جمال الدین بخاری تاریکیوں میں اجالا …

کیرت بابانی، گلاب بھگوانانی، اور عینشی ودیارتی جیل میں ایک سال رہنے کے بعد آزاد ہوکر ہندوستان چلے گئے۔

KABUL:
سید جمال الدین بخاری ہندوستان بھر میں ایک سر پھرے، کمیٹیڈ کمیونسٹ ، مزدور اور ہاری ورکرکے طور پر جانے جاتے تھے۔کہیں بھی کمیونسٹ پارٹی یا ہاری کمیٹی میں کوئی جھگڑا ہوتا تو انھیں وہاں بلایا یا بھیجا جاتا تھا، بخاری کو ''ٹربل شوٹر'' (صلح کرانے والا) بھی کہا جاتا تھا۔

ایسے ہی مشن پر انھیں کراچی بھیجا گیا تھا تاکہ وہ میرے اورکمیونسٹ پارٹی کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات ختم کرائیں۔ جیل میں جانے سے پہلے انھوں نے مجھے کسی طریقے سے ڈھونڈ لیا اور پھر کمیونسٹ پارٹی کا حکم نامہ دکھاتے ہوئے کہا کہ'' میں کئیٹ انڈیا تحریک میں شامل نہ ہوں'' میں نے انکارکیا اورکہاکہ ''میں سندھ کی طلبا تحریک کا مرکزی جنرل سیکریٹری ہوں اور 3 ہزار طلبا میری قیادت میں جیلوں میں جاچکے ہیں'' جمال الدین بخاری نے یہ سن کر پھر زیادہ بحث نہیں کی اور واپس چلے گئے۔

میں بھی گرفتار ہوکر جیل چلاگیا ، جولائی 1944میں مجھے حیدرآباد جیل سے آزاد کیا گیا۔ میں دو تین روز اپنے پرانے کانگریسی اور طلباء تحریک کے ساتھیوں سے ملاقات کے بعد گاؤں چلا آیا۔انھی دنوں بخاری کو سندھ میں پارٹی لیڈر نامزد کیا گیا تھا۔ اس وقت پارٹی کی تمام سرگرمیاں بشمول مزدور تنظیمیں، اخبارات کے امور اور طلباء تنظیموں کے معاملات، پارٹی قیادت کے تحت چل رہے تھے۔ یہ طالب علم رہنما نہ صرف کمیونسٹ پارٹی کے کل وقتی رکن بن گئے، بلکہ 1948 تک مزدور یونینوں، ہاری کمیٹی، اخباروں اور رسالوں میں کام کرتے رہے۔

کیرت بابانی اورگلاب بھگوانانی کے کراچی آنے کے بعد طلباء کے محاذ پر کارکردگی بہتر ہوگئی۔ عام طور پر طلباء، کانگریس اور سوشلسٹ تحریکوں سے متاثر تھے۔ میں اور میرے ساتھیوں کی شمولیت سے کمیونسٹ تحریک کو زیادہ عروج حاصل ہوا، کیونکہ کمیونسٹوں پر ایک عام الزام یہ تھا کہ انھوں نے 1942 والی تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ باوجود کمیونسٹ ہونے کے طلباء کے شانہ بشانہ جیل گئے، صعوبتیں اور تشدد بھی برداشت کیے، سر پھٹوائے جس کی وجہ سے ہم پر غداری کا الزام نہیں لگایا جاسکا۔ بخاری کے کہنے پر میں 1945 میں کمیونسٹ پارٹی کا باقاعدہ رکن بنا اور پارٹی میں بھرپورکردار ادا کیا۔

بخاری اسٹالن پرست ہونے کے باوجود، میرے گہرے دوست اور قریبی ساتھی بن گئے تھے۔ 1945 کے شروع میں کارکنوں کے ایک اجلاس میں پارٹی کو منظم کرنے کے لیے ایک مرکزی کمیٹی بنائی گئی، جو حیدر بخش جتوئی، ڈاکٹر ہاسارام (نوابشاہ والے)، عبدالقادر کھوکھر، بنارام، جمال الدین بخاری اور مجھ پر مشتمل تھی۔ اس اجلاس میں بخاری نے مسکراتے ہوئے کہا کہ '' سوبھو اسٹالن کا پرستارنہیں، لیکن اس نے میری وجہ سے بہت سے کارکنوں کو ہماری تحریک کے لیے تیار کیا ہے ، جو انتہائی سچے اور ایماندار انقلابی ہیں۔''

اسی اجلاس میں جمال الدین بخاری نے متفقہ رائے سے مجھے اپنا نائب مقرر کیا۔ جمال الدین بخاری نے بتایا کہ گوبند پنجابی نے اپنا رسالہ '' نئی دنیا '' پارٹی کے حوالے کیا ہے اورگوبند مالھی کو اس کا نگران مقررکیا ہے۔ گوبند پنجابی بوہرا پیر کے نزدیک نئی دنیا کا دفتر بھی پارٹی کے حوالے کرکے واپس شکار پور چلا گیا ہے۔ رسالہ نئی دنیا کے ذریعے ہم نے سندھی ادب کے نئے ، ترقی پسند اور روشن خیال دور کا آغاز کیا۔

1945 میں جب جمال الدین بخاری سندھ کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری تھے، مجھے جی ایم سید کی رہائش گاہ حیدر منزل لے گئے اور سید صاحب سے میرا تعارف کرایا۔ یہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی۔مجھے اس بات کا علم تھا کہ سید صاحب کئی مرتبہ بمبئی میں کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈ کوارٹر جاچکے ہیں۔ قیام پاکستان کے سلسلے میں کمیونسٹ پارٹی کی پیش بندی نے سید صاحب کو کافی متاثر کیاتھا۔


سید صاحب نے گفتگو کے آغاز ہی میں مجھ سے کہا کہ ''آپ کمیونسٹ نہ صرف عوام کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں بلکہ ان کے دماغ پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں ، جب کہ میں عوام کے جذبات کو متوجہ کرتا ہوں۔ منزل ہماری ایک ہی ہے۔'' مجھے یاد ہے کہ میں نے انھیں یہی جواب دیا تھا کہ: ''ہم کمیونسٹ نہ صرف لوگوں کے دماغ بلکہ ان کے پیٹ یعنی روزی روٹی کا بھی خیال کرتے ہیں،کیونکہ لوگوں کی اکثریت اپنے معاش کے متعلق فکر مند رہتی ہے۔''

موجودہ نسل کو یہ بات عجب محسوس ہوگی کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) نے پاکستان کے قیام کو مسلم اکثریتی علاقوں کے حق خود اختیاری سے تشبیہ دی تھی اورگاندھی اور جناح ملاقات اور آپس میں سمجھوتے کے لیے بہت محنت اورکوششیں کی تھیں۔سوامی انگدیو ایک بے لوث اور بے غرض انسان تھے۔انھیں ہر جگہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ان کو کانگریس کے جیرام داس سے لے کر کمیونسٹ پارٹی کے جمال الدین بخاری تک قربت اور رسائی حاصل تھی۔وہ 1945ء سے کمیونسٹ پارٹی کے ہمدرد کارکن کی حیثیت سے کام کرنے لگے اور پاکستان بننے تک مکمل طور پر پارٹی سے وابستہ رہے۔

نیوی میں بغاوت 18 فروری سے 25 فروری 1946 تک جاری رہی۔ برطانوی بحری جہازوں پر کام کرنے والے خلاصیوں نے اپنے آفیسروں کوکوارٹروں میں بند کرکے بحری جہازوں ، بندرگاہوں اور ساحلوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ انقلاب کے لیے مزدور طلباء اور دوسری ترقی پسند قوتوں نے پہلی بار اس بغاوت میں بھرپور شرکت کی۔ انگریز سپاہیوں کی فائرنگ کے بعد برطانیہ کی شاہی بحریہ کے خلاف کراچی سے بمبئی تک زبردست ہڑتال کی گئی، جس نے سارے نظام کوکمزورکرکے رکھ دیا اور سرکارکے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔ ہندوستان کی بندرگاہوں پر جہاں جہاں نیوی کا نظام تھا، وہاں تاریخی ہڑتال اور احتجاج ہوا۔

نیوی کی بغاوت نے نہ صرف برصغیر بلکہ انگلینڈ کو بھی بہت متاثرکیا۔21 فروری 1946 کا دن بھی دیگر دنوں کی طرح روایتی طور پر نمودار ہوا۔ ہم چھ کل وقتی (ہول ٹائمر) اور جز وقتی (پارٹ ٹائمر) ٹریڈ یونین کارکنان:عینشی ودیار تھی، گلاب بھگوانانی، پوہو، اے۔کے ہنگل، (اوتار کشن ہنگل) اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مختلف کارخانوں کا علی الصبح چکر لگا آئے تھے۔ میں بھی اپنے دفتر سے نکل کر پیدل نیٹی جیٹی پل تک جاکر واپس لوٹ آیا۔ ہر جگہ لوگوں کی آنکھوں میں ایک نئی چمک، جوش، جذبہ اور ولولہ تھا۔

ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ کسی للکار، بلاوے اور حکم کے منتظر ہیں۔ عوام نئے رہنماؤں کی متلاشی نظر آئے، یہ خلا ہم سرخوں (کمیونسٹوں) نے پرکیا۔ جنگ کے اختتام کے بعد کمیونسٹ پارٹی کا نعرہ تھا کہ یہ کیا کانگریس، لیگ ، کمیونسٹ متحد ہوجاؤ۔''

جاپان سے جنگ کے خاتمہ کے بعد کمیونسٹ پارٹی نے جلد ہی اپنا رخ تبدیل کیا اور عوام کی نظروں میں وہ '' انگریز دوست'' سے بدل کر '' انگریز دشمن'' جماعتوں میں سرفہرست جماعت ہوگئی۔ہمارے حاکموں نے جولائی 1948 کے وسط میں اپنے کارنامے دکھانا شروع کردیے اور مشرقی اور مغربی حصوں میں ہر جگہ حکومت نے کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کو پکڑنا شروع کردیا۔ ہمارے اخبارات اور رسالے کھلے عام جدوجہد میں برسرپیکار رہے اور ہم حکومت کے لیے ایک بڑے چیلنج کی صورت میں پیش پیش رہے۔

ایک ایک کرکے ہمارے کامریڈ گرفتار ہوتے رہے اور جیل بھرتے رہے۔ 14 یا 15 جولائی 1948 کو مجھے آرٹلری میدان میں واقع میری رہائش گاہ سے گرفتارکرکے پارٹی آفس لایا گیا، جہاں سے بخاری اور دوسرے ایک دو ساتھیوں کو بھی گرفتارکرکے کراچی سینٹرل جیل پہنچادیا گیا۔گرفتاری کے بعد جیل میں ایک ساتھ تھے۔ اس کے بعد پاکستانی حکومت نے اپنی مرضی و منشا سے رہنماؤں کو رہا کرنا شروع کیا۔

کیرت بابانی، گلاب بھگوانانی، اور عینشی ودیارتی جیل میں ایک سال رہنے کے بعد آزاد ہوکر ہندوستان چلے گئے۔ جمال الدین بخاری 1946 اور بعد میں 1948 سے 1949 تک میرے ساتھ جیل میں قید رہے۔ بعد میں وہ مرتے دم تک سندھ میں ہی رہے۔ لاڑکانہ میں مستقل رہائش اختیار کرنے کے بعد جمال الدین بخاری نہ صرف ادبی سماجی اور سیاسی محاذوں پر سرگرم رہے۔ انھوں نے وہاں پہلے سے موجود انصاف پریس میں شراکت داری کی اور سندھی ہفت روزہ ''انصاف'' کی ادارت بھی سنبھال لی۔
Load Next Story