جدوجہد اعظم…شبر اعظمی
شبر اعظمی کی جنم بھومی اعظم گڑھ کی مٹی بھی بلا خیز ہے
لاہور:
'' منّی،دیکھو وارث آئے ہیں،ان کے لیے کھانا لگائو، منّی وارث کی خیریت لو،کہاں غائب ہیں وہ۔ذرا پتہ کرو۔۔۔اور منّی تھی کہ شبر بھائی کی ہر آواز پر لبیک کہتی ہوئی ہر بات ماننے اور ہر خواہش پورا کرنے میں ہمہ تن مصروف رہتی...ہر آہٹ پر شبر بھائی کی منّی بیدار و توانا ہر آنے والے کی محبت و چاشنی سے بھری میزبان بنی رہتی...سوچتا ہوں کہ شبر بھائی کی اب یہ پیار بھری آواز اور جذبے کیسے واپس لا سکوں گا،ہم سب موت کے آگے اس قدر بے بس کر دیے جاتے ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی لاچار اور بے دست و پا رہتے ہیں۔
شبر اعظمی کی جنم بھومی اعظم گڑھ کی مٹی بھی بلا خیز ہے کہ جدوجہد کے استعارے سے جڑی رہتی ہے،عوامی جاگرتا کی ہر مہم کو سر کرنے میں،جب دیکھو اعظم گڑھ اپنا حصہ ڈالتا ہی رہتا ہے،کیفی اعظمی کے کمیونسٹ خیالات ہوں یا شوکت کیفی کی نظریاتی خدمت،شبانہ اعظمی کے فن و آہنگ کی کتھا ہو یا بابا اعظمی کے سر میں لپٹے ساز کے رنگ،اعظم گڑھی ہیں کہ عوامی ہلچل اور سماجی شعور میں نچلے ہی نہیں بیٹھتے،سماج میں جہاں روشن خیالی کی شمعیں جلانی ہوں یا سیاسی جدوجہد کرنی ہو،مجال جو اعظم گڑھ کے سپوت اپنی جدوجہد کا حصہ نہ ڈالیں۔
یہی کچھ تو شبر اعظمی نے ترک وطن ہونے کے بعد نئے وطن کی آبیاری کے لیے کیا،اس وطن میں عوامی جمہوری حق شہری آزادی اور رائے کے حق کے لیے تن من دھن کی پرواہ کیے بغیر شبر اعظمی بے غرض و پرواہ سماجی حق کے لیے لڑتے رہے،منڈلیاں بناتے رہے اور اپنی تمام نظریاتی توانائیوں سے شہری آزادی اور صحافتی آزادی کے لیے پائے استقامت میں جنبش ڈالے بغیر مسلسل جدوجہد کا استعارہ بنے رہے۔
اس دیس کے جبر اور توپ و تفنگ کے مہیب سناٹوں میں شبر اعظمی اور ان کے نظریاتی رفقا نے آمرانہ طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں،انسانی آزادی کی خاطر در، در خاک چھانی،بے گھر رہے،جبر کے قہر سے بچنے کے لیے روپوشی ایسے عذاب جھیلے مگر آمرانہ سوچ کے آگے سر نگوں نہ کیا،اپنے آدرش کا سودا نہ کیا،اپنی جدوجہد کو نہ رکنے دیا،حق کے علم کا یہ وہ قافلہ تھا جس میں شبر اعظمی نے اپنے انقلابی جذبے کی جوت اسکول کے دوران ہی جلا کر اہل حکم کو یہ پیغام دیا کہ ''ہم حق گوئی کی استقامت کو بلند رکھنے نکلے ہیں اور بلند ہی رکھیں گے۔''
شبر بھائی کے آخری ایام کے چند اہم باتیں اب تک میں نہ بھلا سکا ہوں،ان کی محبتوں کا قرض اتارنا بہت سوں کے بس کا روگ نہیں،ہر لمحے ہر گفتگو میں اپنی اکلوتی بیٹی''سیدہ''کا ذکر اور اس ذکر سے ان کی آنکھوں میں چمک اور تفکر کی وہ جھلک میں کیسے بھول سکتا ہوں جو اس وقت تک بیقرار رہتی تھی جب تک ''سیدہ'' کا فون نہ آجائے یا وہ باپ سے بات نہ کرلے،سیدہ کی آمد پر خوشی سے شبر بھائی کا فون کرنا کہ ''وارث میاں آجائو میری سیدہ بدیس سے آگئی ہے''،اور شبر بھائی اور منّی کی ''سیدہ''اخلاق اور خلوص کا وہ پیکر کہ جس میں منّی کا ایثار اور شبر بھائی کی خاموش طاقت موجود ہو،اور جو شبر بھائی مانند اپنے احساس لوگوں تک منتقل کرنے کا نشان ہو،منّی ایسی انتظامی صلاحیت سے مالا مال ہو،یقینا وہ ''سیدہ'' ہی شبر اعظمی کی پہچان کا وہ استعارہ ہوگی جو ان کے فکری قافلے کو آگے بڑھائے گی۔ہر لمحے شبر اعظمی کی کنبے اور خاندان کے ہر فرد کے لیے فکر مند ہونے اور خیریت دریافت رکھنے کی عادت نہیں معلوم کہ نجانے کب تک گھر کے درو دیوار سے چمٹی رہے گی۔
میری خوش قسمتی رہی کہ میرا اوڑھونا بچھونا سچ اور حق کے نظریاتی افراد سے رہا،میں نے اپنی سیاسی اور نظریاتی تربیت کے دوران کیفی اعظمی سے بھی کسب کیا تو شبر اعظمی نے بھی میرے جذبوں کو ہمیشہ جلا بخشی،شبر اعظمی کا میرے لیے متفکر رہنا جہاں ان کی محبت کی گواہی دیتا تھا وہیں شبر اعظمی کے صحافتی جدوجہد کے تجربے میری صحافتی سرگرمیوں میں جوش و جذبے پیدا کرتے رہے ہوتے،وہ بتاتے تھے کہ ہندوستان سے آنے کے بعد ان کے خانوادے نے کراچی کی پسماندہ بستی کورنگی کے نیم پختہ مکان سے نئی زندگی کی ابتدا کی،تہذیبی رچائو کے سبب سفید پوشاک میں تنگ دستی کے باوجود پاک دامنی کو برقرار رکھا،ابا کی خواہش تھی کہ اعلیٰ تعلیم کے بعد ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کروں،مگر حوادث زمانہ نے اور مظلوم کا ساتھ دینے کی سوچ نے اسکول کے دنوں میں ہی جدوجہد کاعادی بنادیا،اسی ناتے پہلی اسکول انٹر باڈی کا صدر منتخب کیا گیا اور کٹرک ہال کے پہلے این ایس ایف کے کنونشن میں تحریکی رہنمائوں سے ملا جن میں ''منہاج برنا''بھی تھے۔
بس کیا معلوم تھا کہ کالج اور یونیورسٹی کا نظریاتی اور ترقی پسند سوچ کی سیاست کا دھارا صحافت کے ریگزار میں لے جائے گا،سو صحافتی سفر طے ہوتا رہا،ہماری صحافت کے رہنما''منہاج برنا'' کی جانفروشی اور سرگرمی نے کے یو جے میں لا کھڑا کیا،یہ وہ زمانہ تھا جب ایوبی مارشل لاء اپنی پورے جبر کے پنجے سماج میں گاڑنے پر بضد تھا جب کہ منہاج برنا کے صحافتی سپاہی کے طور ہم سب ساتھی جبر کے پنجوں کے ناخن اپنی نظریاتی جدوجہد سے کترتے رہتے تھے،جنرل ایوب کے جابرانہ طرز سیاست نے ہمیں بیروزگاری بھی دکھائی،تنگ دستی کا سامنا بھی کیا،مگر جیل کی سختیاں اور کوڑے بھی ہماری صحافتی جدوجہد کو نہ جھکا سکے۔
صحافتی آزادی اور رائے کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہ کرنا ہمارا مشن تھا،جس میں ہم سب صحافیوں نے جنرل ایوب،جنرل ضیا کے ظلم کے دانت کھٹے کیے،اسی دوران ہماری صحافتی صفوں میں آمروں کے فکری مذہبی ساتھیوں نے ضیا کی نگرانی میںصحافت کی آمرانہ بنیاد رکھی جو آج تک صحافتی قدروں اور صحافتی آزادی کو لہو لہان کیے ہوئے ہے،مگر نا ہم کل فکر مند تھے اور نا آج ہم مایوس،البتہ آج ہمیں منہاج برنا کے اظہار کی آزادی کے مشن کو دوبارہ توانا ضرور کرنا ہے،نئی جہت اور نظریاتی حکمت عملی سے،دوستوں کو جوڑ کر اور ان کی مشاورت اور شفقت کے نتیجے میں۔
شبر اعظمی آخری سانس تک ہمت و شجاعت اور جدوجہد کا وہ استعارہ رہے کہ جن کی صداقتیں ہی صحافت کے خار زار کو تمام علتوں سے آزاد کریں گی اور ہم اظہار رائے کے جبر سے ضرور اور ضرور آزاد ہونگے۔
'' منّی،دیکھو وارث آئے ہیں،ان کے لیے کھانا لگائو، منّی وارث کی خیریت لو،کہاں غائب ہیں وہ۔ذرا پتہ کرو۔۔۔اور منّی تھی کہ شبر بھائی کی ہر آواز پر لبیک کہتی ہوئی ہر بات ماننے اور ہر خواہش پورا کرنے میں ہمہ تن مصروف رہتی...ہر آہٹ پر شبر بھائی کی منّی بیدار و توانا ہر آنے والے کی محبت و چاشنی سے بھری میزبان بنی رہتی...سوچتا ہوں کہ شبر بھائی کی اب یہ پیار بھری آواز اور جذبے کیسے واپس لا سکوں گا،ہم سب موت کے آگے اس قدر بے بس کر دیے جاتے ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی لاچار اور بے دست و پا رہتے ہیں۔
شبر اعظمی کی جنم بھومی اعظم گڑھ کی مٹی بھی بلا خیز ہے کہ جدوجہد کے استعارے سے جڑی رہتی ہے،عوامی جاگرتا کی ہر مہم کو سر کرنے میں،جب دیکھو اعظم گڑھ اپنا حصہ ڈالتا ہی رہتا ہے،کیفی اعظمی کے کمیونسٹ خیالات ہوں یا شوکت کیفی کی نظریاتی خدمت،شبانہ اعظمی کے فن و آہنگ کی کتھا ہو یا بابا اعظمی کے سر میں لپٹے ساز کے رنگ،اعظم گڑھی ہیں کہ عوامی ہلچل اور سماجی شعور میں نچلے ہی نہیں بیٹھتے،سماج میں جہاں روشن خیالی کی شمعیں جلانی ہوں یا سیاسی جدوجہد کرنی ہو،مجال جو اعظم گڑھ کے سپوت اپنی جدوجہد کا حصہ نہ ڈالیں۔
یہی کچھ تو شبر اعظمی نے ترک وطن ہونے کے بعد نئے وطن کی آبیاری کے لیے کیا،اس وطن میں عوامی جمہوری حق شہری آزادی اور رائے کے حق کے لیے تن من دھن کی پرواہ کیے بغیر شبر اعظمی بے غرض و پرواہ سماجی حق کے لیے لڑتے رہے،منڈلیاں بناتے رہے اور اپنی تمام نظریاتی توانائیوں سے شہری آزادی اور صحافتی آزادی کے لیے پائے استقامت میں جنبش ڈالے بغیر مسلسل جدوجہد کا استعارہ بنے رہے۔
اس دیس کے جبر اور توپ و تفنگ کے مہیب سناٹوں میں شبر اعظمی اور ان کے نظریاتی رفقا نے آمرانہ طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں،انسانی آزادی کی خاطر در، در خاک چھانی،بے گھر رہے،جبر کے قہر سے بچنے کے لیے روپوشی ایسے عذاب جھیلے مگر آمرانہ سوچ کے آگے سر نگوں نہ کیا،اپنے آدرش کا سودا نہ کیا،اپنی جدوجہد کو نہ رکنے دیا،حق کے علم کا یہ وہ قافلہ تھا جس میں شبر اعظمی نے اپنے انقلابی جذبے کی جوت اسکول کے دوران ہی جلا کر اہل حکم کو یہ پیغام دیا کہ ''ہم حق گوئی کی استقامت کو بلند رکھنے نکلے ہیں اور بلند ہی رکھیں گے۔''
شبر بھائی کے آخری ایام کے چند اہم باتیں اب تک میں نہ بھلا سکا ہوں،ان کی محبتوں کا قرض اتارنا بہت سوں کے بس کا روگ نہیں،ہر لمحے ہر گفتگو میں اپنی اکلوتی بیٹی''سیدہ''کا ذکر اور اس ذکر سے ان کی آنکھوں میں چمک اور تفکر کی وہ جھلک میں کیسے بھول سکتا ہوں جو اس وقت تک بیقرار رہتی تھی جب تک ''سیدہ'' کا فون نہ آجائے یا وہ باپ سے بات نہ کرلے،سیدہ کی آمد پر خوشی سے شبر بھائی کا فون کرنا کہ ''وارث میاں آجائو میری سیدہ بدیس سے آگئی ہے''،اور شبر بھائی اور منّی کی ''سیدہ''اخلاق اور خلوص کا وہ پیکر کہ جس میں منّی کا ایثار اور شبر بھائی کی خاموش طاقت موجود ہو،اور جو شبر بھائی مانند اپنے احساس لوگوں تک منتقل کرنے کا نشان ہو،منّی ایسی انتظامی صلاحیت سے مالا مال ہو،یقینا وہ ''سیدہ'' ہی شبر اعظمی کی پہچان کا وہ استعارہ ہوگی جو ان کے فکری قافلے کو آگے بڑھائے گی۔ہر لمحے شبر اعظمی کی کنبے اور خاندان کے ہر فرد کے لیے فکر مند ہونے اور خیریت دریافت رکھنے کی عادت نہیں معلوم کہ نجانے کب تک گھر کے درو دیوار سے چمٹی رہے گی۔
میری خوش قسمتی رہی کہ میرا اوڑھونا بچھونا سچ اور حق کے نظریاتی افراد سے رہا،میں نے اپنی سیاسی اور نظریاتی تربیت کے دوران کیفی اعظمی سے بھی کسب کیا تو شبر اعظمی نے بھی میرے جذبوں کو ہمیشہ جلا بخشی،شبر اعظمی کا میرے لیے متفکر رہنا جہاں ان کی محبت کی گواہی دیتا تھا وہیں شبر اعظمی کے صحافتی جدوجہد کے تجربے میری صحافتی سرگرمیوں میں جوش و جذبے پیدا کرتے رہے ہوتے،وہ بتاتے تھے کہ ہندوستان سے آنے کے بعد ان کے خانوادے نے کراچی کی پسماندہ بستی کورنگی کے نیم پختہ مکان سے نئی زندگی کی ابتدا کی،تہذیبی رچائو کے سبب سفید پوشاک میں تنگ دستی کے باوجود پاک دامنی کو برقرار رکھا،ابا کی خواہش تھی کہ اعلیٰ تعلیم کے بعد ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کروں،مگر حوادث زمانہ نے اور مظلوم کا ساتھ دینے کی سوچ نے اسکول کے دنوں میں ہی جدوجہد کاعادی بنادیا،اسی ناتے پہلی اسکول انٹر باڈی کا صدر منتخب کیا گیا اور کٹرک ہال کے پہلے این ایس ایف کے کنونشن میں تحریکی رہنمائوں سے ملا جن میں ''منہاج برنا''بھی تھے۔
بس کیا معلوم تھا کہ کالج اور یونیورسٹی کا نظریاتی اور ترقی پسند سوچ کی سیاست کا دھارا صحافت کے ریگزار میں لے جائے گا،سو صحافتی سفر طے ہوتا رہا،ہماری صحافت کے رہنما''منہاج برنا'' کی جانفروشی اور سرگرمی نے کے یو جے میں لا کھڑا کیا،یہ وہ زمانہ تھا جب ایوبی مارشل لاء اپنی پورے جبر کے پنجے سماج میں گاڑنے پر بضد تھا جب کہ منہاج برنا کے صحافتی سپاہی کے طور ہم سب ساتھی جبر کے پنجوں کے ناخن اپنی نظریاتی جدوجہد سے کترتے رہتے تھے،جنرل ایوب کے جابرانہ طرز سیاست نے ہمیں بیروزگاری بھی دکھائی،تنگ دستی کا سامنا بھی کیا،مگر جیل کی سختیاں اور کوڑے بھی ہماری صحافتی جدوجہد کو نہ جھکا سکے۔
صحافتی آزادی اور رائے کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہ کرنا ہمارا مشن تھا،جس میں ہم سب صحافیوں نے جنرل ایوب،جنرل ضیا کے ظلم کے دانت کھٹے کیے،اسی دوران ہماری صحافتی صفوں میں آمروں کے فکری مذہبی ساتھیوں نے ضیا کی نگرانی میںصحافت کی آمرانہ بنیاد رکھی جو آج تک صحافتی قدروں اور صحافتی آزادی کو لہو لہان کیے ہوئے ہے،مگر نا ہم کل فکر مند تھے اور نا آج ہم مایوس،البتہ آج ہمیں منہاج برنا کے اظہار کی آزادی کے مشن کو دوبارہ توانا ضرور کرنا ہے،نئی جہت اور نظریاتی حکمت عملی سے،دوستوں کو جوڑ کر اور ان کی مشاورت اور شفقت کے نتیجے میں۔
شبر اعظمی آخری سانس تک ہمت و شجاعت اور جدوجہد کا وہ استعارہ رہے کہ جن کی صداقتیں ہی صحافت کے خار زار کو تمام علتوں سے آزاد کریں گی اور ہم اظہار رائے کے جبر سے ضرور اور ضرور آزاد ہونگے۔