لاہور ذومعنی جگت بازی قابل اعتراض رقص اور نام اسٹیج ڈراموں کی پہچان بن گئے
طوفانی بجلیاں، کڑی پٹاخہ جیسے ڈراموں سے فحاشی کوفروغ دیا جا رہا ہے اور فنکار مخصوص جگتیں کرتے ہیں، شہریوں کی آرا
ذومعنی جگت بازی، قابل اعتراض ڈانس اور نام کمرشل تھیٹر کی پہچان بن گئے، فیملیوں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔
لاہور کمرشل تھیٹر کی سب سے بڑی مارکیٹ بن چکی ہے، جہاں پر الحمراء آرٹس کونسل اور پنجاب آرٹس کونسل کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر میں تماثیل ، ناز ، الفلاح ، شالیمار اور حال ہی میں کوٹ عبدالمالک میں سنگم تھیٹر کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔جہاں پر روزانہ دس کے قریب اسٹیج ڈرامے ہورہے ہیں جن میں امان اللہ ، نسیم وکی ، امانت چن ، افتخار ٹھاکر ، ظفری خان ، گلفام ، سخاوت ناز، ساجن عباس ، طارق ٹیڈی ، نواز انجم ، اکرام اداس ، ناصر چنیوٹی ، قیصر پیا ، طاہر انجم سمیت ان گنت اداکار اور اداکارائیں کام کر رہی ہیں، مگر سنجیدہ حلقے اور فیملیاں اسے مخصوص طبقہ کی تفریح قرار دیتے ہوئے ادھر آنا پسند نہیں کرتے۔ اس حوالے سے شہریوں کا کہنا ہے کہ تفریح کے نام پر فحاشی اور عریایت کی ترویج کی جارہی ہے جس کی روک تھام کے لیے بنائی جانیوالی مانیٹرنگ ٹیمیں بھی ناکام ہوچکی ہیں۔
شہریوں کا کہنا تھا کہ ''طوفانی بجلیاں'' ، ''اف یہ طوفان'' ، ''کڑی پٹاخہ'' ،''چسکارے'' جیسے قابل اعتراض نام تو ایک طرف اداکاراؤں کے ساتھ دنیائے اسٹیج کی قتالہ، ڈانسنگ ڈول، اسٹیج کی جان ، ڈانسنگ کوئین بھی نمایاں لکھے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈرامہ میں اسکرپٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہر فنکار نے مخصوص قسم کی جگتیں یاد کر رکھی ہیں جو ہر دوسرے ڈرامے میں دہراتے رہتے ہیں ، اس کے ساتھ اداکاراؤں کی ڈانس پرفارمنسز کا تڑکہ لگایا ہوتا ہے۔یہ تمام صورت حال دیکھ کر ناظرین حیران ہوتے ہیں کہ آخر وہ مانیٹرنگ ٹیمیں کیا کر رہی ہیں جن کے ذمے اداکاری کے نام پر فحاشی پھیلانے والوں کے خلاف ایکشن لینے کی ذمے داری ہے۔ ۔
معروف اسٹیج پروڈیوسر علی رضا نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اصل میں یہ وہ لوگ ہیں جو کسی طرح نہیں چاہتے کہ پاکستان میں عوام کو تفریح ملے۔ فلم ہماری ویسے ہی ختم ہوچکی ہے اور اب صرف تھیٹر رہ گیا ہے ۔ ہمارا تھیٹر صرف پاکستان میں ہی نہیں بھارت سمیت پوری دنیا میں بے حد مقبول ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم بھی فیملیوں والے ہیں،ایسی کرنے کی اجازت بالکل نہیں دیتے کہ جسے ہم اپنی فیملیوں کے ساتھ نہ بیٹھ کر دیکھ سکیں۔ پروڈیوسر ارشد چوہدری نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ وقت کے ساتھ بہت کچھ تبدیل ہوا ہے مگر اچھی پبلسٹی کے بغیر بہترین نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں رہا ۔ اسی لیے ہم اپنے ڈراموں کی تشہیری مہم پر خصوصی توجہ دیتے ہیں ۔ جس کے لیے اگر ہم عوام میں مقبول گانوں اور فلموں کے ٹائیٹل استعمال کرلیتے ہیں تو اس میں کونسی برائی ہے۔تھیٹر اس وقت ایک انڈسٹری بن چکا ہے جس سے سیکڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور حکومت کو لاکھوں روپے ٹیکس مل رہا ہے ۔
لاہور کمرشل تھیٹر کی سب سے بڑی مارکیٹ بن چکی ہے، جہاں پر الحمراء آرٹس کونسل اور پنجاب آرٹس کونسل کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر میں تماثیل ، ناز ، الفلاح ، شالیمار اور حال ہی میں کوٹ عبدالمالک میں سنگم تھیٹر کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔جہاں پر روزانہ دس کے قریب اسٹیج ڈرامے ہورہے ہیں جن میں امان اللہ ، نسیم وکی ، امانت چن ، افتخار ٹھاکر ، ظفری خان ، گلفام ، سخاوت ناز، ساجن عباس ، طارق ٹیڈی ، نواز انجم ، اکرام اداس ، ناصر چنیوٹی ، قیصر پیا ، طاہر انجم سمیت ان گنت اداکار اور اداکارائیں کام کر رہی ہیں، مگر سنجیدہ حلقے اور فیملیاں اسے مخصوص طبقہ کی تفریح قرار دیتے ہوئے ادھر آنا پسند نہیں کرتے۔ اس حوالے سے شہریوں کا کہنا ہے کہ تفریح کے نام پر فحاشی اور عریایت کی ترویج کی جارہی ہے جس کی روک تھام کے لیے بنائی جانیوالی مانیٹرنگ ٹیمیں بھی ناکام ہوچکی ہیں۔
شہریوں کا کہنا تھا کہ ''طوفانی بجلیاں'' ، ''اف یہ طوفان'' ، ''کڑی پٹاخہ'' ،''چسکارے'' جیسے قابل اعتراض نام تو ایک طرف اداکاراؤں کے ساتھ دنیائے اسٹیج کی قتالہ، ڈانسنگ ڈول، اسٹیج کی جان ، ڈانسنگ کوئین بھی نمایاں لکھے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈرامہ میں اسکرپٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہر فنکار نے مخصوص قسم کی جگتیں یاد کر رکھی ہیں جو ہر دوسرے ڈرامے میں دہراتے رہتے ہیں ، اس کے ساتھ اداکاراؤں کی ڈانس پرفارمنسز کا تڑکہ لگایا ہوتا ہے۔یہ تمام صورت حال دیکھ کر ناظرین حیران ہوتے ہیں کہ آخر وہ مانیٹرنگ ٹیمیں کیا کر رہی ہیں جن کے ذمے اداکاری کے نام پر فحاشی پھیلانے والوں کے خلاف ایکشن لینے کی ذمے داری ہے۔ ۔
معروف اسٹیج پروڈیوسر علی رضا نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اصل میں یہ وہ لوگ ہیں جو کسی طرح نہیں چاہتے کہ پاکستان میں عوام کو تفریح ملے۔ فلم ہماری ویسے ہی ختم ہوچکی ہے اور اب صرف تھیٹر رہ گیا ہے ۔ ہمارا تھیٹر صرف پاکستان میں ہی نہیں بھارت سمیت پوری دنیا میں بے حد مقبول ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم بھی فیملیوں والے ہیں،ایسی کرنے کی اجازت بالکل نہیں دیتے کہ جسے ہم اپنی فیملیوں کے ساتھ نہ بیٹھ کر دیکھ سکیں۔ پروڈیوسر ارشد چوہدری نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ وقت کے ساتھ بہت کچھ تبدیل ہوا ہے مگر اچھی پبلسٹی کے بغیر بہترین نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں رہا ۔ اسی لیے ہم اپنے ڈراموں کی تشہیری مہم پر خصوصی توجہ دیتے ہیں ۔ جس کے لیے اگر ہم عوام میں مقبول گانوں اور فلموں کے ٹائیٹل استعمال کرلیتے ہیں تو اس میں کونسی برائی ہے۔تھیٹر اس وقت ایک انڈسٹری بن چکا ہے جس سے سیکڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور حکومت کو لاکھوں روپے ٹیکس مل رہا ہے ۔