کورونا کی پانچویں قسم ’ اومیکرون‘ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
بیماری کی نئی لہر سے بچنے کے لیے بھی وہی احتیاطیں لازم ہیں جو پہلے سے کی جارہی ہیں۔
26 نومبر 2021 کو ڈبلیو ایچ او نے کرونا وائرس ارتقاء پر کام کرنے والے اپنے ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ (ٹی اے جی-وی ای) کے مشورے پر کرونا کی نئی دریافت ہونی والی قسم کو اومیکرون کا نام دیا ہے۔
یہ فیصلہ ٹی اے جی وی ای کے سامنے پیش کردہ شواہد پر مبنی تھا کہ کووڈ اُنیس وائرس میں کئی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں اور اس تبدیل شدہ وائرس کو اومیکرون کے نام سے شناخت دی گئی ہے۔ ان تبدیلیوں کی بنیاد پر یہ نسبتاً زیادہ آسانی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اس کے باعث ہونے والی بیماری کی شدت بھی زیادہ ہو سکتے ہے۔ اومیکرون کی دریافت نے پہلے سے خوف میں مبتلا دنیا کو مزید خوف زدہ کر کے رکھ دیا ہے۔
جیسا کہ زیادہ تر لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ وائرسوں میں خود کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے جسے سائنسی زبان میں میوٹیشن کہتے ہیں۔ خود میں تبدیلی لانے کی یہ صلاحیت زندگی کی کسی بھی قسم کے اندر فطری طور پر اپنی بقاء کے تحفظ کے زیر اثر قدرتی طور پر بھی ہو سکتی ہے اور لیبارٹریوں کے اندر مصنوعی طور پر بھی ایسا کرنا ممکن ہے۔ حیاتیاتی ہتھیار تیار کرنے کی ٹیکنالوجی اسی انسانی صلاحیتوں کی مرہون منت ہے جس کے تحت جراثیموں کے اندر مختلف تبدیلیاں لا کر انہیں دشمن کے خلاف استعمال کیا جات ہے اسے 'بیالوجیکل وار فئیر' کا نام دیا جاتا ہے۔ اب تک کرونا وائرس جو زیادہ خطرناک اقسام دریافت ہو چکی ہیں ان کی تفصیل ذیل میں بیان کی جا رہی ہے۔
1 ۔ الفا (بی 1.1.7): جس کی پہلی شناخت برطانیہ میں ہوئی اور یہ اب تک 50 سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے۔
2 ۔بیٹا (بی.1.351): جس کی پہلی شناخت جنوبی افریقہ میں ہوئی تھی لیکن برطانیہ سمیت کم از کم 20 دیگر ممالک میں اس کا پتہ چلا ہے۔
3۔گاما (پی.1): جس کی پہلی شناخت برازیل میں ہوئی لیکن جو برطانیہ سمیت 10 سے زائد دیگر ممالک میں پھیل چکی ہے۔
4 ۔ڈیلٹا (بی.1.617.2):جس کی شناخت پہلے ہندوستان میں ہوئی اور اب برطانیہ میں گردش کرنے والی سب سے عام قسم ہے ۔
5۔ ڈیلٹا پلس (اے وائی.4.2): جس پر برطانیہ کے حکام اس پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں
6۔اومیکرون (بی 1.1.529):26 نومبر 2021 کو ساوتھ افریقہ میں دریافت ہوئی، جس میں 50 تبدیلیاں موجود ہیں اور جو تا حال دنیا کے 38 ممالک میں پھیل چکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے کورونا کی مختلف نئی اقسام کی درجہ بندی کے چار گروپس بنائے ہیں:
زیر نگرانی اقسام، توجہ و دلچسپی کی حامل اقسام، تشویش والی اقسام، اعلیٰ نتیجہ خیز اقسام
اومیکرون کی بوٹسوانا اور جنوبی افریقہ میں سب سے پہلے شناخت کی گئی۔کورونا وائرس کی اس نئی قسم نے سائنسدانوں اور صحت عامہ کے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ اس میں ایک ہی وقت میں بہت زیادہ تعداد میں تبدیلیاں پائی گئی ہیں۔ اگر کسی وائرس میں بہت زیادہ تبدیلیاں آ جائیں تو اس بات کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے کہ نئی قسم ممکنا طور پر زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے اور زیر استعمال ویکسین کو غیر موثر بنانے کی صلاحیت کی حامل ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اومیکرون کو '' تشویشناک قسم '' قرار دیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ اس سے لاحق عالمی خطرات بہت شدید ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ اومیکرون جدید دنیا کے 38 ممالک میں اپنی پہچان کروا چکا ہے لیکن تا حال اس سے موت کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔
اس وقت یورپ میں اومیکرون کی موجودگی کے شواہد سامنے آ رہے ہیں۔
آسٹریا کی حکومت نے اب تک ایک کیس کی تصدیق کی ہے، ٹائرول کے علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص جس نے حال ہی میں جنوبی افریقہ کا سفر کیا تھا۔
بیلجیم نے یورپی سرزمین پر اومیکرون قسم کے پہلے کیس کی نشاندہی کی ہے
چیک ریپبلک کے شمال میں ایک علاقائی ہسپتال میں خاتون میں تصدیق ہوئی ہے جسے ویکسین لگائی جا چکی تھی اور اس میں ہلکی علامات تھیں یہ جنوبی افریقہ اور دبئی کے راستے چیک جمہوریہ واپس آنے سے پہلے نمیبیا گئی تھیں۔
ڈنمارک کے محکمہ صحت کے حکام نے ملک میں اس کی موجودگی کی تصدیق کی ہے
فن لینڈ اس وقت مختلف قسم کے دو مشتبہ کیریئرز کی تحقیقات کر رہا ہے۔ دونوں صورتوں میں، خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بیرون ملک متاثر ہوئے ہیں۔
فرانس کی وزارت صحت نے 3 دسمبر کو اس بات کی تصدیق کی تھی کہ فرانس میں اومیکرون کے نو کیسز کا پتہ چلا ہے۔
تا دمِ تحریر جنوبی جرمن ریاست باویریا میں صحت کے حکام کی جانب سے اومیکرون کی انفیکشن کے دو کیسز کی تصدیق کی گئی ہے۔ دونوں مسافر جنوبی افریقہ سے واپس آ کر میونخ کے ہوائی اڈے پر پہنچے تھے۔
یونان کے جزیرے کریٹ پر ایک شخص کی مثبت رپورٹ آئی ہے اور وہ بھی حال ہی میں جنوبی افریقہ سے واپس آیا ہے۔
اومیکرون کے خطرے کے تناظر میں سرحدی پابندیاں عائد کرنے کے باوجود، آئس لینڈ کے محکمہ صحت کے حکام نے یکم دسمبر کو اعلان کیا کہ انہوں نے ملک میں اومیکرون وائرس کی انفیکشن میں مبتلا شخص کا پتہ چلایا ہے جس نے بیرون ملک کوئی سفر نہیں کیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قسم آئس لینڈ میں کچھ عرصے سے موجود ہے۔
اٹلی میں بھی ایک تصدیق شدہ کیس موجود ہے۔ نیپلز کے علاقے سے تعلق رکھنے والا یہ شخص موزمبیق سے واپس آیا تھا، اطالوی ہائر انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (آئی ایس ایس) نے اس کا اعلان کیا ہے۔
آئرلینڈ کی نیشنل وائرس ریفرنس لیبارٹری کے مطابق، آئرلینڈ میں اومیکرون کے پہلے تصدیق شدہ کیس کی شناخت کی گئی ہے یہ شخص حال ہی میں جنوبی افریقہ کے ایک ملک سے سفری پابندیاں عائد کیے جانے سے پہلے واپس آیا تھا ۔
اب تک اومیکرون کے سب سے تصدیق شدہ کیسوں کے ساتھ نیدرلینڈز پورے یورپ میں پہلے نمبر پر ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ (RIVM) نے کہا ہے کہ ملک میں جنوبی افریقہ سے حال ہی میں آنے والے 61 مسافروں کے ٹیسٹ کئے گئے جن میں سے کم از کم 14 میں اومیکرون کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔
پرتگال کے ایس اے ڈی فٹ بال کلب کے 13 کھلاڑی اپنے منتظمین سمیت جنوبی افریقہ کے دورے کے بعد اس سے متاثر ہوئے ہیں تاہم ان کے مزید ٹیسٹ کیے جانے ہیں۔
سپین کے دارالحکومت میڈرڈ کے ایک ہسپتال نے اعلان کیا کہ سپین میں اومیکرون قسم کے ایک تصدیق شدہ کیس کا پتہ چلا ہے۔
سویڈن کی نیشنل پبلک ہیلتھ ایجنسی نے ایک کیس کی تصدیق کی ہے اور یہ شخص بھی جنوبی افریقہ سے واپس آیا ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں محکمہ صحت کے حکام نے جنوبی افریقہ سے واپس آنے والے پہلے کیس کی تصدیق کر دی ہے جبکہ 2000فراد کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔
ناروے میں اومیکرون کے کیسز کی تعداد بڑھ کر 13 ہو گئے ہے۔ زمبابوے نے اسکے 50 کیسز کی نشاندہی کی ہے۔
برطانیہ میں مزید 86 کیسوں کی شناخت ہونے کے بعد امیکرون کے کل کیسز کی تعداد 246 ہوچکی ہے۔ برطانیہ کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے تمام بالغ افراد کی وائرس کے خلاف قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے دو ماہ کے اندر ویکسین کی بوسٹر ڈوز( تیسرا انجیکشن) لگا دی جائے گی۔ برطانیہ میں کرونا ویکسین کی بوسٹر یا تیسری خوراک کی سفارش ان افراد کے لیے کی گئی ہے جن کی عمر اٹھارہ سال سے زیادہ ہے ،فرنٹ لائن ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر ورکرز، اولڈ ہاوسز میں مقیم بوڑھے لوگ، سولہ سے انچاس سال کی عمر کے افراد جو پہلے ہی سے دیگر امراض کا شکار ہیں۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں کورونا ویکسین کی تیسری ڈوز دینے کا کام پہلے ہی جاری ہے۔
اس وقت تقریبا 16 امریکی ریاستیں ا ومیکرون سے متاثر چکی ہیں یعنی یہ ایک تہائی امریکہ میں پہنچ چکا ہے۔ یاد رہے کہ یکم دسمبر کو اومیکرون کی امریکہ میں تصدیق ہوئی تھی جب ایک مسافر جنوبی افریقہ سے کیلیفورنیا واپس آیا۔ حالانکہ اس شخص کو ویکسین کی دونوں ڈوز لگ چکی تھیں اس کے باوجود اس میں بیماری کی علامات ظاہر ہوگئیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا اومیکرون پہلے ہی امریکہ میں گردش کر رہا تھا تا ہم مزید تحقیقات جاری ہیں۔ پریشان کُن بات یہ ہے ان میں سے زیادہ تر ریاستوں میں کورونا کے خلاف ویکسینیشن کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ علاوہ ازیں بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مرکز نے ایئر لائنز کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان تمام مسافروں کے نام اور رابطے کی معلومات فراہم کریں جو 29 نومبر سے امریکہ جانے والی پروازوں میں سوار ہوئے تھے اور جو اس سے قبل دو ہفتوں کے دوران جنوبی افریقہ میں تھے۔
بھارت میں اب تک اومیکون کے تیسرے کیس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ جبکہ بھارت میں کورونا انفیکشنز کی کل تعداد 35 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسرائیل میں اومیکرون کے سات نئے کیسز اور 27 مشتبہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
برازیل جو کہ جنوبی امریکہ کا سب سے بڑا ملک ہے اس کے پہلے کیسز بھی سامنے آچکے ہیں۔
افریقی ملک زیمبیا کی وزارت صحت نے نے بھی تین افراد میں اومیکون انفیکشن کی تصدیق کی ہے۔
بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مرکز نے ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس میں ایئر لائن کیریئرز کو امریکہ میں داخل ہونے سے 14 دن قبل آٹھ افریقی ممالک جمہوریہ بوٹسوانا، سلطنت ایسوتینی، مملکت لیسوتھو، جمہوریہ ملاوی، جمہوریہ موزمبیق، جمہوریہ نمیبیا، جمہوریہ جنوبی افریقہ اور جمہوریہ زمبابوے میں رہنے والے مسافروں کی معلومات جمع کرانے کے لیے کہا گیا ہے۔
دنیا کے زیادہ تر ملک جنوبی افریقہ پر سفری پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ اس صورتحال پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ڈائریکٹرجنرل عالمی ادارہ صحت ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا کہ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ افریقی ممالک کو اومیکرون کی دریافت میں حصہ لینے پر سزا دی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مکمل سفری پابندیوں سے اومیکرون کے بین الاقوامی پھیلاؤ کو نہیں روکا جا سکتا اُلٹا یہ ہو گا کہ جن ممالک کو ان پابندیوں کا نشانہ بنایا جائے گا وہاں روٹی روزی کمانے کے معاملات بُری طرح سے متاثر ہوں گے جس سے انسانی المیے جنم لے سکتے ہیں۔ اس ناموافق صورت حال پر ان افریقی ممالک کے رہنماؤں نے بھی تنقید کی ہے ان کا کہنا ہے کہ سفری پابندیوں کے باعث سیاحت پر انحصار کرنے والے ممالک کی معیشت پر انتہائی منفی اثر پڑے گا جس کا مطلب یہ ہو گا کہ عام لوگوں کی زندگیاں شدید مشکلات کا شکار ہو جائیں گی۔ جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامفوسہ نے کہا ہے کہ سفر کی ممانعت سے وائرس کی اس نئی قسم کے پھیلاؤ کو روکنے میں کوئی مدد حاسل نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سفری پابندی سے متاثرہ ممالک کی معیشتوں کو مزید نقصان پہنچے گا اور اس سے کورونا وباء سے نمٹنے کی ان کی پہلے سے ناکافی صلاحیت کو مزید نقصان پہنچے گا۔
ڈبلیو ایچ او کے تحت طبی ماہرین اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کس طرح یہ تبدیلیاں اومیکرون وائرس کی ایک سے دیگر افراد کو منتقلی اور بیماری کی شدت کو متاثر کرتی ہیں اور کوویڈ ٹیسٹ، علاج اور ویکسین پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
دوسری جانب صحت عامہ کے ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جب تک سائینس دان تبدیل شدہ وائرس کو ٹھیک طرح سمجھ نہیں لیتے لوگوں کو انتہائی احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ گو کہ ابھی تک اس بات کا کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے کہ اومیکرون پچھلی اقسام مثال کے طور پر ڈیلٹا وائرس کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے یا نہیں 'جس نے امریکہ اور دیگر ممالک میں کافی تیزی دکھائی ہے' لیکن اس کے باوجود اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ یہ نئی قسم زیادہ شدت سے متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
اومیکرون کے بارے میں ابھی بہت کچھ نامعلوم ہے بشمول یہ کہ آیا یہ زیادہ منتقلی اور زیادہ سنگین بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں، البتہ کچھ شواہد موجود ہیں کہ یہ لوگوں کو زیادہ آسانی سے دوبارہ متاثر کر سکتا ہے۔
ابتدائی علامات میں اومیکرون صرف معمو لی بیماری کا سبب بن سکتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر یہ بات بھی سامنے آئی ہے اومیکرون نوجوانوں کو زیادہ متاثر کر رہا ہے جیسے کہ افریقہ میں دیکھا جا رہا ہے۔جنوبی افریقی میڈیکل ایسوسی ایشن نے انکشاف کیا ہے کہ ملک کے ہسپتالوں میں داخل ہونے والوں میں سے زیادہ تر افراد کو پہلے ہی سے کورونا کی مکمل ویکسین نہیں لگائی گئی یعنی یہ غیر ویکسین شدہ ہیں۔
اس کے علاوہ، زیادہ تر مریضوں میں صرف معمولی سی کھانسی تھی جبکہ ان میں ذائقہ اور سونگھنے کی حس کھونے کی علامات بھی سامنے نہیں آئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اومیکرون کا کرونا اینٹی باڈیز سے علاج زیادہ موثرثابت نہیں ہو سکا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ نئی قسم جارحانہ طور پر پھیلتی ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے وسیع پیمانے پر 'مونوکلونل اینٹی باڈی ادویات' کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات کرنا بھی قبل از وقت ہوگا کہ اومیکرون کے خلاف کورونا کی ویکسین کتنی موثر ثابت ہوتی ہے تاہم تمام لوگوں کو کرونا ویکسین لگنی چاہیے۔ مز ید براں ویکسین بنانے والوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ وہ کرونا کی نئی اقسام کے خلاف ویکسین کو زیادہ موثر بنانے کے لیے موجودہ فارمولیشنز کو بہتر کر رہے ہیں۔ قابل مذمت بات یہ بھی ہے کی امیر ممالک ویکسین کی ذخیرہ اندوزی جب کہ غریب ممالک اس کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ کورونا کی اسپائک پروٹین 'اینٹی باڈیز' کا سب سے بڑا ہدف ہوتی ہیں جو کورونا انفیکشن سے لڑنے کے لیے جسم میں مدافعتی طاقت پیداکرتی ہیں۔ اومیکرون میں بہت ساری اکٹھی تبدیلیاں یہ خدشات پیدا کرتی ہیں کہ یہ اسے انفیکشن یا پھر ویکسین سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز سے بچنے کے قابل بنا سکتی ہیں۔یہ بات اس امکان کو بھی بڑھاتی ہے کہ یہ صورتحال مختلف قسم کے مونوکلونل اینٹی باڈی سے علاج کی افادیت کو کم کرسکتی ہیں -
ویکسین کے چھ ماہ یا اس سے زیادہ بعد قوت مدافعت میں کمی کے امکانات کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ ماہرین صحت اینٹی باڈیز کی سطح بڑھانے کے لیے کرونا ویکسین کی اضافی خوراک لگانے کی تجویز دے رہے ہیں۔ اس لیے لوگ بوسٹر شاٹ لگوائیں جو ممکنہ طور پر شدید بیماری کے خلاف اضافی تحفظ فراہم کرے گا۔ یہ بات بہت قابل توجہ ہے اگر کسی کو پہلے کرونا ویکسین نہیں لگائی گئی تو وہ فوراً ویکسین لگوائیں اور اگر ویکسین لگ چکی ہے تو پھر بھی وہ تمام حفاظتی تدابیر وطریقوں کا استعمال جاری رکھیں جو کرونا سے بچاؤ کے حوالے سے گزشتہ کئی مہینوں سے پوری دنیا میں کیے جا رہے ہیں ۔
یہاں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کی جب ڈبلیو ایچ او نے کورونا وائرس کی تبدیل شدہ نئی اقسام کو نام دینا شروع کیے تو انہوں نے یونانی حروف تہجی الفا، بیٹا، گاما، ڈیلٹا وغیرہ کی طرف رجوع کیا تاکہ ان اقسام کی وضاحت میں آسانی ہو۔ پہلی تشویش ناک قسم، 'الفا' کی شناخت 2020 کے آخر میں برطانیہ میں کی گئی تھی اس کے بعد جنوبی افریقہ میں جلد ہی 'بیٹا' آیا۔لیکن سسٹم نے حروف تہجی کی ترتیب میں اگلے دو حروف Nu اور Xi کو چھوڑ دیا ہے۔حکام کا خیال تھا کہ Nu بہت آسانی سے ''نئے'' کے ساتھ مکس ہو جائے گا جبکہ اگلا خط Xi چین کے اعلیٰ رہنما شی جن پنگ کا نام ہے۔
ڈیلٹا جس کی پہلی بار ہندوستان میں شناخت کی گئی ہے گزشتہ ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے سے عالمی برادری کوایک اور تشویشناک صورت حال دوچار کر رہی ہے۔
نئے خطرات ممکنا طور پر صحت عامہ کی موجود سہولیات اور صلاحیت سے بھی کہیں زیادہ بڑھ کر ہو سکتے ہیں۔ اگر طبی ماہرین کے اندیشے درست ثابت ہو گئے تو نئی قسم کے نتیجے میں ہونے والی معاشی تباہی خوشحال ممالک کو تقریباً اتنی ہی مشکل میں ڈال سکتی ہے جتنی ترقی پذیر دنیا اس سے دو چار ہو رہی ہے۔ ایک اکیڈمک اسٹڈی کے نتیجے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ امیر ممالک کو کھربوں ڈالر کا معاشی نقصان ہوسکتا ہے جبکہ غریب ممالک کے زیادہ تر باشندے تو ویکسین سے ہی محروم ہیں۔ جاری کرونا عالمی وباء گزشتہ ڈھائی سال کے زائد عرصے سے عالمی معیشت پر اثر انداز ہو رہی ہے، اب ایک بار پھر اومیکرون کی وجہ سے اسٹاک اور تیل کی قیمتیں کے رد عمل گر رہی ہیں اور دنیا بھر میں آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مزید تیزی سے گر سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ تجارت ،نقل و حمل پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں دنیا کو ایک اور معاشی،معاشرتی اور نفسیاتی بحران سمیت دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں اومیکرون کی وجہ سے سفری پابندیوں نے افریقی ممالک میں ناراضگی کو جنم دیا ہے جن کا خیال ہے کہ براعظم ایک بار پھر مغربی ممالک کی خوف کے نتیجے میں بنائی جانے والی پالیسیوں کا شکار ہے جو انہیں ویکسین فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جبکہ افریقی ممالک کے پاس ایسی صورتحال سے نمٹنے کے انتظامات کے لیے درکار وسائل پہلے ہی نا کافی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت پہلے ہی سفری پابندیوں کو غیر منصفانہ اور نقصان دہ قرار دے رہا ہے۔ ادارے کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ تمام ممالک کی تشویش کو بخوبی سمجھتے ہیں لیکن یہ ممالک اپنے شہریوں کو اس نئی قسم کے خلاف تحفظ فراہم کررہے ہیں جس کی چھان بین جاری ہے اورتا حال کوئی بھی شوائد حتمی نہیں ہیں۔ اگرچہ اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں اس نئی قسم کی تصدیق ہو چکی ہے لیکن وسیع پیمانے پر سفری پابندیوں کے باوجود قوی امکان یہ ہے کہ یہ پہلے سے ہی بہت سے ممالک میں پہنچ چکا ہے، یعنی موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پھیلاؤ ظاہر کرتا ہے کہ اسے سرحد عبور کرنے سے روکنا کتنا مشکل ہے اورمتاثر ہونے والے افراد تشخیص سے پہلے ہی اومیکرون کا شکار ہو چکے تھے۔
مثال کے طور پرایک اطالوی شخص تشخیص ہونے سے پہلے کئی دنوں تک اپنے ملک میں گھومتا رہا جو کے ایک بڑے پھیلاو کا سبب بن سکتا ہے۔ حالیہ رپورٹ ہونے والے کیسوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے حال ہی میں بیرون ملک سفر کیا ہے۔یہ بھی امکان ہے کہ اومیکرون بہت سے دیگر ممالک میں موجود ہے لیکن ابھی تک ا س کی تصدیق نہیں ہو پائی۔ جنوبی افریقہ کے لیے کم از کم 34 ممالک نے سفری پابندیوں میں اضافہ کیا ہے جس کی صدر سیرل رامافوسا نے سخت مذمت کی ہے اور اقوام سے ان کو واپس لینے کا مطالبہ کیاہے
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا اومائیکرون کرونا کی دیگر اقسام بشمول اس سے پہلے دریافت ہونے والی قسم ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے ایک شخص سے دوسرے شخص میں پھیلتا ہے یا نہیں۔اس نئے قسم سے جنوبی افریقہ کے سبھی علاقوں میں مثبت کیسزز کی تعدادمیں نمایاں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ سمجھنے کے لئے تحقیق و جستجو جاری ہے کہ آیا ایسا صرف اومیکرون یا دیگر عوامل کی وجہ سے ہے۔ جنوبی افریقہ میں اسپتالوں میں داخلے کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کی وجہ اومائیکرون کے علاوہ دیگر انفیکشن بھی ہوسکتے ہیں،ابھی یہ ابہام بھی موجود ہے ہے۔ ان کے علاوہ ایسی کوئی معلومات بھی نہیں ہیں جن سے یہ پتہ چلے کہ اومائیکرون سے وابستہ علامات کرونا کی دیگر اقسام سے پیدا ہونے والی علامات سے کتنی مختلف ہیں۔
ابتدائی طور سامنے آیا ہے کہ اس کے متاثرہ شروع میں یونیورسٹی کے طلباء اور کم عمر افراد تھے جن میں معمولی نوعیت کی بیماری ظاہر ہوئی لیکن اومائیکرون کی شدت کو سمجھنے کے لیے مزید وقت چاہیے ہو گا۔ ابتدائی کیسوں سے یہ بھی معلومات ملی ہیں کہ وہ لوگ جو پہلے کورونا کے شکار ہوئے اور وہ رو برو صحت ہو چکے ہیں، وہ ا ب بھی اومیکرون سے دوبارہ زیادہ آسانی سے متاثر ہو سکتے ہیں لیکن اس بارے میں معلومات محدود ہیں۔ اس حوالے سے مصدقہ تفصیلات ایک دو ہفتوں میں دستیاب ہوجائیں گی۔ اومیکرون پر موجودہ کورونا ویکسین کے اثرات کی جانچ کے لئے ڈبلیو ایچ او تکنیکی شراکت داروں کے ساتھ مل کر عملی اقدامات پر کام کر رہا ہے۔ کرونا ویکسین بیماری سے بچاو اور بیماری کی شدت کم کرنے میں معاون ہے لیکن امیکرون کے حوالے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ اومیکرون کی تشخیص کے لیے بھی موجودہ پی سی آر ایک مستند ٹیسٹ کے طور پر دستیاب ہے جس سے اومیکرون سمیت کرونا وائرس کی تمام اقسام کی باآسانی تشخیص کی جا سکتی ہے۔ جبکہ علاج کے لئے سٹیرائڈز اور انٹرلیوکن 6 ریسیپٹر بلاکرز 'جو کرونا وائرس سے متاثر مریضوں کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں' اومیکرون کے کیسز میں استعمال کے لئے بھی دستیاب ہیں لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ یہ دوائیں اومیکرون کے خلاف کتنی موثر ثابت ہوتی ہیں۔ اس وقت ڈبلیو ایچ او اومائیکرون کو سمجھنے کے لئے دنیا بھر کے محققین کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ رابطے میں ہے۔ جلد ہی اس کی تشخیص، علامات،انفیکشن کی شدت، ویکسین کی کارکردگی، ٹیسٹ اور علاج سے متعلق رہنمائی و آگاہی دستیاب ہوگی۔
اس کے علاوہ یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ کرونا ویکسین تک رسائی میں عدم مساوات کو فوری طور پر ختم کیا جائے تاکہ غریب پسماندہ ممالک و طبقوں سمیت تمام کے لئے اس کی بلا تعطل دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اومیکرون وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لئے موثر اقدامات جس میں دوسروں سے کم از کم 1 میٹر کا جسمانی فاصلہ، اچھی فٹنگ والے فیس ماسک کا استعمال، ہوا دار ماحول، پُرہجوم جگہوں سے گریز، ہاتھوں کی صفائی اور کھانسی یا چھینک کیلیے کہنی یا ٹشو کا استعمال وغیرہ ناگزیر ہے۔
امریکہ میں استعمال کے لیے منظور شدہ ویکسین بنانے والے Moderna، Pfizer-BioNTech Johnson & Johnson اور AstraZenecaجو یورپ میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے، سب نے کہا ہے کہ وہ اومیکرون پر تحقیق کر رہے ہیں اور نئی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جلد نئی فارمولیشنوں کو تیار کرلیں گے۔
اس کے علاوہ Roche فارما کمپنی کی ذیلی کمپنی TIB Molbiol نے اومیکرون کے لیے تین نئی ٹیسٹ کٹس تیار کی ہیں تاکہ محققین اومیکرون کی شناخت کر سکیں اور اس کے پھیلاؤ اور خصوصیات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔
امریکہ پہلے ہی جنوبی افریقہ، ملاوی، زمبابوے، بوٹسوانا، نمیبیا موزمبیق اور لیسوتھو جیسے ممالک پر سفر کی نئی حدود کا اعلان کر چکا ہے، اس کے علاوہ اس کی پالیسی ان امریکی باشندوں کے لئے نرم ہے جو مستقل بنیادوں پر افریقہ میں مقیم ہیں لیکن انہیں امریکہ کے کسی بھی سفر سے قبل منفی کورونا وائرس رپورٹوں کو یقینی بنانا ہو گا۔ اس کے برعکس عالمی ادارہ صحت سفارش کرتا ہے کہ تمام ممالک کو اپنے محفوظ سفر اور دیگر احتیاطی تدابیر، رہنما اصولوں اور پالیسیوں کو تقویت دینی چاہئے اور صرف خطرات کے تجزیے و تحقیق کی روشنی میں اقدامات کرنے چاہئیں اور فی الوقت مکمل سفری پابندیوں سے گریز کرنا چاہیے۔
المیہ یہ بھی ہے کہ افریقی ممالک پہلے ہی سے خراب سیاسی اقتصادی و سماجی حالات سے دو چار ہیں،صحت کا بنیادی ڈھانچہ کمزور ہے ان کی آبادی کے صرف 7 فیصد حصے کو کرونا کی ویکسین مل سکی ہے جو کہ انتہائی تشویشناک اور مایوس کن صورت حال ہے۔ اب اومائیکرون کے اُبھرنے کے ساتھ ہی ایک بہت بڑی تباہی اور انسانی بدحالی کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے جس کے تدارک کے لیے اقوام عالم کی توجہ اور جنگی بنیادوں پر شراکت داری ناگزیر ہے۔ تاہم نہ صرف افریقہ بلکہ دنیا کے دیگر علاقوں اور علاقوں میں بھی ویکسینیشن کی شرح زیادہ ہونے کے باوجود علاقوں میں اومائیکرون کے پھیلاؤ کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ اس نئے وائرس کے زیادہ دیر تک ایک جگہ پر رہنے کے امکانات کم ہیں جیسا کہ ڈیلٹا کے تیزی سے پھیلاؤ سے ظاہرہوا ہے اور تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ وائرس جتنا زیادہ گردش کرے گا وائرس میں تبدیلیاں آنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
خوش قسمتی سے پاکستان میں آج تک اومیکرون کا صرف ایک مشکوک معاملہ رپورٹ ہوا ہے جس کی حتمی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔ تاہم غربت مہنگائی اور بیروزگاری کے بوجھ تلے دبے ہوئے دنیا کے پانچویں بڑے ملک جس کا نظام صحت پہلے ہی سے زبوں حالی کا شکار ہے اور جسے اس وقت ڈینگی اور سموگ جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے کو اومیکرون سے نمٹنے کے لئے تمام حفاظتی ایس او پیز و رہنما اصولوں پرعمل کرنا گزیر ہے اور اس کے علاوہ این سی او سی، ہیلتھ اتھارٹیز، صوبائی حکومتوں اور عوام سمیت تمام اسٹیک ہولڈرزکو اس صورت حال میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہو گا۔
یہ فیصلہ ٹی اے جی وی ای کے سامنے پیش کردہ شواہد پر مبنی تھا کہ کووڈ اُنیس وائرس میں کئی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں اور اس تبدیل شدہ وائرس کو اومیکرون کے نام سے شناخت دی گئی ہے۔ ان تبدیلیوں کی بنیاد پر یہ نسبتاً زیادہ آسانی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اس کے باعث ہونے والی بیماری کی شدت بھی زیادہ ہو سکتے ہے۔ اومیکرون کی دریافت نے پہلے سے خوف میں مبتلا دنیا کو مزید خوف زدہ کر کے رکھ دیا ہے۔
جیسا کہ زیادہ تر لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ وائرسوں میں خود کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے جسے سائنسی زبان میں میوٹیشن کہتے ہیں۔ خود میں تبدیلی لانے کی یہ صلاحیت زندگی کی کسی بھی قسم کے اندر فطری طور پر اپنی بقاء کے تحفظ کے زیر اثر قدرتی طور پر بھی ہو سکتی ہے اور لیبارٹریوں کے اندر مصنوعی طور پر بھی ایسا کرنا ممکن ہے۔ حیاتیاتی ہتھیار تیار کرنے کی ٹیکنالوجی اسی انسانی صلاحیتوں کی مرہون منت ہے جس کے تحت جراثیموں کے اندر مختلف تبدیلیاں لا کر انہیں دشمن کے خلاف استعمال کیا جات ہے اسے 'بیالوجیکل وار فئیر' کا نام دیا جاتا ہے۔ اب تک کرونا وائرس جو زیادہ خطرناک اقسام دریافت ہو چکی ہیں ان کی تفصیل ذیل میں بیان کی جا رہی ہے۔
1 ۔ الفا (بی 1.1.7): جس کی پہلی شناخت برطانیہ میں ہوئی اور یہ اب تک 50 سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے۔
2 ۔بیٹا (بی.1.351): جس کی پہلی شناخت جنوبی افریقہ میں ہوئی تھی لیکن برطانیہ سمیت کم از کم 20 دیگر ممالک میں اس کا پتہ چلا ہے۔
3۔گاما (پی.1): جس کی پہلی شناخت برازیل میں ہوئی لیکن جو برطانیہ سمیت 10 سے زائد دیگر ممالک میں پھیل چکی ہے۔
4 ۔ڈیلٹا (بی.1.617.2):جس کی شناخت پہلے ہندوستان میں ہوئی اور اب برطانیہ میں گردش کرنے والی سب سے عام قسم ہے ۔
5۔ ڈیلٹا پلس (اے وائی.4.2): جس پر برطانیہ کے حکام اس پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں
6۔اومیکرون (بی 1.1.529):26 نومبر 2021 کو ساوتھ افریقہ میں دریافت ہوئی، جس میں 50 تبدیلیاں موجود ہیں اور جو تا حال دنیا کے 38 ممالک میں پھیل چکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے کورونا کی مختلف نئی اقسام کی درجہ بندی کے چار گروپس بنائے ہیں:
زیر نگرانی اقسام، توجہ و دلچسپی کی حامل اقسام، تشویش والی اقسام، اعلیٰ نتیجہ خیز اقسام
اومیکرون کی بوٹسوانا اور جنوبی افریقہ میں سب سے پہلے شناخت کی گئی۔کورونا وائرس کی اس نئی قسم نے سائنسدانوں اور صحت عامہ کے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ اس میں ایک ہی وقت میں بہت زیادہ تعداد میں تبدیلیاں پائی گئی ہیں۔ اگر کسی وائرس میں بہت زیادہ تبدیلیاں آ جائیں تو اس بات کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے کہ نئی قسم ممکنا طور پر زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے اور زیر استعمال ویکسین کو غیر موثر بنانے کی صلاحیت کی حامل ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اومیکرون کو '' تشویشناک قسم '' قرار دیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ اس سے لاحق عالمی خطرات بہت شدید ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ اومیکرون جدید دنیا کے 38 ممالک میں اپنی پہچان کروا چکا ہے لیکن تا حال اس سے موت کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔
اس وقت یورپ میں اومیکرون کی موجودگی کے شواہد سامنے آ رہے ہیں۔
آسٹریا کی حکومت نے اب تک ایک کیس کی تصدیق کی ہے، ٹائرول کے علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص جس نے حال ہی میں جنوبی افریقہ کا سفر کیا تھا۔
بیلجیم نے یورپی سرزمین پر اومیکرون قسم کے پہلے کیس کی نشاندہی کی ہے
چیک ریپبلک کے شمال میں ایک علاقائی ہسپتال میں خاتون میں تصدیق ہوئی ہے جسے ویکسین لگائی جا چکی تھی اور اس میں ہلکی علامات تھیں یہ جنوبی افریقہ اور دبئی کے راستے چیک جمہوریہ واپس آنے سے پہلے نمیبیا گئی تھیں۔
ڈنمارک کے محکمہ صحت کے حکام نے ملک میں اس کی موجودگی کی تصدیق کی ہے
فن لینڈ اس وقت مختلف قسم کے دو مشتبہ کیریئرز کی تحقیقات کر رہا ہے۔ دونوں صورتوں میں، خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بیرون ملک متاثر ہوئے ہیں۔
فرانس کی وزارت صحت نے 3 دسمبر کو اس بات کی تصدیق کی تھی کہ فرانس میں اومیکرون کے نو کیسز کا پتہ چلا ہے۔
تا دمِ تحریر جنوبی جرمن ریاست باویریا میں صحت کے حکام کی جانب سے اومیکرون کی انفیکشن کے دو کیسز کی تصدیق کی گئی ہے۔ دونوں مسافر جنوبی افریقہ سے واپس آ کر میونخ کے ہوائی اڈے پر پہنچے تھے۔
یونان کے جزیرے کریٹ پر ایک شخص کی مثبت رپورٹ آئی ہے اور وہ بھی حال ہی میں جنوبی افریقہ سے واپس آیا ہے۔
اومیکرون کے خطرے کے تناظر میں سرحدی پابندیاں عائد کرنے کے باوجود، آئس لینڈ کے محکمہ صحت کے حکام نے یکم دسمبر کو اعلان کیا کہ انہوں نے ملک میں اومیکرون وائرس کی انفیکشن میں مبتلا شخص کا پتہ چلایا ہے جس نے بیرون ملک کوئی سفر نہیں کیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قسم آئس لینڈ میں کچھ عرصے سے موجود ہے۔
اٹلی میں بھی ایک تصدیق شدہ کیس موجود ہے۔ نیپلز کے علاقے سے تعلق رکھنے والا یہ شخص موزمبیق سے واپس آیا تھا، اطالوی ہائر انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (آئی ایس ایس) نے اس کا اعلان کیا ہے۔
آئرلینڈ کی نیشنل وائرس ریفرنس لیبارٹری کے مطابق، آئرلینڈ میں اومیکرون کے پہلے تصدیق شدہ کیس کی شناخت کی گئی ہے یہ شخص حال ہی میں جنوبی افریقہ کے ایک ملک سے سفری پابندیاں عائد کیے جانے سے پہلے واپس آیا تھا ۔
اب تک اومیکرون کے سب سے تصدیق شدہ کیسوں کے ساتھ نیدرلینڈز پورے یورپ میں پہلے نمبر پر ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ (RIVM) نے کہا ہے کہ ملک میں جنوبی افریقہ سے حال ہی میں آنے والے 61 مسافروں کے ٹیسٹ کئے گئے جن میں سے کم از کم 14 میں اومیکرون کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔
پرتگال کے ایس اے ڈی فٹ بال کلب کے 13 کھلاڑی اپنے منتظمین سمیت جنوبی افریقہ کے دورے کے بعد اس سے متاثر ہوئے ہیں تاہم ان کے مزید ٹیسٹ کیے جانے ہیں۔
سپین کے دارالحکومت میڈرڈ کے ایک ہسپتال نے اعلان کیا کہ سپین میں اومیکرون قسم کے ایک تصدیق شدہ کیس کا پتہ چلا ہے۔
سویڈن کی نیشنل پبلک ہیلتھ ایجنسی نے ایک کیس کی تصدیق کی ہے اور یہ شخص بھی جنوبی افریقہ سے واپس آیا ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں محکمہ صحت کے حکام نے جنوبی افریقہ سے واپس آنے والے پہلے کیس کی تصدیق کر دی ہے جبکہ 2000فراد کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔
ناروے میں اومیکرون کے کیسز کی تعداد بڑھ کر 13 ہو گئے ہے۔ زمبابوے نے اسکے 50 کیسز کی نشاندہی کی ہے۔
برطانیہ میں مزید 86 کیسوں کی شناخت ہونے کے بعد امیکرون کے کل کیسز کی تعداد 246 ہوچکی ہے۔ برطانیہ کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے تمام بالغ افراد کی وائرس کے خلاف قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے دو ماہ کے اندر ویکسین کی بوسٹر ڈوز( تیسرا انجیکشن) لگا دی جائے گی۔ برطانیہ میں کرونا ویکسین کی بوسٹر یا تیسری خوراک کی سفارش ان افراد کے لیے کی گئی ہے جن کی عمر اٹھارہ سال سے زیادہ ہے ،فرنٹ لائن ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر ورکرز، اولڈ ہاوسز میں مقیم بوڑھے لوگ، سولہ سے انچاس سال کی عمر کے افراد جو پہلے ہی سے دیگر امراض کا شکار ہیں۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں کورونا ویکسین کی تیسری ڈوز دینے کا کام پہلے ہی جاری ہے۔
اس وقت تقریبا 16 امریکی ریاستیں ا ومیکرون سے متاثر چکی ہیں یعنی یہ ایک تہائی امریکہ میں پہنچ چکا ہے۔ یاد رہے کہ یکم دسمبر کو اومیکرون کی امریکہ میں تصدیق ہوئی تھی جب ایک مسافر جنوبی افریقہ سے کیلیفورنیا واپس آیا۔ حالانکہ اس شخص کو ویکسین کی دونوں ڈوز لگ چکی تھیں اس کے باوجود اس میں بیماری کی علامات ظاہر ہوگئیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا اومیکرون پہلے ہی امریکہ میں گردش کر رہا تھا تا ہم مزید تحقیقات جاری ہیں۔ پریشان کُن بات یہ ہے ان میں سے زیادہ تر ریاستوں میں کورونا کے خلاف ویکسینیشن کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ علاوہ ازیں بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مرکز نے ایئر لائنز کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان تمام مسافروں کے نام اور رابطے کی معلومات فراہم کریں جو 29 نومبر سے امریکہ جانے والی پروازوں میں سوار ہوئے تھے اور جو اس سے قبل دو ہفتوں کے دوران جنوبی افریقہ میں تھے۔
بھارت میں اب تک اومیکون کے تیسرے کیس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ جبکہ بھارت میں کورونا انفیکشنز کی کل تعداد 35 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسرائیل میں اومیکرون کے سات نئے کیسز اور 27 مشتبہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
برازیل جو کہ جنوبی امریکہ کا سب سے بڑا ملک ہے اس کے پہلے کیسز بھی سامنے آچکے ہیں۔
افریقی ملک زیمبیا کی وزارت صحت نے نے بھی تین افراد میں اومیکون انفیکشن کی تصدیق کی ہے۔
بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مرکز نے ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس میں ایئر لائن کیریئرز کو امریکہ میں داخل ہونے سے 14 دن قبل آٹھ افریقی ممالک جمہوریہ بوٹسوانا، سلطنت ایسوتینی، مملکت لیسوتھو، جمہوریہ ملاوی، جمہوریہ موزمبیق، جمہوریہ نمیبیا، جمہوریہ جنوبی افریقہ اور جمہوریہ زمبابوے میں رہنے والے مسافروں کی معلومات جمع کرانے کے لیے کہا گیا ہے۔
دنیا کے زیادہ تر ملک جنوبی افریقہ پر سفری پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ اس صورتحال پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ڈائریکٹرجنرل عالمی ادارہ صحت ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا کہ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ افریقی ممالک کو اومیکرون کی دریافت میں حصہ لینے پر سزا دی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مکمل سفری پابندیوں سے اومیکرون کے بین الاقوامی پھیلاؤ کو نہیں روکا جا سکتا اُلٹا یہ ہو گا کہ جن ممالک کو ان پابندیوں کا نشانہ بنایا جائے گا وہاں روٹی روزی کمانے کے معاملات بُری طرح سے متاثر ہوں گے جس سے انسانی المیے جنم لے سکتے ہیں۔ اس ناموافق صورت حال پر ان افریقی ممالک کے رہنماؤں نے بھی تنقید کی ہے ان کا کہنا ہے کہ سفری پابندیوں کے باعث سیاحت پر انحصار کرنے والے ممالک کی معیشت پر انتہائی منفی اثر پڑے گا جس کا مطلب یہ ہو گا کہ عام لوگوں کی زندگیاں شدید مشکلات کا شکار ہو جائیں گی۔ جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامفوسہ نے کہا ہے کہ سفر کی ممانعت سے وائرس کی اس نئی قسم کے پھیلاؤ کو روکنے میں کوئی مدد حاسل نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سفری پابندی سے متاثرہ ممالک کی معیشتوں کو مزید نقصان پہنچے گا اور اس سے کورونا وباء سے نمٹنے کی ان کی پہلے سے ناکافی صلاحیت کو مزید نقصان پہنچے گا۔
ڈبلیو ایچ او کے تحت طبی ماہرین اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کس طرح یہ تبدیلیاں اومیکرون وائرس کی ایک سے دیگر افراد کو منتقلی اور بیماری کی شدت کو متاثر کرتی ہیں اور کوویڈ ٹیسٹ، علاج اور ویکسین پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
دوسری جانب صحت عامہ کے ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جب تک سائینس دان تبدیل شدہ وائرس کو ٹھیک طرح سمجھ نہیں لیتے لوگوں کو انتہائی احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ گو کہ ابھی تک اس بات کا کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے کہ اومیکرون پچھلی اقسام مثال کے طور پر ڈیلٹا وائرس کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے یا نہیں 'جس نے امریکہ اور دیگر ممالک میں کافی تیزی دکھائی ہے' لیکن اس کے باوجود اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ یہ نئی قسم زیادہ شدت سے متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
اومیکرون کے بارے میں ابھی بہت کچھ نامعلوم ہے بشمول یہ کہ آیا یہ زیادہ منتقلی اور زیادہ سنگین بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں، البتہ کچھ شواہد موجود ہیں کہ یہ لوگوں کو زیادہ آسانی سے دوبارہ متاثر کر سکتا ہے۔
ابتدائی علامات میں اومیکرون صرف معمو لی بیماری کا سبب بن سکتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر یہ بات بھی سامنے آئی ہے اومیکرون نوجوانوں کو زیادہ متاثر کر رہا ہے جیسے کہ افریقہ میں دیکھا جا رہا ہے۔جنوبی افریقی میڈیکل ایسوسی ایشن نے انکشاف کیا ہے کہ ملک کے ہسپتالوں میں داخل ہونے والوں میں سے زیادہ تر افراد کو پہلے ہی سے کورونا کی مکمل ویکسین نہیں لگائی گئی یعنی یہ غیر ویکسین شدہ ہیں۔
اس کے علاوہ، زیادہ تر مریضوں میں صرف معمولی سی کھانسی تھی جبکہ ان میں ذائقہ اور سونگھنے کی حس کھونے کی علامات بھی سامنے نہیں آئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اومیکرون کا کرونا اینٹی باڈیز سے علاج زیادہ موثرثابت نہیں ہو سکا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ نئی قسم جارحانہ طور پر پھیلتی ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے وسیع پیمانے پر 'مونوکلونل اینٹی باڈی ادویات' کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات کرنا بھی قبل از وقت ہوگا کہ اومیکرون کے خلاف کورونا کی ویکسین کتنی موثر ثابت ہوتی ہے تاہم تمام لوگوں کو کرونا ویکسین لگنی چاہیے۔ مز ید براں ویکسین بنانے والوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ وہ کرونا کی نئی اقسام کے خلاف ویکسین کو زیادہ موثر بنانے کے لیے موجودہ فارمولیشنز کو بہتر کر رہے ہیں۔ قابل مذمت بات یہ بھی ہے کی امیر ممالک ویکسین کی ذخیرہ اندوزی جب کہ غریب ممالک اس کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ کورونا کی اسپائک پروٹین 'اینٹی باڈیز' کا سب سے بڑا ہدف ہوتی ہیں جو کورونا انفیکشن سے لڑنے کے لیے جسم میں مدافعتی طاقت پیداکرتی ہیں۔ اومیکرون میں بہت ساری اکٹھی تبدیلیاں یہ خدشات پیدا کرتی ہیں کہ یہ اسے انفیکشن یا پھر ویکسین سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز سے بچنے کے قابل بنا سکتی ہیں۔یہ بات اس امکان کو بھی بڑھاتی ہے کہ یہ صورتحال مختلف قسم کے مونوکلونل اینٹی باڈی سے علاج کی افادیت کو کم کرسکتی ہیں -
ویکسین کے چھ ماہ یا اس سے زیادہ بعد قوت مدافعت میں کمی کے امکانات کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ ماہرین صحت اینٹی باڈیز کی سطح بڑھانے کے لیے کرونا ویکسین کی اضافی خوراک لگانے کی تجویز دے رہے ہیں۔ اس لیے لوگ بوسٹر شاٹ لگوائیں جو ممکنہ طور پر شدید بیماری کے خلاف اضافی تحفظ فراہم کرے گا۔ یہ بات بہت قابل توجہ ہے اگر کسی کو پہلے کرونا ویکسین نہیں لگائی گئی تو وہ فوراً ویکسین لگوائیں اور اگر ویکسین لگ چکی ہے تو پھر بھی وہ تمام حفاظتی تدابیر وطریقوں کا استعمال جاری رکھیں جو کرونا سے بچاؤ کے حوالے سے گزشتہ کئی مہینوں سے پوری دنیا میں کیے جا رہے ہیں ۔
یہاں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کی جب ڈبلیو ایچ او نے کورونا وائرس کی تبدیل شدہ نئی اقسام کو نام دینا شروع کیے تو انہوں نے یونانی حروف تہجی الفا، بیٹا، گاما، ڈیلٹا وغیرہ کی طرف رجوع کیا تاکہ ان اقسام کی وضاحت میں آسانی ہو۔ پہلی تشویش ناک قسم، 'الفا' کی شناخت 2020 کے آخر میں برطانیہ میں کی گئی تھی اس کے بعد جنوبی افریقہ میں جلد ہی 'بیٹا' آیا۔لیکن سسٹم نے حروف تہجی کی ترتیب میں اگلے دو حروف Nu اور Xi کو چھوڑ دیا ہے۔حکام کا خیال تھا کہ Nu بہت آسانی سے ''نئے'' کے ساتھ مکس ہو جائے گا جبکہ اگلا خط Xi چین کے اعلیٰ رہنما شی جن پنگ کا نام ہے۔
ڈیلٹا جس کی پہلی بار ہندوستان میں شناخت کی گئی ہے گزشتہ ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے سے عالمی برادری کوایک اور تشویشناک صورت حال دوچار کر رہی ہے۔
نئے خطرات ممکنا طور پر صحت عامہ کی موجود سہولیات اور صلاحیت سے بھی کہیں زیادہ بڑھ کر ہو سکتے ہیں۔ اگر طبی ماہرین کے اندیشے درست ثابت ہو گئے تو نئی قسم کے نتیجے میں ہونے والی معاشی تباہی خوشحال ممالک کو تقریباً اتنی ہی مشکل میں ڈال سکتی ہے جتنی ترقی پذیر دنیا اس سے دو چار ہو رہی ہے۔ ایک اکیڈمک اسٹڈی کے نتیجے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ امیر ممالک کو کھربوں ڈالر کا معاشی نقصان ہوسکتا ہے جبکہ غریب ممالک کے زیادہ تر باشندے تو ویکسین سے ہی محروم ہیں۔ جاری کرونا عالمی وباء گزشتہ ڈھائی سال کے زائد عرصے سے عالمی معیشت پر اثر انداز ہو رہی ہے، اب ایک بار پھر اومیکرون کی وجہ سے اسٹاک اور تیل کی قیمتیں کے رد عمل گر رہی ہیں اور دنیا بھر میں آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مزید تیزی سے گر سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ تجارت ،نقل و حمل پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں دنیا کو ایک اور معاشی،معاشرتی اور نفسیاتی بحران سمیت دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں اومیکرون کی وجہ سے سفری پابندیوں نے افریقی ممالک میں ناراضگی کو جنم دیا ہے جن کا خیال ہے کہ براعظم ایک بار پھر مغربی ممالک کی خوف کے نتیجے میں بنائی جانے والی پالیسیوں کا شکار ہے جو انہیں ویکسین فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جبکہ افریقی ممالک کے پاس ایسی صورتحال سے نمٹنے کے انتظامات کے لیے درکار وسائل پہلے ہی نا کافی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت پہلے ہی سفری پابندیوں کو غیر منصفانہ اور نقصان دہ قرار دے رہا ہے۔ ادارے کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ تمام ممالک کی تشویش کو بخوبی سمجھتے ہیں لیکن یہ ممالک اپنے شہریوں کو اس نئی قسم کے خلاف تحفظ فراہم کررہے ہیں جس کی چھان بین جاری ہے اورتا حال کوئی بھی شوائد حتمی نہیں ہیں۔ اگرچہ اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں اس نئی قسم کی تصدیق ہو چکی ہے لیکن وسیع پیمانے پر سفری پابندیوں کے باوجود قوی امکان یہ ہے کہ یہ پہلے سے ہی بہت سے ممالک میں پہنچ چکا ہے، یعنی موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پھیلاؤ ظاہر کرتا ہے کہ اسے سرحد عبور کرنے سے روکنا کتنا مشکل ہے اورمتاثر ہونے والے افراد تشخیص سے پہلے ہی اومیکرون کا شکار ہو چکے تھے۔
مثال کے طور پرایک اطالوی شخص تشخیص ہونے سے پہلے کئی دنوں تک اپنے ملک میں گھومتا رہا جو کے ایک بڑے پھیلاو کا سبب بن سکتا ہے۔ حالیہ رپورٹ ہونے والے کیسوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے حال ہی میں بیرون ملک سفر کیا ہے۔یہ بھی امکان ہے کہ اومیکرون بہت سے دیگر ممالک میں موجود ہے لیکن ابھی تک ا س کی تصدیق نہیں ہو پائی۔ جنوبی افریقہ کے لیے کم از کم 34 ممالک نے سفری پابندیوں میں اضافہ کیا ہے جس کی صدر سیرل رامافوسا نے سخت مذمت کی ہے اور اقوام سے ان کو واپس لینے کا مطالبہ کیاہے
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا اومائیکرون کرونا کی دیگر اقسام بشمول اس سے پہلے دریافت ہونے والی قسم ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے ایک شخص سے دوسرے شخص میں پھیلتا ہے یا نہیں۔اس نئے قسم سے جنوبی افریقہ کے سبھی علاقوں میں مثبت کیسزز کی تعدادمیں نمایاں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ سمجھنے کے لئے تحقیق و جستجو جاری ہے کہ آیا ایسا صرف اومیکرون یا دیگر عوامل کی وجہ سے ہے۔ جنوبی افریقہ میں اسپتالوں میں داخلے کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کی وجہ اومائیکرون کے علاوہ دیگر انفیکشن بھی ہوسکتے ہیں،ابھی یہ ابہام بھی موجود ہے ہے۔ ان کے علاوہ ایسی کوئی معلومات بھی نہیں ہیں جن سے یہ پتہ چلے کہ اومائیکرون سے وابستہ علامات کرونا کی دیگر اقسام سے پیدا ہونے والی علامات سے کتنی مختلف ہیں۔
ابتدائی طور سامنے آیا ہے کہ اس کے متاثرہ شروع میں یونیورسٹی کے طلباء اور کم عمر افراد تھے جن میں معمولی نوعیت کی بیماری ظاہر ہوئی لیکن اومائیکرون کی شدت کو سمجھنے کے لیے مزید وقت چاہیے ہو گا۔ ابتدائی کیسوں سے یہ بھی معلومات ملی ہیں کہ وہ لوگ جو پہلے کورونا کے شکار ہوئے اور وہ رو برو صحت ہو چکے ہیں، وہ ا ب بھی اومیکرون سے دوبارہ زیادہ آسانی سے متاثر ہو سکتے ہیں لیکن اس بارے میں معلومات محدود ہیں۔ اس حوالے سے مصدقہ تفصیلات ایک دو ہفتوں میں دستیاب ہوجائیں گی۔ اومیکرون پر موجودہ کورونا ویکسین کے اثرات کی جانچ کے لئے ڈبلیو ایچ او تکنیکی شراکت داروں کے ساتھ مل کر عملی اقدامات پر کام کر رہا ہے۔ کرونا ویکسین بیماری سے بچاو اور بیماری کی شدت کم کرنے میں معاون ہے لیکن امیکرون کے حوالے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ اومیکرون کی تشخیص کے لیے بھی موجودہ پی سی آر ایک مستند ٹیسٹ کے طور پر دستیاب ہے جس سے اومیکرون سمیت کرونا وائرس کی تمام اقسام کی باآسانی تشخیص کی جا سکتی ہے۔ جبکہ علاج کے لئے سٹیرائڈز اور انٹرلیوکن 6 ریسیپٹر بلاکرز 'جو کرونا وائرس سے متاثر مریضوں کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں' اومیکرون کے کیسز میں استعمال کے لئے بھی دستیاب ہیں لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ یہ دوائیں اومیکرون کے خلاف کتنی موثر ثابت ہوتی ہیں۔ اس وقت ڈبلیو ایچ او اومائیکرون کو سمجھنے کے لئے دنیا بھر کے محققین کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ رابطے میں ہے۔ جلد ہی اس کی تشخیص، علامات،انفیکشن کی شدت، ویکسین کی کارکردگی، ٹیسٹ اور علاج سے متعلق رہنمائی و آگاہی دستیاب ہوگی۔
اس کے علاوہ یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ کرونا ویکسین تک رسائی میں عدم مساوات کو فوری طور پر ختم کیا جائے تاکہ غریب پسماندہ ممالک و طبقوں سمیت تمام کے لئے اس کی بلا تعطل دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اومیکرون وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لئے موثر اقدامات جس میں دوسروں سے کم از کم 1 میٹر کا جسمانی فاصلہ، اچھی فٹنگ والے فیس ماسک کا استعمال، ہوا دار ماحول، پُرہجوم جگہوں سے گریز، ہاتھوں کی صفائی اور کھانسی یا چھینک کیلیے کہنی یا ٹشو کا استعمال وغیرہ ناگزیر ہے۔
امریکہ میں استعمال کے لیے منظور شدہ ویکسین بنانے والے Moderna، Pfizer-BioNTech Johnson & Johnson اور AstraZenecaجو یورپ میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے، سب نے کہا ہے کہ وہ اومیکرون پر تحقیق کر رہے ہیں اور نئی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جلد نئی فارمولیشنوں کو تیار کرلیں گے۔
اس کے علاوہ Roche فارما کمپنی کی ذیلی کمپنی TIB Molbiol نے اومیکرون کے لیے تین نئی ٹیسٹ کٹس تیار کی ہیں تاکہ محققین اومیکرون کی شناخت کر سکیں اور اس کے پھیلاؤ اور خصوصیات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔
امریکہ پہلے ہی جنوبی افریقہ، ملاوی، زمبابوے، بوٹسوانا، نمیبیا موزمبیق اور لیسوتھو جیسے ممالک پر سفر کی نئی حدود کا اعلان کر چکا ہے، اس کے علاوہ اس کی پالیسی ان امریکی باشندوں کے لئے نرم ہے جو مستقل بنیادوں پر افریقہ میں مقیم ہیں لیکن انہیں امریکہ کے کسی بھی سفر سے قبل منفی کورونا وائرس رپورٹوں کو یقینی بنانا ہو گا۔ اس کے برعکس عالمی ادارہ صحت سفارش کرتا ہے کہ تمام ممالک کو اپنے محفوظ سفر اور دیگر احتیاطی تدابیر، رہنما اصولوں اور پالیسیوں کو تقویت دینی چاہئے اور صرف خطرات کے تجزیے و تحقیق کی روشنی میں اقدامات کرنے چاہئیں اور فی الوقت مکمل سفری پابندیوں سے گریز کرنا چاہیے۔
المیہ یہ بھی ہے کہ افریقی ممالک پہلے ہی سے خراب سیاسی اقتصادی و سماجی حالات سے دو چار ہیں،صحت کا بنیادی ڈھانچہ کمزور ہے ان کی آبادی کے صرف 7 فیصد حصے کو کرونا کی ویکسین مل سکی ہے جو کہ انتہائی تشویشناک اور مایوس کن صورت حال ہے۔ اب اومائیکرون کے اُبھرنے کے ساتھ ہی ایک بہت بڑی تباہی اور انسانی بدحالی کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے جس کے تدارک کے لیے اقوام عالم کی توجہ اور جنگی بنیادوں پر شراکت داری ناگزیر ہے۔ تاہم نہ صرف افریقہ بلکہ دنیا کے دیگر علاقوں اور علاقوں میں بھی ویکسینیشن کی شرح زیادہ ہونے کے باوجود علاقوں میں اومائیکرون کے پھیلاؤ کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ اس نئے وائرس کے زیادہ دیر تک ایک جگہ پر رہنے کے امکانات کم ہیں جیسا کہ ڈیلٹا کے تیزی سے پھیلاؤ سے ظاہرہوا ہے اور تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ وائرس جتنا زیادہ گردش کرے گا وائرس میں تبدیلیاں آنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
خوش قسمتی سے پاکستان میں آج تک اومیکرون کا صرف ایک مشکوک معاملہ رپورٹ ہوا ہے جس کی حتمی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔ تاہم غربت مہنگائی اور بیروزگاری کے بوجھ تلے دبے ہوئے دنیا کے پانچویں بڑے ملک جس کا نظام صحت پہلے ہی سے زبوں حالی کا شکار ہے اور جسے اس وقت ڈینگی اور سموگ جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے کو اومیکرون سے نمٹنے کے لئے تمام حفاظتی ایس او پیز و رہنما اصولوں پرعمل کرنا گزیر ہے اور اس کے علاوہ این سی او سی، ہیلتھ اتھارٹیز، صوبائی حکومتوں اور عوام سمیت تمام اسٹیک ہولڈرزکو اس صورت حال میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہو گا۔