ایران کے خلاف عالمی سازشیں
اصل خطرہ یہ ہے کہ ایران روس ، چین بلاک کا حصہ نہ بنے کہ خطے میں طاقت کا توازن درہم برہم ہو جائے گا۔
کراچی:
گزشتہ دنوں لیور پول برطانیہ میں جی سیون کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ جی سیون برطانیہ ، کینیڈا، فرانس ، جرمنی ، اٹلی، جاپان اور امریکا کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے ایک نمایندے پر مشتمل ہے۔ اس اجلاس میں روس کو دھمکی دی گئی کہ اگر روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے یوکرین پر حملہ کیا تو اسے سنگین نتائج بھگتنے کے ساتھ ساتھ بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
دوسری جانب روسی صدر نے کہا ہے کہ ہمیں اس بات کی سیکیورٹی ضمانت دی جائے کہ نیٹو مشرق میں مزید توسیع نہیں کریگا۔ نہ ہی اپنے ہتھیار روسی سرزمین کے قریب نصب کریگا۔ انھوں نے کہا کہ روس کو اس کی اپنی ہی سرحد کے ارد گرد فوجیں منتقل کرنے پر مجرم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
پاکستان نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ نئی سرد جنگ کو شروع کر کے اسے کسی مشکل میں مبتلا نہ کرے۔ پاکستان کسی بلاک کا حصہ نہیں ہے۔ امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک طرف چین کے گرد گھیرا ڈال رہا ہے تو دوسری طرف ماضی میں سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کا پھر سے اعادہ ہو رہا ہے۔ الزامات وہی پرانے ہیں جن میں زیادہ تر بے بنیاد ہیں۔
تائیوان کو چین کے مقابلے پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ چین اور روس مدتوں بعد ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں۔ چین دنیا کی بڑی معاشی و فوجی طاقت ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی عالمی سطح پر اس وقت جس عظیم خطرے کو سونگھ رہے ہیں کہ کہیں چین، روس مل کر امریکا کے مقابلے پر ایک نیا بلاک نہ قائم کر لیں۔ جس میں دنیا کے دوسرے ممالک تیزی سے شامل ہو سکتے ہیں۔
جن میں سرفہرست ایران اور پاکستان ہیں۔ ایران روس سے 25 سالہ اسٹرٹیجک معاہدہ پہلے ہی کر چکا ہے۔ یاد رہے کہ امریکا نے ماضی میں چین اور روس کو ایک دوسرے سے دور کر کے ان دونوں کے درمیان دوستی کو دشمنی میں بدل دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکا کبھی بھی دنیا کی واحد سپر پاور نہ بن سکتا۔
مشرق وسطیٰ میں تبدیلیوں کی رفتار بہت تیز ہے۔ لگتا ہے کہ امریکا بہت جلدی میں ہے۔ ایران کو برطانیہ نے دھمکی ایسے ہی نہیں دی کہ وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے کہ ایران جوہری معاہدے پر آئے۔ برطانوی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ویانا میں معاہدے کی بحالی کے لیے جاری مذاکرات ایران کا آخری موقع ہے۔ وہ میز پر اپنا حتمی فیصلہ لے کر آئے۔ ایران کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ اس معاہدے سے اتفاق کر لے۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکا ، ایران سے دوبارہ جوہری معاہدہ ہونے پر ایران سے کیا شرائط منوانا چاہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایران سے نہ اسرائیل کو خطرہ ہے نہ عرب بادشاہتوں کو۔ اصل خطرہ یہ ہے کہ ایران روس ، چین بلاک کا حصہ نہ بنے کہ خطے میں طاقت کا توازن درہم برہم ہو جائے گا۔ اسرائیل تو جب چاہتا ہے ایران میں تخریب کاری کر ڈالتا ہے۔ معنی خیز بات یہ ہے کہ لیور پول اجلاس سے ذرا پہلے عرب امارات کی خفیہ ایجنسی کی اعلیٰ شخصیت نے ایران کا دورہ کیا۔ روسی صدر کا حالیہ دورہ بھارت جس میں میزائل اور دوسرے بہت سے معاہدوں پر دستخط ہوئے نے دونوں ملکوں کو دوبارہ سے ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔ باوجود اس کے بھارت امریکا کا اسٹرٹیجک پارٹنر بن چکا ہے۔ بھارت نے ماضی کی طرح توازن برقرار رکھتے ہوئے سویت یونین روس تعلقات کو کمزور نہیں ہونے دیا۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ واشنگٹن میں ہونے والی امریکی وزیر دفاع سے ملاقات میں اسرائیلی فضائیہ کی ایران پر حملے کی تیاری سے آگاہ کر دیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ملاقات میں امریکی حکام نے اسرائیلی موقف کی تائید کی اور ایران کو دنیا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہونے پر اتفاق کیا۔ سچ ہی ہے کہ گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار اسرائیل پھرے اور مشرق وسطی میں اسے امریکی ایجنڈے کی تکمیل سے روکنے والا کوئی نہ ہو۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے ایران کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عالمی جوہری معاہدے پر تاحال کوئی پیش رفت نہ ہو سکتی ہے۔
جس کی وجہ ایران کا غیر ذمے دارانہ رویہ ہے اور ایران ، جوہری معاہدے پر امریکا سے کھیل ، کھیل رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع کے ایک اہم عہدے دار نے میڈیا کو بتایا کہ اسرائیلی وزیر دفاع نے امریکی وزیر دفاع کو ایران پر حملے کی ٹائم لائن سے بھی آگاہ کیا۔ امریکا ، ایران سے جوہری معاہدے کے لیے کس قدر بے چین ہے۔
کہاں تو وہ ٹرمپ دور میں ایران سے اس معاملے پر بات چیت کرنے کا روادار نہ تھا اور کہاں اب اسرائیل کو ایران پر دباؤ کے لیے لیور کے طور پر استعمال کرتے ہوئے حملے کی دھمکی دے رہا ہے۔ امریکا کی پوری تاریخ بھیڑیے اور میمنے کی سی ہے جس کو تاراج کرنا چاہتا ہے اس ملک پر الزامات کی بارش کر کے پروپیگنڈے کا طوفان کھڑا کر دیتا ہے۔
تبدیلیاں بہت تیز ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم پہلی مرتبہ تاریخی دورے پر متحدہ عرب امارات پہنچے، جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ اس شاندار استقبال کے لیے بحرین وغیرہ بھی بے چین ہیں۔
امریکا ، ایران جوہری معاہدے کے حوالے سے جنوری، فروری 2022 فیصلہ کن ہے۔
گزشتہ دنوں لیور پول برطانیہ میں جی سیون کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ جی سیون برطانیہ ، کینیڈا، فرانس ، جرمنی ، اٹلی، جاپان اور امریکا کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے ایک نمایندے پر مشتمل ہے۔ اس اجلاس میں روس کو دھمکی دی گئی کہ اگر روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے یوکرین پر حملہ کیا تو اسے سنگین نتائج بھگتنے کے ساتھ ساتھ بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
دوسری جانب روسی صدر نے کہا ہے کہ ہمیں اس بات کی سیکیورٹی ضمانت دی جائے کہ نیٹو مشرق میں مزید توسیع نہیں کریگا۔ نہ ہی اپنے ہتھیار روسی سرزمین کے قریب نصب کریگا۔ انھوں نے کہا کہ روس کو اس کی اپنی ہی سرحد کے ارد گرد فوجیں منتقل کرنے پر مجرم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
پاکستان نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ نئی سرد جنگ کو شروع کر کے اسے کسی مشکل میں مبتلا نہ کرے۔ پاکستان کسی بلاک کا حصہ نہیں ہے۔ امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک طرف چین کے گرد گھیرا ڈال رہا ہے تو دوسری طرف ماضی میں سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کا پھر سے اعادہ ہو رہا ہے۔ الزامات وہی پرانے ہیں جن میں زیادہ تر بے بنیاد ہیں۔
تائیوان کو چین کے مقابلے پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ چین اور روس مدتوں بعد ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں۔ چین دنیا کی بڑی معاشی و فوجی طاقت ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی عالمی سطح پر اس وقت جس عظیم خطرے کو سونگھ رہے ہیں کہ کہیں چین، روس مل کر امریکا کے مقابلے پر ایک نیا بلاک نہ قائم کر لیں۔ جس میں دنیا کے دوسرے ممالک تیزی سے شامل ہو سکتے ہیں۔
جن میں سرفہرست ایران اور پاکستان ہیں۔ ایران روس سے 25 سالہ اسٹرٹیجک معاہدہ پہلے ہی کر چکا ہے۔ یاد رہے کہ امریکا نے ماضی میں چین اور روس کو ایک دوسرے سے دور کر کے ان دونوں کے درمیان دوستی کو دشمنی میں بدل دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکا کبھی بھی دنیا کی واحد سپر پاور نہ بن سکتا۔
مشرق وسطیٰ میں تبدیلیوں کی رفتار بہت تیز ہے۔ لگتا ہے کہ امریکا بہت جلدی میں ہے۔ ایران کو برطانیہ نے دھمکی ایسے ہی نہیں دی کہ وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے کہ ایران جوہری معاہدے پر آئے۔ برطانوی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ویانا میں معاہدے کی بحالی کے لیے جاری مذاکرات ایران کا آخری موقع ہے۔ وہ میز پر اپنا حتمی فیصلہ لے کر آئے۔ ایران کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ اس معاہدے سے اتفاق کر لے۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکا ، ایران سے دوبارہ جوہری معاہدہ ہونے پر ایران سے کیا شرائط منوانا چاہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایران سے نہ اسرائیل کو خطرہ ہے نہ عرب بادشاہتوں کو۔ اصل خطرہ یہ ہے کہ ایران روس ، چین بلاک کا حصہ نہ بنے کہ خطے میں طاقت کا توازن درہم برہم ہو جائے گا۔ اسرائیل تو جب چاہتا ہے ایران میں تخریب کاری کر ڈالتا ہے۔ معنی خیز بات یہ ہے کہ لیور پول اجلاس سے ذرا پہلے عرب امارات کی خفیہ ایجنسی کی اعلیٰ شخصیت نے ایران کا دورہ کیا۔ روسی صدر کا حالیہ دورہ بھارت جس میں میزائل اور دوسرے بہت سے معاہدوں پر دستخط ہوئے نے دونوں ملکوں کو دوبارہ سے ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔ باوجود اس کے بھارت امریکا کا اسٹرٹیجک پارٹنر بن چکا ہے۔ بھارت نے ماضی کی طرح توازن برقرار رکھتے ہوئے سویت یونین روس تعلقات کو کمزور نہیں ہونے دیا۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ واشنگٹن میں ہونے والی امریکی وزیر دفاع سے ملاقات میں اسرائیلی فضائیہ کی ایران پر حملے کی تیاری سے آگاہ کر دیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ملاقات میں امریکی حکام نے اسرائیلی موقف کی تائید کی اور ایران کو دنیا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہونے پر اتفاق کیا۔ سچ ہی ہے کہ گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار اسرائیل پھرے اور مشرق وسطی میں اسے امریکی ایجنڈے کی تکمیل سے روکنے والا کوئی نہ ہو۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے ایران کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عالمی جوہری معاہدے پر تاحال کوئی پیش رفت نہ ہو سکتی ہے۔
جس کی وجہ ایران کا غیر ذمے دارانہ رویہ ہے اور ایران ، جوہری معاہدے پر امریکا سے کھیل ، کھیل رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع کے ایک اہم عہدے دار نے میڈیا کو بتایا کہ اسرائیلی وزیر دفاع نے امریکی وزیر دفاع کو ایران پر حملے کی ٹائم لائن سے بھی آگاہ کیا۔ امریکا ، ایران سے جوہری معاہدے کے لیے کس قدر بے چین ہے۔
کہاں تو وہ ٹرمپ دور میں ایران سے اس معاملے پر بات چیت کرنے کا روادار نہ تھا اور کہاں اب اسرائیل کو ایران پر دباؤ کے لیے لیور کے طور پر استعمال کرتے ہوئے حملے کی دھمکی دے رہا ہے۔ امریکا کی پوری تاریخ بھیڑیے اور میمنے کی سی ہے جس کو تاراج کرنا چاہتا ہے اس ملک پر الزامات کی بارش کر کے پروپیگنڈے کا طوفان کھڑا کر دیتا ہے۔
تبدیلیاں بہت تیز ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم پہلی مرتبہ تاریخی دورے پر متحدہ عرب امارات پہنچے، جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ اس شاندار استقبال کے لیے بحرین وغیرہ بھی بے چین ہیں۔
امریکا ، ایران جوہری معاہدے کے حوالے سے جنوری، فروری 2022 فیصلہ کن ہے۔