ترقی اور روٹی
لب پہ تو ترقی کا نغمہ ہے<br />
پر روٹی قوم کے پاس نہیں
پہلے ترقی و روٹی کے لغوی معنی ملاحظہ کریں تا کہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
''ترقی'' اصل میں عربی لفظ ہے اور اردو زبان میں بھی رائج ہے جس کے معنی ہیں آگے بڑھنا، اونچا ہونا، افزونی، اضافہ، بلندی، برتری۔ دوئم ''روٹی'' کے معنی ہیں نان، چپاتی، پھلکا، چہلم کا کھانا، غذا، رزق۔
اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں یعنی ''لب پہ تو ترقی کا نغمہ ہے، پر روٹی قوم کے پاس نہیں'' یعنی ہم آگے اس طرح بڑھ گئے ہیں اونچا ہو گئے ہیں، بلندی پا گئے ہیں کہ ''آدھے پاؤ کی غذا ایک روٹی'' ہمیں دکھائی ہی نہیں دے رہی۔ ہاں البتہ ملک کی مخدوش صورت حال کے سبب قوم کو روٹی (چہلم کا کھانا) یا پھر قومی لوٹ کھسوٹ کا شاخسانہ ''رفاعی اداروں کے دستر خوان'' پر یہ رزق یا روٹی صرف ان غریب لوگوں کو نظر آتی ہے جو عرف عام میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، لیکن یہاں بھی ہم ''ترقی'' پا رہے ہیں یعنی پہلے ایک رفاعی دسترخوان ہوا کرتا تھا اب ان کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ''ہم غربت میں ترقی پا رہے ہیں'' امراء یعنی امیر لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہیں جب کہ غریبوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اس طرح ریٹنگ کے حساب سے غریبوں کو امیروں پر برتری حاصل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ امیروں کے پالتو کتے بلیوں کی ماہانہ خوراک کا بجٹ لاکھوں روپے ہے جب کہ غریبوں کو ایک وقت کی روٹی بھی با آسانی اور با عزت طریقے سے نصیب نہیں۔ انسان اور جانور کے درمیان ہمارے معاشرے میں یہ فرق کیوں؟ کیا اسی کا نام ترقی ہے؟
پھر ہم کس ترقی کی بات کرتے ہیں؟ کرپشن میں ترقی کی، رشوت خوری میں ترقی کی، بے ایمانی، جھوٹ، مکر و فریب میں ترقی کی یا ایٹم بم و میزائل بنانے میں ترقی کی باتیں کرتے ہیں؟ یا پھر شاہراہیں و بلند و بالا عمارتیں بنانے اور کھڑی کرنے کی باتیں کرتے ہیں؟ معاف کرنا! قوم کا پیٹ گولہ بارود سے نہیں اور نہ ہی لمبی چوڑی سڑکوں اور چمکتی دھمکتی عمارتوں سے بھرتا ہے بلکہ دو وقت کی ''روٹی'' سے بھرتا ہے، وہ بھی حق و حلال کی روٹی سے نہ کہ کرپشن، رشوت خوری، بے ایمانی اور جھوٹ مکر و فریب کی کمائی سے پیٹ بھرا جا سکتا ہے اگر ایسا ہوتا تو لاکھوں، کروڑوں اور اربوں روپے کمانے والوں کے پیٹ خالی نہ ہوتے جو دن رات حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر کمانے میں مصروف ہیں۔ بھتہ خوری کا ناسور راتوں رات پیدا نہیں ہوا، اس کی اپنی ایک مربوط اور شرم ناک تاریخ ہے۔ بھتہ خوری نیٹ ورک نے منی پاکستان تو کیا اب اسلام آباد تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں وسائل کی غیر مساوی تقسیم کے باعث خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی تنظیم اوکسم نے اپنے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ صرف ایک فیصد لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے جتنی آدھی دنیا کو میسر ہے۔ 85 ارب پتیوں کے پاس دولت کے اتنے ذخائر (1.7 کھرب ڈالر) ہیں جتنے ساڑھے 3 ارب لوگوں کے پاس ہیں۔ ایک جانب تو ایک ایسا طبقہ وجود میں آ چکا ہے جس کو خود اپنی بے پناہ دولت کا کوئی حساب و کتاب یاد نہیں اور دوسری جانب عوام میں غربت اس قدر عام ہو چکی ہے کہ دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن نہیں رہا۔ سماجی نا ہمواری کا یہ پہلو پاکستان میں بھی ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اقتدار و اختیار اور وسائل پر چند مخصوص خاندانوں یا افراد کا قبضہ ہے۔ قانون کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق بنانے اور استعمال کرنے کا رجحان تو ایک طرف رہا، قانون پر عمل نہ کرنا ایک وطیرہ بن چکا ہے۔ ہر پارلیمنٹیرین کے پاس اوسطاً اثاثہ جات 9 لاکھ ڈالر مالیت کے ہیں۔ ٹیکس ادا کرنا تو جیسے طبقہ اشرافیہ کی سرشت میں شامل نہیں، تو دوسری طرف پاکستانی عوام اشیائے صرف پر سیلز ٹیکس کی صورت میں بھاری ٹیکس دینے پر مجبور ہیں، گزشتہ دنوں ارکان پارلیمنٹ کے اثاثہ جات کی جو تفصیلات الیکشن کمیشن کے توسط سے منظر عام پر آئیں اس میں اپنے اثاثے چھپانے اور ٹیکس ادا نہ کرنے کا عنصر نمایاں تھا۔ ٹیکس چوری کی علت کے باعث تعلیم، صحت اور انفرا اسٹرکچر جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا فقدان ہے۔ عوام اور طبقہ اشرافیہ کے درمیان سماجی سطح پر بڑھتی ہوئی خلیج نفرت کا پیش خیمہ اور ملک میں آخر کار ہولناک انارکی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ وطن عزیز میں ایسے مثبت اقدامات کی ضرورت ہے جس کے تحت عوام کو جینے کا حق مل سکے، جاگیردار، وڈیرے، صنعت کار اور سیاست دان سب ہی ٹیکس ادا کریں، قانون کا احترام کریں اور عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کی روش کو ترک کرنے کی سوچ اپنائیں تب ہی امیر اور غریب کی خلیج کم ہو سکے گی اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے گا۔
اگر ہمیں ترقی کرنی ہے تو اسلامی اور معیاری تعلیم و تربیت اور بلند اقبال کردار میں ترقی کریں۔ جس کے کوکھ سے ایک ایماندار اور مثبت معاشرہ جنم لیتا ہے اور یہی معاشرہ اصل ترقی کا ضامن ہے جہاں نہ حرام خوری کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ ہی لوٹ کھسوٹ کی۔ لیکن اس معاشرت کی تعمیر کس کو کرنی ہے، ظاہر ہے سیاسی قیادتوں کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے کیڈر کو راستبازی، ایمانداری، کردار کی مضبوطی، میرٹ کے احترام، محبت و خیر سگالی اور مکمل رواداری کے اوصاف سے بہرہ مند کریں، خود بھی سادگی اور کفایت شعاری سے کام لیں، جمہوری اسپرٹ نہیں ہو گی معاشرہ کھوکھلا ہو جائے گا۔ غربت لعنت ہونے کے ساتھ ایک گہرا سماجی اور اقتصادی طنز بھی ہے۔ اس معاشرے پر جو ایٹمی صلاحیت سے مالامال ہے مگر اپنے عوام کو د و وقت کی روٹی دینے کے لیے اس کے پاس کوئی ٹھوس غذائی فلسفہ ہے نا معاشی نظام سے منسلک کوئی پائیدار معاشی پروگرام۔
اگر ترقی کرنی ہے تو ایمانداری میں ترقی کرنی ہو گی۔ سچائی میں ترقی کرنی ہو گی۔ دولت کی مساوی تقسیم میں ترقی کرنی ہو گی پھر نہ کوئی امیر ہو گا اور نہ غریب۔ سب برابر کے انسان ہوں گے اور نہ ہی یہ سوال اٹھے گا کہ:
لب پہ تو ترقی کا نغمہ ہے
پر روٹی قوم کے پاس نہیں
''ترقی'' اصل میں عربی لفظ ہے اور اردو زبان میں بھی رائج ہے جس کے معنی ہیں آگے بڑھنا، اونچا ہونا، افزونی، اضافہ، بلندی، برتری۔ دوئم ''روٹی'' کے معنی ہیں نان، چپاتی، پھلکا، چہلم کا کھانا، غذا، رزق۔
اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں یعنی ''لب پہ تو ترقی کا نغمہ ہے، پر روٹی قوم کے پاس نہیں'' یعنی ہم آگے اس طرح بڑھ گئے ہیں اونچا ہو گئے ہیں، بلندی پا گئے ہیں کہ ''آدھے پاؤ کی غذا ایک روٹی'' ہمیں دکھائی ہی نہیں دے رہی۔ ہاں البتہ ملک کی مخدوش صورت حال کے سبب قوم کو روٹی (چہلم کا کھانا) یا پھر قومی لوٹ کھسوٹ کا شاخسانہ ''رفاعی اداروں کے دستر خوان'' پر یہ رزق یا روٹی صرف ان غریب لوگوں کو نظر آتی ہے جو عرف عام میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، لیکن یہاں بھی ہم ''ترقی'' پا رہے ہیں یعنی پہلے ایک رفاعی دسترخوان ہوا کرتا تھا اب ان کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ''ہم غربت میں ترقی پا رہے ہیں'' امراء یعنی امیر لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہیں جب کہ غریبوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اس طرح ریٹنگ کے حساب سے غریبوں کو امیروں پر برتری حاصل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ امیروں کے پالتو کتے بلیوں کی ماہانہ خوراک کا بجٹ لاکھوں روپے ہے جب کہ غریبوں کو ایک وقت کی روٹی بھی با آسانی اور با عزت طریقے سے نصیب نہیں۔ انسان اور جانور کے درمیان ہمارے معاشرے میں یہ فرق کیوں؟ کیا اسی کا نام ترقی ہے؟
پھر ہم کس ترقی کی بات کرتے ہیں؟ کرپشن میں ترقی کی، رشوت خوری میں ترقی کی، بے ایمانی، جھوٹ، مکر و فریب میں ترقی کی یا ایٹم بم و میزائل بنانے میں ترقی کی باتیں کرتے ہیں؟ یا پھر شاہراہیں و بلند و بالا عمارتیں بنانے اور کھڑی کرنے کی باتیں کرتے ہیں؟ معاف کرنا! قوم کا پیٹ گولہ بارود سے نہیں اور نہ ہی لمبی چوڑی سڑکوں اور چمکتی دھمکتی عمارتوں سے بھرتا ہے بلکہ دو وقت کی ''روٹی'' سے بھرتا ہے، وہ بھی حق و حلال کی روٹی سے نہ کہ کرپشن، رشوت خوری، بے ایمانی اور جھوٹ مکر و فریب کی کمائی سے پیٹ بھرا جا سکتا ہے اگر ایسا ہوتا تو لاکھوں، کروڑوں اور اربوں روپے کمانے والوں کے پیٹ خالی نہ ہوتے جو دن رات حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر کمانے میں مصروف ہیں۔ بھتہ خوری کا ناسور راتوں رات پیدا نہیں ہوا، اس کی اپنی ایک مربوط اور شرم ناک تاریخ ہے۔ بھتہ خوری نیٹ ورک نے منی پاکستان تو کیا اب اسلام آباد تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں وسائل کی غیر مساوی تقسیم کے باعث خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی تنظیم اوکسم نے اپنے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ صرف ایک فیصد لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے جتنی آدھی دنیا کو میسر ہے۔ 85 ارب پتیوں کے پاس دولت کے اتنے ذخائر (1.7 کھرب ڈالر) ہیں جتنے ساڑھے 3 ارب لوگوں کے پاس ہیں۔ ایک جانب تو ایک ایسا طبقہ وجود میں آ چکا ہے جس کو خود اپنی بے پناہ دولت کا کوئی حساب و کتاب یاد نہیں اور دوسری جانب عوام میں غربت اس قدر عام ہو چکی ہے کہ دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن نہیں رہا۔ سماجی نا ہمواری کا یہ پہلو پاکستان میں بھی ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اقتدار و اختیار اور وسائل پر چند مخصوص خاندانوں یا افراد کا قبضہ ہے۔ قانون کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق بنانے اور استعمال کرنے کا رجحان تو ایک طرف رہا، قانون پر عمل نہ کرنا ایک وطیرہ بن چکا ہے۔ ہر پارلیمنٹیرین کے پاس اوسطاً اثاثہ جات 9 لاکھ ڈالر مالیت کے ہیں۔ ٹیکس ادا کرنا تو جیسے طبقہ اشرافیہ کی سرشت میں شامل نہیں، تو دوسری طرف پاکستانی عوام اشیائے صرف پر سیلز ٹیکس کی صورت میں بھاری ٹیکس دینے پر مجبور ہیں، گزشتہ دنوں ارکان پارلیمنٹ کے اثاثہ جات کی جو تفصیلات الیکشن کمیشن کے توسط سے منظر عام پر آئیں اس میں اپنے اثاثے چھپانے اور ٹیکس ادا نہ کرنے کا عنصر نمایاں تھا۔ ٹیکس چوری کی علت کے باعث تعلیم، صحت اور انفرا اسٹرکچر جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا فقدان ہے۔ عوام اور طبقہ اشرافیہ کے درمیان سماجی سطح پر بڑھتی ہوئی خلیج نفرت کا پیش خیمہ اور ملک میں آخر کار ہولناک انارکی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ وطن عزیز میں ایسے مثبت اقدامات کی ضرورت ہے جس کے تحت عوام کو جینے کا حق مل سکے، جاگیردار، وڈیرے، صنعت کار اور سیاست دان سب ہی ٹیکس ادا کریں، قانون کا احترام کریں اور عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کی روش کو ترک کرنے کی سوچ اپنائیں تب ہی امیر اور غریب کی خلیج کم ہو سکے گی اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے گا۔
اگر ہمیں ترقی کرنی ہے تو اسلامی اور معیاری تعلیم و تربیت اور بلند اقبال کردار میں ترقی کریں۔ جس کے کوکھ سے ایک ایماندار اور مثبت معاشرہ جنم لیتا ہے اور یہی معاشرہ اصل ترقی کا ضامن ہے جہاں نہ حرام خوری کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ ہی لوٹ کھسوٹ کی۔ لیکن اس معاشرت کی تعمیر کس کو کرنی ہے، ظاہر ہے سیاسی قیادتوں کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے کیڈر کو راستبازی، ایمانداری، کردار کی مضبوطی، میرٹ کے احترام، محبت و خیر سگالی اور مکمل رواداری کے اوصاف سے بہرہ مند کریں، خود بھی سادگی اور کفایت شعاری سے کام لیں، جمہوری اسپرٹ نہیں ہو گی معاشرہ کھوکھلا ہو جائے گا۔ غربت لعنت ہونے کے ساتھ ایک گہرا سماجی اور اقتصادی طنز بھی ہے۔ اس معاشرے پر جو ایٹمی صلاحیت سے مالامال ہے مگر اپنے عوام کو د و وقت کی روٹی دینے کے لیے اس کے پاس کوئی ٹھوس غذائی فلسفہ ہے نا معاشی نظام سے منسلک کوئی پائیدار معاشی پروگرام۔
اگر ترقی کرنی ہے تو ایمانداری میں ترقی کرنی ہو گی۔ سچائی میں ترقی کرنی ہو گی۔ دولت کی مساوی تقسیم میں ترقی کرنی ہو گی پھر نہ کوئی امیر ہو گا اور نہ غریب۔ سب برابر کے انسان ہوں گے اور نہ ہی یہ سوال اٹھے گا کہ:
لب پہ تو ترقی کا نغمہ ہے
پر روٹی قوم کے پاس نہیں