کورونا پھوٹنے کے بعد خواتین ظلم و تشدد کی چکی میں زیادہ پسنے لگیں

خواتین تشدد برداشت کرتی ہیں لیکن شکایت نہیں کرتیں ، ایسا کیوں ہوتا ہے؟

خواتین تشدد برداشت کرتی ہیں لیکن شکایت نہیں کرتیں ، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ۔ فوٹو : فائل

دنیا میں ہر سال خواتین پر تشدد کے خاتمے کا دن منایا جاتا ہے۔ امسال بھی پچیس نومبر کو منایا گیا۔

سچی بات تو یہ ہے کہ خواتین پر تشدد کے خلاف سارا سال ہی آوازیں بلند ہوتی اور کوششیں جاری رہتی ہیں لیکن تشدد کم ہونے میں نہیں آ رہا ہے۔ جب بھی خواتین پر تشدد کی اصطلاح بیان کی جاتی ہے تو اس کا مطلب مرد کے ہاتھوں عورت پر تشدد ہوتا ہے۔ اس میں جنسی زیادتی ، جنسی ہراسانی ، انسانی سمگلنگ اور بچپن کی شادی وغیرہ بھی شامل ہوتی ہے۔

اقوام متحدہ اور اس کے اداروںکی حالیہ رپورٹس کے مطابق گزشتہ برس کے اوائل میں ، جب سے کورونا وبا پھوٹی ہے، ہر تین میں سے ایک خاتون خود یا پھر اس کی کوئی جاننے والی خاتون کو تشدد کا شکار ہونا پڑا ہے۔ یہ رپورٹ 13ممالک کے جائزے کے بعد مرتب کی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وبا کے اثرات بالخصوص معاشی و سماجی مسائل کے نتیجے میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ وبا کے نتیجے میں لاک ڈاؤن نے بے روزگاری اور دیگر اقسام کی سٹریس پیدا کی، لوگوں کو خوراک کے لالے پڑ گئے تھے۔ اس کے سبب خاندان میں باہمی تعلقات خاص طور پر متاثر ہوئے۔ خواتین کو تشدد کا سامنا کرنا ہی پڑا ، اس کے علاوہ انھیں عدم تحفظ کا احساس بھی لاحق ہوا ، الغرضیکہ خواتین بحیثیت مجموعی متاثر ہوئیں۔

اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت کے زیر اہتمام شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق ہر تین میں سے ایک خاتون کو زندگی میں کم ازکم ایک بار یا پھر اس سے زیادہ بار جسمانی ، جنسی یا پھر جذباتی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ تشدد کرنے والا اس کا موجودہ یا سابقہ شوہر / دوست تھا۔ یاد رہے کہ اس رپورٹ میں جن لڑکیوں اور خواتین کا جائزہ لیا گیا ، ان کی عمر پندرہ برس یا اس سے زائد تھی۔ اس باب میں سب سے زیادہ خطرناک صورت حال افغانستان میں دیکھنے کو ملی جہاں 34 فیصد لڑکیوں یا خواتین کو ان کے شوہروں نے مارا پیٹا۔ 10 میں سے پانچ ممالک ، جہاں لڑکیاں اور خواتین سب سے زیادہ تشدد کا نشانہ بنتی ہیں، کا تعلق براعظم افریقہ سے ہے۔ کانگو میں 32 فیصد لڑکیوں اور خواتین پر، ان کے شوہروں یا دوستوں نے تشدد کیا۔

رپورٹ کے مطابق ہر10میں سے سات خواتین کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے بعد گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ گھروں میں اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھنے لگی ہیں۔گھر میں مارپیٹ میں اضافہ ہوا ۔ اگر گھر میں مردوں کے درمیان لڑائی بھی ہو تو اس کی زد میں گھر کی خواتین بھی آتی ہیں۔

ایک دوسری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر پانچ میں سے تین خواتین کا کہنا تھا کہ کورونا وبا پھوٹ پڑنے کے بعد انھیں پہلے کی نسبت زیادہ جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ نتیجتاً وہ روزگار اور دیگر ضروری کاموں کے لئے گھر سے باہر جاتے ہوئے خوفزدہ رہنے لگیں۔ حتیٰ کہ وہ تفریح کی غرض سے بھی گھر سے باہر نکلنے سے پہلے 100بار سوچنے لگیں۔ اس کا نتیجہ صحت پر برے اثرات کی صورت میں نکلا۔

کورونا وبا کے بعد خواتین کو عدم تحفظ کا احساس دامن گیر ہوا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جن 10خواتین پر گھریلو تشدد ہوا ، ان میں سے صرف ایک خاتون نے پولیس کو شکایت کر کے مدد طلب کی۔ باقی 9 خواتین نے تشدد برداشت کیا یا پھر خاندان میں سے کسی فرد کو مدد کے لئے بلایا ۔ ہاں ! جب انہی خواتین کو گھر سے باہر جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے فوراً پولیس کو اطلاع کی۔

اٹھاون ( 58) فیصد خواتین ، جنھیں جنسی تشدد کا نشانہ بننا پڑا یا ان کی کسی جاننے والی خاتون کے ساتھ ایسا کچھ ہوا ، ایسی ہر پانچ میں سے دو خواتین کی نفسیاتی اور جذباتی صحت پر برے اثرات مرتب ہوئے ۔ وہ دیگر خواتین کی نسبت 1.3بار زیادہ معالجین کے پاس گئیں ۔ یاد رہے کہ کورونا وبا پھوٹنے کے بعد خواتین پر بڑھتے ہوئے تشدد کا جائزہ لینے کے لئے جن 13 ممالک کا جائزہ لیا گیا ان میں کینیا ، مراکش ، اردن ، نائیجیریا ، پولینڈ ، کولمبیا ، کیمرون ، یوکرائن ، کرغیزستان ، البانیا ، آئیوری کاسٹ ، تھائی لینڈ اور پیرا گوئے ہیں ۔ یہ 10ممالک جس خاص ترتیب سے لکھے گئے ہیں، اسی اعتبار سے یہاں خواتین کے لئے حالات زیادہ خراب ہیں یعنی کینیا میں حالات سب سے زیادہ خراب اور پیراگوئے میں سب سے کم خراب ۔ واضح رہے کہ یہ جائزہ اپریل سے ستمبر2021ء کے دوران میں لیا گیا ۔

٭ قتل


اقوام متحدہ کے آفس آن ڈرگز اینڈ کرائمز ( یو این او ڈی جی ) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2017ء میں 87 ہزار خواتین کو قتل کیا گیا ۔ شوہروں ، سابقہ شوہروں یا پھر دوستوں کے ہاتھوں قتل ہونے والی لڑکیوں یا خواتین کا زیادہ تر تعلق افریقی ممالک سے تھا ۔ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں روزانہ 137خواتین اپنے رشتہ داروں یا دوستوں کے ہاتھوں قتل ہو رہی ہیں ۔ ایشیا میں سالانہ 20 ہزار ، افریقہ میں 19ہزار ، امریکا میں آٹھ ہزار ، یورپ میں تین ہزار اور بحرالکاہل یا اس سے جڑے سمندروں کے جزیروں (اوشینیا ) میں 300 خواتین قتل ہوتی ہیں ۔ افریقہ میں ہر ایک لاکھ خواتین میں 3.1 خواتین ، امریکا میں 1.6 ، ایشیا میں 0.9 ، یورپ میں 0.7 اور اوشینیا میں 1.3 خواتین قتل ہوتی ہیں ۔

٭ انسانی سمگلنگ

' یو این او ڈی سی ' کی رپورٹ کے مطابق انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور لڑکیوں ہی کی ہوتی ہے۔ خواتین کی شرح 46 فیصد اور لڑکیوں کی شرح 19 فیصد ہوتی ہے۔ ستتر (77) فیصد خواتین جنسی استحصال کی خاطر سمگل کی جاتی ہیں جبکہ 14 فیصد جبری مشقت کی خاطر ۔ اسی طرح 72 فیصد لڑکیاں جنسی استحصال اور 21 فیصد جبری مشقت کی خاطر سمگل کی جاتی ہیں۔ رپورٹ میں 2018ء کے اعدادوشمار بیان کیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ مرد اور لڑکے بھی انسانی سمگلنگ کا نشانہ بنتے ہیں ۔ ایسے مردوں کی شرح 19فیصد جبکہ لڑکوں کی شرح 15فیصد ہے ۔

٭بچپن کی شادی

بچپن کی شادیاں زیادہ تر افریقہ اور جنوبی ایشیا کے ممالک میں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ براعظم افریقہ میں ایسی شادیاں سب سے زیادہ نائیجر میں ہوتی ہیں ۔ یہاں 20 سے 24 برس کی 76 فیصد خواتین نے بتایا کہ ان کی شادیاں 18سال سے پہلے ہوئی تھیں ۔ جنوبی ایشیا میں بھی بڑے پیمانے پر بچپن کی شادیاں ہوتی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق 28 فیصد لڑکیوں کی اٹھارہ برس عمر ہونے سے پہلے زبردستی شادی کی گئی ۔ سات فیصد کی شادی تو 15برس کی عمر سے بھی پہلے کی گئی ۔ کورونا وبا پھوٹنے سے پہلے ، اقوام متحدہ نے ایک اندازہ لگایا تھا کہ اگلے دس برسوں کے دوران میں 100ملین لڑکیوں کی زبردستی شادی 18سال کی عمر سے پہلے کر دی جائے گی۔ تاہم اب ایک بار پھر اندازہ لگایا گیا تو پتہ چلا کہ 100ملین نہیں 110ملین لڑکیوں کو اس انداز میں بیاہ دیا جائے گا ۔

2020ء کی یونیسف رپورٹ کے مطابق مغربی اور وسطی افریقہ میں37 فیصد خواتین کی شادی18سال سے پہلے اور 13فیصد کی 15سال کی عمر سے پہلے کر دی گئی ۔ سب صحارا افریقہ میں 34 فیصد کی 18سال سے پہلے 11فیصد کی 15برس سے پہلے شادی کی گئی ۔ مشرقی اور جنوبی افریقی ممالک میں 31 فیصد کی 18سال سے پہلے اور 9 فیصد کی 15سال سے پہلے شادی کی گئی ۔ جنوبی ایشیا میں 28 فیصد کی 18سال سے پہلے اور سات فیصد کی 15سال سے پہلے شادی کر دی گئی ۔ لاطینی امریکا اور کیریبین ممالک میں 22 فیصد کی 18سال سے پہلے اور چار فیصد کی 15سال سے پہلے شادی کی گئی ۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ممالک میں 15فیصد کی 18سال سے پہلے اور دو فیصد کی 15برس کی عمر سے پہلے شادی کی گئی ۔ مشرقی ایشیا میں سات فیصد کی 18سال سے کم عمر میں اور ایک فیصد کی پندرہ سال سے پہلے شادی کی گئی ۔

٭ جنگ یا لڑائی والے علاقوں میں جنسی تشدد

جنوری 2020ء سے اب تک جنگ یا لڑائی والے علاقوں میں 638 میں سے550 عام خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ یہ اعدادوشمار ' آرمد کانفلیکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا پراجیکٹ' نے جاری کیے ہیں ۔ تنازعات والے علاقوں میں جنسی تشدد ، ریپ جیسے جرائم مسلح گروہوں کی طرف سے دیکھنے میں آئے ۔ افریقی ممالک میں ایسی مثالیں بڑی تعداد میں ملتی ہیں ۔ ان علاقوں میں 376 واقعات رونما ہوئے جن میں سے زیادہ تر کانگو میں ہوئے ۔ ان کی تعداد 135تھی ۔ متاثرہ خواتین نے بتایا کہ تشدد کے ذمہ دار نامعلوم مسلح افراد تھے ۔ رپورٹ کے مطابق مسلح افراد کی طرف سے جنسی تشدد کے واقعات افریقہ کے علاوہ یورپ ، جنوبی امریکا ، شمالی امریکا ، جنوبی ایشیا ، جنوب مشرقی ایشیا ، وسطی ایشیا کے ممالک میں بھی رونما ہوئے ۔

٭خواتین پر تشدد کیسے کم ہو سکتا ہے؟

اقوام متحدہ کے ایک ادارے ' ویمن کاؤنٹ ' نے مطالبہ کیا گیا ہے کہ خواتین پر تشدد ختم کرنے کے لئے خواتین کو ان اداروں میں شامل کرنا ضروری ہے جو خواتین پر تشدد کے انسداد کے لئے کوششیں کر رہے ہیں، انھیں اس حوالے سے پالیسی سازی میں بھی شامل کیا جائے ۔ انسداد تشدد کے لئے مصروف عمل لوگوں کو مزید وسائل فراہم کیے جائیں ۔ متاثرہ خواتین کے لئے خدمات کو مزید بہتر کیا جائے ۔ لڑکیوں اور خواتین کے تحفظ کے لئے کی جانے والی کوششوں میں درمیانی اور طویل مدتی سرمایہ کاری کی جائے ۔ اس شعبے کے حوالے سے اعداد و شمار باقاعدگی سے جمع کیے جائیں تاکہ اصل تصویر دیکھنے کا موقع ملے ۔
Load Next Story