب کہ افغانستان کو پاکستان،ہندوستان اور عرب امارات مدد کر رہا ہے۔


دوسرے ممالک انھیں اس طرح مدد کررہے ہیں کہ اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ اب ہمارے حکمران فوراً کہیں گے کہ انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا اور چین کی کرنسی کی قدر زیادہ ہے اس لیے اشیا خور و نوش کی قیمتیں بھی کم ہیں۔ تو پاکستان اپنی کرنسی کی قدر کیوں نہیں بڑھاتا۔ آئی ایم ایف اور امریکا کے لاڈلے بنیں گے تو پاکستان کی کرنسی کی قدر میں روز بروزکمی ہوگی ، نتیجتاً مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ اب رہا ترقی یافتہ ملکوں کا سوال، وہاں ہر شہر اور ٹاؤن میں ایک ہی قیمت میں اشیا دستیاب ہیں۔

ان کی کرنسی کی قدر بھی زیادہ ہے۔ پھر حکومت سبسڈیز بھی دیتی ہے اور بے روزگاری الاؤنس بھی، جس سے مہنگائی کو آسانی سے کم کیا جاسکتا ہے۔ مہنگائی کو کم کرنے کے لیے راست اقدام کیے جاسکتے ہیں۔ ہماری60 فیصد زمینیں کاشت نہیں ہوتیں۔ انھیں ٹیوب ویل کے ذریعے پانی حاصل کرکے قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے۔ شہریوں کو قرضے، خیرات، کھانا اور مشاہیرہ دینے کے بجائے بڑے پیمانے پر کارخانے لگائے جائیں، زمین بے زمین کسانوں میں تقسیم کی جائے اور غیر پیداواری اخراجات میں 50 فیصد کمی کی جائے۔

ہندوستان کے پاس 150 ایٹم بم ہیں جب کہ ہمارے پاس بڑی تعداد میں ایٹم بم ہیں۔ غیر پیداواری اخراجات کو بڑے پیمانے پر کم کرکے، آئی ایم ایف کے قرضوں کو بحق سرکار ضبط کرکے مہنگائی میں 50 فیصد کی کمی کی جاسکتی ہے۔یہ تو رہی سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اصلاحات کی بات۔ ایسی اصلاحات کئی صدیوں سے ہوتی آ رہی ہیں مگر عوام کے حالات زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہماری حکومت الیکشن الیکٹرانک مشین سے کروانے جا رہی ہے۔ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، خودکشیاں کر رہے ہیں اور نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آ کر لوگ اخلاقی مجرم بنتے جا رہے ہیں۔ چوری، ڈاکے، اغوا، لوٹ مار انھی کا ساخشانہ ہے۔ ہماری حکومت مشین سے ووٹنگ تو کروا رہی ہے لیکن بھوک سے مرنے والوں کے کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کر رہی ہے۔ دنیا کے تقریباً 300 ملکوں میں صرف دو ممالک بیلجیم اور اسرائیل میں مشین سے ووٹنگ ہوتی ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو یہ پتا نہیں کہ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 90 فیصد پینے کا پانی گٹر کے پانی کو ری سائیکلنگ کرکے حاصل کیا جاتا ہے اور اسی گٹر سے کھاد اور میتھائن گیس پیدا کی جاتی ہے۔ دوسری طرف بیلجیم بھاری مشینری کی پیداوار کرنے میں یورپی ملکوں میں پیش پیش ہے۔

جب کہ ہم 80 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں کر پاتے۔ بھاری مشینری بنانا تو درکنار ہم اپنی ضرورت کے تمام وہیکلز جاپان، امریکا، بیلجیم، جرمنی اور سویڈن وغیرہ سے درآمد کرتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا کرایہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے جو عوام کے سر پر بجلی گرنے کی مانند ہے۔ ہمیں ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ٹرین، بس اور سڑکیں نہیں چاہئیں۔ بلکہ ٹرام گاڑی، سرکلر ٹرین، شٹل بسیں اور ڈبل ڈیکر کی اگر بھرمار کردی جائے تو لوگ کار چلانا چھوڑ دیں گے۔ عوامی بسوں کے سفر میں کرایہ بھی کم ہوگا۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مہنگائی کو ہم نے ایک طرح سے اپنے اوپر مسلط کرلیا ہے۔ اگر ہم لگژری گاڑیاں، الیکٹرانک کا مہنگا ساز و سامان، کاسمیٹک کی مہنگی اشیا کی درآمد بند کریں، جو اشیا ہم خود پیداوار کرتے ہیں انھیں درآمد کرنا بند کردیں، تیل، مکھن، دودھ، صابن، کپڑے اور جوتے وغیرہ بیرون ملک سے درآمد پر اگر پابندی لگا دیں تو مہنگائی میں کمی آسکتی ہے۔ اس کے علاوہ عوام کو بھوکا رہنے سے روکنے کے لیے حکومت فوری طور پر دال، چاول، آٹا، تیل، گوشت اور دوا وغیرہ میں 30 فیصد سبسڈیز دے کر عوام کی فوری تکلیفوں میں کمی کرسکتی ہے۔ اگر ایسا بھی حکومت نہیں کرسکتی ہے تو آٹا اور دال سستی قیمتوں میں راشن شاپ کے ذریعے عوام کو فراہم کیا جاسکتا ہے۔
Load Next Story