فرعون بنتے نہیں بنائے جاتے ہیں

بدلاکچھ بھی نہیں صرف نام بدل جاتے ہیں۔ ’’فرعون‘‘ یادیوتازادہ بھی وہی ہے، اسے مقدس بنانے والا پروہیت بھی موجود ہے۔

barq@email.com

کراچی:
فرعون عربی لفظ ہے جو مصری لفظ(فارا) کی تخریب ہے اوراس کے معنی ہیں ''را'' کابیٹا،''را''یا ''راع''جوسورج ہے،مصریوں کاسب سے بڑا دیوتا تھا اورفارا یا ''فرعون ''کوئی ایک فرد کا نام نہیں تھا بلکہ لقب تھاجو بادشاہ ، شہنشاہ کے مطلب میں ڈھل گیا۔

پہلے فرعون رامس ، چارہزارقبل مسیح سے لے کرآخری فرعونا کلیوپیڑا تک بتیس خاندانوں کے لگ بھگ چارسو فراعین گزرے ہیں۔ ان میں سلطنت مصر کے غیرمصری یعنی یونانی اورہند یورپی نسل کے حکمران بھی اسی ''لقب'' یعنی فرعون سے موسوم ہوتے رہے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کاواسطہ چودہویں خاندان کے دوفراعین سے پڑا تھا۔ ایک وہ جس نے انھیں پالاتھا، اس کانام''مرن پت''(منفتاح) تھا اورجو غرق ہوا، اس کابیٹا رامی سس یا رعمسیس تھا لیکن ہمیں یہاں مذہبی بحث نہیں کرنی ہے بلکہ یہ بتاناہے کہ فرعون کیسے بنتے اور لقب پاتے تھے۔ مصری سلطنت کے مذہبی پیشوا جنھیں پروہت بھی کہا جاتا ہے ، وہی کسی طاقت ور حکمران کو فرعون بناتے تھے یہاں تک کہ جب سکندراعظم اورکورش کے بیٹے کمبوجا نے مصر کو فتح کیا تو مذہبی پروہتوں نے انھیں بھی فرعون کاخطاب دیا تھا۔

فرعون نام کی شان نزول یہ ہے کہ ابتداء میں حکمران کے ہاتھ میں صرف تلوارہوتی تھی لیکن جب انسان نے ترقی کرکے اپنے ''جسم'' کے اندردماغ بھی پیداکرلیا تو تلوارناکافی ثابت ہوئی کیوں کہ تلوار سے صرف جسم کوقابوکیاجاسکتاہے یا ڈرایاجاسکتاہے لیکن دماغ کوقابو کرنے کے لیے کسی اورموثر ہتھیارکی ضرورت تھی اوریہ دوسرا ہتھیار مذہبی پروہت یاتحریرکی صورت میں پیداکیاگیا۔ عوام کوقابو رکھنے کے لیے یہ دونوں ہتھیار استعمال کیے جاتے رہے۔ یوں ان دونوں یعنی تلوار اورعلم یا تلوار اورقلم کاسمجھوتہ ہوگیا کہ ۔

من تراحاجی بگویم تومراملابگو

بادشاہ نے پروہیت کومذہب،دیوتاؤں کی تعلیمات اور ان کی تعبیر وتشریح میں فری ہینڈ دیا اور مندروں، معبدوں نگرانی کا حق واخیتار تسلیم کرلیا ۔ مذہبی پیشوا یا پروہیت نے حکمران کو مقدس اوردیوتاؤں کی اولاد قرار دے دیا اوریہ ساجھے داری جوہزاروں سال پہلے شروع ہوئی تھی، آج تک چل رہی ہے۔ مصر میں حکمران کودیوتا کابیٹا قراردیاگیا لیکن دوسرے خطوں میں بھی ایسے ہی خطابات دیے گئے ۔ قارئین کوشاید پتہ ہو کہ جاپان میں اب بھی بادشاہ کوسورج کابیٹاکہاجاتا ہے ،ہندوستان میں بھی سورج ونشی اورچندر ونشی لقب اختیار کرنے والے خاندان حکمران رہے ہیں۔ اسلامی ادوارمیں بھی یہ سلسلہ ظل الٰہی،ظل اللہ اورظل سبحانی کی شکل میں جاری رہا،حفیظ جالندہری نے کسی بادشاہ کو تونہیں لیکن ریاست کو جو حکمران ہی کو سایہ خدائے ذوالجلال قراردیا۔


اس سمجھوتے کاذکر میں اکثر کرتارہاہوں اور ہندی دیومالاکی وہ کہانی بھی بتاچکا ہوں جس میں اس سمجھوتے کااستعارہ ہے لیکن یہاں ایک مرتبہ دہرانے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔

کہانی کے مطابق وشوامترجو ایک کھشتری راجہ تھا، یہ بھی یاد رہے کہ ہند میں ابتدائی گوت یا گوترا کا نظام صرف تین طبقوں پر مشتمل تھا،کشتری ،ویش اور شودر۔ برہمنوں کا چوتھا طبقہ بہت بعد میں پیدا ہواتھا اوراس کہانی میں اسی برہمن طبقے کی شان نزول بیان کی گئی ہے۔

اب کہا نی کی طرف آتے ہیں۔راجہ وشوامتر شکارکو گیا تو بیابان میں اسے ایک رشی وسیشٹھ کاآشرم ملا۔ رشی نے راجہ اوراس کی فوج کی زبردست ضیافت کی،کھانے اور پینے کی بہترین اور عمدہ اقسام،میوے اورمٹھائیاں پیش کیں۔ یہ دیکھ کرراجہ کوحیرت ہوئی کہ اس لق ودق بیابان میں اس معمولی آشرم کے رشی نے اتنے سارے اور قیمتی انتظامات کیسے کیے؟پوچھنے پر رشی نے بتایا کہ دیوتاؤں نے میری تپسیا سے خوش ہوکر مجھے ایک گائے عطاکی ہے۔ مجھے جس چیزکی ضرورت ہوتی ہے، اس گائے سے کہہ دیتاہوں اورپلک چھپکنے میں سارا انتظام ہوجاتا ہے۔

راجہ نے کہا، یہ گائے مجھے دے دو۔ رشی نے انکار کیا، راجہ نے اصرار کیا۔آخر کار راجہ نے فوج کو حکم دیا کہ گائے کوزبردستی لے چلو۔ رشی نے گائے کوحکم دیا کہ راجہ کی فوج کے مقابل فوج پیداکردو،گائے نے راجہ کی فوج سے بھی طاقتور فوج پیدا کرکے سامنے کھڑی کر دی۔ غرض کہ راجہ کی لاکھ کوشش کے باوجود اسے ناکامی ہوئی۔ وہ جتنی فوج لاتا گائے اس سے دگنی فوج مقابلے میں پیداکردیتی۔راجہ کوغصے اور ندامت نے گھیر لیا ، اس نے تخت وتاج کوٹھوکرماری کہ ایسی بادشاہی سے کیا فائدہ جو ایک معمولی رشی سے ایک گائے بھی نہ چھین سکے اور جاکر تپسیا میں بیٹھ گیا ۔کہانی میں اس کی عبادت کوہزاروں سال بتایاگیا،آخر کاراسے بھی برہم رشی کامرتبہ مل گیا ۔ یہ مرتبہ ملتے ہی وہ سیدھا گائے والے رشی کے پاس پہنچا اور گائے کاطالب ہوا۔

رشی وسشٹھ نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا،اب توہم بھائی بھائی ہوگئے ہیں۔ یہ گائے کیاتیری کیا میری۔ جتنی تیری ہے، اتنی میری۔کہانی والے نے بڑے کمال کے ساتھ ایک تاریخی حقیقت کوتمثیل واستعارے میں بیان کیاہے ۔''گائے ''اورکوئی نہیں ''عوام'' ہیں جو فوج بھی پیدا کرتے ہیں، کھانے پینے کی نعمتیں بھی اوران دونوں ساجھے داروں کی ہر ضرورت پوری کرتے ہیں اوروہ گائے آج تک ان دونوں ساجھے داروں کے قبضے میں ہے اوروہی سلسلہ ہے۔

بدلاکچھ بھی نہیں صرف نام بدل جاتے ہیں۔ ''فرعون'' یادیوتازادہ بھی وہی ہے، اسے مقدس بنانے والا پروہیت بھی موجود ہے اوربدقسمت گائے کوویسے ہی دوہا اور کھایا جارہا ہے، جب اس کے بچے یہاں وہاں سوکھی گھاس پرجوان ہوجاتے ہیں توان کی گردنوں میں رسی ڈال کراستعمال کیاجاتاہے۔
Load Next Story