دہشت گردی میں مذاکرات
بھارت ایک عرصہ سے امریکا کی تحویل میں آچکا ہے اورامریکا کیلئے بھارت کا بڑا ملک پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ اہم ہے
پاکستان کے طالبان ہوں یا بھارت کے کرائے کے دہشت گرد میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں اسی لیے احتیاطاً میں کسی کے بارے میں لکھتا وکھتا بھی نہیں کہ مجھے اپنے اوپر پوری طرح اعتماد نہیں کہ میرا قلم بھٹک نہ جائے۔ میں ارادہ تو کروں عدالت میں حاضری کا اور پہنچ جاؤں کسی اسپتال میں۔ کسی اسپتال اور عدالت کے اس تعلق کا پتہ پہلی بار چلا ہے اس لیے عافیت اسی میں ہے کہ میں اس موضوع پر چپ ہی رہوں اور اسے حکمرانوں کے لیے چھوڑ دوں جو ان سے مذاکرات میں بہت مصروف ہیں۔ کہا تو یہ جاتا ہے اور عقل بھی مانتی ہے کہ جب مذاکرات ہوتے ہیں تو ان کے خاتمے تک امن رہتا ہے لیکن بدامنی پھیلانے والے اور دہشت گرد اگر کسی پڑوسی ملک بھارت سے ہوں تو پھر مذاکرات میں امن کیسے ہو۔
ادھر مذاکرات ہو رہے ہیں اور ادھر حسب معمول دھماکے جاری ہیں جیسے مذاکرات کا ذکر صرف اخباروں میں ہے اور بس۔ یہ بات یقینی ہے کہ بھارت اپنی خواہش اور کسی کی شہ کے مطابق پاکستان پر حملہ آور ہے۔ اب ملک جنگوں سے بچتے ہیں، اس کا متبادل ایک راستہ دہشت گردی کا نکالا گیا ہے جو کسی جنگ سے زیادہ پریشان کن ہوتا ہے فوجوں کے درمیان جنگ تو فتح یا شکست کسی نہ کسی صورت میں ختم ہو جاتی ہے اور جنگوں میں نقصان بھی بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن دہشت گردی میں نقصان جنگوں کے مقابلے میں بہت معمولی لیکن اثرات میں بہت زیادہ۔ دہشت گردی ملک بھر کو بچوں تک کو بے چین کر دیتی ہے۔ زندگی کے معمولات پر یقین اٹھ جاتا ہے جب یہ تک معلوم نہ ہو کہ صبح گھر سے بخیریت نکلے ہیں تو واپس ہوں گے یا نہیں یا کسی دھماکے میں اڑ جائیں گے۔ دم کا بھروسہ نہیں والی زندگی بھی کیا زندگی ہوئی ایسی زندگی میں کوئی زندگی کے معمولی سے منصوبہ پر بھی عمل نہیں کر سکتا کہ خدا جانے کیا ہو سامان سو برس کا کل کی خبر نہیں۔
ان دنوں ہم پاکستانی اسی حالت سے گزر رہے ہیں۔ سابقہ حکومت کے وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب نے آخری دنوں میں بالآخر اعتراف کیا تھا کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے۔ اگرچہ پاکستانیوں کو پہلے سے ہی یقین تھا کہ بھارت ہی یہ سب کر رہا ہے اور دہشت گردی کی آمد براستہ افغانستان ہو رہی ہے لیکن بھارت کی اس حرکت کے پیچھے امریکا کو سمجھا گیا کیونکہ بھارت ایک عرصہ سے امریکا کی تحویل میں آ چکا ہے اور امریکا کے لیے بھارت کا بڑا ملک پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ اہم ہے۔ علاوہ ازیں ایک مسلمان ملک ہونے کی وجہ سے امریکا پاکستان پر اعتماد بھی نہیں کر سکتا۔ ہماری پاکستانی اشرافیہ بھی امریکا سے دبتی تھی کیونکہ ان کی دولت کا بڑا حصہ امریکا میں ہے یا امریکا کے زیر اثر حواری ملکوں میں۔ اس ناجائز اور لوٹ مار کی دولت کو پاکستان میں تو رکھا نہیں جا سکتا اس کے لیے بیرونی ملک درکار ہیں چنانچہ ہماری پاکستانی دولت یا تو غیر ملکی بینکوں میں جمع ہے یا وہ مکانوں کی صورت میں امریکا برطانیہ فرانس اور بعض دوسرے ملکوں میں موجود ہے۔
اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کی عمر بھر کی کمائی جہاں ہو گی وہ خود بھی وہیں ہوں گے۔ ملک نہیں مال و دولت میں جن کی زندگی ہو وہ اس سے محروم کیسے ہو سکتے ہیں۔ علاوہ کئی دوسرے اسباب کے ہم شاید اتنی سکت بھی نہیں رکھتے کہ بھارت سے احتجاج بھی کر سکیں چنانچہ ہم اپنے ملک کے ایک گروہ طالبان کا ذکر تو کرتے ہیں اور ان کے ساتھ مذاکرات بھی کر رہے مگر بھارت ہمارے لیے معصوم ہے یا پھر وہ اس قدر طاقت ور ہے کہ ہماری حد تک وہ دوسرا امریکا ہے۔ احتجاج تو دور کی بات ہے ہم تو برہمی کا نرم سا اظہار بھی نہیں کرتے بلکہ بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر وہ رعائت دینے پر تیار ہیں جو پاکستانی برداشت کر سکیں جب کہ ہماری حالت یہ کہ دہشت گرد ملک کی زندگی معطل کر سکتے ہیں، گزشتہ روز ملک کے اکثر حصوں میں گیس بند رہی کیونکہ دہشت گردی نے گیس کا پائپ اڑا دیا تھا۔ ذرا غور کیجیے کہ آنے والی نسلوں کو پولیو سے محفوظ رکھنے کے لیے ہم بچوں کو دوا نہیں پلا سکتے کیونکہ یہ ''غیر اسلامی'' ہے۔ یعنی علاج معالجہ غیر اسلامی ہے۔
بھارت تو ایک بالادست ملک ہے (یہ لکھنے اور اعتراف کا وقت بھی آنا تھا) لیکن ہم نے اپنی غلط اور سرسری قسم کی چلت پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے اندر بھی خطرے پیدا کر لیے ہیں۔ ان دنوں طالبان سے مذاکرات ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی کسی طرف سے دہشت گردی بھی جاری ہے۔ مذاکرات کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کو ختم ہونے دیں اور کوئی نتیجہ نکلے تو بات ہو گی۔ وہ بھی اگر ضرورت ہوئی تو ویسے میں نے جیسے عرض کیا ہے میں ڈرتا ورتا نہیں ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ میں طالبان کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں ان کی افتاد طبع اور مزاح کی ساخت سے میں خوب واقف ہوں۔ میری عمر کا ایک حصہ ان کے ساتھ بھی گزرا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ان کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوں گے لیکن ناکامی سے بھی ڈر لگتا ہے۔
تحریک پاکستان کے زمانے میں ہم نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ۔ لیکن 66 برس گزر گئے یہ اعلان ہی رہا تاہم آئین بھی تحریر کی حد تک اسلامی ہے اور ایسی قانون سازی بھی موجود ہے جس کی رو سے خلاف قرآن و سنت کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے حکمران کبھی اس قابل نہیں تھے کہ وہ تحریک پاکستان کے تقاضوں کو پورا کر سکتے چنانچہ ایک گروہ کو جب یہ غیر استعمال شدہ ہتھیار مل گیا تو انھوں نے اسے استعمال کرنا شروع کر دیا، اب یہ بحث تو میں خوفزدہ ہونے کی وجہ سے نہیں کر سکتا کہ طالبان کا اسلام اور ہمارا آپ کا اسلام کیا ہے۔ آئیے سب سے پہلے تو مذاکرات کا انتظار کرتے ہیں ویسے میرا خیال ہے کہ وہ کامیاب نہیں ہوں گے لیکن کوئی نہ کوئی منفی یا مثبت اعلان ضروری ہے۔ بعد میں دیکھیں گے کہ اعلان اگر مثبت ہوتا ہے تو کب تک وہ مثبت رہتا ہے۔
ادھر مذاکرات ہو رہے ہیں اور ادھر حسب معمول دھماکے جاری ہیں جیسے مذاکرات کا ذکر صرف اخباروں میں ہے اور بس۔ یہ بات یقینی ہے کہ بھارت اپنی خواہش اور کسی کی شہ کے مطابق پاکستان پر حملہ آور ہے۔ اب ملک جنگوں سے بچتے ہیں، اس کا متبادل ایک راستہ دہشت گردی کا نکالا گیا ہے جو کسی جنگ سے زیادہ پریشان کن ہوتا ہے فوجوں کے درمیان جنگ تو فتح یا شکست کسی نہ کسی صورت میں ختم ہو جاتی ہے اور جنگوں میں نقصان بھی بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن دہشت گردی میں نقصان جنگوں کے مقابلے میں بہت معمولی لیکن اثرات میں بہت زیادہ۔ دہشت گردی ملک بھر کو بچوں تک کو بے چین کر دیتی ہے۔ زندگی کے معمولات پر یقین اٹھ جاتا ہے جب یہ تک معلوم نہ ہو کہ صبح گھر سے بخیریت نکلے ہیں تو واپس ہوں گے یا نہیں یا کسی دھماکے میں اڑ جائیں گے۔ دم کا بھروسہ نہیں والی زندگی بھی کیا زندگی ہوئی ایسی زندگی میں کوئی زندگی کے معمولی سے منصوبہ پر بھی عمل نہیں کر سکتا کہ خدا جانے کیا ہو سامان سو برس کا کل کی خبر نہیں۔
ان دنوں ہم پاکستانی اسی حالت سے گزر رہے ہیں۔ سابقہ حکومت کے وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب نے آخری دنوں میں بالآخر اعتراف کیا تھا کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے۔ اگرچہ پاکستانیوں کو پہلے سے ہی یقین تھا کہ بھارت ہی یہ سب کر رہا ہے اور دہشت گردی کی آمد براستہ افغانستان ہو رہی ہے لیکن بھارت کی اس حرکت کے پیچھے امریکا کو سمجھا گیا کیونکہ بھارت ایک عرصہ سے امریکا کی تحویل میں آ چکا ہے اور امریکا کے لیے بھارت کا بڑا ملک پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ اہم ہے۔ علاوہ ازیں ایک مسلمان ملک ہونے کی وجہ سے امریکا پاکستان پر اعتماد بھی نہیں کر سکتا۔ ہماری پاکستانی اشرافیہ بھی امریکا سے دبتی تھی کیونکہ ان کی دولت کا بڑا حصہ امریکا میں ہے یا امریکا کے زیر اثر حواری ملکوں میں۔ اس ناجائز اور لوٹ مار کی دولت کو پاکستان میں تو رکھا نہیں جا سکتا اس کے لیے بیرونی ملک درکار ہیں چنانچہ ہماری پاکستانی دولت یا تو غیر ملکی بینکوں میں جمع ہے یا وہ مکانوں کی صورت میں امریکا برطانیہ فرانس اور بعض دوسرے ملکوں میں موجود ہے۔
اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کی عمر بھر کی کمائی جہاں ہو گی وہ خود بھی وہیں ہوں گے۔ ملک نہیں مال و دولت میں جن کی زندگی ہو وہ اس سے محروم کیسے ہو سکتے ہیں۔ علاوہ کئی دوسرے اسباب کے ہم شاید اتنی سکت بھی نہیں رکھتے کہ بھارت سے احتجاج بھی کر سکیں چنانچہ ہم اپنے ملک کے ایک گروہ طالبان کا ذکر تو کرتے ہیں اور ان کے ساتھ مذاکرات بھی کر رہے مگر بھارت ہمارے لیے معصوم ہے یا پھر وہ اس قدر طاقت ور ہے کہ ہماری حد تک وہ دوسرا امریکا ہے۔ احتجاج تو دور کی بات ہے ہم تو برہمی کا نرم سا اظہار بھی نہیں کرتے بلکہ بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر وہ رعائت دینے پر تیار ہیں جو پاکستانی برداشت کر سکیں جب کہ ہماری حالت یہ کہ دہشت گرد ملک کی زندگی معطل کر سکتے ہیں، گزشتہ روز ملک کے اکثر حصوں میں گیس بند رہی کیونکہ دہشت گردی نے گیس کا پائپ اڑا دیا تھا۔ ذرا غور کیجیے کہ آنے والی نسلوں کو پولیو سے محفوظ رکھنے کے لیے ہم بچوں کو دوا نہیں پلا سکتے کیونکہ یہ ''غیر اسلامی'' ہے۔ یعنی علاج معالجہ غیر اسلامی ہے۔
بھارت تو ایک بالادست ملک ہے (یہ لکھنے اور اعتراف کا وقت بھی آنا تھا) لیکن ہم نے اپنی غلط اور سرسری قسم کی چلت پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے اندر بھی خطرے پیدا کر لیے ہیں۔ ان دنوں طالبان سے مذاکرات ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی کسی طرف سے دہشت گردی بھی جاری ہے۔ مذاکرات کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کو ختم ہونے دیں اور کوئی نتیجہ نکلے تو بات ہو گی۔ وہ بھی اگر ضرورت ہوئی تو ویسے میں نے جیسے عرض کیا ہے میں ڈرتا ورتا نہیں ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ میں طالبان کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں ان کی افتاد طبع اور مزاح کی ساخت سے میں خوب واقف ہوں۔ میری عمر کا ایک حصہ ان کے ساتھ بھی گزرا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ان کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوں گے لیکن ناکامی سے بھی ڈر لگتا ہے۔
تحریک پاکستان کے زمانے میں ہم نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ۔ لیکن 66 برس گزر گئے یہ اعلان ہی رہا تاہم آئین بھی تحریر کی حد تک اسلامی ہے اور ایسی قانون سازی بھی موجود ہے جس کی رو سے خلاف قرآن و سنت کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے حکمران کبھی اس قابل نہیں تھے کہ وہ تحریک پاکستان کے تقاضوں کو پورا کر سکتے چنانچہ ایک گروہ کو جب یہ غیر استعمال شدہ ہتھیار مل گیا تو انھوں نے اسے استعمال کرنا شروع کر دیا، اب یہ بحث تو میں خوفزدہ ہونے کی وجہ سے نہیں کر سکتا کہ طالبان کا اسلام اور ہمارا آپ کا اسلام کیا ہے۔ آئیے سب سے پہلے تو مذاکرات کا انتظار کرتے ہیں ویسے میرا خیال ہے کہ وہ کامیاب نہیں ہوں گے لیکن کوئی نہ کوئی منفی یا مثبت اعلان ضروری ہے۔ بعد میں دیکھیں گے کہ اعلان اگر مثبت ہوتا ہے تو کب تک وہ مثبت رہتا ہے۔