آپ اپنے گناہ سے بے خبرہیں
نہ جانے ہم سے ایسا کون ساگناہ سرزد ہوا ہے جس کی سزا کے طور پر ہم پر یہ حکمران مسلط ہوگئے ہیں
ہمیں اچھی طرح یادہے جب نظریہ پاکستان اورسایہ خدائے ذوالجلال پر جناب''سب پر بھاری'' کاسایہ عاطفت پھیلاہوا تھا تو محترمہ تہمینہ دولتانہ نے نظریہ پاکستان اورسایہ خدائے ذوالجلال والوں کی ایک تقریب میں کہاتھاکہ ...نہ جانے ہم سے ایسا کون ساگناہ سرزد ہوا ہے جس کی سزا کے طور پر ہم پر یہ حکمران مسلط ہوگئے ہیں۔
ہمیں حیرت ہوئی کہ موسم لیگ اورنظریہ پاکستان والوں کو ابھی تک اپنے گناہ بلکہ گناہوں کااحساس تک نہیں ہواہے جب ان کو اتنے بڑے گناہوں کا خود پتہ نہیں ہے تو ہم کیوں بتائیں ،بتانے کے لیے ''تاریخ'' ہے نا۔ لیکن اب کے جو عذاب جدیدہم پر نازل ہوا ہے، غلط مت سمجھئے گا، ہمارا اشارہ کسی بڑے بڑوں کی طرف نہیں ہے بلکہ اس خطرناک، درد ناک، دہشت ناک اورہیبت ناک مہنگائی کی طرف ہے جس کے پیچھے پیچھے جرائم، منشیات، کرپشن، بے راہ روی اورنفسا نفسی کاایک طوفان بھی چل رہا ہے۔
اس عذاب کیوجہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے لیکن وہ وجہ یا گناہ سامنے ہوتے ہوئے بھی ''نامعلوم''بنا ہوا ہے ، اور یہ تو ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ عذاب''افراد'' کے گناہوںکودرگزر بھی کردیتا ہے مگر قوموں کاگناہ کبھی نہیں بخشتا۔ اسلام نے دو حقوق مقرر کیے ہیں ،نصف جس کا تعلق معاملات یعنی حقوق العباد سے تھا، اس سے بڑا گناہ اورکیا ہوگا کہ اسے کہیں دورپھینک دیاگیا ہے اور صرف حقوق اللہ کادکھایا جانے والا حصہ زیراستعمال ہے، وہ بری طرح اورانتہائی رف بلکہ اسے بھی کاروبار یا انڈسٹری بنا دیا گیا ہے ۔دوسراگناہ یہ کہ باقی اسلام کو بھی دور کردیا گیا بلکہ تعبیر و تشریح الٹی کر دی گئی ہے ۔
جو دین ایک یتیم ویسیر،انتہائی غریب، مسکین اورمزدوری کرنے والی ہستی نے گراس روٹ سے شروع کیا تھا جوغریبوں سے شروع ہوکرقیصروکسریٰ تک پہنچا تھا، آج اسے تخت اورکرسی سے مشروط کیاگیا ہے یعنی پہلے تخت اورکرسی اس کے بعد دین کا نفاذ۔گویا پیڑ کو شاخوں اورپھولوں کی طرف سے بویاجا رہا ہے حالاں کہ پیڑ بیج سے شروع ہوتا ہے پہلے زمین سے پھوٹتا ہے یا بیج ڈالا جاتا ہے پھر دوپتے، چارپتے پھر شاخیں اورآخر میں شگوفے اور پھول نکلتے ہیں، لیکن یہاں گلدانوں کے پھولوں سے درخت اگانے کی کوشش یا ڈرامہ چل رہا ہے جب وہ تخت یا کرسی پر بیٹھ جائیں گے تب اسلام کو نافذکریں گے۔
اوراب سب سے بڑا گناہ۔اگرآپ کسی نادار بھکاری کو بادشاہ کہنا شروع کردیں، کسی اینجربنجر شخص کو پہلوان کہنا شروع کردیں، کسی چیونٹی کو ہاتھی کہیں اورکسی انتہائی بدعمل اور بدکارکو بزرگ یا ولی اللہ کہنا شروع کردیں تو اس سے کس کی توہین ہوگی۔
چلیے ہم ایک سادہ مثال دیتے ہیں آپ سکندر مرزا، غلام محمد ،ایوب خان، بھٹو ،بے نظیر،ضیاء الحق، مشرف، میاں نوازشریف یا عمران خان کو قائداعظم کہہ سکتے ہیں اوراگر کہیں گے تو کس کی توہین لازم آئے گی؟ اب پاکستان کوجب ''ریاست مدینہ'' کہہ رہے تو کیا یہ توہین نہیں ہے،اس لیے کہ یہاں ریاست مدینہ والا ایک بھی عمل نہیں کیا جا رہا ہ ، ہر طرف الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک
ریاست مدینہ نام رکھنے سے پاکستان کی کوئی عزت افزائی تونہیں ہوگی البتہ ریاست مدینہ کی توہین ہوگی اورکہنے والوں سے گناہ کبیرہ سرزد ہوگا۔
اب یاد نہیں کہ کس بڑے آدمی سے کسی نے آغا حشر کاذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ ہند کے شیکسپئر ہیں۔ اس پر اس بڑے آدمی نے کہا تھا جیسا تھرڈ کلاس ہندوستان ہے ویسا ہی تھرڈ کلاس اس کا شیکسپئر بھی ہے۔
مفادات ،لالچوں اورمنافقتوں کو تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف کردیں بلکہ یہ ''لبادے'' ایک لمحے کے لیے اتار کر سوچئے کہ اسلام کی کتنی بڑی توہین کر رہے ہیں، کیا ریاست مدینہ ایسی تھی۔ یہاں تو ''سود''کو شیر مادر سمجھاجاتا ہے، یہاں تو صبح ہرکباڑی کے پاس شراب کی سیکڑوں خالی بوتلیں پہنچتی ہیں اور یہ سب تو چھوڑئیے جہاں ریاست مدینہ کے بانی کی ایک خاص سنت جس کا تعلق چہرے سے ہے وہ موجود نہیں ہے اسے آپ ریاست مدینہ کہتے ہو،کچھ تو خیال کرو،اگر ان جیسے نہیں بن سکتے تو جھوٹ تو مت بولو،دھوکا تو مت دو،کم از کم سچ تو بولو۔
صرف یہ ہی نہیں بلکہ ان سارے مقدم ومحترم ناموں کو اپنی تسکین کے لیے تجارتوں اور دکانوں میں استعمال کیا جا رہا ہے، گندے ہوٹلوں، غلط دکانوں اورجعلی پراڈکٹوں تک پروہ پاک نام رکھے جارہے ہیں ۔
ہمارے گاؤں کے ایک نیک بزرگ نے گاؤں کی گلیوں پرٹین کے پلیٹ لگا کر انھیں مقدس ناموں سے موسوم کردیا ہے بلکہ کوڑے کے ڈھیر جیسی گلیاں بھی ان کے نام سے موسوم کر لی ہیں۔اس پر بھی اگر آپ اپنے گناہوں سے بے خبرہیں اورعذابوں کی وجوہات معلوم نہیں ہیں تو یا تو آپ اندھے ہیں یا احمق ہیں یا پھر جھوٹے اور دغا باز ہیں۔
ہمیں حیرت ہوئی کہ موسم لیگ اورنظریہ پاکستان والوں کو ابھی تک اپنے گناہ بلکہ گناہوں کااحساس تک نہیں ہواہے جب ان کو اتنے بڑے گناہوں کا خود پتہ نہیں ہے تو ہم کیوں بتائیں ،بتانے کے لیے ''تاریخ'' ہے نا۔ لیکن اب کے جو عذاب جدیدہم پر نازل ہوا ہے، غلط مت سمجھئے گا، ہمارا اشارہ کسی بڑے بڑوں کی طرف نہیں ہے بلکہ اس خطرناک، درد ناک، دہشت ناک اورہیبت ناک مہنگائی کی طرف ہے جس کے پیچھے پیچھے جرائم، منشیات، کرپشن، بے راہ روی اورنفسا نفسی کاایک طوفان بھی چل رہا ہے۔
اس عذاب کیوجہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے لیکن وہ وجہ یا گناہ سامنے ہوتے ہوئے بھی ''نامعلوم''بنا ہوا ہے ، اور یہ تو ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ عذاب''افراد'' کے گناہوںکودرگزر بھی کردیتا ہے مگر قوموں کاگناہ کبھی نہیں بخشتا۔ اسلام نے دو حقوق مقرر کیے ہیں ،نصف جس کا تعلق معاملات یعنی حقوق العباد سے تھا، اس سے بڑا گناہ اورکیا ہوگا کہ اسے کہیں دورپھینک دیاگیا ہے اور صرف حقوق اللہ کادکھایا جانے والا حصہ زیراستعمال ہے، وہ بری طرح اورانتہائی رف بلکہ اسے بھی کاروبار یا انڈسٹری بنا دیا گیا ہے ۔دوسراگناہ یہ کہ باقی اسلام کو بھی دور کردیا گیا بلکہ تعبیر و تشریح الٹی کر دی گئی ہے ۔
جو دین ایک یتیم ویسیر،انتہائی غریب، مسکین اورمزدوری کرنے والی ہستی نے گراس روٹ سے شروع کیا تھا جوغریبوں سے شروع ہوکرقیصروکسریٰ تک پہنچا تھا، آج اسے تخت اورکرسی سے مشروط کیاگیا ہے یعنی پہلے تخت اورکرسی اس کے بعد دین کا نفاذ۔گویا پیڑ کو شاخوں اورپھولوں کی طرف سے بویاجا رہا ہے حالاں کہ پیڑ بیج سے شروع ہوتا ہے پہلے زمین سے پھوٹتا ہے یا بیج ڈالا جاتا ہے پھر دوپتے، چارپتے پھر شاخیں اورآخر میں شگوفے اور پھول نکلتے ہیں، لیکن یہاں گلدانوں کے پھولوں سے درخت اگانے کی کوشش یا ڈرامہ چل رہا ہے جب وہ تخت یا کرسی پر بیٹھ جائیں گے تب اسلام کو نافذکریں گے۔
اوراب سب سے بڑا گناہ۔اگرآپ کسی نادار بھکاری کو بادشاہ کہنا شروع کردیں، کسی اینجربنجر شخص کو پہلوان کہنا شروع کردیں، کسی چیونٹی کو ہاتھی کہیں اورکسی انتہائی بدعمل اور بدکارکو بزرگ یا ولی اللہ کہنا شروع کردیں تو اس سے کس کی توہین ہوگی۔
چلیے ہم ایک سادہ مثال دیتے ہیں آپ سکندر مرزا، غلام محمد ،ایوب خان، بھٹو ،بے نظیر،ضیاء الحق، مشرف، میاں نوازشریف یا عمران خان کو قائداعظم کہہ سکتے ہیں اوراگر کہیں گے تو کس کی توہین لازم آئے گی؟ اب پاکستان کوجب ''ریاست مدینہ'' کہہ رہے تو کیا یہ توہین نہیں ہے،اس لیے کہ یہاں ریاست مدینہ والا ایک بھی عمل نہیں کیا جا رہا ہ ، ہر طرف الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک
ریاست مدینہ نام رکھنے سے پاکستان کی کوئی عزت افزائی تونہیں ہوگی البتہ ریاست مدینہ کی توہین ہوگی اورکہنے والوں سے گناہ کبیرہ سرزد ہوگا۔
اب یاد نہیں کہ کس بڑے آدمی سے کسی نے آغا حشر کاذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ ہند کے شیکسپئر ہیں۔ اس پر اس بڑے آدمی نے کہا تھا جیسا تھرڈ کلاس ہندوستان ہے ویسا ہی تھرڈ کلاس اس کا شیکسپئر بھی ہے۔
مفادات ،لالچوں اورمنافقتوں کو تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف کردیں بلکہ یہ ''لبادے'' ایک لمحے کے لیے اتار کر سوچئے کہ اسلام کی کتنی بڑی توہین کر رہے ہیں، کیا ریاست مدینہ ایسی تھی۔ یہاں تو ''سود''کو شیر مادر سمجھاجاتا ہے، یہاں تو صبح ہرکباڑی کے پاس شراب کی سیکڑوں خالی بوتلیں پہنچتی ہیں اور یہ سب تو چھوڑئیے جہاں ریاست مدینہ کے بانی کی ایک خاص سنت جس کا تعلق چہرے سے ہے وہ موجود نہیں ہے اسے آپ ریاست مدینہ کہتے ہو،کچھ تو خیال کرو،اگر ان جیسے نہیں بن سکتے تو جھوٹ تو مت بولو،دھوکا تو مت دو،کم از کم سچ تو بولو۔
صرف یہ ہی نہیں بلکہ ان سارے مقدم ومحترم ناموں کو اپنی تسکین کے لیے تجارتوں اور دکانوں میں استعمال کیا جا رہا ہے، گندے ہوٹلوں، غلط دکانوں اورجعلی پراڈکٹوں تک پروہ پاک نام رکھے جارہے ہیں ۔
ہمارے گاؤں کے ایک نیک بزرگ نے گاؤں کی گلیوں پرٹین کے پلیٹ لگا کر انھیں مقدس ناموں سے موسوم کردیا ہے بلکہ کوڑے کے ڈھیر جیسی گلیاں بھی ان کے نام سے موسوم کر لی ہیں۔اس پر بھی اگر آپ اپنے گناہوں سے بے خبرہیں اورعذابوں کی وجوہات معلوم نہیں ہیں تو یا تو آپ اندھے ہیں یا احمق ہیں یا پھر جھوٹے اور دغا باز ہیں۔