نواب واجد علی کم از کم منافق نہیں تھا
وہ خم ٹھوک کر دربار میں رقص کرتا تھا۔ مگر یہ اکابرین تو نیکی اور پارسائی کے جعلی لباس میں موجود ہیں۔
ISLAMABAD:
اودھ' برصغیر کی امیر ترین ریاستوں میں سے ایک تھی۔ انگریز اس خطہ کو ہندوستان کی ملکہ کہتے تھے۔
باغات' زرخیز زمین' اناج کی بے پناہ پیداوار ریاست کو بقیہ تمام برصغیر سے ممتاز کرتی تھیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اودھ کی عسکری اہمیت سے بھی واقف تھی۔ انھیں اس امیر حکومت کے لیے ایک ایسابادشاہ درکار تھا جو صرف برائے نام ہو۔جس کے پاس کوئی اختیار نہ ہو مگر وہ صرف اور صرف تخت نشین رہے۔
ذہن میں یہی سمجھتا رہے کہ وہی اصل حکمران ہے۔ اس کے لیے واجد علی شاہ سے بہترانتخاب ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ کمپنی بہادر نے 1847 میںاس شخص کوریاست کا بادشاہ بنا دیا۔ واجد علی شاہ کو حکومت کرنے میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ صرف اور صرف خواتین کی محفل میں رہنا مقصد حیات سمجھتا تھا۔
نو برس کے اقتدار نے اودھ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا اور مسلمانوں کی امیر ترین ریاست ' کمپنی بہادر کی غلامی میں آ گئی۔ واجد علی کیا کرتا تھا۔ اس کے شب و روز کیا تھے۔ اس کی برائے نام طرز حکمرانی کس نوعیت کی تھی۔ یہ وہ مرثیہ ہے جس پر صرف ماتم کیا جا سکتا ہے۔
کتھک ڈانس مقامی طور پر مندروں میں مذہبی زاویہ سے پیش کیا جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ اودھ کی طوائفوں نے بھی کتھک رقص پیش کرنا شروع کر دیا تھا۔ واجد علی شاہ نے ٹھاکر پرسادجی کو اس معاملہ میں اپنا استاد مقرر کیا۔ برصغیر کے نامور رقاص' کلکہ بندہ نام کے بھائیوں کو دربار میں اعلیٰ ترین مرتبہ دیا۔ اور بذات خود کتھک ڈانس سیکھنا شروع کر دیا۔
اب ہوتا یہ تھا کہ بادشاہ سلامت دربار میں ان گنت خواتین کے ساتھ کتھک ڈانس پیش کرتے تھے۔ برصغیر کی ادنیٰ درباری روایتوں کے عین مطابق' خوب داد وصول پاتے تھے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ نواب صاحب عجیب و غریب ڈرامے قلمبند فرماتے تھے۔''رادھا کنھیا کا قصہ'' ان کا اپنا تحریر شدہ ڈرامہ تھا۔ جسے ''رأحس منزل'' نامی محل میں ان کی بیویوں نے پیش کیا تھا۔ کردار کی گراوٹ کا اندازہ فرمائیں کہ بادشاہ سلامت کی زندگی میں ایک برس ایسا بھی تھا۔ جس میں وہ بلا ناغہ دلہا بنتے تھے اور روز ایک نئی شادی کرتے تھے۔ ان کی کتنی عارضی اور مستقل بیگمات تھیں۔ اس کااندازہ لگانا ناممکن ہے۔
واجد علی شاہ کی محافظین سیاہ فام خواتین تھیں۔ جن میں سے اکثر ان کی منکوحہ اور غیر منکوحہ بیویاں تھیں۔ اودھ کے معاملات اتنے برباد ہوگئے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان کی ریاست پر مکمل قبضہ کر لیا۔ واجد علی شاہ کو جلا وطن کر دیا گیا۔ اور اسے کلکتہ میں ایک جاگیر کا مالک بنا دیا گیا۔ 1874 میں نیویار ک ٹائمز نے واجد علی شاہ کی زندگی پر تحقیق کرنے کے لیے اپنا خصوصی نمایندہ کلکتہ بھجوایا۔ نواب کی حکومت ختم ہو چکی تھی۔
وہ بارہ لاکھ سالانہ پینشن پر زندہ تھا۔ اس اخباری نمایندہ نے جو رپورٹ ' اخبار میں چھپنے کے لیے ترسیل کی۔ وہ کسی بھی ملک' قوم' ریاست اور لیڈر کے لیے صرف اور صرف ایک نوحہ ہے۔ نواب نے سات ہزار افراد کے لیے ایک گراؤنڈ بنوایا ہوا تھا جس میں ان گنت بھانڈ ' رقاص' موسیقار' طوائفیں اور بیگمات ' واجد علی کے حضور قصیدہ پڑھتی تھیں۔ اٹھارہ ہزار کبوتر' سیکڑوں بندر اور ریچھ بھی پال رکھے تھے۔
واجد علی خود تو بدنامی کے عمیق گڑھے میں ہمیشہ کے لیے گر ہی گیا۔ مگر اس کی فضول خرچیوں' حد درجہ عیاشیوں نے مسلمانوں کی رئیس ترین ریاست کو غلام بنا دیا۔ اخراجات بے پناہ اور آمدنی محدود 'اودھ کی حکومت کا ایک ایک بال سود خوروں کے پاس گروی پڑا ہوا تھا۔ اور نواب دربار میں کتھک ڈانس کرنے میں مصروف تھا۔ عام لوگو ں کے لیے ریاست کوٹیکس دینا ناممکن ہوچکا تھا۔ مگر واجد علی موسیقی اور کبوتروں پر تحقیق کر رہاتھا۔ اودھ جل رہا تھا مگر نواب ٹھمری کے نئے سر لگانے میں مصروف کار تھا۔
ذہن میں یہ سوال ضرور آئے گا کہ بھلا ہمارا ایک بدکردار نواب اور اس کی غلیظ حرکات سے کیا تعلق۔ ایک نظر سے دیکھیے تو شاید کوئی تعلق نہیں۔ کہاں 1856کا اودھ اور کہاں تقسیم ہند کے بعدبننے والا پاکستان۔ مگر میری غلطی کو معاف فرمایئے۔طالب علم کو اودھ' واجد علی اور اپنے ملک میں حد درجہ گہری مماثلت نظر آ رہی ہے۔ کیا اس میں کوئی شبہ ہے کہ پاکستان حد درجہ مقروض ملک ہے۔ پوری دنیا میں ہماری عملی حیثیت ایک بھک منگے کی سی ہے۔
مگر کیا آپ کو ہماری سابقہ اور موجودہ حکومتوں اورطرز حکمرانی سے گمان ہوتا ہے کہ ہم ایک غریب ملک ہیں۔ ہمارے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ ہم دنیا کی امیر ترین ریاست ہیں بلکہ ہم امریکا' چین اور ورلڈ بینک کو امداد دیتے ہیں۔ تنقیدی نظر سے پرکھیے ۔ مختلف ادوار کے صدور' وزراء اعظم ' اکابرین کے عملی طرز کو سامنے رکھیے ۔ ان کے رٹے رٹائے' لفظی بیانیے کے اندر غور سے جھانک کر دیکھیے۔ حقائق دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ مثال عرض کرتا ہوں۔امریکا یاترہ ' ہمارے کسی بھی وزیر اعظم کے لیے اہم ترین فریضہ ہے۔
انکا خیال ہے کہ اگر امریکی صدر کے ساتھ صرف تصاویریں کھنچوالیں تو اپنے ملک میں حکومت کی مضبوطی کا بھرپور تاثر دینے میں آسانی ہو جائے گی۔ کیا آپ کے علم میں ہے کہ امریکا کا دو تین دن کا سرکاری دورہ جس میں محض چند افراد کے اخراجات امریکی حکومت برداشت کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کیا معاملات ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک سابقہ وزیراعظم ' اٹھارہ سے پچیس ہزار ڈالر یومیہ کے ہوٹل میں معہ اہل و عیال قیام فرماتے تھے۔ یومیہ کا لفظ حد درجہ قابل توجہ ہے۔ اگر امریکی حکومت نے دس بندوں کے سرکاری اخراجات کا دو تین دنوں کا بوجھ برداشت کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
تو ہمارے منتخب اورغیر منتخب حکمران ساٹھ سے دو سو آدمیوں کے وفد کو ساتھ لے جانا پسند فرماتے تھے۔ بیگمات' کروڑوں روپے کی شاپنگ کرتی تھیں۔ رشتہ دار' مصاحبین ساتھ ساتھ اپنی فرمائشیں پوری کرتے تھے۔ سفارت خانوں کو دھمکی دے کر مجبور کیا جاتا ہے کہ وفد کے لیے مہنگی ترین گاڑیاں کرایے پر حاصل کریں۔ کئی بار سفارت خانے ' گاڑیوں کا کرایہ ادا کرنے کی حیثیت تک نہیں رکھتے تھے۔ اور پھر بیرون ملک ہماری وہ درگت بنائی جاتی ہے کہ خدا کی پناہ ۔ مگر اس اثناء میں بادشاہ سلامت اپنے وفد کے ساتھ واپس پاکستان آ چکے ہوتے تھے۔
صرف چند برس پہلے کی بات ہے ۔ لندن کے سب سے مہنگے اسٹور یعنی ہیرڈز پر ایک سابقہ پاکستانی وزیراعظم کا خاندان شاپنگ کے لیے گیا۔ یہ اسٹور حد درجہ بیش قیمت چیزوں کے لیے مشہور ہے۔ خاتون اول اور ان کے بیٹے بیٹیوں نے تین سے پانچ ملین پاؤنڈز کی خریداری فرمائی۔ ان کے سامان کے لیے ہیرڈز اسٹور سے متعدد سوٹ کیس خریدے گئے۔ اور پھر یہ مکمل سامان ' مفت ' یعنی کسی کرایے کے بغیر قومی ایئرلائن کے ذریعے اسلام آباد منتقل کیاگیا۔ وہاں سے چار پانچ پک اپس پر انھیں لاہور گھر میں منتقل کردیا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جمہوریت واقعی بہترین انتقام ہے۔
آج بھی سابقہ وزیراعظم ' مہنگے ترین سوٹ پہن کر جمہوریت کے فوائد پر خطبہ دیتے نظر آتے ہیں۔ حیرانگی یہ ہے کہ کسی بھی وزیراعظم یا صدر کے عملی رویے میں رتی برابر بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ ہمارے ایک تہجد گزار صدر' بیٹے کی گریجویشن کے موقعے پر پورا جہاز کروا کر ' امریکا تشریف لے گئے تھے۔ ان کے عزیز رشتے دار تمام مفت کی سیر میں شامل تھے۔ منافقت کی انتہا دیکھیے کہ معمولی سا سرکاری کام بھی رکھ لیا گیا تھا۔چھوٹے سے کام کے بعد' موصوف جہاز لے کر اپنے بیٹے کے شہر تشریف لے گئے تھے۔ جہاں اس کی تعلیم مکمل ہونے کی ذاتی تقریب تھی۔
یہ صدر محترم' کئی ملین امریکی ڈالرکا سرکاری خزانے کو آرام سے چونا لگانے میں کامیاب ٹھہرے۔ اس طرح کی کوئی ایک مثال نہیں ہے۔ درجنوں نہیں ' سیکڑوں نہیں' ہزاروں مثالیں ہیں۔ اسلام آباد کے اکابرین کو تھوڑی دیر کے لیے فراموش کر دیجیے۔ صوبوں کے وزراء اعلیٰ کو ہوائی جہاز کی سرکاری سہولت حاصل ہے۔ یعنی اگر انھیں سرکاری کام کے لیے لاہور' کراچی' کوئٹہ یا پشاور سے اسلام آباد جانا ہے تو یہ ان کا استحقاق ہے کہ وہ سرکاری ہوائی جہاز استعمال کر سکتے ہیں۔ آپ کسی بھی صوبے کے سرکاری جہاز کے پائلٹ سے پوچھ لیں کہ جہاز کون استعمال کرتا ہے۔
جواب سن کر پسینہ آ جائے گا۔ عزیز رشتہ دار' اہل خانہ تو ایک طرف۔ وزیراعلیٰ کے ملازمین تک اس سرکاری جہاز کو بے دریخ استعمال کرتے ہیں۔ ماضی میں بربادی کی اگر یہ کہانی سچی تھی تو موجودہ حکومت کے معاملہ میں بھی سو فیصد درست ہے۔ موجودہ حکومت اور اس کی ٹیم کسی قسم کے بامعنی سرکاری اخراجات کو کم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ سابقہ دور کی عیاشیاں اور اللے تللے بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہیں۔ ویسے واجد علی شاہ اور موجودہ اور سابقہ اکابرین میں ایک فرق ضرور ہے۔
واجد علی بالکل منافق نہیں تھا۔ وہ خم ٹھوک کر دربار میں رقص کرتا تھا۔ مگر یہ اکابرین تو نیکی اور پارسائی کے جعلی لباس میں موجود ہیں ۔ پوری قوم' غربت' مہنگائی' تنگ دستی' بیروزگاری ' ناانصافی کی بدولت کراہ رہی ہیں۔ اور یہ لوگ اپنے اپنے محلوں میں شاد اور آباد ہیں۔ ان کو دیکھ کر واجد علی شاہ کچھ بہتر انسان محسوس ہوتا ہے؟
اودھ' برصغیر کی امیر ترین ریاستوں میں سے ایک تھی۔ انگریز اس خطہ کو ہندوستان کی ملکہ کہتے تھے۔
باغات' زرخیز زمین' اناج کی بے پناہ پیداوار ریاست کو بقیہ تمام برصغیر سے ممتاز کرتی تھیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اودھ کی عسکری اہمیت سے بھی واقف تھی۔ انھیں اس امیر حکومت کے لیے ایک ایسابادشاہ درکار تھا جو صرف برائے نام ہو۔جس کے پاس کوئی اختیار نہ ہو مگر وہ صرف اور صرف تخت نشین رہے۔
ذہن میں یہی سمجھتا رہے کہ وہی اصل حکمران ہے۔ اس کے لیے واجد علی شاہ سے بہترانتخاب ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ کمپنی بہادر نے 1847 میںاس شخص کوریاست کا بادشاہ بنا دیا۔ واجد علی شاہ کو حکومت کرنے میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ صرف اور صرف خواتین کی محفل میں رہنا مقصد حیات سمجھتا تھا۔
نو برس کے اقتدار نے اودھ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا اور مسلمانوں کی امیر ترین ریاست ' کمپنی بہادر کی غلامی میں آ گئی۔ واجد علی کیا کرتا تھا۔ اس کے شب و روز کیا تھے۔ اس کی برائے نام طرز حکمرانی کس نوعیت کی تھی۔ یہ وہ مرثیہ ہے جس پر صرف ماتم کیا جا سکتا ہے۔
کتھک ڈانس مقامی طور پر مندروں میں مذہبی زاویہ سے پیش کیا جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ اودھ کی طوائفوں نے بھی کتھک رقص پیش کرنا شروع کر دیا تھا۔ واجد علی شاہ نے ٹھاکر پرسادجی کو اس معاملہ میں اپنا استاد مقرر کیا۔ برصغیر کے نامور رقاص' کلکہ بندہ نام کے بھائیوں کو دربار میں اعلیٰ ترین مرتبہ دیا۔ اور بذات خود کتھک ڈانس سیکھنا شروع کر دیا۔
اب ہوتا یہ تھا کہ بادشاہ سلامت دربار میں ان گنت خواتین کے ساتھ کتھک ڈانس پیش کرتے تھے۔ برصغیر کی ادنیٰ درباری روایتوں کے عین مطابق' خوب داد وصول پاتے تھے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ نواب صاحب عجیب و غریب ڈرامے قلمبند فرماتے تھے۔''رادھا کنھیا کا قصہ'' ان کا اپنا تحریر شدہ ڈرامہ تھا۔ جسے ''رأحس منزل'' نامی محل میں ان کی بیویوں نے پیش کیا تھا۔ کردار کی گراوٹ کا اندازہ فرمائیں کہ بادشاہ سلامت کی زندگی میں ایک برس ایسا بھی تھا۔ جس میں وہ بلا ناغہ دلہا بنتے تھے اور روز ایک نئی شادی کرتے تھے۔ ان کی کتنی عارضی اور مستقل بیگمات تھیں۔ اس کااندازہ لگانا ناممکن ہے۔
واجد علی شاہ کی محافظین سیاہ فام خواتین تھیں۔ جن میں سے اکثر ان کی منکوحہ اور غیر منکوحہ بیویاں تھیں۔ اودھ کے معاملات اتنے برباد ہوگئے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان کی ریاست پر مکمل قبضہ کر لیا۔ واجد علی شاہ کو جلا وطن کر دیا گیا۔ اور اسے کلکتہ میں ایک جاگیر کا مالک بنا دیا گیا۔ 1874 میں نیویار ک ٹائمز نے واجد علی شاہ کی زندگی پر تحقیق کرنے کے لیے اپنا خصوصی نمایندہ کلکتہ بھجوایا۔ نواب کی حکومت ختم ہو چکی تھی۔
وہ بارہ لاکھ سالانہ پینشن پر زندہ تھا۔ اس اخباری نمایندہ نے جو رپورٹ ' اخبار میں چھپنے کے لیے ترسیل کی۔ وہ کسی بھی ملک' قوم' ریاست اور لیڈر کے لیے صرف اور صرف ایک نوحہ ہے۔ نواب نے سات ہزار افراد کے لیے ایک گراؤنڈ بنوایا ہوا تھا جس میں ان گنت بھانڈ ' رقاص' موسیقار' طوائفیں اور بیگمات ' واجد علی کے حضور قصیدہ پڑھتی تھیں۔ اٹھارہ ہزار کبوتر' سیکڑوں بندر اور ریچھ بھی پال رکھے تھے۔
واجد علی خود تو بدنامی کے عمیق گڑھے میں ہمیشہ کے لیے گر ہی گیا۔ مگر اس کی فضول خرچیوں' حد درجہ عیاشیوں نے مسلمانوں کی رئیس ترین ریاست کو غلام بنا دیا۔ اخراجات بے پناہ اور آمدنی محدود 'اودھ کی حکومت کا ایک ایک بال سود خوروں کے پاس گروی پڑا ہوا تھا۔ اور نواب دربار میں کتھک ڈانس کرنے میں مصروف تھا۔ عام لوگو ں کے لیے ریاست کوٹیکس دینا ناممکن ہوچکا تھا۔ مگر واجد علی موسیقی اور کبوتروں پر تحقیق کر رہاتھا۔ اودھ جل رہا تھا مگر نواب ٹھمری کے نئے سر لگانے میں مصروف کار تھا۔
ذہن میں یہ سوال ضرور آئے گا کہ بھلا ہمارا ایک بدکردار نواب اور اس کی غلیظ حرکات سے کیا تعلق۔ ایک نظر سے دیکھیے تو شاید کوئی تعلق نہیں۔ کہاں 1856کا اودھ اور کہاں تقسیم ہند کے بعدبننے والا پاکستان۔ مگر میری غلطی کو معاف فرمایئے۔طالب علم کو اودھ' واجد علی اور اپنے ملک میں حد درجہ گہری مماثلت نظر آ رہی ہے۔ کیا اس میں کوئی شبہ ہے کہ پاکستان حد درجہ مقروض ملک ہے۔ پوری دنیا میں ہماری عملی حیثیت ایک بھک منگے کی سی ہے۔
مگر کیا آپ کو ہماری سابقہ اور موجودہ حکومتوں اورطرز حکمرانی سے گمان ہوتا ہے کہ ہم ایک غریب ملک ہیں۔ ہمارے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ ہم دنیا کی امیر ترین ریاست ہیں بلکہ ہم امریکا' چین اور ورلڈ بینک کو امداد دیتے ہیں۔ تنقیدی نظر سے پرکھیے ۔ مختلف ادوار کے صدور' وزراء اعظم ' اکابرین کے عملی طرز کو سامنے رکھیے ۔ ان کے رٹے رٹائے' لفظی بیانیے کے اندر غور سے جھانک کر دیکھیے۔ حقائق دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ مثال عرض کرتا ہوں۔امریکا یاترہ ' ہمارے کسی بھی وزیر اعظم کے لیے اہم ترین فریضہ ہے۔
انکا خیال ہے کہ اگر امریکی صدر کے ساتھ صرف تصاویریں کھنچوالیں تو اپنے ملک میں حکومت کی مضبوطی کا بھرپور تاثر دینے میں آسانی ہو جائے گی۔ کیا آپ کے علم میں ہے کہ امریکا کا دو تین دن کا سرکاری دورہ جس میں محض چند افراد کے اخراجات امریکی حکومت برداشت کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کیا معاملات ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک سابقہ وزیراعظم ' اٹھارہ سے پچیس ہزار ڈالر یومیہ کے ہوٹل میں معہ اہل و عیال قیام فرماتے تھے۔ یومیہ کا لفظ حد درجہ قابل توجہ ہے۔ اگر امریکی حکومت نے دس بندوں کے سرکاری اخراجات کا دو تین دنوں کا بوجھ برداشت کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
تو ہمارے منتخب اورغیر منتخب حکمران ساٹھ سے دو سو آدمیوں کے وفد کو ساتھ لے جانا پسند فرماتے تھے۔ بیگمات' کروڑوں روپے کی شاپنگ کرتی تھیں۔ رشتہ دار' مصاحبین ساتھ ساتھ اپنی فرمائشیں پوری کرتے تھے۔ سفارت خانوں کو دھمکی دے کر مجبور کیا جاتا ہے کہ وفد کے لیے مہنگی ترین گاڑیاں کرایے پر حاصل کریں۔ کئی بار سفارت خانے ' گاڑیوں کا کرایہ ادا کرنے کی حیثیت تک نہیں رکھتے تھے۔ اور پھر بیرون ملک ہماری وہ درگت بنائی جاتی ہے کہ خدا کی پناہ ۔ مگر اس اثناء میں بادشاہ سلامت اپنے وفد کے ساتھ واپس پاکستان آ چکے ہوتے تھے۔
صرف چند برس پہلے کی بات ہے ۔ لندن کے سب سے مہنگے اسٹور یعنی ہیرڈز پر ایک سابقہ پاکستانی وزیراعظم کا خاندان شاپنگ کے لیے گیا۔ یہ اسٹور حد درجہ بیش قیمت چیزوں کے لیے مشہور ہے۔ خاتون اول اور ان کے بیٹے بیٹیوں نے تین سے پانچ ملین پاؤنڈز کی خریداری فرمائی۔ ان کے سامان کے لیے ہیرڈز اسٹور سے متعدد سوٹ کیس خریدے گئے۔ اور پھر یہ مکمل سامان ' مفت ' یعنی کسی کرایے کے بغیر قومی ایئرلائن کے ذریعے اسلام آباد منتقل کیاگیا۔ وہاں سے چار پانچ پک اپس پر انھیں لاہور گھر میں منتقل کردیا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جمہوریت واقعی بہترین انتقام ہے۔
آج بھی سابقہ وزیراعظم ' مہنگے ترین سوٹ پہن کر جمہوریت کے فوائد پر خطبہ دیتے نظر آتے ہیں۔ حیرانگی یہ ہے کہ کسی بھی وزیراعظم یا صدر کے عملی رویے میں رتی برابر بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ ہمارے ایک تہجد گزار صدر' بیٹے کی گریجویشن کے موقعے پر پورا جہاز کروا کر ' امریکا تشریف لے گئے تھے۔ ان کے عزیز رشتے دار تمام مفت کی سیر میں شامل تھے۔ منافقت کی انتہا دیکھیے کہ معمولی سا سرکاری کام بھی رکھ لیا گیا تھا۔چھوٹے سے کام کے بعد' موصوف جہاز لے کر اپنے بیٹے کے شہر تشریف لے گئے تھے۔ جہاں اس کی تعلیم مکمل ہونے کی ذاتی تقریب تھی۔
یہ صدر محترم' کئی ملین امریکی ڈالرکا سرکاری خزانے کو آرام سے چونا لگانے میں کامیاب ٹھہرے۔ اس طرح کی کوئی ایک مثال نہیں ہے۔ درجنوں نہیں ' سیکڑوں نہیں' ہزاروں مثالیں ہیں۔ اسلام آباد کے اکابرین کو تھوڑی دیر کے لیے فراموش کر دیجیے۔ صوبوں کے وزراء اعلیٰ کو ہوائی جہاز کی سرکاری سہولت حاصل ہے۔ یعنی اگر انھیں سرکاری کام کے لیے لاہور' کراچی' کوئٹہ یا پشاور سے اسلام آباد جانا ہے تو یہ ان کا استحقاق ہے کہ وہ سرکاری ہوائی جہاز استعمال کر سکتے ہیں۔ آپ کسی بھی صوبے کے سرکاری جہاز کے پائلٹ سے پوچھ لیں کہ جہاز کون استعمال کرتا ہے۔
جواب سن کر پسینہ آ جائے گا۔ عزیز رشتہ دار' اہل خانہ تو ایک طرف۔ وزیراعلیٰ کے ملازمین تک اس سرکاری جہاز کو بے دریخ استعمال کرتے ہیں۔ ماضی میں بربادی کی اگر یہ کہانی سچی تھی تو موجودہ حکومت کے معاملہ میں بھی سو فیصد درست ہے۔ موجودہ حکومت اور اس کی ٹیم کسی قسم کے بامعنی سرکاری اخراجات کو کم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ سابقہ دور کی عیاشیاں اور اللے تللے بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہیں۔ ویسے واجد علی شاہ اور موجودہ اور سابقہ اکابرین میں ایک فرق ضرور ہے۔
واجد علی بالکل منافق نہیں تھا۔ وہ خم ٹھوک کر دربار میں رقص کرتا تھا۔ مگر یہ اکابرین تو نیکی اور پارسائی کے جعلی لباس میں موجود ہیں ۔ پوری قوم' غربت' مہنگائی' تنگ دستی' بیروزگاری ' ناانصافی کی بدولت کراہ رہی ہیں۔ اور یہ لوگ اپنے اپنے محلوں میں شاد اور آباد ہیں۔ ان کو دیکھ کر واجد علی شاہ کچھ بہتر انسان محسوس ہوتا ہے؟