خدمت ہی میں عظمت ہے
کئی سال پرانی بات ہے، میرے ساتھ کار میں بیٹھے دوست نے ایک عمارت کی طرف اشارہ کر کے کہا، یہ لاہور کا ’’پاگل خانہ‘‘ ہے
کئی سال پرانی بات ہے، میرے ساتھ کار میں بیٹھے دوست نے ایک عمارت کی طرف اشارہ کر کے کہا، یہ لاہور کا ''پاگل خانہ'' ہے۔ میں نے سُنی ان سُنی کر دی اور چُپ رہا۔ اﷲ تعالیٰ شادی شدہ جوڑو ں کو اولاد سے نوازتا ہے ،کبھی کبھار ان کا بچہ جسمانی یا ذہنی معذوری لے کر دُنیا میں آتا ہے۔ جسمانی معذوری کے علاج کے لیے بیشمار مرد اور خواتین میڈیکل تعلیم حاصل کر کے اسپتالوں میں مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔
ان میں اکثریت جسمانی بیماریوں کا شکار ہوتی ہے جن کی صحت یابی کے لیے تحقیق نے حد درجہ ترقی کی ہے اور بیماری کی اکثر اقسام کا سستا اور مہنگاترین علاج موجود ہے، ذہنی امراض کا علاج بھی موجود ہے لیکن ایسے مریضوں کے بہت سے والدین کسی حد تک ان کا علاج کروانے کے دوران خود بھی پریشا ن ہو کر تنگ پڑ جاتے ہیں یا ایسے ذہنی مریضوںکے اخراجات پورے نہیں کر پاتے یا مایوس ہو کر ان سے جان چھڑانے پر مجبور ہو کر کسی ایسے اسپتال یا ادارے کی تلاش کرتے ہیں جہاں اُن کے ذہنی مریض بچے کا علاج اور پرورش کا سامان میسر ہو جائے۔
اسی قسم کے حالات اور مجبور والدین کا علم ہونے پر 1971 میں پروفیسر ڈاکٹر محمد رشید اور اُن کے احباب نے اس مشکل کام کو اپنے ذمے لینے کا بیڑا اُٹھایا اور فاؤنٹین ہاؤس نا م کا ادارہ قائم کیا ۔ یہ ادارہ بغرض بحالی صحت ذہنی مریضاں ہے۔
اس ادارے کو قائم ہوئے پچاس برس ہو چکے ہیں۔ فاؤنٹین ہاؤس کے ادارے کی برانچیں لاہور کے علاوہ فاروق آباد اور سرگودھا میں بھی قائم ہیں جہاں اس وقت 650 سے زائد ذہنی مریض بشمول150 خواتین زیر ِ علاج ہیں جن میں طالب علم ، وکلاء، میڈیکل اسٹوڈنٹس، بزنس مین اور فنکار شامل ہیں۔ 350 ذہنی پسماندہ بچوں کو تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت دی جاتی ہے۔
مسلم معاشرے اورہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی خدمت بھی عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ ایسی ہی سوچ جس نے آج سے پچاس سال پہلے پروفیسر ڈاکٹر رشید چوہدری کے ذہن میں جنم لیا اور انھوں نے دو لوگوں کو لے کر فاؤنٹین ہاؤس کی بنیاد رکھی جو کہ آج نصف صدی گزرنے پر پھل پھول کر سماج میں 60,000/- سے زائد افراد کو ذہنی امراض کے علاج معالجے اور بحالی کی سہولیات سے مستفید کر کے ذہنی صحت کی بحالی کے لیے ایشیاء کا سب سے بڑاادارہ بن چکا ہے۔
فاؤنٹین ہاؤس میں پروفیسر ڈاکٹر رشید چوہدری اور اُنکے رفقاء کار نے محنت کی عظمت کو سربلند کرتے ہوئے دکھی افراد کے لیے خوشیوں کا ایسا گہوارہ بنا دیا ہے کہ ایسے افراد جن کو اُنکے گھر والے ٹھکرا دیتے ہیںاور اپنے ساتھ رکھنا توہین سمجھتے ہیں، وہ یہاں آ کر زندہ ہو جاتے ہیں اور زندگی ان کے لیے خوبصورت ہو جاتی ہے۔
یہ ایسا کارنامہ ہے جو نہ صرف آج تک بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی سود مند اور معاشرے کے ہر فرد کے لیے خدمت خلق کا ایک زندہ ثبوت ہے اور اس کا سہرا سر گنگا رام کے سر ہے کہ انھوں نے کسی بھی مذہبی تفریق سے بالا تر ہو کر انسانیت کی خدمت کے لیے ایک روشن مثال قائم کی۔
سر گنگا رام جو انسانیت کے لیے ہر روپ میں ایک مسیحا رہے ہیں جہاں انھوں نے بہت سے تعلیمی ادارے اور اسپتال بنائے وہیں انھوں نے بیوہ عورتوں کی رہائش اور کفالت کے لیے موجودہ فاؤنٹین ہاؤس کی عمارت کی بنیاد رکھی۔ جس کے پچاس سال مکمل ہونے پر آج 21 دسمبر2021 کی خوبصورت سرد شام میں خصوصی آگاہی نشست کا اہتمام کیا گیا ہے جہاں پر تمام افراد کہکشاں کی صورت میں جمع ہوئے ہیں۔
فاؤنٹین ہاؤس کے اسپیشل بچوں نے فاؤنٹین ہاؤس کے ممبرز کے ساتھ مل کر شکریہ پاکستان کے ملی نغمے پر پرفارم کیا اور آنیوالے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
ذہنی معذور افراد کی بحالی کا فلاحی ادارہ جس کی بنیاد پروفیسر ڈاکٹر رشید چوہدری اور ان کے رفقاء لاہور مینٹل ہیلتھ ایسوسی ایشن کے اشتراک سے 1965میں رکھی جس نے باقاعدہ طور پر 1971 میں کام شروع کیا۔ پروفیسر رؤف صاحب نے بتایا کہ پچاس سالہ سفر میں ہر مشکل گھڑی میں ساتھ نبھانے والے بہت سے رفقاء کار اب ہم میں نہیں ۔ڈاکٹر عمیر رشید نے قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: کہ آپ جو کماتے ہیں وہ آپ کا نہیں وہ اﷲ کی راہ میں دیتے رہو اور دنیا سے ایسے چلے جاؤ کہ دنیا کو پتہ بھی نہ چلے۔ ڈاکٹر ہارون رشید چوہدری نے ہمیشہ یہی کہا کہ آج نہیں، کل نہیں ایک دن ہماری آخیر ہے ۔ فاؤنٹین ہاؤس کے ممبرز کا ہاتھ پکڑنے والا ہمیشہ خوشحال رہتا ہے۔
نورالحسن نے ڈاکٹر امجد ثاقب کو تالیوں کی گونج میں اسٹیج پر خوش آمدید کہا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کے ساتھ اﷲ کی اتنی مدد ہے کہ جس کام کا تہیہ کرلیتے ہیں ہو جاتا ہے۔ فاؤنٹین ہاؤس فاروق آباد ، فاؤنٹین ہاؤس سرگودھا اور فاؤنٹین ہاؤس فیصل آباد کا اعزازی افتتاح آج وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ڈاکٹر اقرار الحسن سے کرایا گیا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب نے بتایا کہ پچاس برس پلک جھپکتے نہیں گزرے ۔ وہ جو کسی نے کہا ہے: ۔
رہ روئے راہِ محبت کا خدا حافظ ہے
اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں
انھوں نے کہا کہ خدائے بزرگ و برتر کا شکرہے کہ فاؤنٹین ہاؤس کے حسن انتظام کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ایسے لوگوںکا انتخاب کیا جو دیوانوں سا مزاج رکھتے ہیں۔ جو دکھی اور دردمند لوگوں کے لیے بے چین رہتے ہیں اور ہمہ وقت فاؤنٹین ہاؤس کے ان افراد کی دلجوئی کے لیے چشم برآں ہوتے ہیں۔
فاؤنٹین ہاؤس کے ماہانہ اخراجات اوسطاً سوا دو کروڑ روپے ہیںجن میں سے 5 لاکھ گورنمنٹ، 40 لاکھ روپے صاحب استطاعت ممبران (مریضوں) کی ادائیگی سے جب کہ بقایا رقم کے لیے کافی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ زکواۃ ، خیرات، عطیات ایک ذریعہ ہے ۔
جہاں تک ان مریضوں کو دی جانیوالی سہولیا ت کا تعلق ہے، ان میں انھیں صبح اٹھا کر منہ ہاتھ دھلوانا، طبی معائنہ ، گرومنگ ، تین وقت کا کھانا، ٹی وی، لانڈری، آرٹ، ووکیشنل، میوزک اور الائیڈ تھیراپی وغیرہ جس کے لیے ٹرینڈ اسٹاف موجود ہوتا ہے۔ ذہنی معذوروں کی دیکھ بھال ایک مشکل کام ہے ۔ فنڈز کی کمی ایک مستقل مسئلہ ہے۔ منیجنگ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب اخوت اور فاؤنٹین ہاؤس دو اہم اداروں کو خوش اسلوبی سے چلا رہے ہیں اور یہ سچ ہے کہ خدمت ہی میں عظمت ہے۔
ان میں اکثریت جسمانی بیماریوں کا شکار ہوتی ہے جن کی صحت یابی کے لیے تحقیق نے حد درجہ ترقی کی ہے اور بیماری کی اکثر اقسام کا سستا اور مہنگاترین علاج موجود ہے، ذہنی امراض کا علاج بھی موجود ہے لیکن ایسے مریضوں کے بہت سے والدین کسی حد تک ان کا علاج کروانے کے دوران خود بھی پریشا ن ہو کر تنگ پڑ جاتے ہیں یا ایسے ذہنی مریضوںکے اخراجات پورے نہیں کر پاتے یا مایوس ہو کر ان سے جان چھڑانے پر مجبور ہو کر کسی ایسے اسپتال یا ادارے کی تلاش کرتے ہیں جہاں اُن کے ذہنی مریض بچے کا علاج اور پرورش کا سامان میسر ہو جائے۔
اسی قسم کے حالات اور مجبور والدین کا علم ہونے پر 1971 میں پروفیسر ڈاکٹر محمد رشید اور اُن کے احباب نے اس مشکل کام کو اپنے ذمے لینے کا بیڑا اُٹھایا اور فاؤنٹین ہاؤس نا م کا ادارہ قائم کیا ۔ یہ ادارہ بغرض بحالی صحت ذہنی مریضاں ہے۔
اس ادارے کو قائم ہوئے پچاس برس ہو چکے ہیں۔ فاؤنٹین ہاؤس کے ادارے کی برانچیں لاہور کے علاوہ فاروق آباد اور سرگودھا میں بھی قائم ہیں جہاں اس وقت 650 سے زائد ذہنی مریض بشمول150 خواتین زیر ِ علاج ہیں جن میں طالب علم ، وکلاء، میڈیکل اسٹوڈنٹس، بزنس مین اور فنکار شامل ہیں۔ 350 ذہنی پسماندہ بچوں کو تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت دی جاتی ہے۔
مسلم معاشرے اورہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی خدمت بھی عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ ایسی ہی سوچ جس نے آج سے پچاس سال پہلے پروفیسر ڈاکٹر رشید چوہدری کے ذہن میں جنم لیا اور انھوں نے دو لوگوں کو لے کر فاؤنٹین ہاؤس کی بنیاد رکھی جو کہ آج نصف صدی گزرنے پر پھل پھول کر سماج میں 60,000/- سے زائد افراد کو ذہنی امراض کے علاج معالجے اور بحالی کی سہولیات سے مستفید کر کے ذہنی صحت کی بحالی کے لیے ایشیاء کا سب سے بڑاادارہ بن چکا ہے۔
فاؤنٹین ہاؤس میں پروفیسر ڈاکٹر رشید چوہدری اور اُنکے رفقاء کار نے محنت کی عظمت کو سربلند کرتے ہوئے دکھی افراد کے لیے خوشیوں کا ایسا گہوارہ بنا دیا ہے کہ ایسے افراد جن کو اُنکے گھر والے ٹھکرا دیتے ہیںاور اپنے ساتھ رکھنا توہین سمجھتے ہیں، وہ یہاں آ کر زندہ ہو جاتے ہیں اور زندگی ان کے لیے خوبصورت ہو جاتی ہے۔
یہ ایسا کارنامہ ہے جو نہ صرف آج تک بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی سود مند اور معاشرے کے ہر فرد کے لیے خدمت خلق کا ایک زندہ ثبوت ہے اور اس کا سہرا سر گنگا رام کے سر ہے کہ انھوں نے کسی بھی مذہبی تفریق سے بالا تر ہو کر انسانیت کی خدمت کے لیے ایک روشن مثال قائم کی۔
سر گنگا رام جو انسانیت کے لیے ہر روپ میں ایک مسیحا رہے ہیں جہاں انھوں نے بہت سے تعلیمی ادارے اور اسپتال بنائے وہیں انھوں نے بیوہ عورتوں کی رہائش اور کفالت کے لیے موجودہ فاؤنٹین ہاؤس کی عمارت کی بنیاد رکھی۔ جس کے پچاس سال مکمل ہونے پر آج 21 دسمبر2021 کی خوبصورت سرد شام میں خصوصی آگاہی نشست کا اہتمام کیا گیا ہے جہاں پر تمام افراد کہکشاں کی صورت میں جمع ہوئے ہیں۔
فاؤنٹین ہاؤس کے اسپیشل بچوں نے فاؤنٹین ہاؤس کے ممبرز کے ساتھ مل کر شکریہ پاکستان کے ملی نغمے پر پرفارم کیا اور آنیوالے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
ذہنی معذور افراد کی بحالی کا فلاحی ادارہ جس کی بنیاد پروفیسر ڈاکٹر رشید چوہدری اور ان کے رفقاء لاہور مینٹل ہیلتھ ایسوسی ایشن کے اشتراک سے 1965میں رکھی جس نے باقاعدہ طور پر 1971 میں کام شروع کیا۔ پروفیسر رؤف صاحب نے بتایا کہ پچاس سالہ سفر میں ہر مشکل گھڑی میں ساتھ نبھانے والے بہت سے رفقاء کار اب ہم میں نہیں ۔ڈاکٹر عمیر رشید نے قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: کہ آپ جو کماتے ہیں وہ آپ کا نہیں وہ اﷲ کی راہ میں دیتے رہو اور دنیا سے ایسے چلے جاؤ کہ دنیا کو پتہ بھی نہ چلے۔ ڈاکٹر ہارون رشید چوہدری نے ہمیشہ یہی کہا کہ آج نہیں، کل نہیں ایک دن ہماری آخیر ہے ۔ فاؤنٹین ہاؤس کے ممبرز کا ہاتھ پکڑنے والا ہمیشہ خوشحال رہتا ہے۔
نورالحسن نے ڈاکٹر امجد ثاقب کو تالیوں کی گونج میں اسٹیج پر خوش آمدید کہا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کے ساتھ اﷲ کی اتنی مدد ہے کہ جس کام کا تہیہ کرلیتے ہیں ہو جاتا ہے۔ فاؤنٹین ہاؤس فاروق آباد ، فاؤنٹین ہاؤس سرگودھا اور فاؤنٹین ہاؤس فیصل آباد کا اعزازی افتتاح آج وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ڈاکٹر اقرار الحسن سے کرایا گیا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب نے بتایا کہ پچاس برس پلک جھپکتے نہیں گزرے ۔ وہ جو کسی نے کہا ہے: ۔
رہ روئے راہِ محبت کا خدا حافظ ہے
اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں
انھوں نے کہا کہ خدائے بزرگ و برتر کا شکرہے کہ فاؤنٹین ہاؤس کے حسن انتظام کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ایسے لوگوںکا انتخاب کیا جو دیوانوں سا مزاج رکھتے ہیں۔ جو دکھی اور دردمند لوگوں کے لیے بے چین رہتے ہیں اور ہمہ وقت فاؤنٹین ہاؤس کے ان افراد کی دلجوئی کے لیے چشم برآں ہوتے ہیں۔
فاؤنٹین ہاؤس کے ماہانہ اخراجات اوسطاً سوا دو کروڑ روپے ہیںجن میں سے 5 لاکھ گورنمنٹ، 40 لاکھ روپے صاحب استطاعت ممبران (مریضوں) کی ادائیگی سے جب کہ بقایا رقم کے لیے کافی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ زکواۃ ، خیرات، عطیات ایک ذریعہ ہے ۔
جہاں تک ان مریضوں کو دی جانیوالی سہولیا ت کا تعلق ہے، ان میں انھیں صبح اٹھا کر منہ ہاتھ دھلوانا، طبی معائنہ ، گرومنگ ، تین وقت کا کھانا، ٹی وی، لانڈری، آرٹ، ووکیشنل، میوزک اور الائیڈ تھیراپی وغیرہ جس کے لیے ٹرینڈ اسٹاف موجود ہوتا ہے۔ ذہنی معذوروں کی دیکھ بھال ایک مشکل کام ہے ۔ فنڈز کی کمی ایک مستقل مسئلہ ہے۔ منیجنگ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب اخوت اور فاؤنٹین ہاؤس دو اہم اداروں کو خوش اسلوبی سے چلا رہے ہیں اور یہ سچ ہے کہ خدمت ہی میں عظمت ہے۔