بلاگ ذکر اس فسوں گر کا۔ ۔ ۔
کہنے والے ٹھیک ہی کہتے ہیں:"غالب، غالب ہے، باقی سب مغلوب ہیں!" ذرا یہ لاجواب شعر دیکھیے:
KARACHI:
کہنے والے ٹھیک ہی کہتے ہیں:"غالب، غالب ہے، باقی سب مغلوب ہیں!" ذرا یہ لاجواب شعر دیکھیے:
اب عنوان کے لیے ہم نے غالب کا مصرع چنا۔ تھوڑی ترمیم بھی کر گئے۔ اس حرکت پر اگر آپ خفا ہوتے ہیں، تو معذرت۔ یہ بھی واضح کردیں کہ غالب کا انداز بیاں تو رازداں کو رقیب بنا سکتا ہے، ہمارا یہ معاملہ نہیں۔ اگرہمارے بیاں میں کچھ دم خم ہوا، تو سمجھیے، اسی فسوں گر کے دم سے ہوگا، جو تحریر کا ماخذ بھی ہے، اور محرک بھی۔
دراصل گذشتہ دنوں، ساحل پر واقع ایک سرائے میں، جہاں بحیرہ عرب کے پانی آتے تھے، جن پرپرندے پرواز کرتے، اور مستنصر حسین تارڑ کی جادوئی تحریروں کی یادیں تازہ کر دیتے، ملاقات ہماری فکشن کے ایک فسوں گر سے ہوئی، جنھیں دنیا انتظار حسین کے نام سے جانتی ہے۔
شاید چند عشروں پہلے ان کی ادبی حیثیت کی بابت ابہام پایا جاتا ہوں، سوال اٹھتے ہوں، مگر اب یہ واضح ہے کہ عہد ہمارا اُن ہی سے منسوب ہے۔ ایک آزاد روح پائی انھوں نے، اپنی راہ خود بنائی۔ اس زمانے کے سب سے قدرآور آدمی وہی ہیں۔ یقین نہ آئے، تو ان کا ناول "بستی" پڑھ ڈالیں۔ مبہوت رہ جانا کسے کہتے ہیں، جان جائیں گے۔ اب تو اس کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ دیگر تخلیقات بھی بیرونی دنیا میں پہچانی گئیں۔ بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے والا اردو کا پہلا ادیب انھیں کہا جائے، توغلط نہیں ہوگا۔
انتظار صاحب کی بابت لکھتے سمے اپنی کم مائیگی کا احساس ستانے لگتا ہے۔ اس تذکرہ کے لیے تو پورا دفتر درکار ہے۔ یہاں مختصرا اتنا بتا دیتے ہیں کہ چار ناول انھوں نے لکھے؛ چاند گہن، بستی، آگے سمندر ہے اور تذکرہ۔ یوں تو چاروں ہی کا خوب چرچا ہوا، مگر "بستی" نمایاں قرار پایا۔ افسانہ نگاری میں رجحان ساز ٹھہرے۔ افسانے کلیات میں سموئے جاچکے ہیں۔ آپ بیتی "جستجو کیا ہے" کے زیرعنوان شایع ہوئی۔ تراجم بھی باکمال کیے۔ چیخوف، ترگنیف، ایمل حبیبی، اسٹیفن کرین اور عطیہ سید کی تخلیقات کو اردو روپ دیا۔ کالم نگاری میں منفرد اسلوب ہے۔ اعزازات یوں تو ڈھیروں ملے، مگر جس کا تذکرہ ضروری ہے، وہ مین بکر انٹرنیشنل پرائز کے لیے ان کی نامزدگی ہے۔
طویل مکالمہ ہوا اُن سے اس سہ پہر مگر یہ اتنا سہل نہیں تھا، سیشنز اور چاہنے والوں میں وہ گھرے تھے۔ خیر، ہم نے بھی تعاقب جاری رکھا۔ بالآخر کامراں ٹھہرے۔ ہمارے پیارے دوست، چھوٹے بھیم ساتھ تھے، اُن کی کاوش کا تذکرہ نہ کریں، تو زیادتی ہوگی۔
تو مکالمے میں، جسے انٹرویو بھی کہا جاسکتا ہے، خاصی باتیں ہوئیں، بلاگ میں چند کا ذکر کیے دیتے ہیں۔ جب پوچھا، جناب کیا ادب میں کسی نئی تحریک یا بغاوت کی ضرورت ہے، تو انتظارصاحب نے فرمایا:"ہاں، مگر اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔"
جب سبب دریافت کیا، تو کہنے لگے کہ جو گروہ علم کے پرستاروں، ادب کے چاہنے والوں کے مدمقابل ہے، بڑا ہی سخت ہے، تشدد پر مائل، اسلحے سے لیس۔ پھر خیال ظاہر کیا کہ ادبی سرگرمیاں جاری رہنی چاہییں کہ یہی اکلوتا امکان ہیں۔
اردو ادب کی حیثیت یا بے حیثیتی کا سوال ہمیں بہت ستاتا ہے۔ دبدھا میں ہیں۔ ان سے بھی پوچھا، کیا ہمارا ادب بین الاقوامی ادب کے سامنے کھڑا ہوسکتا ہے؟
جواب ان کا اثبات میں تھا، کہنے لگے؛ اب اس کے امکانات پیدا ہوئے ہیں، اردو ادیب دھیرے دھیرے ہی سہی، بین الاقوامی دنیا کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔
ویسے تو انتظار صاحب ہی وہ وسیلہ ہیں، جن کے طفیل یہ مرحلہ طے ہوا۔ انہیں گذشتہ برس "مین بکر انٹرنیشنل پرائز" کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ انعام تو نہیں ملا، مگر اردو والوں کے لیے ایک راہ ضرور کھل گئی۔
فکشن کے اس فسوں گر سے ملاقات کے بعد جب ہم دھواں دیتی چائے کا کپ لیے بحیرہ عرب کے کنارے کھڑے تھے، تو عجیب لمحہ اترا۔ آبی پرندوں کے جھنڈ میں سے ایک پرندے نے اپنے پر پھیلائے، اور وسعتوں کی سمت اڑان بھری۔ وہ اوروں سے الگ تھا کہ اس کی روح آزاد تھی ۔
شاید وہ پرندہ "رچرڈ بیش" کے لازوال ناول کا کردار "جوناتھن" تھا۔
"جوناتھن" کے قصے کو کسی اور دن پر اٹھا رکھتے ہیں، ابھی تو ذرا لہروں سے لطف اندوز ہولیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کہنے والے ٹھیک ہی کہتے ہیں:"غالب، غالب ہے، باقی سب مغلوب ہیں!" ذرا یہ لاجواب شعر دیکھیے:
ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر، تھا جو رازداں اپنا
اب عنوان کے لیے ہم نے غالب کا مصرع چنا۔ تھوڑی ترمیم بھی کر گئے۔ اس حرکت پر اگر آپ خفا ہوتے ہیں، تو معذرت۔ یہ بھی واضح کردیں کہ غالب کا انداز بیاں تو رازداں کو رقیب بنا سکتا ہے، ہمارا یہ معاملہ نہیں۔ اگرہمارے بیاں میں کچھ دم خم ہوا، تو سمجھیے، اسی فسوں گر کے دم سے ہوگا، جو تحریر کا ماخذ بھی ہے، اور محرک بھی۔
دراصل گذشتہ دنوں، ساحل پر واقع ایک سرائے میں، جہاں بحیرہ عرب کے پانی آتے تھے، جن پرپرندے پرواز کرتے، اور مستنصر حسین تارڑ کی جادوئی تحریروں کی یادیں تازہ کر دیتے، ملاقات ہماری فکشن کے ایک فسوں گر سے ہوئی، جنھیں دنیا انتظار حسین کے نام سے جانتی ہے۔
شاید چند عشروں پہلے ان کی ادبی حیثیت کی بابت ابہام پایا جاتا ہوں، سوال اٹھتے ہوں، مگر اب یہ واضح ہے کہ عہد ہمارا اُن ہی سے منسوب ہے۔ ایک آزاد روح پائی انھوں نے، اپنی راہ خود بنائی۔ اس زمانے کے سب سے قدرآور آدمی وہی ہیں۔ یقین نہ آئے، تو ان کا ناول "بستی" پڑھ ڈالیں۔ مبہوت رہ جانا کسے کہتے ہیں، جان جائیں گے۔ اب تو اس کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ دیگر تخلیقات بھی بیرونی دنیا میں پہچانی گئیں۔ بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے والا اردو کا پہلا ادیب انھیں کہا جائے، توغلط نہیں ہوگا۔
انتظار صاحب کی بابت لکھتے سمے اپنی کم مائیگی کا احساس ستانے لگتا ہے۔ اس تذکرہ کے لیے تو پورا دفتر درکار ہے۔ یہاں مختصرا اتنا بتا دیتے ہیں کہ چار ناول انھوں نے لکھے؛ چاند گہن، بستی، آگے سمندر ہے اور تذکرہ۔ یوں تو چاروں ہی کا خوب چرچا ہوا، مگر "بستی" نمایاں قرار پایا۔ افسانہ نگاری میں رجحان ساز ٹھہرے۔ افسانے کلیات میں سموئے جاچکے ہیں۔ آپ بیتی "جستجو کیا ہے" کے زیرعنوان شایع ہوئی۔ تراجم بھی باکمال کیے۔ چیخوف، ترگنیف، ایمل حبیبی، اسٹیفن کرین اور عطیہ سید کی تخلیقات کو اردو روپ دیا۔ کالم نگاری میں منفرد اسلوب ہے۔ اعزازات یوں تو ڈھیروں ملے، مگر جس کا تذکرہ ضروری ہے، وہ مین بکر انٹرنیشنل پرائز کے لیے ان کی نامزدگی ہے۔
طویل مکالمہ ہوا اُن سے اس سہ پہر مگر یہ اتنا سہل نہیں تھا، سیشنز اور چاہنے والوں میں وہ گھرے تھے۔ خیر، ہم نے بھی تعاقب جاری رکھا۔ بالآخر کامراں ٹھہرے۔ ہمارے پیارے دوست، چھوٹے بھیم ساتھ تھے، اُن کی کاوش کا تذکرہ نہ کریں، تو زیادتی ہوگی۔
تو مکالمے میں، جسے انٹرویو بھی کہا جاسکتا ہے، خاصی باتیں ہوئیں، بلاگ میں چند کا ذکر کیے دیتے ہیں۔ جب پوچھا، جناب کیا ادب میں کسی نئی تحریک یا بغاوت کی ضرورت ہے، تو انتظارصاحب نے فرمایا:"ہاں، مگر اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔"
جب سبب دریافت کیا، تو کہنے لگے کہ جو گروہ علم کے پرستاروں، ادب کے چاہنے والوں کے مدمقابل ہے، بڑا ہی سخت ہے، تشدد پر مائل، اسلحے سے لیس۔ پھر خیال ظاہر کیا کہ ادبی سرگرمیاں جاری رہنی چاہییں کہ یہی اکلوتا امکان ہیں۔
اردو ادب کی حیثیت یا بے حیثیتی کا سوال ہمیں بہت ستاتا ہے۔ دبدھا میں ہیں۔ ان سے بھی پوچھا، کیا ہمارا ادب بین الاقوامی ادب کے سامنے کھڑا ہوسکتا ہے؟
جواب ان کا اثبات میں تھا، کہنے لگے؛ اب اس کے امکانات پیدا ہوئے ہیں، اردو ادیب دھیرے دھیرے ہی سہی، بین الاقوامی دنیا کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔
ویسے تو انتظار صاحب ہی وہ وسیلہ ہیں، جن کے طفیل یہ مرحلہ طے ہوا۔ انہیں گذشتہ برس "مین بکر انٹرنیشنل پرائز" کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ انعام تو نہیں ملا، مگر اردو والوں کے لیے ایک راہ ضرور کھل گئی۔
فکشن کے اس فسوں گر سے ملاقات کے بعد جب ہم دھواں دیتی چائے کا کپ لیے بحیرہ عرب کے کنارے کھڑے تھے، تو عجیب لمحہ اترا۔ آبی پرندوں کے جھنڈ میں سے ایک پرندے نے اپنے پر پھیلائے، اور وسعتوں کی سمت اڑان بھری۔ وہ اوروں سے الگ تھا کہ اس کی روح آزاد تھی ۔
شاید وہ پرندہ "رچرڈ بیش" کے لازوال ناول کا کردار "جوناتھن" تھا۔
"جوناتھن" کے قصے کو کسی اور دن پر اٹھا رکھتے ہیں، ابھی تو ذرا لہروں سے لطف اندوز ہولیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔